دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات….. تحریر شمس الحق قمر ؔ
آج لوگ خوش ہیں کہ چھٹٰی ہے سکول نہیں جائیں گے اور دفاتر بند ہوں گے ۔ لیکن ہم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ چار مئی سن اٹھارہ سو چھیاسی میں امریکی شہر شکاگو میں جو لوگ اپنے حق کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے اس کی وجہ کیا تھی ؟ کیا اُن لوگوں نے پوری دنیا میں مزدوروں کے نام پر ایک دن کی چھٹی کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا یا اس کے پیچھے کسی اور سوچ اور فلسفے کا وجود کار فرما ہے ؟
اس سوال کے جواب کےلئے ہمیں مشہور جرمن مفکر کارل مارکس کے اُس شہرہ آفاق نظریے سے اتفاق کرنا ہوگا جس میں انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا میں غربت کی جڑ قرار دیا تھا ۔ کارل مارکس نے اپنی تحاریر کے ذریعے غربت کے خلاف جنگ لڑٰ ی تھی ورنہ یہ احساس سب کو تھا اور سب کو ہے کہ مزدور ازل سے ظؒلم کی چکی میں پسا جا رہا ہے ۔ شکاگو میں مزدوروں کا اپنے حق کے لئے احتجاج اور اپنی جانوں تک کا نذرانہ پیش کرنا ایک معنی خیز بات ہے ۔ ورنہ ایک مزدور کی کیا مجال کہ وہ اپنے حق کے لئے بات کرے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آج اپنے حق کےلئے بات تو ہوگی لیکن کل دانہ پانی کے لئے ترسنا پڑے گا لیکن ان لوگوںکے صبر کا پیمانہ لب ریز ہو چکا تھا ۔ اگرچہ دانشمندی اپنے اوپر بیٹھے ہوئے خونخوار بھیڑیئے کی ہاں میں ہاں ملانے میں تھی لیکن حدود عبور ہونے کے بعد او دیکھا جاتا ہے نہ تاؤ۔ اس ضمن میں شکاگو کے مزدور تحسین کے مستحق ہیں لیکن حقیت یہی ہے کہ شکاگو کے خون اشام احتجاج کے بعد بھی سرمایہ داروں کے کانوں میں جوں نہیں رینگی ۔ ظالم کے پنجے کل بھی بے رحم تھے آج بھی خونخوار اور دوندار ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے میں دو طرح کے مزدور اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔ایک وہ جنہیں رسمی مزدور کہا جاتا ہے جو مروجہ تعلیم کے حصول کے بعد دوسروں کے لئے کام کرکے روزی کماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف اداروں میں عام عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ لوگ بمشکل اپنی زندگی اور اپنے کنبے کو پال رہے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ شکران نعمت کے ساتھ زندگی گزار تے ہیں ۔ اُن کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ کہیں اُن کی ملازمت ختم نہ ہو ، کہیں خاندان میں کوئی بڑی آزمائش نہ آئے ، بچوں کے پنپنے تک زندگی سلامت رہے خدا نا خواستہ کچھ ہوا تو ہمارے پیچھے کونسی دولت ہے کہ جس سے بچوں کی بہتر کفالت ہوسکے۔ ۔یہ مزدوروں کا وہ طبقہ ہے جو پریشانی ، سراسیمگی اور غیر مصمم انداز سے زندگی کے ڈرامے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔
مزدوروں کا دوسرا طبقہ وہ ہے جسے غیر رسمی مزدور کہا جاتا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جوکہ صرف اور صرف اپنے پیٹ کو پالنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ دن رات مشقت کرتے ہیں ۔دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھتے ۔ اوراگر ان کا محرک جسم ایک پل کے لئے بھی رکے تو اُن کی زندگی میں قیامت آجاتی ہے ، اُن کے بچے بھوک سے مر جاتے ہیں اور اُن کا خاندان اُجڑ جاتا ہے ۔ یہ لوگ بچوں کی تربیت ، صحت اور تعلیم کے حوالے سے سوچنے سے قاصر ہیں ۔ میں کسی اور ملک میں مزدوروں کی حالت زار کے بارے میں بالکل نہیں جانتا لیکن پاکستان میں مزدور اپنے مالک کے ہاتھوں نیم بسمل کی کسم پرسی میں تڑپ تڑپ کر زندگی گزار رہا ہے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ معاشرے کے اس طبقے یعنی غیر رسمی مزدور کی زندگی کے حوالے سے سوچنے والا کوئی نہیں ۔
ہم نے کبھی بھی یہ نہیں دیکھا ہے کہ کسی ٹٰیلی وژن پروگرام ، ریڈیو ، اخبار یا کسی اور نشست میں مزدور کے حقوق کی بات ہوئی ہو ۔ ہمارا میڈیا اور ہمارے اذہان ڈاکوؤں ، چوروں ، لٹیروں اور قاتلو کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ ہم نے ایک ایسا معاشرہ ترتیب دیا ہوا ہے جہاں انسانی عزت کو امارت اور ظاہری دولت کے ترازوپر ناپا جاتا ہے ۔ یعنی آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس کے پاس پیسہ ہے ( جائز یا نا جائز ) وہ قابل احترام ہے چاہے یہ دولت عزت بیچ کے ہی کیوں نہ آئی ہو ۔ ایسی دولت کی مثالوں سے ہمارا ملک ماشا الللہ مالا مال ہے ۔
زندگی کی بھاگ دوڑ میں ایک بے لگام اور باغی گھوڑے کی طرح نامعلوم منزل کی جانب سرپٹ دوڑنے والے اُن سفاک انسانوں جو دوسروں کو کچل کر ، روند کر اور مسل کر اپے لئے راستہ بنا رہے ہیں در اصل وہ راستہ تباہی ، بربادی اور جہنم کا راستہ ہے ۔ جا جا کے فطرت پر شک ہی گزر تا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ تمام انسان برابر نہیں ، کیا یہ مزدور طبقے کا قصور ہے کہ وہ حلال کماتا ہے خون پسینہ ہوتا ہے اور حلال کی کمائی کھاتا ہے اور کھلاتا ہے ، کسی کا حق نہیں چھینتا ، اپنی عزت بیچ کے دولت مند بننے کو انسانی شان کے منافی سمجھتا ہے ۔یہ سب وہ سوالات ہیں جو کہ اس اقبال کی نظم ’’ لینن خدا کے حصور میں ‘‘ کے اس شعر میں سموئے گئے ہیں
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دُنیا تری منتظرِروزِمُکافات