Chitral Times

May 18, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شرم ہم کو مگر نہیں آتی – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

شرم ہم کو مگر نہیں آتی – تحریر: اقبال حیات اف برغذی

غیرت ایک اندرونی کیفیت اوراحساس کا نام ہے جوکسی منفی نازیبا اور نامناسب عمل کے ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔یہ احسا س اگرچہ ہر زی روح (سوائے سور) کے اندر کم وبیش پائی جاتی ہے مگر مسلمان کے اندر اس کی موجودگی بدرجہ اتم ہوتی ہے جو خاص طور پر ایمانی اقدار کے منافی عمل کی چنگاری سے یہ پوشیدہ خرمن آگ پکڑتی ہے ۔ اس اندرونی احساس کے حدود حیوانیت کی دنیا سے ملتے ہیں جہاں شرم وحیا کے آثار نہ ہونے کی وجہ سے اس وصف کی خصوصیت متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان بھی اگر غیرت کو نیلام کرے تو اس کی حیثیت حیوانوں سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ کیونکہ حیوانات عقل وخرد سے عاری اورانسان اس جو ہر سے مستفید ہوتا ہے۔ اس احساس کی موت بے غیرتی کے جنم سے واقع ہوتی ہے۔ غیرت کو ابھارنے اور بگاڑنے میں ماحول کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ جہاں نیک وبدمیں تمیز کا احساس مٹ جائے تو غیرت رفتہ رفتہ کمزور اور معدوم ہوتی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ ہم چترال کے باسی اس صفت فاخرہ سے سرفراز تھے۔ ہماری معاشرتی زندگی میں یہ قدر کوٹ کوٹ کر بھراتھا ۔ ہم غیرت کے تقاضوں سے انحراف کو انسانیت کے دائرے سے خارج گردانتے تھے ۔یہاں تک کہ ہماری ادب اور ثقافت کی دنیا میں ان اوصاف سے مزین تھی۔ہمارے بودوباش ،رہن سہن ،پوشاک اور طرز زندگی جہان شرم وحیا کی اعلیٰ روایات کے آئینہ دار اور پر توتھے وہاں عریانیت بے حیائی اور حرام خوری کی بو سے بھی ہم ناآشنا ہوتے تھے جو غیر ت کی زندگی پر دلالت کرتا ہے۔

 

ہماری غیرت اس وقت انحطاط کا شکار ہونی شروع ہوئی جب ہم آسودہ حالی کی دنیا میں داخل ہوکر اغیار کی طرززندگی سے آشنا ہونے لگے۔ ہماری پردے کی دنیا چار دیواری سے باہر پھیلتی گئی ۔رفتہ رفتہ گھروں کے اندر ڈراموں اور فلموں میں عریان اور بے حیا مردوزن کی عشق بازی اور بوس وکنار کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ دیکھنے اور خواتین خانہ کی باریک اور تنگ لباس کے ذریعے اپنے اعضاء کی نمائش پر بھی غیرت انگڑائی لینے کی کیفیت سے عاری ہوتی گئی۔ اور اس ماحول کے اثرات کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا گیا۔ کہ یہ دُرشہوار بازاروں میں نیلامی پر منتج ہوئی ۔بیگانی اور اجنبیت کا تصور مکمل طور پر ختم ہوتاگیا۔

چاردیواری کی وہ زینت جو اپنوں کے سامنے سر سے دوپٹہ سرکنے پر شرم وحیاسے پیلی ہوجاتی تھی۔بیگانوں اور غیروں کے ساتھ کھل کھلاکر بات کرنے اور طنز ومزاح کرنے میں بھی جھجک محسوس کرنے سے بھی عاری ہوگئی اور بے حیاتی لفظ کو پسماندگی ،جہالت اور فرسودہ خیالات کے پلو میں باندھ کر نیم برہنہ حالت میں نامحرموں کے ساتھ میل جول کو جدید دنیا کے باسیوں کا حق تصورکرنے اور اس استحقاق پر قد عن کو حقوق انسانی کے خلاف قرا د دینے والوں کے ہر اول دستے میں شامل ہوگئیں۔ حالانکہ اس حقوق انسانی کا تعین کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بذات خود شرم وحیا لفظ سے ناآشنا ہیں اور دوسروں کو بھی حیوانیت کی اس دنیا میں دھکیلنے کےلئے سرگرم عمل ہیں۔

ہماری معاشرتی زندگی میں اس بگاڑ کےپیداہونے کے بعد رشتوں ناطو ں میں اپنا ئیت کا عنصر معدوم ہونے لگا۔وہ اولاد جو دوپٹے کے نیچے ماں کا دودھ پی کر پلتا تھا اور نظروں کی بے حیائی اور کانوں کی الفاظ خبیثہ سے ناآشنائی کی حالت میں عقل وخرد کے حدود میں داخل ہوتے تھے والدین کی قدردانی اور احترام کے اوصاف حمیدہ سے باوصف ہوتے تھے۔ اس کے برعکس دور جدید کے ماحول میں ماں کی عریان گود کے پروردہ اولاد سے والدین کانالان ہونا اس منفی اور غیر فطری طرز زندگی پر بین کرنے کے مترادف ہے ۔اور “خودکردہ راعلاجےنیست” کے مصداق اس کیفیت کے اثرات سے گلو خلاصی کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ اور ہماری معاشرتی زندگی ہرقسم کی مادی سہولتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اسلامی روایات اور اقدار کی لذت کو ترستی رہے گی۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
102231