Chitral Times

Nov 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فرزند تریچ مولانا عبدالحئی صاحب! ………. تحریر: سیدالابرار سعید

Posted on
شیئر کریں:

مولانا عبدالحئی صاحب کا تعلق چترال کے دور افتادہ علاقہ وادی تریچ کے آخری گاوں شاگروم سے ہے۔

اس وقت چمرکن میں آباد اور چترال کروپ رشت بازار میں اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔مجھے ان کےساتھ پرانا تعلق اور دوستانہ مراسم ہیں۔ وہ ایک اچھے دوست، خوش اخلاق انسان اور ملنسار شخصیت ہیں۔ چترال کے معروف عالم دین پیر محمد چشتی کے خانوادے سے تعلق کی بناء پر علمی اور ادبی ذوق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔مولانا کو عربی تحریر اور بول چال کے علاوہ انگلش پر بھی مکمل عبور اور مہارت حاصل ہے۔ ملک کے کئی ادبی اور علمی رسائل میں اب تک ان کے کئی گراں قدر مضامین چھپ چکے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل موصوف نے ممتاز عالم دین اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے

Post Crisis Reforms Some points to ponder

کے نام سے مقالے کو انگلش سے ” اسباب الازمتہ المالیتہ و علاجھا فی ضوء الشریعتہ ” ( شریعت کی روشنی میں عالمی معاشی بحران کا حل) کے نام سے عربی میں ترجمہ کیا۔

شیخ الاسلام نے اپنے اس مقالے کو 2010ء کے معاشی بحران کے حل کے طور پر

World Economic Forum Switzer Land

مولانا عبدالحئی صاحب کی دوسری گراں قدر کاوش مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی ایک مستقل تصنیف ” کتابت حدیث ” کا ترجمہ ہے۔ جسے مولانا نے اردو زبان سے عربی میں ترجمہ ” کتابت الحدیث فی عہد الرسالتہ والصحابہ ” کے نام سے کیا۔
میں پیش کیا تھا۔ “دارالقلم دمشق ” (کہ جہاں کسی بھی کتاب کی پبلش کی پہلی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ متعلقہ کتاب کی عمر پچاس سال ہونی چاہیے ) نے مولانا کے اس عربی ترجمے کو اپنے لئے ایک اعزاز کے طور پر چھاپا ہے۔

اس ترجمے کی اشاعت کے بعد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے موصوف مترجم کو ملاقات کے لئے خصوصی دعوت دی۔ اس بہترین عربی ترجمے کو دیکھ کر مفتی صاحب نے آپ کو شاباشی دینے کے ساتھ ساتھ انعامات سے بھی نوازا۔

جسے دارالعلوم کراچی میں مکتبہ دارالعلوم نے احسن انداز سے چھاپا۔

استاد محترم مولا نگاہ نگاہ صاحب کا آبائی وطن بھی وادی تریچ ہے استاد محترم نے ” شرح دیوان سیر” کے نام سے بابا سیر(مرحوم) کی فارسی دیوان کا اردو میں ترجمہ کر کے ایک عظیم کامیابی ہمیشہ کے لئےاپنے نام کر لی۔

مذکورہ بالا دو کتابوں کے علاوہ ایک اور کتاب ” الرائد فی التحریر العربی” مولانا عبدالحئی صاحب کی اپنی ایک مستقل تصنیف ہے۔ جس میں عربی زبان میں مضمون نویسی کے اصولوں پر طویل بحث کی گئی ہے۔

بہت ہی کم وقت میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی ختم ہونے کے بعد اب تیسرے ایڈیشن کی تیاری ہے۔

اس وقت “الرائد فی الحوارات ” کے نام سے عربی بول چال پر ایک مستقل تصنیف پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ اور عنقریب پبلش ہو کر منظر عام پر آئے گی۔اگر ہم اس موضوع پر مزید بات کریں تو وادی تریچ کی سر زمین اس حوالے سے کافی زرخیز ثابت ہوئی ہے کہ اب تک چار عالمی زبانوں کے کامیاب مترجمین کا تعلق اسی وادی سے رہا ہے ۔

چونکہ آج کی تحریر میں مولانا عبدالحئی صاحب کی شخصیت اور ان کی گراں قدر کاوشوں کا مختصرا تذکرہ مطلوب تھا،مولانا عبدالحئی صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہے۔ ملک کے معروف تعلیمی ادارہ ” اقراء روضتہ الاطفال ” میں ایک عرصہ تدریسی خدمات سر انجام دینے کے بعد چترال شفٹ ہو چکے ہیں ۔ اور یہاں اپنے کاروبار اور دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

مولانا انس(مرحوم ) کا تعلق بھی اسی وادی سے رہا ہے۔ انھوں نے ابن سیرین رحمت اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب ” التعبیر الرویا”کا ترجمہ ” خوابوں کی تعبیر ” کے نام سے عربی سے اردو میں کیا، اس کے علاوہ اور کئی کتابوں کے آپ مولف ہیں۔

پروفیسر رحمت کریم بیگ کا شمار چترال کے قابل افراد میں ہوتا ہے۔ جس نے ” محاصرہ چترال ” کے نام سے ایک انگریز مصنف کی انگریزی کتاب کا ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی قیمتی مضامین اور مقالات کے آپ خالق ہیں۔

اللہ تعالی ان کے دینی اور علمی کاموں میں مزید برکت عطا فرمائے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
25167