
عورت،اسلام اور معاشرہ ۔ از :کلثوم رضا
عورت،اسلام اور معاشرہ ۔ از :کلثوم رضا
خوشحال پورہ کے ایک پرائیویٹ سکول میں شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔کاسنی اور سفید رنگ کے غباروں اور دوپٹوں سے سٹیج کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔خواتین کی بہت بڑی تعداد اس تقریب میں شریک تھی۔ کافی گرمجوشی سے ایک دوسرے سے مل رہی تھیں۔ پروگرام کا آغاذ ہونے میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے۔ سپیکر پر ترانہ چل رہا تھا۔۔
“ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے یے۔۔۔
ٹھیک نو بجے ایک بچی نے سٹیج پر آکر مائک سنبھالا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد پروگرام کا مختصر تعارف دیا۔۔۔
بہت ہی پیاری اور قابل احترام ماؤ ،بہنو اور ساتھیو! آج کی ہماری تقریب عالمی یوم خواتین کے حوالے سے منعقد کی گئی ہے۔جو کہ ہر سال 8 مارچ کو کئی ممالک میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ ہر ملک میں یہ دن اپنے انداذ سے منایا جاتا ہے لیکن ہم اسے “اسلام میں عورت کا مقام” کے عنوان سے مناتے ہیں۔ یہ دین اسلام ہی ہے جس نے عورت کو ذلت کی زندگی سے نکال کر ملکہ کی حیثیت دی۔ اس کی محبتوں اور محنتوں کا اعتراف کیا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جو کام عورتیں سر انجام دیتی ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
پیارے ساتھیو! ہم اس تقریب کا باقاعدہ آغاز کلام پاک کے درس سے کرتے ہیں۔جس کے لیے میں دعوت دوں گی ہماری پیاری محترمہ باجی شاہ بانو صاحبہ کو ۔۔۔۔کہ آپ آئیں اور ہمیں قران کی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔۔۔ میزبان بچی نے باجی شاہ بانو صاحبہ کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔
سفید عبایا و حجاب میں باجی شاہ بانو مذید باوقار لگ رہی تھیں۔ کئی جگہوں پر ان کا حلقہ درس یے، جہاں وہ خواتین کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی رہتی ہیں۔ وہ سٹیج پر آئیں، سلام و تعارف کے بعد اپنی دلنشین آواز میں قرآن پاک کی مخصوص آیتیں تلاوت کیں ۔۔۔۔ترجمہ اور مفہوم پیش کیا۔۔۔۔جو مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے اس پر مفصل روشنی ڈالی۔۔۔دور جاہلیت میں جو ظلم عورت پر ڈھایا جاتا تھا، ان کی مثالیں دیں پھر کیسے اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا جس سے عورت ایک ملکہ اور ایک شہزادی کہلائی گئی اس کے محرم مردوں کو ان پر قوام بنایا، اس کے باپ، بھائی، شویر اور بیٹوں پر اسکا حق مقرر کیا۔۔۔ یہی نہیں بلکہ معاشرے میں بھی عورت کو عزت دینے پر زور دیا گیا ہے۔ اس پر بھی اچھی خاصی روشنی ڈالی۔۔
تقریب میں شریک خواتین اسلام میں اپنا مرتبہ دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے پر رب کائنات کی مشکور نظر آئیں۔۔۔۔
باجی شاہ بانو جب درس مکمل کرکے سٹیج سے اتر رہی تھیں ۔۔۔تو ایک بچی دوڑتی ہوئی ائی اور باجی بانو کو ایک رقعہ تھما دیا۔۔۔جس میں لکھا تھا۔۔۔
پروگرام کے بعد اپنے چند منٹ مجھے دیجیے آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ زبیدہ خاتون۔۔۔۔
یوم خواتین کے حوالے سے اور بھی اچھے اچھے پروگرامات کیے گئے۔۔۔۔پروگرام کے اختتام پر جو خواتین مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتی رہی ہیں انھیں خراج تحسین اور تحائف پیش کیے گئے۔۔۔۔
جب پروگرام کا اختتام ہوا تو باجی بانو اپنی نشست پر بیٹھی رہیں تاکہ زبیدہ خاتون آکر ان سے مل لیں ۔۔اتنے میں سال ڈیڑھ سال کا بچہ گود میں اٹھائے ایک خاتون باجی کے پاس آئیں سلام کیا اور اپنا تعارف دیا ۔۔۔۔
بانو باجی حسب عادت چہرے پر مسکان سجائے اس سے ملیں ،بچے کو پیار کیا۔ اور خاتون کا ہاتھ اپنے نرم و شفیق ہاتھوں میں تھامے بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔۔۔۔
