Chitral Times

May 17, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ۔ “جنگ قومیں لڑا کرتی ہیں ” ۔محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان ۔ “جنگ قومیں لڑا کرتی ہیں ” ۔محمد جاوید حیات

 

جنگ کسی مسلے کا حل نہیں جنگ مجبوری ہے ۔۔اپنے مٹتے وجود کو مٹنے سے بچانے کی آخری کوشش کو جنگ کہا جاتا ہے ۔۔دنیا اس بات کا گواہ ہے کہ ہمیشہ انسانوں میں زبردست اور زیردست کی کشمکش جاری رہتی ہے ۔۔طاقت ور اور کمزور دو کردار ہیں ظلم اور نا انصافی دو احساسات ہیں ۔دنیا میں قومیں ابھرتی اور مٹتی رہی ہیں شرط صلاحیت ،جانفشانی اور غیرت ہے جس قوم میں یہ سب کچھ ختم ہوجائیں تو وہ مٹتی ہے ۔جس قوم کو رب ابھارنا چاہتا ہے تو اس کے اوپر پریشر ڈالتا ہے مسلسل جدو جہد سے یہ سخت جان بن جاتی ہے جل جل کر کندن بن جاتی ہے ۔۔فخر موجودات ص نے جس امت کی تربیت کی یہ اسی ٹرینگ سے گزری ۔۔پیٹ پر پتھر باندھے ۔۔

 

فاقوں سے دن کاٹے زندگی سے لڑے تب شیر کچھار سے باہر آیا اس کے اندر سے موت کا خوف نکال دیا گیا تھا وہ زندگی سے زیادہ موت سے پیار کرنے لگی تھی۔یہ دنیا میں زندہ قوموں کی تاریخ ہے ۔۔زندہ قومیں کردار سے زندہ رہتی ہیں بہت قدیم کو چھوڑ کر قیصر و کسری کی یہی تاریخ ہے رومیوں کے کردار کی مضبوطی نے ان کو پھر طاقت بخشی جس کی قران نےپیشن گوٸی کی تھی ۔۔ قوم کی مضبوطی کے لیے پڑوس دشمن بہت ضروری ہے جو ہمہ وقت قوم کو متحرک رکھتا ہے ۔بر صغیر کے مسلمان جب اپنے مثالی کردار سے عاری ہوۓ تو غلامی مقدر ہوگئی ۔۔

انگریزوں کی آمد کے بعد انہوں نے مسلم قوم کی مجرمانہ غفلت سے فائدہ اٹھایا یہی مجرمانہ غفلت تھی کہ زوال اس قوم کا مقدر بن گیا ۔مغل شاہنشاہوں اور ان کے خاندان کے بارے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے برطانیہ کے پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی کہ یہ لوگ رات کو شطرنج کھیلتے ہیں دن بارہ بجے اٹھتے ہیں پھر شام تک کبوتر بازی میں لگے رہتے ہیں ان کی صبحیں اس وقت پھوٹتی ہیں جب ہم اپنے کام ختم کر رہے ہوتے ہیں یہ ہماری تاریخ کی تلخ حقیقت ہے ۔ایک باکردار قوم کسی بھی أزمائش سے ٹکرا سکتی ہے ۔سیسہ پلاٸی ہوئی دیوار بن سکتی ہے ۔

 

