Chitral Times

Mar 15, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ۔ پسماندہ چترال کا غیر سنجیدہ مینڈیٹ ۔ محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان ۔ پسماندہ چترال کا غیر سنجیدہ مینڈیٹ ۔ محمد جاوید حیات

 

چترال لازمی طور پر پسماندہ ہے لیکن شکر ہے کہ یہ علاقاٸی پسماندگی ہے ملک کے دوسرےحصوں کی طرح نہیں جن میں آج بھی لوگ نوابیت ،چودھریت، سرداریت کے شکار ہیں اور عام عوام کی زبان پر خان جی ،چودھری جی ،جی سائین وغیرہ کا ورد ہے ۔ان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کےپاس حق راۓ دیہی بھی ہے ۔وہ کسی کی حمایت یا مخالفت کرنے میں آزاد ہیں ۔چترال میں اگرچہ ووٹ کی قیمت رشتہ داریوں ،قوم قبیلوں کے اصطلاحات کا شکار ہوتا ہے مگر ہر کوٸی کھل کر کسی کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے ۔۔چترال کی بد قسمتی ہے کہ ملک میں جب بھی جمہوری حکومت آئی ہے یہاں سے نمائندوں کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ۔پہلی بات نمائندوں کے اپروچ کی کمی رہی شاید ان میں وہ صلاحیت کم تھی جو ایک وژنری لیڈر میں ہوتی ہے

 

دوسری بات ان مگرمچوں جو پارلیمنٹ میں ہیں ہم جیسوں کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے جو اپنی دولت، جاگیر اور معاشرتی سٹیٹس کی بنیاد پر ایوان میں پہنچتے ہیں ان کی ترجیحات میں بس زندہ باد اور پروٹوکول ہے ان کی جاگیریں ہمارے پورے ضلعے سے بڑی ہیں ۔۔غریبی ہماری بڑی مجبوری ہے ۔۔ہم طوطے ہیں پارلیمنٹ نقار خانہ ہے ۔چترال کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسا لیڈر بھی گزرے جس کے سامنےبڑا مسلہ لواری ٹنل تھا وہ پارلیمنٹ میں صرف ایک مطالبہ کرتا کہ” لواری سرنگ ” یہ فرغونان پارلیمنٹ ان پر بھپتیاں کستے ان کا مزاق اڑاتے اور ان کا نام تک” مسٹر سرنگ ” رکھے تھے ۔یہ أواز خلوص کی تھی جو رنگ لاٸی حکومت کی مجبوری اور وقت کا تقاضا اپنی جگہ لیکن لواری ٹنل تو بنی ۔

 

باقی آوازیں مصلحت کا شکار رہیں۔دو بار حکومتیں گریں قسمت نے کھیلواڑ کیا ۔ایک لیڈرشپ گٸ تھی جو بات کرنے کی بجاۓ کام کیا اچھے اچھے مفید پراجیکٹ لانے کی کوشش کی مگر ہم چترالی یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے ۔چترال کے بنیادی اور گھمبیر مساٸل ہیں ہمارے نمائیندے چھوٹے موٹے کام کرکے ان کے لیے شاباشی لینے کی متمنی رہے ہیں۔ان سے پوچھا جاۓ تو افسانے سناتے ہیں اور ” میں نے کیا “کا پہاڑہ پڑھتے ہیں ۔چترال کے بڑے مسائل میں روڈ ،بجلی نمایان ہیں ۔۔گیس پلانٹ بعد میں آتا ہے ۔کسی سے پوچھا جاۓ کہ ان مسائل کے حل میں تمہارا کردار کیا ہے تو سیخ پا ہوجاۓ گا

 

۔”تمہاری اتنے سالوں سے حکومت رہی ہے۔کارکردگی تمہارا کیا ہے “کہنے پہ وہ بہرا ہوجاۓ گا ۔۔ایک غیر سنجیدہ تبصرہ اور چیخ چاخ ہوگا تمہارا سوال صدا بہ صحرا ہوگا ہے ۔۔اگر ہمارے نمائندے چترال کی پسماندگی کو سامنے رکھتے ہوۓ اس کی خدمت کا سوچیں یا سوچتے تومنظر نامہ کچھ اور ہوتا ۔۔پارلیمنٹ میں حکمرانوں کے ساتھ ذاتی رابطے میں ہوتے ۔کہتے صاحب مجھے مدد اور رقم کی ضرورت ہے میں پسماندہ ہوں مجھے نعروں تبصروں،پارٹی پالیسیوں اور عہدوں میں مت الجھاٶ میری پسماندگی کا خیال رکھ ۔مجھے پراجیکٹ عطا کر ۔این جی اوز کی حوصلہ افزاٸی کر اوران سے میرے علاقے میں کام کرا ۔۔۔اقبال نے کہا تھا

اقبال بڑا اپیدشک ہے من باتوں سے من جاتا ہے ۔۔
گفتار کا غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا ۔۔۔۔

اب ایک اور المیہ آگیا ہے کہ پہلے کریڈٹ ایک فرد لینے کی کوشش کرتا تھا اب پورا گروپ سر پہ کفن باندھ کے میدان میں اترآتا ہے ۔اور انداز یوں ہے کہ اگر میں کچھ نہ کر سکا تو دوسرے کو بھی کرنے نہ دیاجاۓ۔۔ہم شروع سے ایک بات کاروناروتے رہے ہیں کہ چترال میں لیڈرشپ کو ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھنا چاہیے ۔۔سب کسی کونے کھدرے میں سر جوڑکے بیٹھ جاٸیں اور چترال کی پسماندگی کو سامنے رکھتے ہوۓ کوٸی لاٸحہ عمل طے کریں ۔ہر پارٹی والے ہر پارٹی والوں سے کچھ نہ کچھ فاٸدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔۔جو لیڈر اپنا سوچ کر خود جائیداد بنا کر خاموش ہو جاۓ وہ کم از کم لیڈر تو نہیں کہلاتا یہ بھی شکر ہے کہ ابھی تک چترال کا کوٸئ لیڈر کسی سنگین کرپشن میں مںبتلا نہیں پایا گیا اگر دامن تھوڑا سا گردالود ہےبھی تو خیر ۔۔۔۔کسی نے کہا تھا

اب اداس پھرتےہو برسات کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔۔۔

اب کی بار ایڈٸیل لیڈرشپ ہے صوبے میں ایک طبقے کی حکومت ہے وفاق میں بھی چترال کی بہترین نمائندگی ہے ۔نمائندوں کا ایک گروپ پارلیمنٹ میں ہے اگر کریڈٹ لینے کی دوڑمیں زقندیں بھریں گے تو چترال کی محرومی اسی طرح رہے گی ۔۔ان کو ایسی خدمت کرنی ہے جس طرح کوٸی راج مزدور مزدوری کرتا ہے ۔۔۔ ہر چترالی ان سے یہی توقع رکھتا ہے ۔اپنے مینڈیٹ کو سنجیدہ لیں ۔اپنےکام سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔۔قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے ۔۔خدمت میں اس وقت معیار آتا ہے جب خاموشی سے کی جاۓ کریڈٹ کے خیال کو دل سے نکال دیا جاۓ ۔۔۔جو کام کرے گا ہم اس کے ساتھ سب کو دعائیں دیں گے ۔۔۔چترال پسماندہ ہے لہذا اس کےمینڈیٹ کو سنجیدہ ہونا چاہیے ۔۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99225