شام کی اوپی ڈی یا کلینک؟……….. محمد شریف شکیب
پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن نے ڈبگری گارڈن میں مشترکہ کاروائی کے دوران آٹھ پرائیویٹ لیبارٹریوں کے منیجرز کو غیررجسٹرڈ اور ناقص کٹس استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کسی کو ذاتی مفاد کے لئے قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔نجی اسپتالوں، لیبارٹریوں اور کلینکوں میں دکھی انسانیت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر حکومت اور انتظامیہ کا ایکشن قابل اطمینان ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے، تعلیم اور صحت سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات کواپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ گذشتہ چار سالوں کے دوران حکومت کی کاوشوں سے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اداروں کو شفاف بنانے کی منزل اب بھی کافی دور ہے۔دکھی انسانیت کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نجی مراکز صحت کے کام کی چھان بین اور نگرانی سے بلاشبہ لاکھوں افراد کو ریلیف ملے گا۔ لیکن صوبائی حکومت کو سرکاری اسپتالوں میں دکھی انسانیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔صوبائی حکومت نے بڑے سرکاری اسپتالوں میں شام کی او پی ڈی اور سینئر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس شروع کروانے کے لئے بہت پاپڑ بیلے ہیں۔حکومت کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے سینئر ڈاکٹروں کے ایک مضبوط گروپ نے آخری لمحے تک مزاحمت کی ۔لیکن حکومت عوامی مفاد کے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور پشاور کے تین بڑے اسپتالوں میں شام کی او پی ڈی شروع کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ طے پایا تھا کہ جو ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک میں ایک ہزار روپے معائنہ فیس لیتے ہیں وہ سرکاری اسپتال میں چھ سوروپے فیس مریضوں سے لیں گے۔ سرکاری اسپتال کے کمرے ، طبی آلات ، ٹیسٹوں اورلیبارٹری کی سہولیات انہیں حاصل ہوں گی۔ عوام خوش تھے کہ انہیں صبح کی طرح شام کے اوقات میں بھی کم خرچے پر تشخیص اور علاج کی بہترین سہولیات ملیں گی۔ لیکن جب لیڈی ریڈنگ، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، ، خیبر ٹیچنگ اور ایوب ٹیچنگ اسپتال میں شام کے اوقات میں سینئر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس شروع ہوگئی تو وہاں بھی ڈاکٹروں کی من مانی دیکھ کر مریض ہکا بکا رہ گئے۔ کیونکہ پروفیسروں اور اسسٹنٹ پروفیسروں کی فیس اسپتال میں بھی ہزار بارہ سو روپے مقرر تھی۔جبکہ سینئر رجسٹرار بھی ایک ہزار روپے فیس وصول کر رہے تھے۔ ڈاکٹرجب مریضوں کے ہاتھ میں ایکسرے، الٹراساونڈ، ایکو، ای سی جی اور لیبارٹری ٹیسٹوں کی پرچی دینے لگے ۔تو انہیں خوش فہمی تھی کہ چلو ڈاکٹر کی کلینک والی فیس ہی سہی۔ اسپتال کے اندر ٹیسٹوں کے خرچے تو کم ہوں گے۔ لیکن مریضوں کی حیرت اس وقت پریشانی میں تبدیل ہوگئی جب اسپتال کے اندر ان سے ٹیسٹوں اور لیبارٹری کی فیس پرائیویٹ لیبارٹریوں سے بھی زیادہ طلب کی جانے لگی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سینئر ڈاکٹروں نے سرکاری اسپتال کے اندر معائنے اور علاج کی مفت سہولیات حکومت سے حاصل کرکے یہاں اپنے کلینک ڈال دیئے ہیں اور سرکاری اسپتال میں کم خرچے پر علاج کی غرض سے آنے والے غریب لوگوں کی چمڑی ادھیڑی جارہی ہے۔ صوبے کے بڑے تدریسی اسپتالوں کو حکومت نے خود مختاری دیدی ہے۔ محکمہ صحت ان کے کاموں میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ لیکن ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ کیئر کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے کہ وہ نجی اسپتالوں، کلینکوں اور لیبارٹریوں کی طرح سرکاری اسپتالوں میں بھی عوام کوفراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات کا جائزہ لیں۔ پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کی فریقین سے پاسداری کو یقینی بنائیں اور دکھی انسانیت کو ریلیف فراہم کریں۔صوبائی حکومت نے عوامی مفادات کو پیش نظر رکھ کر طویل جدوجہد کے بعد ایک معرکہ سر کیا ہے۔ اس کے ثمرات غریب عوام تک ضرور پہنچنے چاہئیں۔اگر تدریسی اسپتالوں میں سینئر ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی فیس ڈبگری گارڈن اور دیگر نجی طبی مراکز کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہے تو پھر شام کی او پی ڈی شروع کرنے اور سینئر ڈاکٹروں سے اسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس شروع کرانے کا عوام کو کیا فائدہ ہوا؟؟