Chitral Times

Oct 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاست کا غیر جمہوری انداز……….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اعتراف کیا ہے کہ ملکی قیادت نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان کے لئے جذباتی تقریروں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ آج بھی غریب آدمی بنیادی شہری حقوق سے محروم ہے۔ آج بھی تھانوں میں عام لوگوں کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔ لاہور میں کڈنی ٹرانسپلانٹ سینٹر کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں شہباز شریف نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ظلم، ناانصافی، کرپشن اوروعدہ خلافیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ تو ملک میں خونی انقلاب آسکتا ہے۔شہباز شریف کی یہ حق گوئی پارٹی میں ان کے لئے مسئلہ کھڑا کرسکتا ہے۔ ان کی سرزنش ہوسکتی ہے۔ کیونکہ گذشتہ تین عشروں سے ان کا خاندان وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں برسراقتدار رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ عوام کو انصاف مہیا نہیں کرسکے۔ بنیادی شہری سہولیات نہیں دے سکے۔ کرپشن کو نہیں روک سکے۔ تو یہ مسند نشین وزیراعلیٰ کا اعتراف جرم ہے۔ لیکن اس بیان کو سیاسی تناظر میں دیکھنے کے بجائے حقائق کی بنیاد پر پرکھنا چاہئے۔ اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے کہ آزادی کے 70سال گذرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری انصاف، مساویانہ سلوک اور بنیادی حقوق کے لئے کیوں ترس رہے ہیں۔ سب لوگ نظام کی خرابی کا رونا رو رہے ہیں۔اس فرسودہ نظام کو درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جارہی۔ملکی وسائل سے چند خاندانوں کی پرورش کیوں ہورہی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہاں اپنے دین کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں اسلامی نظام اب تک نافذ نہیں کیا جاسکا۔ ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی اسلام کے سانچے میں ڈھال کر اختیار کرنے کی کوشش کی ۔پہلے صدارتی اور وحدانی نظام قائم کیا۔ اسے اپنے مزاج سے ناموافق قرار دے کر پارلیمانی اور وفاقی نظام کو اپنایا مگر نصف صدی اس نظام کے تحت گذارنے کے باوجود ترقی و استحکام کی منزل سے کوسوں دور ہیں۔ برطانیہ سمیت دنیا کے درجنوں ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ہمارے ہاں اس نظام کو بار بار بریک لگتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے نظام تو جمہوری اپنایا ہے لیکن ہمارا طرز عمل غیر جمہوری ہے۔ ایک آدھ پارٹی کے سوا تمام سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ چند خاندان اس ملک میں سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ان سیاسی جماعتوں میں خفیہ بیلٹ کے زریعے قیادت کے انتخاب کا کوئی تصور نہیں۔جب جمہوری نظام کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہوں تو ان ناقص بنیادوں پر عالی شان عمارت کیسے تعمیر ہوسکتی ہے۔ قومی دھارے میں شامل سیاسی پارٹیوں پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو بات واضح ہوجاتی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام ف اور س، جے یو پی اور پی ٹی آئی سمیت تمام پارٹیاں مخصوص شخصیات کی مرہون منت ہیں۔ ان میں سے کوئی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو کابینہ سمیت تمام اہم عہدوں پر ایک ہی خاندان کا قبضہ ہوتا ہے۔ جبکہ دیگر جمہوری ملکوں برطانیہ، امریکہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، سوئزرلینڈ وغیرہ میں موروثی سیاست کا تصور بھی نہیں۔ جارج بش، بل کلنٹن، بارک اوبامہ، رونالڈ ریگن، مارگریٹ تھیچر، گورڈن براون اور فرانسوان متران اقتدار کی مدت ختم ہونے کے بعد کہاں گئے۔ کسی کو پتہ ہی نہیں۔ کیونکہ جمہوریت کے یہ علمبردار سیاست کو پیشہ نہیں سمجھتے۔ بلکہ خدمت کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اپنی باری کی خدمت انجام دینے کے بعد منظر سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو اٹھارہ بیس سال کی عمر میں حادثاتی طور پرسیاست میں آئے ۔تو آخری سانسوں تک اسے اپنا پیشہ بناکر رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے مفاد پرست سیاسی ٹولے کی وجہ سے آج ہمارے ہاں سیاست گالی بن چکی ہے۔ٹٹ پونجے قسم کے لوگ سیاست کے ذریعے کروڑ پتی ارب پتی بن چکے ہیں۔اسے باقاعدہ صنعت اور کاروبار کا درجہ دیا جاچکا ہے۔ جب تک اس موروثی، جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ طرز جمہوریت کو حقیقی جمہوریت میں تبدیل نہیں کیا جاتا۔ عوام کے مسائل حل ہوں گے نہ ہی انہیں انصاف ملے گا۔ کرپشن اور اقرباپروری کا خاتمہ ہوگا نہ ہی میرٹ، آئین اور قانون کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اور اس کا لازمی نتیجہ شہباز شریف کے بقول خونی انقلاب کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ کیونکہ لوگ کب تک ظلم برداشت کریں گے ۔کبھی نہ کبھی تو انہیں ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھنا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3689