اس جد وجہد کے لیے پہلے قوم کی تعمیر کرنی پڑتی ہے اس کے لیے لیڈرشپ کے بےمثال کردار کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب پاکستان کے لیے جد وجہد ہورہی تھی تو قائدین بھی باکردار تھے اور ان کے پاس باکردار قوم تھی جو ہمہ وقت قربانی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ان کے کردار میں صداقت ،امانت اور دیانت کی خوبیاں تھیں ۔وہ سچے کھرے تھے وہ اپنی قوم کے ساتھ مخلص تھے ۔وہ انفرادی طور پر ہر برائی سے پاک تھے ۔ان کا بیانیہ ،ان کا نعرہ ،ان کی جد و جہد اور ان کی منزل ایک تھی ۔تب جاکے وہ جنگ جیت گئی ۔اس پہ جتنی بھی آزمائشیں آئیں ان سے دھرانہ گزرے ۔۔انہوں نے بے سرو سامانی میں 1949 کی جنگ لڑی ۔۔1965 میں جنگ لڑی ۔قوم گواہ ہے کہ جنگ کے دوران بہنیں اپنے بھائیوں کے لیے محاذ پر ناشتہ پہنچاتی رہیں ۔۔

 

مائیں اپنی چادریں سنبھال کر محاذ پر پہنچ گٸیں ۔۔ابو کہانی سناتے کہ وہ ایک دور افتادہ گاوں میں مڈل سکول کے انچارج تھے کہتے کہ 65 کی جنگ کے دنوں میں ہر روز صبح کی اسمبلی کے بعد وہ طلبا کو لے کر قران کی تلاوت کرتے روز ایک بار قران ختم کرتے سترہ دن جنگ جاری رہی۔۔۔ انہوں نے سولہ بار قران ختم کیا ۔شاعروں نے شاعری کی جنگ لڑی ۔قلم کاروں نے قلم کا معرک سر کیا گلو کاروں نے بہادری کے گیت گاۓ ۔جوان بازوٶں نے بندوق اٹھایا ۔شیردل قبائل نے اعلان کیا کہ جنگ لڑنا دشمن کے بس کی بات نہیں ہم ان کو لڑنا سیکھائیں گے ۔یہ آزمائش سر سے ٹلی ۔1971 میں فوج نے نہیں بنگلہ دیشی قوم جنگ ہار گئی ۔وہ اپنی فوج کے پیچھے نہ تھی فوج کو پتہ بھی نہ چلا کہ وہ کس سے کس طرح کی جنگ لڑ رہی ہے ۔۔

 

دوسری جنگ عظیم جرمن قوم نے ہاری ۔۔چین کی آزادی میں قوم کا کردار ہے ۔روس کے زوال میں قوم کا کردار ہے ۔افغانستان میں طویل جنگ قوم نے جیتی ۔۔۔زندہ قوموں کی جنگیں ایک محاذ پہ نہیں ہوتیں ۔اس کو ہر محاذ پہ لڑنا ہوتا ہے ۔ان کے پاس معیشت کا محاذ ہوتا ہے ۔عدالت کا محاذ ہوتا ہے۔صداقت ،امانت اور دیانت کا محاذ ہوتا ہے ۔شفاف کردار کا بہت بڑا محاذ ہوتا ہےان محاذوں پر بہت بڑی جنگیں مسلسل لڑی جاتی ہیں ۔دوسری جنگ عظیم میں چرچل کو رپورٹ کی گئی کہ ہماری فوجیں مختلف محاذوں پہ جنگ مسلسل ہار رہی ہیں ۔چرچل نے کہا ۔۔

 

جاو عدالتوں اور تعلیمی اداروں میں جاکر دیکھو اگر استاذ اور جج اپنی جنگ کماحقہ لڑ رہا ہے تو ہم کبھی نہیں ہاریں گے ۔ہم بے شک ایک بہادر اور جنگ جو فوج رکھتے ہیں ہماری فوج کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہے یہ اس کی ٹرینگ ہے لیکن ہم بحیثت قوم کس مقام پہ ہیں ۔ہمارا کردار ،ہمارا اخلاق ،ہمارے معاملات ،ہماری نجی زندگیاں کیا برایوں سے پاک ہیں ۔کیا اس بہادر بیٹے کا باپ جو وطن عزیز کی سرحد پہ سینے پہ گولی کھاتا ہے اتنا ہی غیرت مند ہے جتنا اس کا بیٹا ۔۔کیا اس مخلص جوان کا باپ اپنے بیٹے کی طرح شاہین صفت ہے جو فضاٶں کا بادشاہ ہے ۔۔1965 میں فضاٶں کا شاہین ایم ایم عالم کی ماں روز اپنے بیٹے کے لیے دعا کرتی تھی یا اللہ میرے لخت جگر کو شہادت نصیب فرما ۔۔۔کیا آج کوئی ماں ایسی جرات کر سکتی ہے ۔ کیا فوج پر تنقید کرنے والے کسی مرد ناہنجار کا کریکٹر صاف شفاف ہے ۔کیا کرپشن سے پاک کوئی مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کے ملک کی بقا اسی کے کردار میں ہے ۔۔

