صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ کو ختم کرنے کے خلاف چترالی باشندوں کا پشاور میں احتجاجی مظاہرہ
پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ ) چترال کے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ کو ختم کرنے کے خلاف پشاور پریس کلب کے سامنے چترالی باشندوں کا بھر پور احتجاجی مظاہر ہ ہو ا مظاہر ہ کی قیادت مولانا عبد الا کبر چترالی کر رہے تھے ا س موقع پر جمعیت علما ء اسلام ضلع چترال کے امیر مولانا عبد الرحمن ، پی پی پی کے ممبر صوبائی اسمبلی سلیم خان ، صدر چیمبر آف کامرس چترال سرتاج احمد خان ، صدر چترالی بازار عبد الرزاق ، صدر یو تھ پی ٹی آئی فخر اعظم ، اہلسنت و الجماعت کے رہنما شمس الدین معاویہ ، جماعت اسلامی کے شمشیرخان ، مولانا جاوید احمد ، رحمت الٰہی ، مولانا شیر کریم شاہ جے یو آئی کے علاوہ کثیر تعداد میں چترالی باشندے موجود تھے مظاہرین نے بینر اور کتبے اٹھا رکھے تھے اور اپنے مطالبات کے حق میں شدید نعرہ بازی کر رہے تھے مظاہرین اور میڈیا سے مولانا چترالی ، سلیم خان ، مولانا عبد الرحمن اور سرتاج احمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری 2017 میں ضلع چترال کی آبادی کیساتھ ناقابل بیان نانصافی کی گئی ہے ساڑھے تین سے چار لاکھ تک آبادی کو جو بیرون ضلع ملازمت یا مزدوری کیلئے عارضی رہائش پذیر ہیں کا اندراج ضلع چترال میں نہیں ہو ا اور اس سلسلہ میں محکمہ مردم شماری نے عوام میں شعور و آگاہی بھی پیدا نہیں کی جس کی وجہ سے بیرون ضلع عارضی رہائش پذیر آبادی کا اندراج ضلع میں نہ ہو سکا ضلع چترال 14950 مربع کلومیٹر ہے ارندوسے شروع ہو کر بروغل تک طویل ترین سفر کرکے کئی دنوں میں پہنچا جاسکتا ہے اگر صوبہ خیبر پختونخوا کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچواں حصہ صرف ضلع چترال کا رقبہ بنتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ضلع چترال کے دشوار گزار علاقہ اور بڑے رقبے کی بنا پر چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا اعلان کر چکی ہے انہوں نے کہا کہ شہری اور پہاڑی علاقوں کو یکساں Criteria پررکھنا سراسر ظلم و ناانصافی ہے ۔ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے چترال ایک حساس ضلع ہے اس کی حساسیت کی بنیاد پر ضلع چترال کو دیگر اضلاع کی آبادی پر قیاس نہ کیا جائے اورالیکشن کمیشن کے فارمولہ سے ضلع چترال کو مستثنیٰ قرار دیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ضلع چترال کوایک قومی اور دوصوبائی سیٹیں مخصوص جغرافیائی حالات کی بنیاد پر بر قرار رکھی جائیں اس میں کمی کسی بھی صورت ہمارے لئے قابل قبول نہیں اگر الیکشن کمیشن نے ضلع چترال کے جغرافیائی محل وقوع اور رقبہ کو بالائے طاق رکھ کر ایک صوبائی سیٹ کم کی تو ہم بھر پور تحریک چلائیں گے اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں چیلنچ کرنے کے علاوہ دوسرے تمام آپشن کو بروئے کار لائیں گے ۔