زبیدہ خاتون گویا ہوئیں ۔۔۔۔باجی آپ نے جو باتیں ہمیں بتائیں سب کا حوالہ قرآن و حدیث سے دیا۔۔۔؟
جی بالکل۔۔شاہ بانو نے جواب دیا۔۔۔
زبیدہ۔۔۔پھر کیوں ہمیں وہ مقام و مرتبہ نہیں ملتا جو ہمیں ملنا چاہیے۔۔۔؟
دیکھو پیاری بہن!ملے گا۔۔۔کیوں نہیں ملے گا؟
ہمیں یہ حق اللہ نے دیا ہے۔۔۔اپنے نبی سے اس کی تعلیم دلائی۔۔۔ قیامت تک کے لئے یہ احکام قرآن مجید میں ثبت کر کے ہمیں دیا گیا۔۔۔۔۔
شاہ بانو نے سمجھایا۔۔۔
زبیدہ مایوسی سے بولیں۔۔۔نہیں باجی ہمیں کسی نے نہیں دیا ۔۔۔ہم دور جاہلیت جیسی ہی زندگی گزار رہے ییں۔
مانا کہ اسلام نے دیا ہے۔۔۔نبی پاک نے بھی اس کی تعلیم دی ہے۔۔۔قران میں بھی آیا ہے۔۔۔۔کہ عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔۔۔تبھی حضرت خدیجہ کے پیغام نکاح کو باعث شرم نہیں سمجھا گیا۔۔۔اور اسے کاروبار کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔
حضرت فاطمہ رض کی شادی اس سے پوچھ کر حضرت علی رض سے کی گئی،حالانکہ حضرت علی رض کی تمام خوبیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھیں۔۔۔
حضرت عائشہ رض کو یہ نہیں کہا گیا کہ تم شادی شدہ عورت ہو بچی تھوڑی ہو جو کھیلو گی۔۔۔نہیں بلکہ ان کی سکھیوں کو بلا کر لایا گیا کہ عائشہ کے ساتھ کھیلو ۔۔۔ان کے شوہر نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا۔اپنے ہر عمل سے انہیں اگاہ کیا۔۔تبھی وہ امت تک دین اسلام کی تعلیمات پہنچانے کے قابل ہو گئیں۔۔۔
ہم صرف کہنے کو مسلمان ہیں۔۔۔ہمیں یہ سب رتبے کہاں ملے؟
شادی کے وقت باپ نے پوچھا ہی نہیں کہ بیٹی!کیا تیری رضا اس میں شامل ہے؟نہ ہی شوہر نے کبھی یہ کہا کہ جس طرح تم پر میرا حق ہے اسی طرح مجھ پر بھی تمھارا حق بنتا ہے۔۔۔۔
نہ بھائی پوچھتا ہے کہ تم کس حال میں ہو۔؟کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو بلاجھجک بتا دینا۔۔۔۔۔۔
میرے والد کو پتہ تھا جس بندے کے ہاتھ میں میرا ہاتھ دینے لگے تھے اس کے اور میرے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔۔
پھر بھی اسی کے ہاتھ میں میرا ہاتھ دیا۔۔۔
میرے شوہر کو بھی پتہ ہے کہ میں اس کے گھر میں کتنی تکالیف اٹھا رہی ہوں۔۔۔مجال ہے کہ تسلی کے دو الفاظ کہہ دے۔۔۔الٹا غلیظ القابات سے نوازتا رہتا ہے۔۔۔۔
میرے بھائیوں کو بھی پتہ کہ میں اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھر داری کے ساتھ ملازمت کرنے کے باوجود اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے سلائی وغیرہ کر کر کے تھک چکی ہوں۔۔۔میری صحت جواب دینے لگی ہے۔۔۔۔پھر بھی میراث سے میرا حق مجھے دینے کو کبھی تصور میں نہیں لاتے۔۔۔۔
اب تو بچے بھی صرف اپنا حق جتاتے ہیں۔۔۔کہ سنبھالا نہیں جانا تھا تو پیدا کیوں کیے؟
باقی رہی بات معاشرے کی۔۔۔تو اس نے تو عورت پر ٹھپہ لگا دیا ہے کہ اگر عورت گھر سے باہر جائے تو مشکل ہے وہ باحیا رہے۔۔۔جانے وہ کس کس سے مل کر کیا کیا گل کھلاتی رہتی یے۔۔؟
زبیدہ بغیر رکے یہ سب سنائے جا رہی تھی۔۔۔جانے اس کا دل یہ بوجھ کب سے اٹھائے پھر رہا تھا ۔۔ آج وہ اپنے ہاتھوں کو شاہ بانو باجی کے ہاتھوں میں رکھ کر یہ بھول گئی تھی کہ وہ ان سے آج پہلی مرتبہ ملی تھی۔۔۔جانے کیونکر انہیں یہ سب بتانے بیٹھی تھی۔۔۔۔
دوسری طرف شاہ بانو باجی کے آنسوؤں سے تر چہرے پر ان کے دل کی کیفیت عیاں تھی۔۔۔
وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ کیا ہم واقع دائرہ اسلام میں داخل ہیں یا ابھی تک خارج ہیں۔۔۔اگر ہیں تو اسلام عورت کو مشقت والی زندگی گزارنے سے آزاد کرتا ہے۔۔۔اگر نہیں ہیں تو خود کو مسلمان کیوں کر کہتے ہیں ۔۔؟
ان کے کانوں میں زبیدہ کی یہ بات کئی دنوں تک گونجتی رہیں۔۔۔باجی اسلام نے تو عورت کو بلند مقام اور مرتبہ دیا ہے۔۔۔لیکن ہمارے معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا۔