شنا حروفِ تہجّی۔۔۔ قطرے سے گُہر ہونے تک….. احمد سلیم سلیمی
لکھاری بڑا بڑبولا ہوتا ہے ۔خیال اور جذبے کے اظہار کا ڈھنگ آئے تو بے تکان کہے جاتا ہے ۔اس کی سوچ ،اس کا احساس ،جب تک دماغ کی قید میں ہوں ،ان کی کوئی حیثیت نہیں ۔جب لفظ کے کومل پروں پہ سوار ،کاغذ پہ اتر آتے ہیں تو قیامت ڈھاتے ہیں ۔
لفظ بہت اہم ہیں ۔یہ اظہار کا بنیادی ذریعہ ہیں ۔لفظ ہی کسی خیال کو ، کسی جذبے کو زندگی کی تڑپ سے آشنا کراتے ہیں ۔ویسے تو لفظ ایک مجرّد شے ہے۔مگر زندگی کے رویے اور دل کے جذبے اس میں روح پھونک دیتے ہیں۔پھر یہی لفظ صفحہء قرطاس پہ دل بن کر دھڑکنے لگتے ہیں۔
یہ جو لفظ ہیں ، کسی زبان سے وجود میں آتے ہیں ۔اور زبان ہی اصل میں خیال اور جذبے کی ترجمان ہوتی ہے۔زبان ہی ذرائع ابلاغ کا بنیادی عنصر ہوتی ہے۔
یادش بہ خیر ! کچھ عرصہ قبل جدید شنا شاعری پہ لکھتے ہوئے ایک جگہ ذکر کیا تھا ۔’’ادب میرا رومانس ہے اردو زبان میری محبوب۔ان دونوں نے میری سوچ کو ،میرے جذبے کو اظہار کا حسن دیا ہے۔میرے قلم کو توانائی دی ہے۔
شنا میرا عشق ہے ۔ماں کی آغوش کی نرم گرم کروٹوں میں اس نے مجھے بولنا اور محسوس کرنا سکھا یا ہے۔بچپن کے میرے خوابوں کے شبستاں میں شنا سے ہی عکس ،ٹوٹتے اور بنتے رہے ہیں ۔گھر کے آنگن کی محدود فضا میں بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلتے اور لڑتے ،شنانے ہی مجھے غصے اور مسرت کے اظہار سے آشنا کرایا ہے۔یہ میرے ساتھ گُھٹنے گھٹنے چلتی ،گھر کے آنگن سے باہر نکلی۔امپھری کے کھیتوں میں ہم عمر دوستوں کے ساتھ کھیلتے کودتے، مضبوط قدموں سے میرے ساتھ بڑی ہوتی رہی۔مگر جوں جوں عمر کی مسافتیں اور تعلیم کے مدارج طے کرتا رہا ۔میں اس کی مٹھاس،اپنا پن اور روانی سے محروم ہوتا گیا ۔اس کی جگہ اردو اور انگلش کاجادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے ،اس وقت کالج میں اردو ادب کا استاد ہونے کے باوجود میں لفظی اور معنوی صحت کے ساتھ شنا لکھنے اور پڑھنے سے قاصر ہوں ۔ایک میں ہی کیا ،اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔کیوں کہ شنا لکھنے کا چلن عام نہیں ۔جس کی وجہ سے شنا تحریر غیرمانوس لگتی ہے۔
مگر اب تبدیلی کا موسم در آیا ہے ۔اب شنا زبان زیادہ دیر غیر مانوس نہیں رہے گی۔اب یہاں کے شاعر اور ادیب، شنا میں بھی ادب تخلیق کریں گے ۔پڑھنے والے بھی شنا کی حلاوت میں گُندھی تحریر سے آشنا ہو ں گے۔اس خوش کُن بات کی تفصیل آگے آئے گی۔پہلے شنا شَناسی اور حروف سازی کے اس سارے مرحلے کی ،یعنی قطرے سے گُہر بننے تک کی کہانی سن لیں ۔
شنا اس خطے کی سب سے بڑی مادری زبان ہے۔صدیوں سے ان علاقوں میں بولی جاتی رہی ہے۔اس کا دامن ان صدیوں کے تہذیبی ،ثقافتی اور لسانی جمال و کمال سے مالامال ہے۔مگر المیہ ہے کہ اس کی ٖحیثیت بولی سے آگے نہیں رہی ہے ۔بولنے ،سننے اور گانے سے ہٹ کے اس کی فعالیت نہایت مایوس کُن رہی ہے۔ادبی شکل میں زیادہ تر موسیقی والی شاعری کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔چند ایک کتب، نثر اور نظم میں منظرِ عام پر آئیں بھی تو ایسے ،جیسے کسی وِشال جھیل میں کوئی کنکر پھینک دیں تو اک ذرا جھیل کی سطح پہ ارتعاش ہوتا ہے پھر وہی سکوت۔۔۔۔
