Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دینی طرزِ تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت – خاطرات:امیرجان حقانی

Posted on
شیئر کریں:

دینی طرزِ تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت – خاطرات:امیرجان حقانی

 

 

وفاق المدارس العربیہ اور دیگر مذہبی تعلیمی بورڈز کے تحت چلنے والے ہزاروں مدارس ہر سال لاکھوں طلبہ کو فاضل بناتے ہیں، جن میں سے اکثر علم حدیث کا دورہ کرتے ہیں۔ اس آٹھ سالہ بے ترتیب سلیبس اور طرز تعلیم میں کئی خامیاں ہیں جن کی موجودگی میں علم حدیث جیسے مقدس علم کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا اور نہ ہی علوم قرآن و دیگر علوم کے ساتھ انصاف ممکن ہے۔ صیاح ستہ کی کتب، جو علم حدیث کی بنیاد ہیں، اکثر محض روایتی انداز میں پڑھائی جاتی ہیں۔ نتیجتاً، طلبہ حدیث کی روح اور مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، اور علم کی گہرائی و گیرائی کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

آئیے چند اہم خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

 

موجودہ تعلیمی نظام کی خامیاں

١. سرسری تعلیم کا رجحان:

 

موجودہ نظام میں حدیث کی تعلیم زیادہ تر سرسری طور پر دی جاتی ہے۔ بڑے مدارس میں چند مخصوص طلبہ جلدی جلدی عبارت پڑھتے ہیں، جبکہ باقی طلبہ محض سننے تک محدود رہتے ہیں۔ اور گلی کوچوں میں موجود دورہ حدیث تک کے مدارس کے طلبہ عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے، شاید اساتذہ کرام عبارت دُھرا کر کتب مکمل کرتے ہوں۔
اس عمل میں علم حدیث کی گہرائی اور فہم کی کمی ہوتی ہے، جو کہ علم حدیث کے حقیقی مقاصد کے برعکس ہے۔

 

 

٢. مدارس کی غیر معیاری تعلیم:

حالیہ برسوں میں مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، لیکن معیار میں واضح کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ بہت سارے مدارس کرایہ کے تین کمروں پر مشتمل ہیں، جہاں دورہ حدیث تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ صورتحال علم حدیث کی قدروقیمت کو کم کرنے کے مترادف ہے اور طلبہ کو گہرے علمی شعور سے محروم کر رہی ہے۔ بنات کے مدارس کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

 

اصلاحات کی ضرورت

علم حدیث کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، موجودہ تعلیمی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ درج ذیل تجاویز پیش کی جا رہی ہیں تاکہ علم حدیث اور دیگر دینی علوم کو بہتر انداز میں پڑھایا جا سکے:

 

١. بنیادی تعلیم کی مضبوطی:

میٹرک کے بعد درجہ رابعہ تک طلبہ کو صرف و نحو، فقہ، اصول فقہ، فلسفہ، منطق، بلاغت، ادبی عربی، حدیث و علوم حدیث اور قرآن و علوم قرآن کی بنیادی تعلیم دی جائے۔ ان علوم کی مضبوط بنیاد طلبہ کو آگے چل کر کسی بھی تخصص میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنائے گی۔

 

٢. تخصصات کا انتخاب:

درجہ رابعہ کے بعد طلبہ کو چار سال کسی ایک فن کی تعلیم دی جائے۔ مثلاً اگر کوئی طالب علم قرآن و علوم قرآن میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے مکمل چار سال اس فن میں تعلیم دی جائے۔ اسی طرح حدیث، فقہ، اصول فقہ، یا دیگر علوم میں تخصصات فراہم کیے جائیں۔ اور اسی میں ایم اے/ بی ایس (دورہ) کی ڈگری/ سند دی جائے۔

 

 

٣. معیاری مدارس کو اجازت:

تخصصات/ دورہ (ایم اے یا بی ایس) کی تعلیم اور اسناد جاری کرنے کی اجازت صرف بڑے اور مستند مدارس کو دی جائے۔ چھوٹے مدارس کو صرف درجہ رابعہ تک بنیادی تعلیم دینے کی اجازت ہو، تاکہ تعلیم کی معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔ کسی بھی گاؤں یا گلی میں موجود مدرسے کو رابعہ (انٹرمیڈیٹ) سے اوپر تعلیم دینے کی اجازت نہ ہو، تاوقتیکہ وہ حدیث، قرآن، فقہ یا کسی بھی فن میں چارسالہ اعلی تعلیم کے معیارات و شرائط مکمل نہ کرے۔ ہاں البتہ بڑے مدارس و جامعات میں تمام یا کئی ایک تخصصات/ دوروں کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

