
علم وفضیلت کا روشن ستارہ – تحریر: (مفتی) عبدا لمجیدچترالی
علم وفضیلت کا روشن ستارہ – تحریر: (مفتی) عبدا لمجیدچترالی
ڈاکٹر مفتی محمد غیاث الدین ایک ممتاز عالم دین، محقق مفتی اور تجربہ کارمعلم کی حیثیت سے پاکستان کے علمی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں،آپ کی شخصیت میں روایتی دینی علوم اور جدید تعلیمی تحقیقات کا نادر امتزاج ہے،آپ کا تعلق چترال کے ایک نہایت معزز خاندان میر مقصود/محسود/مسود/ مسعود قبیلہ سے ہے۔
ڈاکٹر مفتی محمد غیاث الدین صاحب کے علوم دینیہ کا سفر جامعہ دارالعلوم شاہی مسجد چترال میں قاری القراء و استاذ العلماء حضرت مولانا قاری عبدالرحمن قریشی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی زیر نگرانی حفظ قرآن کریم سے شروع ہوا،ایک سال کے مختصر عرصہ میں حفظ کی تکمیل کے بعد قاری صاحب ہی کے حکم سے مفتی فدامحمد صاحب سلمہ اللہ کی زیر نگرانی جامعہ دارالعلوم کراچی کا رُخ کیا،یوں درجہ اولیٰ سے لے کر تخصص فی الافتاء تک آپ وہیں پر علم دین کے سمندر میں موتیاں چنتے رہے۔
درجہ اولیٰ سے لےکر دورۂ حدیث تک راقم الحروف بھی مفتی صاحب کا ہم جماعت رہا۔جامعہ دارالعلوم کراچی کے زمانۂ طالب علمی میں آپ وہاں کے طلبہ کے لئے رول ماڈل سمجھے جاتے تھے، اور معاصر طلبہ کو آپ پررشک ہوتا تھا، کراچی میں رہنے والے چترالی حضرات خصوصاً جامعہ دارالعلوم کراچی میں چترالی طلبہ آپ پر بے حد فخر محسوس کرتے تھے۔ درجہ اولیٰ سے لے کر تخصص فی الافتاء سے فراغت تک آپ ہر کلاس میں پوزیشن لیتے تھے،یہ اعزاز جامعہ دارالعلوم کراچی جیسے ادارے میں شاذ ونادر ہی کسی کو حاصل رہا ہے۔ درجہ رابعہ میں جب آپ نے وفاق المدارس العربیہ کے تحت پورے پاکستان کی سطح پر پہلی پوزیشن لی توبجا طور پر پورے چترال کےلئے وہ لمحہ قابل فخر تھا۔یقیناً آپ کی اس کامیابی کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مہربانی،آپ کی قابلیت اورجامعہ دارالعلوم کراچی جیسے عظیم ادارے کے عظیم اساتذۂ کرام کا عمل دخل ہے۔بلاشبہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں داخلہ ملنا اور وہیں سے سند فراغت حاصل کرنا دونوں قابلِ رشک ہیں،پھر وہیں پر تخصص فی الافتاء میں داخلہ ملناتو صرف نصیب والوں کو ہی میسر آتا ہے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی علوم دینیہ کا روشن آسمان ہے،جہاں کا ہر استاذ مانند چمکتا دمکتا ستارہ ہے،استاذ محترم حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب قدس اللہ سرہ اور استاذ محترم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اس چمکتے آسمان کے سورج اور چاند ہیں۔یقینا ان حضرات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا نصیب والوں کا ہی میسر ہوتا ہے،ہمیں بھی اللہ تعالیٰ نے اس نصیب سےمالامال فرمایا۔فللہ الحمد والشکر
مفتی محمد غیاث الدین صاحب استاذ محترم شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے خصوصی شاگردوں میں شمارہوتے ہیں،جب استاذ محترم چترال کے دورے پر تشریف لائے تھے توانہوں نے مفتی صاحب سے ان کے دارالافتاء کے بارے میں پوچھا کہ آپ کا دارالافتاء کہاں ہے؟جب مفتی صاحب نے چترال میں دارالافتاء کے نہ ہونے کا ذکر کیا تو حضرت نے تین اراکین پر مشتمل مفتیان کرام کی ایک کمیٹی بنائی جس میں مفتی صاحب کے علاوہ مفتی گل عزیز صاحب سلمہ اللہ کو بھی ممبر بنایا،اور اس کمیٹی کو دارالافتاء قائم کرنے کا حکم دیا،مذکورہ کمیٹی نےتھوڑے ہی عرصہ میں جامعہ اسلامیہ ریحانکوٹ میں دارالافتاء قائم کرکے حضرت کو اس کی اطلاع کردی،جو آج بھی بہترین انداز میں عوام الناس کی شرعی رہنمائی کررہاہے۔
مفتی صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی سے فراغت کے بعد کراچی میں رہنے کے بجائے چترال میں رہ کر دین کی تبلیغ واشاعت کو ترجیح دی،کچھ عرصہ سکول میں بطور رعربک ٹیچر کا م کیا،ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ ریحانکوٹ میں مدرس کے طورپر بھی خدمات سر انجام دیں، پھر پبلک سروس کمیشن کے تھرواسلامیات لکچررشب کے لئے منتخب ہوئے،آج کل گورنمنٹ ڈگری کالج چترال لوئر میں اسلامیات ڈیپارٹمنٹ کے ایچ او ڈی کی حیثیت سے کام رہے ہیں۔
ان تمام ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنا تعلیمی سفرجاری رکھا،پہلے شرینگل یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کیااور اب وہیں سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے اپنے نام کے ساتھ ڈاکڑ کا سابقہ بھی لگا لیا۔آپ کے مقالے کا عنوان ہے”ولادت،شادی بیاہ اور فوتگی سے متعلق چترال میں رائج رسومات کا شرعی اعتبارسے تحقیقی جائزہ”۔یقیناً آپ کی اس تحقیق سے اہلیان چترال کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔
مفتی صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کو عربی،اردو اور انگلش تینوں زبانوں میں مہارت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو مزید ترقیوں سےنوازے آمین۔

