فطرت کا گمشدہ راز ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی
فطرت کا گمشدہ راز ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی
پہاڑوں کی بلندیاں، درختوں کی سرسبز شاخیں، اور جھیل کے پرسکون پانیوں میں ایک ایسی خاموشی چھپی ہے جو بظاہر سادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں ایک گہرا راز رکھتی ہے۔ یہ منظر کسی خواب کی مانند ہے جہاں روشنی اور سایہ مل کر وجود کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب صرف خوبصورتی ہے، یا اس کے پیچھے کوئی گہری حقیقت پوشیدہ ہے؟
فطرت کے اس حسن کو دیکھ کر سوال اٹھتا ہے: کیا یہ منظر صرف انسانی آنکھ کے لیے تخلیق ہوا ہے، یا اس کی موجودگی کسی عظیم تر مقصد کا حصہ ہے؟ پہاڑوں کی بلندی ہمیں اپنی محدودیت کا احساس دلاتی ہے، اور ان کی ٹھوس اور سخت شکل انسان کی کمزوریوں پر سوال اٹھاتی ہے۔ جھیل کا سکون ہمیں اندرونی سکون کی تلاش کا راستہ دکھاتا ہے، لیکن یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ سکون کے نیچے گہرائیاں اور راز چھپے ہوتے ہیں۔
پانی کی لہریں وقت کے بہاؤ کی علامت ہیں، جو کبھی تھمتی نہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ وقت اور فطرت ایک ایسی حقیقت ہیں جو انسان کے قابو میں نہیں۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے: اگر ہم ان حقیقتوں کے تابع ہیں، تو ہمارا کردار کیا ہے؟ کیا ہم محض دیکھنے والے ہیں، یا تخلیق کے اس عظیم سلسلے کا حصہ؟
یہ منظر ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ فطرت کے حسن میں تضاد کا حسن بھی پوشیدہ ہے۔ بلند پہاڑ، گہرے جنگل، اور پرسکون جھیل ایک ساتھ مل کر ایک مکمل تصویر بناتے ہیں، جیسے زندگی کے مختلف پہلو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسانی وجود بھی اسی طرح تضاد اور ہم آہنگی کا امتزاج ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود، ایک سوال باقی رہتا ہے: یہ سب کچھ کس لیے ہے؟ پہاڑوں کی بلندی، جھیل کی گہرائی، اور روشنی کا پھیلاؤ کس عظیم راز کا حصہ ہیں؟ کیا یہ سب کچھ محض اتفاقیہ ہے، یا کوئی الٰہی مقصد ان میں پوشیدہ ہے؟ انسان کی فطرت ہمیشہ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں سرگرداں رہی ہے، لیکن شاید یہ تلاش ہی انسان کو معنی دیتی ہے۔
یہ تصویر ایک آئینہ ہے، جو نہ صرف فطرت کی عظمت بلکہ انسانی وجود کی گہرائی کو بھی دکھاتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم فطرت سے جڑے ہیں، اور اس کی خوبصورتی اور راز ہمارے اندر بھی موجود ہیں۔ اس تصویر کو دیکھتے ہوئے، انسان یہ سوچتا ہے کہ شاید حقیقی سکون اور جواب فطرت کی خاموشی میں چھپے ہیں، اور یہ خاموشی ہمیں خود کو سمجھنے کا راستہ دکھاتی ہے۔