 

افادیت اور اہمیت

یہ اصلاحات نہ صرف تعلیمی معیار کو بہتر بنائیں گی بلکہ طلبہ کی علمی و عملی زندگی پر بھی مثبت اثر ڈالیں گی۔ طلبہ کو تخصص کے مواقع ملنے سے وہ اپنے منتخب کردہ میدان میں گہری مہارت حاصل کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ، علمی میدان میں تحقیق اور تنقید کی روایت کو فروغ ملے گا، جو کہ علم قرآن، علم حدیث، علم فقہ اور دیگر دینی علوم کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔

ان اصلاحات کی افادیت بہت واضح ہے۔ چند ایک کو مختصراً بیان کر دیتے ہیں۔

 

١.علمی پختگی:
طلبہ کو تخصصات کی تعلیم ملنے سے وہ ایک علمی میدان یعنی علم وفن میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ یاد رہے یہ اختصاص کا دور ہے۔ ایک فرد تمام علوم و فنون میں ماہر نہیں ہوسکتا ہے۔

 

٢.معاشرتی رہنمائی:
گہرائی سے علم حاصل کرنے والے علماء معاشرے میں رہنمائی کا کردار ادا کریں گے۔

 

٣.تحقیق کا فروغ:
تخصصات کی تعلیم طلبہ کو تحقیق اور تنقید کے میدان میں ترقی کرنے کے قابل بنائے گی۔ اور اپنے مخصوص علم یا فن میں انہیں تحقیق و تدقیق کا موقع ملے گا۔

افادیت کے ساتھ اہمیت بھی مسلم ہے۔ آخر اس طرح کیٹگرائز کرکے، خصوصی تعلیم دینا کیوں اہم ہے؟ اس سوال کا جواب بھی لازم ہے۔

 

١.دینی علوم کی حفاظت:
دینی علوم کے مختلف فنون کی گہرائی سے تعلیم دینا ان کی حفاظت اور فروغ کا سبب بنے گا۔

 

٢.طلبہ کی علمی قابلیت میں اضافہ:

طلبہ کی علمی قابلیت میں اضافہ ہوگا، جو کہ ان کی عملی زندگی میں بھی کارگر ثابت ہوگا۔ چار سال قرآن و علوم قرآن یا حدیث و علوم حدیث پڑھنے والا طالب علم ہی اسی میدان میں خدمت کرسکتا ہے۔

 

٣.معاشرتی اصلاح:

مستند علماء کی موجودگی معاشرتی اصلاح کا سبب بنے گی، جو کہ موجودہ دور کی اہم ضرورت ہے۔ لوگ مختلف علوم سیکھنے اور سمجھنے کے مشتاق ہیں مگر موجودہ فضلاء اس اشتیاق کو پورا نہیں کرسکتے۔

 

ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے مدارس میں آخری دورہ “حدیث شریف” کا ہوتا ہے۔ فقہ، قرآن، منطق و فلسفہ اور ادب عربی وغیرہ کا کوئی منظم و وفاق سطح کی تعلیم نہیں دی جاتی نہ ہی سند جاری کی جاتی۔ اور علم حدیث جیسا عظیم علم، جو کہ امت مسلمہ کی رہنمائی کا ذریعہ ہے، موجودہ نظام تعلیم میں اصلاحات کا متقاضی ہے۔ ان اصلاحات کے ذریعے نہ صرف علم حدیث بلکہ دیگر دینی علوم کی تعلیم کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کو گہرائی سے علم فراہم کر کے نہ صرف ان کی علمی قابلیت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ امت مسلمہ کو مختلف علوم و فنون میں مستند اور باصلاحیت علماء بھی فراہم کیے جا سکتے ہیں۔

 

یہ چند بے ربط باتیں حاشیہ خیال میں دوڑنے لگیں تو آپ سے شئیر کیا۔ آپ ان تمام باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ ان تجاویز میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں اور ان میں ترمیم و اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کا مقصد بہتری اور اصلاح ہونا چاہیے نہ کہ مدارس و جامعات پر بے جا تنقید و تضحیک۔ آئیے! اپنا خیال شئیر کیجئے۔ یہ مدارس ہم سب کے ہیں، اس لیے ان کی بہتری کی کوئی بھی کوشش قابل قدر ہے۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
98277