Chitral Times

Apr 22, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فلس طین/غ زہ اور مسلم دنیا ۔ تحریر : ضیاء الله الجو ہرى چترال۔

شیئر کریں:

فلسطین/غزہ اور مسلم دنیا ۔ تحریر : ضیاء الله الجو ہرى چترال۔

تاریخی تناظر میں یہود ہمیشہ سے ذلت اور رسوائی کا شکار رہنے کے بعد بالآخر اپنی تھنک ٹینک کے ذریعے غیر اعلانیہ اپنی مستقبل کا لائحہ عمل طے کرتے ہیں جس کے مطابق یہود خودکو مغلوبیت سے نکالنے بلکہ اپنی سپریمیسی برقرار رکھنے کے لئے تین نکاتی فیصلہ پر متفق ہوجاتے ہیں۔

 

1-معیشت پر مستحکم قبضہ(جو کہ زمانہ قدیم سے یہود کے پاس ہے۔ ہجرت نبوی کے بعد مدینہ طیبہ میں یہود قبائل کا معاشی استحکام اس کی ایک مثال ہے۔)

2- ذرائع ابلاغ (میڈیا) پر کنٹرول اور اس کا من پسند استعمال۔( جس کا علی وجہ البصیرت استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔ )

3-مسلمانوں کو مذہبی اور مسلکی حوالے سے تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے ڈیوائد اینڈ روول کی پالیسی۔ ( برصغیر کے اندر انگریز نے اس کا بہت کامیاب تجربہ کیا۔)

 

 

ان تمام نکات پر عملدرآمد کے ذریعے اہم منصوبہ یھود کا یہ طے پایا کہ دنیا کی تمام ریاستوں کے حکمران یا تو براہ راست یھود کے کنٹرول میں ہوں گے یا بالواسطہ معاشی اور سٹریٹیجک پالیسیوں کی جال میں یھود اشاروں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

 

 

اپنی ان شیطانی او دجالی منصبوں پر عمل کرنے اور ان کے کامیاب نتائج حاصل کرنے میں یھود نابہبود کتنے کامیاب رہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگانا مشکل نہیں کہ اقوام متحدہ کا کوئی بڑا عہدیدار ہو یا امریکی صدر یہود آشیرباد کے بغیر منصب پر براجماں نہیں ہو سکتے۔ پھر دنیا کی چھوٹی ریاستوں اور امریکی لونڈیوں کو انگلی پر نچوانا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل نہیں تو اور کیا ہے۔

 

اس تمام تر تفصیل کے بعد موجودہ فلسطن/غزہ المیے کے تناظر میں اقوام عالم اور بالخصوص مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی بلکہ خاموش تماشائی بننا عین یہود منصوبے کا حصہ ہی نہیں بلکہ منصوبے پر تجربے کا کامیاب نتیجہ ہے۔

 

خدا کی پناہ ، خاکم بدہن اگر یہی صورت حال رہی تو آگے یہود کے انتہائی اہداف کیا ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

 

یہ سب کچھ یہودی و استعماری چال اور منصوبے ہیں جو کہ اپنی وجود کے ساتھ ہی حق کے خلاف روا رکھے گئے ہیں ۔ اوپر سے قرآنی فیصلہ ہے “ضربت علیھم الذلة والمسكنة وباؤوا بغضب من الله.” اور یہ بھی الہی فیصلہ ہے کہ “لھم خزی فی الحیوة الدنيا ولھم فی الاخرة عذاب عظیم”۔

پروردگار کے تکوینی نظام پر نظر کرتے ہوئے بھی ڈھارس بن جاتی ہے ” ومکروا ومکر الله والله خیر الماکرین۔”

 

اس وقت فلسطین/غزہ کے مسلمان ازمائش میں ضرور ہیں ایسے میں دنیا جہاں کے مسلمانوں کو کیا سوچنا ہے۔ کیا ہم اس پورے منظر نامے کو وقتی ازمائش یا یھودی سازش اور ان پر اسمانی عذاب کے انتظار کے ساتھ دیکھتے اور ٹالتے رہیں اور اس کی پور ذمہ داری حکمرانوں ہی پر ڈال کر کوستے رہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔

 

سوچنے کی بات یہ ہے کہ بحیثیت عوام ان اسلام دشمن استعماری سازشوں میں ہم کہیں استعمال تو نہیں ہو رہے۔ جی ہاں بالکل استعمال ہو رہے ہیں۔لیکن کیسے :

1-یہود معاشی حوالے سے اپنی پروڈکٹس ہم ہی پر فروخت کرکے ہم ہی پر بم برسا رہا ہے ہم ہیں کہ خریدتے جا رہے ہیں۔ اپنی ہی جمع پونجیاں اپنے جگر گوشوں کو کاٹنے پہ وا کر رہے ہیں۔

 

2-کیا ہمارے حکمران آسماں سے ٹپک کہ ہم پہ مسلط ہو رہے ہیں ؟ نہیں ، بلکہ نام نہاد جمہوریت کے تحت ہم ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہمارے دل و دماغ ماؤف کیے جاتے ہیں۔ ہم جانے انجانے ایسے نمونے خود اپنے آپ پہ مسلط کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات اور اقدار کا نفاذ تو دور کی بات ، ڈیڑھ سال سے مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں مگر یہ امریکی اور یہودی لونڈی ریاستیں منہ کھول کہ مذمتی قراردار لانے سے بھی عاری ہیں۔

 

پھر ہم کریں کیا :
1- فوری طور پر یہودی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔
2- خصوصی دعاوں کا اہتمام کریں۔
3 ـ مسلمانوں پر اس آزمائش کے وقت اپنے حکمرانوں کی اس بے حسی اور بے غیرتی کو یاد رکھتے ہوئے اپنے سیاسی نظریہ اور فکر کے حوالے سے بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ جسے ہم نے خالص دنیوی اور ملکی حد تک سوچ کا محور بنایا ہے ان حالات کے پس و پیش میں ہمیں یہ سمجھ لینا ہو گا کہ ہماری سیاسی سوچ اور فیصلوں کا تعلق اور اثر دینیات اور عالمی منظرنامے پر بھی مثبت یا منفی اثر براہ یا بالواسطہ ضرور ڈالتے ہیں۔ غالبا ابو الحسن علی ندوی نے کہا تھا کہ جب مسلمان سیاسی شعور بیدار کئے بغیر صرف عبادات ہی پر زور دیتے رہیں ان پر عنقریب وہ وقت آئے گا کہ وہ اپنی پنچگانہ نماز بھی آزادی کے ساتھ نہیں ادا کر سکیں گے۔۔ رہے نام الله كا.

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
100978