شنا کے فروغ میں سب سے پہلی رکاوٹ اس کے حروفِ تہجّی تھے۔یہ بات نہیں کہ ان پہ کام ہی نہیں ہوا تھا۔انہی صفحات پہ اس ناچیز نے اس پر متعدد بارتفصیل سے لکھا ہے۔ گلگت کے امین ضیا صاحب ،عبدالخالق تاج صاحب اور شکیل احمد صاحب نے اگرچہ اپنی بساط کے مطابق شنا حروف تہجی سے متعلق ابتدائی کا م کیا تھا۔مگر ان کا دائرہ محدود تھا۔صوتی لسانیات کے کئی پہلؤوں پر ان کا آپس میں اختلاف تھا۔شنا کے صوتی اظہار کے لیے مخصوص حروف تو انہوں نے تشکیل دیے تھے لیکن ایک دوسرے سے جدا جدا ۔۔۔اس کی وجہ سے متفقہ اور معقول حروف تہجی موجود نہیں تھے۔
شنا صوتیات میں بہت سی آوازیں ایسی ہیں جن کا اظہار اردو ،عربی اور فارسی حروف سے ممکن نہیں ۔لفظ’’ شنا ‘‘پر ہی غور کرلیں ۔پہلے حرف ’’ش ‘‘ سے جو آواز نکلتی ہے ،اصل تلفظ سے مختلف ہے۔اسی طرح ترازو ،بارش ،آبشار ،سر ،انڈا اور گدھا جیسے الفاظ کے لیے شنا میں جو لفظ استعمال ہوتے ہیں ۔انہیں بول تو سکتے تھے مگر لکھتے ہوئے اردو سے حروف مستعار لیتے تھے۔
مذکورہ بالا تینوں اہلِ قلم اور ان کے علاوہ بھی شنا لسانیات کے ماہرین نے ان مخصوص اصوات کے لیے حروف وضع تو کیے تھے مگر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے شنا لکھت پڑھت کا چلن عام نہیں ہوسکا تھا۔
مگر ۲۰۱۷ کا سال شنا کے لیے خوش بختی کا پیغام لے کر آیا ہے۔پہلے قانون ساز اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے اسے تدریس میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی گئی ۔ پھر حکومت اور انتظامیہ کی سر پرستی میں دو روزہ قومی ادبی میلہ بھی منعقد ہوا ۔۔زبان و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے گلگت بلتستان لینگویج ،کلچر اینڈ آرٹ اکیڈ می کے قیام کا اصولی فیصلہ بھی ہوا ۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق اس کا پی سی ون بھی منظور ہوا ہے۔
ان کے علاوہ مادری زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک ریجنل لینگویجز کمیٹی بھی قائم کی گئی ۔جس نے نہایت اہم اور موثر کا م بھی کیا ہے۔اس کمیٹی کے سربراہ مقبول شنا، اردو شاعر اور اعلا افسر ظفر وقار تاج صاحب ہیں۔جی بی کی پانچ بڑی زبانوں کے اہلِ قلم اور ماہرینِ لسانیات اس میں شامل ہیں ۔ابتدا ئی چندنشستوں کی بحث و تمحیص کے بعد تمام زبانو ں کے لیے ایک قابل قبول ،مانوس اور بہت حد تک مشترک حروفِ تہجی کی تشکیل پر اتفاقِ رائے ہوا ۔
شنا اس خطے کی سب سے بڑی اور مرکزی زبان ہے ۔اس لیے پہلے مرحلے میں شنا حروف تہجی کو عملی شکل دینے کا بیڑا اٹھایا گیا۔امین ضیا صاحب ،عبدالخالق تاج صاحب ،جمشید دکھی صاحب ،عبدالحفیظ شاکر صاحب ،نظیم دیا صاحب ،اشتیاق یاد صاحب اور عبدالصبور صاحب اس کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ ان کے علاوہ شنا زبان کے تدریسی عمل کو ایک موثر اور کارگر شکل میں سکولوں میں رائج کرنے کے لیے محکمہ تعلیم کے سیکریٹری ثنا ء اللہ صاحب اور ڈائریکٹر فیض اللہ لون صاحب کی مشاورت او ر معاونت بھی رہی ہے ۔