صرف ماہ نومبر 2024 کے دوران خیبرپختونخوا کی ٹیکس آمدنی میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ جولائی سے نومبر تک ریونیو میں 45.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا
صرف ماہ نومبر 2024 کے دوران خیبرپختونخوا کی ٹیکس آمدنی میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ جولائی سے نومبر تک ریونیو میں 45.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم
پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ مزمل اسلم نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں نومبر 2024 صرف ایک ماہ کی ٹیکس آمدنی میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ جولائی سے نومبر تک خیبرپختونخوا ریونیو میں 45.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم نے اپنے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ خیبرپختونخوا ریونیو نومبر 2023 میں 2908 ملین تھی نومبر 2024 میں 4412 ملین روپے ہے جبکہ خیبرپختونخوا ریونیو جولائی سے نومبر 2023 میں 13,480 ملین تھی۔ مزمل اسلم نے کہا کہ رواں سال جولائی سے نومبر 2024 میں 19,640 ملین ہے اور خیبرپختونخوا کے نان ٹیکس ریونیو میں بھی بڑے اضافے کا امکان ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا نے کہا کہ صوبائی حکومت نے سیس شرح، رائلٹی اور آن لائن کلیکشن میں اضافہ کیا ہے اور ٹیکس ریونیو پر سخت عملدرآمد کی وجہ سے آمدنی میں بھی زیادہ اضافے کا امکان ہے۔
آل پارٹی کانفرنس کے نام پر صوبے کا مسترد شدہ ٹولہ جمع ہوا۔ یہ لوگ اے پی سی کے نام پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بیانیہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں. بیرسٹر ڈاکٹر سیف
ُپشاور (چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیربرائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے گورنر ہاؤس پشاور میں اپوزیشن و دیگر جماعتوں کی آل پارٹیکانفرنس کے انعقاد پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ آل پارٹی کانفرنس کے نام پر صوبے کا مسترد شدہ ٹولہ جمع ہوا۔ یہ لوگ اے پی سی کے نام پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بیانیہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی بلانا گورنر کا نہیں، منتخب حکومت کا مینڈیٹ ہے۔جب اے پی سی کااختتام ہی اس بات پر ہوا ہوکہ 18 ویں ترمیم کے بعد اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہیں تو پھر گورنر نے اے پی سی بلائی ہی کیوں۔ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ اے پی سی کامقصد سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔
مشیر اطلاعات نے کہا کہ کمیٹیاں بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کیوں نہیں کرتے کہ گورنرفیصل کریم کنڈی اور امیر مقام سیدھاوفاق سے صوبے کا حق لیں اور این ایف سی ایوارڈ میں ضم اضلاع کا حصہ نہ ملنے پر وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری سے جواب طلبی کریں اس کے برعکس گورنر اور امیر مقام دونوں کرسیاں بچانے کی خاطر صوبے کے حقوق پر خاموش ہیں۔، انہوں نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کو ضم اضلاع کے طے شدہ شئیر اور آبادی کے مطابق فنڈز نہیں دیتی اور دہشت گردی کی روک تھام کی مد میں صوبے کو پچھلے سال صرف 93 ارب روپے دیئے جبکہ صوبے نے 106 بلین روپے صرف ضم اضلاع میں خرچ کئے ہیں اسی طرح ضم اضلاع میں پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے لئے 7 ارب روپے صوبے نے فراہم کئے ہیں،
بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے مزید کہا کہ گورنر صوبے کے چیف ایگزیکٹیو بننے کی ایکٹنگ نہ کریں کیوں کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیووزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھارہے ہیں،وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈاپور دعووں کی بجائے عملی اقدامات اٹھارہے ہیں، ان کی دوراندیشی اورقیادت میں ضلع کرم کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہونے کی قریب ہے، بروقت اقدامات سے کرم میں اب معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں اس معاملے میں وزیراعلیٰ کی ہدایت پر حکومتی جرگے نے پہلے مرحلے میں فائر بندی اور میتوں کی حوالگی یقینی بنائی، متحارب فریقوں کے مورچے ختم کئے،ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایمرجنسی ادویات بھی فراہم کی گئیں،امن و امان کی بہتری اور اداروں کو مستحکم کرنے کے لئے سی ٹی ڈی کے لئے ایک ارب روپے اور علاقے میں 400 پولیس اہلکاروں کی بھرتی کی بھی منظوری دی گئی ہے اسی طرح ضلع کرم کے حوالے سے2008 میں کئے گئے مری معاہدہ کی سفارشات کے تحت پائیدار اقدامات کیے جا رہے ہیں۔