 

کیا اس کو اس بات پہ یقین ہے کہ جنگیں باکردار قوم جیتا کرتی ہیں ۔۔آخر یہ سیسہ پلاٸی ہوئی دیوار کیا ہوتی ہے ۔قوم اس وقت سیسہ پلاٸی ہوئی دیوار بن جاتی ہے جب اس کا گارا مسلہ محبت اور احترام ہو ۔افراد قوم کی دیوار میں اینٹوں کی مانند ہیں ان کو مضبوطی سے جوڑنے والی (پیسٹ )محبت ہے جو ان کو مضبوط کرتی ہے ۔سرحد پہ فوج لڑ رہی ہوتی ہے ۔ چاہیے کہ پوری قوم ان کے پیچھے اپنی دعاٶں اور بے مثال کردار کے ساتھ کھڑی ہو ۔۔ اگر اس سمے دعاٶں کی بجاۓایوان میں ملک کے بڑے ایک دوسرے کو گالیاں بک رہے ہوں ۔عدالتوں میں انصاف کا جنازہ اٹھ رہا ہو۔ بازاروں میں کساد بازاری ہو ۔محکموں میں کرپشن ہو ۔گلی کوچوں میں ظلم کا بازار گرم ہو ۔۔کسی کی جان، مال ،عزت و آبرو محفوظ نہ ہو کیا وہ قوم جنگ جیت سکتی ہے وہ جیت کے قابل ہی نہیں ہے۔

ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا ۔۔مٹھی بھر یہودی پہلے معیشت کے محاذ پہ جنگ جیتے ہیں پھر بحیثیت قوم ان کا صرف ایک Narrative ہے گریٹ اسرائیل ۔۔۔اب وہ مست ہاتھی ہے ۔اگر ہم اپنا محاسبہ کرتے تو آج ہر محاذ پہ جنگ جیت گئے ہوتے ۔۔مودی نے صرف چند سال پہلے کہا تھا کہ میں بنگلور کو دنیا کا بڑا أٸی ٹی سنٹر بناٶں گا ۔بنا کے دیکھایا ہے ۔۔سائنس اور ٹیکنالوجی آج کی مجبوری ہے ۔۔ہمارے حکمران 77 سالوں میں ڈھنگ کا کوئی ایک ہسپتال کوئی ایک تعلیمی ادارہ عدالت کا کوئی نظام یہاں تک اپنے آئین اور قانون کی پاسداری نہ کر سکے ۔۔۔ہماری فوج اپنے محاذ پہ جگ جیتے گی ہمیں اپنے رب پہ بھروسا ہے لیکن

دوسرے محاذوں کا کیا ہوگا ۔۔اقبال نے کہا تھا ۔
جو شاخ نازک پہ اشیانہ بنے ناپائدار ہوگا ۔

بے شک یہ ملک ہمارا ہے لیکن اس کے لیے قربانی دینے والے کیا آسماں سے اتریں گے ۔۔۔۔ہمیں ذمہ داری ثبوت دینا ہوگا ۔۔جب ہم انفرادی طور پر سلجھ جائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہماری طرف دیکھنے کی جرات بھی نہیں کر سکے گی ۔

 

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
101945