یہ تمام شخصیات شنا زبان و ادب کی تدریسی ،تخلیقی ،تحقیقی اور جمالیاتی باریکیوں سے خوب واقف ہیں ۔ضیا صاحب اور تاج صاحب پہلے ہی اس پہ کام کر چکے تھے۔ ان کی متعدد کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔ان کا آپس میں اصولی اختلاف تھا۔مگر داد کے مستحق ہیں ظفر تاج صاحب کہ ان مختلف الخیال اہلِ قلم کی لسانی کوششوں کو اپنی سرپرستی میں ایک مربوط اور موٗثر شکل میں بروئے کار لایا ۔طویل طویل نشستوں اور بحثوں کے بعد ان بزرگ اہل قلم کو ایک معقول اور متفقہ صوتی اظہار کی حرفی تشکیل پہ قائل کرانا بذاتِ خود ایک مشکل عمل تھا۔ مگر ان کی دا نش مندی،حوصلہ مندی اور بے لچک سرپرستی نے اسے ممکن بنا دیا۔ اس کمیٹی کے باقی ارکان بھی تعریف کے مستحق ہیں۔خاص کر عبدالصبور نے سائنسی اور فنی بنیادوں پر شنا صوتیات (آوازیں )،اس کی ساختیات اور لسانی تشکیلات (حروف تہجی اور مرکبات ) کے لیے بنیادی فنی کا م کیا۔انہیں جدید میڈیا (کمپیوٹر ،انٹرنیٹ او ر موبائل) کے لیے قابل استعمال شکل دے دی ۔
کمیٹی کے پیش نظر محض حروف تہجی کی تشکیل ہی نہیں ،آئندہ تعلیمی سال سے ابتدائی جماعتوں کے لیے شنا کی تدریسی فعالیت کو رائج کرنے کانہایت قابل قدر کام بھی تھا۔ان سطور کے لکھنے تک یہ مرحلہ بھی مکمل ہونے کے قریب ہے۔ابتدائی شنا قاعدہ مرتب ہوگیا ہے۔عبدالصبور کے آفس میں ان کے کمپیوٹر پہ اس کا مواد دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اور اس پوری ٹیم کی انتھک محنت ،ان کی لگن اور شنا شَناسی کی صفت اس ابتدائی قاعدے سے ظاہر ہوتی ہے۔اگلے سال سے سرکاری سکولوں میں اسے باقاعدہ رائج کیا جارہا ہے۔سرکاری تعلیمی پالیسی کے مطابق اسے پہلی کلاس سے رائج کیا جارہا ہے۔ویسے بھی تعلیمی نظام کی روایت رہی ہے کہ ابتدائی کلاس سے ہی زبانیں پڑھائی جاتی ہیں۔
ابھی دو دن پہلے ظفر تاج صاحب کے آفس کے کانفرنس ہال میں ،جی بی کی تمام مادری زبانوں کے ماہرین اور اہلِ قلم موجود تھے۔شنا کے بعد باقی زبانوں کے تحریری اور تدریسی امور کی انجام دہی سے متعلق یہ میٹنگ منعقد ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کی صدار ت ظفر صاحب خود کر رہے تھے۔اس دوران بلتستان کے معروف ماہر لسانیات یوسف حسین آبادی صاحب نے ایک روایت شکن تجویز دی ۔ابتدائی جماعت کے طلبہ کی ذہنی سطح کو سامنے رکھا جائے ،پھر انگلش اور اردو مضامین کے ساتھ مادری زبان بھی بہ طور مضمون پڑھنا لازم کیا جائے ۔ایسے میں ان کا معصوم دماغ کیا یہ سب سہار سکے گا؟
پہلی جماعت کا بچہ یا بچی ذہنی طور پر اتنے پختہ نہیں ہوتے ہیں کہ انگلش اور اردو کے سیلابِ بلا میں مادری زبان جیسی گھر کی مرغی کو اہمیت دے کر شعوری جذبے کے ساتھ پڑھ سکیں ۔یہ ان کے لیے بھی ،ان کے والدین کے لیے بھی دال برابر نہیں ہوگی ؟
