Chitral Times

Jan 23, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ۔ چرخے کی مال – محمد جاوید حیات 

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان ۔ چرخے کی مال – محمد جاوید حیات

چرخے میں مال کی حیثیت ایسی ہے کہ اگر کوئی چرخہ گھماۓ تو مال گھومتی رہتی ہے اس گھماٶ کی کوٸی اتنی اہمیت نہیں ہوتی حالانکہ اس کی اہمیت ہے ۔انسانوں میں بھی افراد چرخے کی مال ہوتے ہیں بس بے مقصد گھماٶ ان کی زندگی ہے ۔صبح اٹھے بن ٹھن کے نکلے گویا کوٸی ضروری کام ہو سارا دن پھرتے رہے شام کو لوٹے ۔۔۔زندگی ان کی اسی طرح گزرتی ہے ۔۔

سیاسی کارگزاریوں میں ایسے افراد کو لوٹا وغیرہ بھی کہتے ہیں بس یہ لقب سا ہوتا ہے اس سے ان پر کوٸی فرق نہیں پڑتا ۔اگر کوٸی انسان قوت ارادے اور قوت فیصلے سے عاری ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے یا تو اس کے پیشرو ایسے ہوتے ہیں اس لیے ان کے آگے اس کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی ۔حمایت اور حمیت دو معیار ہیں اس پر کم کم لوگ پورا اترتے ہیں ۔ جب ملک خداداد کی تخلیق ہورہی تھی تو اس کےحمایتی بھی تھے مخالف بھی ۔۔مخالف اپنی مخالفت میں ٹکے رہے حمایتی اپنی حمایت میں زندگیاں گنوا دیں پھر منظر بدل گیا لوٹوں کی کھیپ آٸی جہان کرسی وہاں لوٹے ۔۔جہان اقتدار وہاں بکے مال ۔۔ہم اچھے اچھوں کو پارٹیاں، نظریات اور بیانیے تک بدلتے دیکھے اس کچ روی کو ”وسیع تر مفاد“ کا نام دیا جاتا رہا ۔۔

ملک خداداد میں بڑی بڑی پارٹیاں ہیں بڑی بڑی پارٹیوں کے بڑے بڑے نام بڑے گندے پروفاٸل رکھتے ہیں ۔۔۔ایک پارٹی میں بڑا عہدہ تھا شان و شوکت تھی ۔۔عظیم تر مفاد میں دوسری پارٹی ” جاٸن “ کر لی اب کو ان سے کون پوچھے ۔۔اعتبار کرنے والے پوچھیں ۔۔حمایتی پوچھیں کوں پوچھے اور دوسری پارٹی بھی کمال کی کہ اس کو بڑا عہدہ دے ڈالتی ہے ۔اس سے نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ کسی پارٹی میں کوٸی آٸیڈیل نظم و ضبط نہیں اور ہر پارٹی کا کارکن ”چرخے کی مال “ پارٹی کے سربراہ نے گھمایا بس گھومتا رہا ۔۔اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ پارٹی لیڈر کے پاس سرمایہ ہونا چاہیۓ ۔وہ پارٹی میں کارکن کی کسی صلاحیت کو اہمیت نہیں دیتا بس اس کے پاس سرمایہ ہو ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ گندھی سیاست نہیں اگر سیاست خدمت ہے تو پھر اس کو سیاست کانام ہی نہیں دیا جاسکتا ۔کوٸی نظریاتی کارکن کہیں نظر نہیں آتا ۔مجھے اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب کسی دینی جماعت کا کارکن اپنی جماعت چھوڑ کر کسی اور حلقے میں شامل ہوتا ہے یہ کیسافیصلہ ہوایہ کیسا نظریہ ہوا۔۔الیکشن میں آزاد امیدوار بڑے طمطراق سے کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں ۔۔۔کامیاب ہونے کے بعد ہم اس پارٹی میں شامل ہونگے جس کی حکومت ہوگی ۔۔چلیں وہ حکومت ختم ہوگئی پھر اس نماٸندے کا مستقبل کیا ہوگا ۔وہ اسی طرح چرخے کی مال رہے گا ۔۔الیکشن مہم میں عجیب عجیب بیانیۓ سننے کو ملتے ہیں ۔بعض دفعہ ایسی اندھی حمایت کہ بندہ تماشا بن جاۓ ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
84824