Chitral Times

Oct 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ضلع اپر چترال کا قیام …………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے چترال کے سب ڈویژن مستوج کو الگ ضلع بنانے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ نئے ضلع اپر چترال کا ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی ہوگا۔سب تحصیل مستوج، موڑکہو اور تورکہو پر مشتمل ضلع اپر چترال کی آبادی تین لاکھ سے زیادہ ہے ۔ برنس سے بروغل، تریچ، شندور اور ریچ تک یہ ضلع ساڑھے آٹھ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔محکمہ مال خیبر پختونخوا کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق نئے ضلع کے قیام پر فوری عمل درآمد ہوگا۔ جس میں ضلعی سیکرٹریٹ کا قیام، ڈپٹی کمشنر، ضلعی پولیس افسر اور تمام صوبائی محکموں کے ضلعی دفاتر کا قیام شامل ہے۔ضلع اپر چترال کا ضلعی سیکرٹریٹ ممکنہ طور پر بونی سے ملحقہ قاق لشٹ میں تعمیر کیا جائے گا جو موڑکہو، تورکہو اور بیار تحصیل کے سنگم پر واقع ہے۔ضلع اپرچترال کے قیام سے ہزاروں نوجوانوں کو اپنے گھر کے قریب روزگار کے مواقع ملیں گے۔ الگ بلدیاتی سیٹ اپ قائم کیا جائے گا۔ ایک ضلع کے اضافی وسائل چترال کو ملیں گے۔ضلع اپر چترال کا اعلامیہ اگر عام انتخابات سے پہلے آجاتا تو چترال کی ایک صوبائی نشست بحال رہ سکتی تھی۔ کیونکہ ضلع اپرچترال کے قیام کا اعلان وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے انتخابات سے قبل پولو گراونڈ چترال میں جلسہ عام سے خطاب میں کیا تھا۔ اب ضلع کا اعلامیہ جاری ہونے کے باوجود صوبائی نشست کی بحالی سردست ممکن نظر نہیں آتی۔ اگرچہ قانونی طور پر ضلع کے قیام کے بعد صوبائی نشست اس کا حق ہے۔ لیکن اس کے لئے قانون سازی کرنی ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے آبادی کے تناسب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے 99جنرل نشستیں رکھی ہیں۔ اگر اپرچترال کی صوبائی نشست بحال کی جاتی ہے تو پشاور کی ایک نشست کم کرنی ہوگی جو ممکن نظر نہیں آتا۔تاہم قانون سازی کے ذریعے صوبائی نشستوں میں اضافہ کرکے اپرچترال کو موجودہ صوبائی اسمبلی میں اس کی نشست دی جاسکتی ہے۔قبل ازیں بھی اس کا تذکرہ ہوچکا ہے کہ بالائی چترال ریاستی دور میں بھی الگ ضلع ہوا کرتا تھا۔ جسے ضلع ثانی بھی کہا جاتا تھااور ضلع مستوج بھی۔ اس کا اپنا انتظامی سیٹ اپ ہوتا تھا۔ ظفر احمد اور شہزادہ محی الدین بھی ضلع مستوج کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں۔اپرچترال کو ضلع کا درجہ دینے کا کریڈٹ بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو جاتا ہے اس کار خیر میں پرویز خٹک اور محمود خان کی حکومت نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اس کا کریڈٹ اپنے سر لینا یا اپنے من پسند لیڈر کو دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگرچترال سے تعلق رکھنے والے کسی منتخب رکن ، سیاسی لیڈر، صحافی، سیاسی کارکن یا عوامی نمائندے نے اس کے لئے کام کیا ہے تو یہ اس پر چترال کی مٹی کا قرض تھا۔ جسے اس نے چکا دیا۔اور اس کا صلہ الگ شناخت کی صورت میں اسے مل گیا۔اپرچترال کے الگ ضلع بننے سے چترالی قوم کے بٹوارے، دوریاں پیدا ہونے،نئے مسائل جنم لینے اور ایک دوسرے کے وسائل پر انحصار کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویپ سائٹس پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ جس سے مکمل طور پر اجتناب برتنے کی ضرورت ہے۔ ارندو اور زیارت سے لے کر شیخ سلیم ، شندور، ریچ، بروغل اور زوندرانگرام تک تمام چترالی ایک ہی قوم ہیں۔ ان میں کوئی کہوار زبان بولتا ہے کوئی دری، دامیلی، کلاشہ، یدغہ، گوارباٹی ، منجانی یا کوئی اور زبان بولتا ہے۔ تو یہ چترالی ثقافت کے گلدستے میں سجے مختلف اقسام اور خوشبو کے پھول ہیں۔یہاں بسنے والے اہل سنت، اسماعیلی ، کالاش اور دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والے سارے چترالی ہیں۔ یہاں بسنے والے کٹورے، شاہنوے،
رضاخیل، زوندرے، دشمانے، روشتے، محمد بیگے، رئیسے، خوش احمدے اور دیگر درجنوں قبیلوں سے تعلق رکھنے والے سارے چترالی ہیں۔ سب کی ثقافت، تہذیب، تمدن ، رہن سہن ، رسومات و رواجات اور اقدار مشترک ہیں۔ مسلک، قومیت، لسانی ، قومی یا نسلی تعصب کے ذریعے چترالی قوم کو تقسیم کرنے کی باتیں کرنے والے قوم کے مجرم ہیں۔ جن پر ہر محب وطن چترالی کو گہری نظر رکھنی چاہئے۔ لواری ٹنل کی تعمیر کے بعدضلع اپر چترال کا قیام اس خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا اہم فیصلہ ہے۔بدلتے حالات کے ساتھ مواقع جنم لیتے ہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ یہ مواقع چترالی قوم کی معاشی حالت بدلنے کا ذریعہ بنیں گے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
15979