شعبہ تعلیم آخری ترجیح ۔ محمد شریف شکیب
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیوروکریسی کام نہیں کر سکتی تو گھر چلی جائے۔ اکتوبر2005 کے قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں تباہ ہونے والے سکولوں کی عدم تعمیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ تعلیم خیبر پختونخوا حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتی، زلزلہ کے 16 سال گزرنے کے بعد بھی سکول تعمیر ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
سکولوں کی تعمیر نو کے لئے اربوں روپے مختص ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا،صوبائی حکومت نے سکولوں کی عدم تعمیر کا ملبہ ایرا پر ڈال دیا، جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ بدقسمتی سے تعلیم کاروبار بن چکا ہے اور حکومت نے اس کاروبار کے لئے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی کو نااہل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سارا گورکھ دھندا صرف پیسہ ادھر ادھر گھمانے کے لئے ہے،افسروں کے گھروں میں ایک دن پانی بند کریں تو ان کی چیخیں نکل جائیں گی، ان کے گھروں سے چھتیں ہٹا دیں تو انہیں پتا چلے گا، ان کے کمروں سے اے سی اور فرنیچر بھی ہٹا دینا چاہئے۔
افسران سمجھتے ہیں مختص شدہ پیسے ان کے لئے ہیں،صوبائی حکومت نے سکولوں کی تعمیر مکمل کرنے کے لئے ایک سال کا وقت مانگا جسے عدالت نے مسترد کردیا، سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرہ اضلاع میں تباہ ہونے والے 540 اسکولوں کو 6 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین ایرا کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔ تباہ کن زلزلے کے بعد خیبر پختونخوا میں چار حکومتیں آئیں، تین حکومتوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اور موجودہ حکومت تین سال مکمل کرچکی ہے۔
یہ چار حکومتیں سولہ سالوں میں متاثرہ سکولوں کی مرمت نہیں کرواسکیں۔عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں کے یہ ریمارکس پتھر پر لکیر ہیں کہ تعلیم کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے پڑھتے ہیں۔ حکمرانوں، وزراء، مشیروں، امراء اور افسروں کے بچے قومی وسائل پریا تو بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یا پھر ملک کے مہنگے پبلک سکولوں میں پڑھتے ہیں۔غریب طبقے سے کسی بھی حکومت کو کوئی ہمدردی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کی 40فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذار رہی ہے۔
یہ ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی بیوروکریسی خود کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتی ہے۔ تربیت کے دوران ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ اس ملک کا معتبر طبقہ صرف وہی ہے۔وہی اس ملک کے وسائل کے مالک ہیں۔ عام لوگ تو کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اس لئے افسروں کو ان سے مناسب فاصلہ رکھنا چاہئے۔حالانکہ قوم کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات پانے والے افسران قوم کے خدمت گار ہوتے ہیں ان کے تربیتی نصاب کو تبدیل کرکے انہیں یہ سبق سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کے آقا یا حاکم نہیں بلکہ تنخواہ دار ملازم اور خدمت گار ہیں۔
خیبر پختونخوا ایک غریب صوبہ ہے۔ یہاں صوبائی محکموں کے گریڈ سترہ سے بائیس تک کے دس پندرہ ہزارافسران صوبے کی سیاہ و سفید کے مالک ہیں ان کے پاس کئی گاڑیاں ہیں نوے فیصد افسروں کے ذاتی گھر ہونے کے باوجود وہ سرکاری بنگلوں میں رہتے ہیں اورہاؤس رینٹ الاونس بھی لیتے ہیں ہزاروں لیٹر پٹرول کے پیسے بھی جیب میں ڈالتے ہیں لاکھوں روپے ٹی اے، ڈی اے بھی وصول کرتے ہیں علاج اور سیر و تفریح کے لئے قومی وسائل پر یورپ اور امریکہ جاتے ہیں۔
صوبائی بجٹ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ان افسروں پر خرچ ہوتا ہے اور کارکردگی عدالت عظمیٰ کے ججوں کے بقول صفر ہے کوئی افسر اپنی کرسی پر شاذونادر ہی نظر آئے گا۔ پوچھنے پر رٹا رٹایا جواب دیا جاتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی اور صوبائی وزراء کے لئے یہ پیمانہ مقرر کیا ہے کہ وہ کارکردگی دکھائیں گے تو وزارت کی کرسی پر برقرار رہیں گے بصورت دیگر انہیں گھر جانا پڑے گا۔ یہی پیمانہ صوبائی اور وفاقی افسروں کے لئے بھی مقرر ہونا چاہئے تاکہ انہیں باور کرایا جاسکے کہ وہ قوم کے خدمت گار ہیں اور اسی کے بدلے بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