یوسف حسین آبادی صاحب نے یہ تجویز دی تھی کہ ابتدائی کلاسوں کے طلبہ کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے اسے چوتھی یا پانچویں جماعت سے رائج کیا جائے ۔اس عمر میں ایک بچہ یا بچی اتنے سمجھدار ضرور ہوتے ہیں کہ حروف ، الفاظ اور جملے سمجھ کر ،ان کا درست اظہار کر سکیں ۔چند سال پہلے تک سرکاری سکولوں میں انگریزی بھی پرائمری کے بعد رائج تھی۔اگر مادری زبانیں بھی اس تعلیمی درجے سے شروع کی جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوسکتا۔ چند سال بعد ،جب اس کا چلن عام ہو تو اسے سب پر لاگو کیا جاسکتا ہے۔
ویسے ہماری مادری زبانوں کی تدریسی اور تحریری تشکیل پزیری کا عمل اتنی تاخیر سے شروع ہوگیا ہے کہ یہ تجویز دل کو لگتی ہے۔اس سے کم از کم اتنا تو ہوگا کہ مادری زبان محض ایک مضمون کی بجائے، کسی بچے اور بچی کے محسوسات کے اظہار کا فطری ذریعہ بن جائے گی ۔میڈیا کی جادو نگری اور انگلش ،اردو کی اثر پزیری کے اس دور میں، ہمارے بچے مادری زبان کی مٹھاس او ردرست ادائیگی سے محروم ہیں۔ایسے میں پانچویں جماعت کا نو دس سال کا ایک بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ مادری زبان سمجھ کرلکھت پڑھت کر سکے ۔اس تجویز پر عمل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مثلاََ شنا زبان کو ہی لے لیں ،اس کا سفر پانچ سال آگے سے شروع ہوگا۔اس طرح مزید بڑی کلاسوں کے مزید سمجھ دار بچوں تک اتنے ہی سال قبل پہنچ جائے گی ۔یوں اس کی تدریسی اور تحریری فعالیت مزید موٗثر صورت میں عمل پزیر ہوگی ۔بہت ممکن ہے آئندہ چند سالوں میں کالج کے طلبہ و طالبات کے لیے پڑھتے اور لکھتے ہوئے اتنی ہی مانوس ہوگی جتنی اردو اور انگلش زبانیں ہیں۔
اسی نشت میں ہمارے شاعر دوست اشتیاق یاد نے تعلیمی نفسیات کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نکتہ اٹھایا کہ ماہرینِ نفسیات و تعلیم کے مطابق طالب علموں کی Cognitive development ( علم و تصورات کی صحیح سمجھ ) مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم دینے سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ ان دونوں اہلِ قلم کے یہ نکتہ نظر قابل غور ہیں۔اب ارباب اقتدار جسے مناسب سمجھیں رائج کرسکتے ہیں۔
یہ تو رہا اس کا تدریسی پہلو ،اب اس کے تحریری اور تخلیقی پہلو کی با ت کرتے ہیں ۔میں ایک ادنیٰ کہانی کار ہو ں۔ابھی چند ہفتے قبل تک مجھے یہ غرور تھا کہ اردومیں لکھتا ہوں۔اب مجھے یہ فخر ہے کہ شنا میں بھی لکھ سکتا ہوں ۔ ظفر صاحب کی سربراہی میں اس کمیٹی نے متفقہ حروف تہجی ترتیب دے کروہ کام کیا ہے کہ بہ حیثیت قلمکار میرا لفظ لفظ ان کا ممنون ہے۔اب میں بھی شنا کو ذریعہٗ اظہار بنا سکتا ہوں ۔اسی طرح اور بھی اہلِ قلم شنا میں ادب (نثر ،نظم ) تخلیق کریں گے ۔یوں شنا زبان نئے پرانے الفاظ کے گُل بوٹوں سے گل زار بن جائے گی ۔ رفتہ رفتہ اس کی ادبی ،علمی اور فنی حیثیت مستحکم ہوجائے گی ۔تبھی قطرے سے گُہر بننے کا یہ عمل مکمل ہوگا ۔
(شنا کے تدریسی عمل کو فعال بنا نے کے لیے چند دن قبل ایک تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی تھی۔جس میں شنا بولنے والے علاقوں کے ۷۰ کے قریب سکول اساتذہ نے شرکت کی تھی۔اس ورکشاپ میں بھی شنا شَنا سی اور تدریسی عمل کو موثر بنا نے کے لیے مفید گفتگو ہوئی تھی ۔اس ورکشاپ کی روداد آئندہ باب میں آپ ملاحظہ کریں گے۔ )