سید آباد زمین کے بارے چترال یونیورسٹی کی مضحکہ خیز رپورٹ…تحقیق و تجزیہ: فخرالدین اخونذادہ
آپ کسی یونیورسٹی سے ایک زبردست، تحقیقی اور تکنیکی طورپر مدلل رپورٹ کی توقع کرتے ہوں تو آپ غلط نہیں ہیں، لیکن آپ یہ توقع چترال یونیورسٹی سے کریں تو آپ غلط ہیں۔ سیدآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے چترال یونیورسٹی نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مندرجات سے اندازہ لگائیں کہ وادی کی واحد مادر علمی کو کسطرح کے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا گیا ہے۔
ریکارڈ کی درستگی کیلئے عرض کی جاتی ہے کہ سید آباد کی زمین کو ایچ ای سی نے ڈی سی چترال کے زریعے خود خریدی تھی اور شرینگل یونیورسٹی کی ٹیم نے بھی اسی جگہ کو موزوں قرار دیا تھا۔ ایچ ای سی والوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے کہا تھا کہ یونیورسٹی اسی جگہ تعمیر کریں جہاں زمین پہلے سے خریدی گئی ہے۔ کسی اور جگہ کیلئے فنڈ دینے پر ایچ ای سی تیار نہیں ہے۔ اگر ایچ ای سی کی بات مان لی جاتی تو اب تک اس زمین پر کئی ایک بلڈنگز تیار ہوتیں۔ لیکن انتظامیہ نے سنگور میں نئی زمین خریدنے کے چکر میں یونیورسٹی کی تعمیر کو کئی سال تک لٹکائے رکھا اب ان تنازعات کے باعث مزید تاخیر کا خطرہ ہے۔ یونیورسٹی کا قیام جتنا زیادہ وقت لے گا اتنی دیر تک کئی لوگوں کی نوکریاں پکی ہیں، تعمیرات کی تکمیل کے ساتھ ان لوگوں کو یہاں سےجانا ہوگا، اس لیے جتنا لیٹ ہوا اتنا ان کو فائدہ ہے۔
چترال یونیورسسٹی انتظا میہ نے سید آباد کی زمین کو غیر موزوں قرار دیتے ہوئے ایک ایسی رپورٹ شائع کی ہے جو تکنیکی رپورٹ ہونے کی بجائے مفروضات پر مبنی ہے اور اس سے ایسا تاثر ملتاہے کہ چترال کے عوام کو ناسمجھ اور ناواقف گردان کر یونیورسٹی کے قیام کو چترال کے اندر رکھنے کیلئے مضحکہ خیز دلائل سے پُر رپورٹ تیاری کی گئی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی ماہر ارضیات یعنی جیالوجسٹ نے اس زمین کو غیر موزوں قرار دیا ہے۔ لیکن جیالوجسٹ یا فرم کے بارے میں معلومات کہ کب اسکی سروس حاصل کی گئی، اسے ذاتی طورپر یا ادارے کی طرف سے ہائر کیا گیا، اس نے رپورٹ کب جمع کرائی، جیالوجسٹ کی قابلیت کیا تھی، اس سے قبل اس نے کونسی ایسی رپورٹ جمع کی وغیرہ جیسی تفصیلات نہیں دی گئی۔
کہا گیا کہ اس زمین کے اوپر سے تودے گرنے یعنی لینڈ سلائڈ کا خطرہ ہے، ہماری پینتالیس سالہ عمر اس سڑک پر آتے جاتے گزرگئی کبھی اس جگہ تودے گرتے نہیں دیکھا۔ پوری آیون کی آبادی بھی اس بات کی گواہ ہے۔ مذکورہ جگہ کے اوپر پہاڑ ہے ، ایسی جگہ جہاں مضبوط پہاڑ ہوں وہاں سےلینڈ سلائڈ کس طرح ممکن ہے۔ رپورٹ میں سیدآباد میں موجود سٹیڈئیم کا بہانہ بنا گیاہے۔ سٹیڈئیم کونسی غیر ضروری چیز ہے، سٹیڈئیم سے یونیورسٹی کے طالب علموں کو فائدہ اٹھانے سے کون منع کرےگا؟ حقیقت یہ ہے کہ چترال یو نیورسٹی کی موجودہ عمارت ٹیکنیکل کالج کی ہے جس پر قبضہ کیا گیا ہے۔ لیکن چھوٹے سے غیر استعمال شدہ اسٹڈِئیم کو یونیورسٹی کے لیے مسئلہ سمجھا گیا ہے۔
رپورٹ میں متذکرہ جگہ کو دروش کی حدود میں دکھاکر بھی کچھ لوگوں کے جذبات ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے، میرے خیال سے لوگ اتنے بھی احمق اور جذباتی نہیں ہیں کہ اس پوائنٹ پر بھڑک کر یونیورسٹی انتظامیہ سے اتفاق کریں، اول تو یہ علاقہ دروش اور چترال ٹاون کے تقریبا درمیان میں واقع ہے، ایک آدھ کلومیٹر کا فرق ہوگا، اس ناقابل غور فرق کو رپورٹ میں ڈالنے اور پھر اسے علاقائیت کا رنگ دینے کا مطلب ہی یہی ہوا کہ رپورٹ کے متن میں جان نہیں ہے۔ رپورٹ تکنیکی طورپر بے جان ہے اسلئے اس کو جذبات بھڑکانے کیلئے استعمال کیا جارہاہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیدآباد میں یورنیورسٹی کی تعمیر سے 27 فیصد ذیادہ خرچ آئے گا۔ حقیقت یہ ہے وہاں پہلے سے زمین خریدی گئی ہے مزید زمین کی قیمت غیر آباد ہونے کی وجہ سے سین لشت کی نسبت تین گنا کم ہے۔ سین لشٹ میں جس جگہ یونیورسٹی ملازمین اپنے گھر کے قریب یونیورسٹی بنانا چاہتے ہیں وہاں زرعی اور آباد زمین ہے۔ وہاں پر آباد لوگوں کو بھرپور معاوضہ دے کر ہٹانا ہوگا۔لوٹ کوہ نالے کے اوپر پل بنانا بھی یونیورسٹی کے خرچے میں آئے گا۔
ریپورٹ کے مطابق سید آباد زمین کے اوپر سے گولین گول کی ہائی ٹرانسمشن لائین گزرتی ہے۔ یورنیورسٹی کی زمین پہلے خریدی گئی تھی۔ یہ لائین حال ہی میں وہاں سے گزاری گئی، یونیورسٹی انتظامیہ کہاں سورہی تھی؟ پشاور میں ایک بلڈنگ کیلئے پوری بی آر ٹی کے روٹ کو ری ڈائریکٹ کیا جاسکتا ہے تو یونیورسٹی کیلئے دو پول اکھاڑ کے دوسری جگہ لگانے میں کیا دقت ہے؟ اگر نہ بھی ہٹائی گئی تو لائین سے کوئی مسلہ نہیں پاکستان میں ہر جگہ عمارتوں کے اوپر یہ لائین گزرتی ہے۔ اگر کسی قابل شخص نے یونیورسٹی کا نقشہ بنایا تو یہ ایسے تمام مسائل حل اور بہانے دور کیئے جا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزکورہ زمین کو ۵۶ فیصد طالب علموں کیلئے چترال ٹاون کے مقابلے میں دور بتا یا گیا ہے حقیقت یہ کہ مزکورہ زمین میں یونیرسٹی بننے کی صورت میں چترال ٹاٶں سے لیکر دروش تک تک دیہات کے طالب علموں کے لیے نزدیک ہے۔
لہذا مزکورہ رپورٹ صرف ایک بہانہ ہے اور اصل کہانی کچھ اور ہے۔ رپورٹ کو تکنیکی طورپر پیش کرنے کی بجائے علاقائیت کی بنیاد پر مضروضے گھڑ کر لوگوں کے جذبات اکسانے کی کوشش کی گئی ہے،
رپورٹ میں ہر چیز کو مفروضے کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ چترال کے عوام کو گمراہ کرنے والوں کا احستاب کریں، یہ معمولی بات نہیں، اس کا نوٹس لینا لازمی ہے، ہر کوئِی اپنے مفادات کیلئے کچھ بھی رپورٹ جاری کرے تو ذمہ دار اداروں کی حیثیت کیا رہ جائے گی، یونیورسٹی کیلئے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنا کسی گمنام جیالوجسٹ کا کام ہے یا کسی سرکاری ادارے کا؟ چترال کے جنرلسٹوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ حقائق کے منافی رپورٹ سے گریز کریں۔ یونیورسٹی کے ملازمین سے ٹیلیفون پر موقف لیکر رپورٹ بنانے کے بجائے خود تحقیق کریں۔ دروش سے سید آباد اور چترال سے سید آباد کا درست فاصلہ اور اس طرح کئی معلومات اس ٹیکنالوجی حاصل کرنا مشکل نہیں ہے۔