Chitral Times

May 17, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ۔ امتحانی ہال اور ہمارا مستقبل ۔ محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان ۔ امتحانی ہال اور ہمارا مستقبل ۔ محمد جاوید حیات

امتحان ایک سنجیدہ جائزہ ہوتا ہے کسی بھی صلاحیت کو پرکھنے کا جائز جائزہ ۔۔۔اگر اس عمل میں تھوڑی سی بھی کوتاہی کی جاۓ تو اس صلاحیت کے ساتھ انصاف نہیں ہوپاتا ۔۔۔دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں کہ اس کا کوٸی نتیجہ نہ ہو نتیجے ہی پر کام کے معیار کا انحصار ہوتا ہے ۔ہمارے ملک خداداد میں دو عظیم المیے ہیں ایک یہ کہ صلاحیت (talent) کی قدر نہیں ہے دوسرا جائزے کا معیار نہیں ایک ایسا ملک جس میں کسی کو نوکری دیتے ہوۓ ،ذمہ داری سونپتے ہوۓ راہنما بناتے ہوۓ معیار کا بیڑھا عرق کیا جاتا ہے ایسا ملک کس بنیاد پر آگے جاۓ گا ۔۔میں امتحانی ڈیوٹی پر ہوں ۔۔۔ جب یہ سب کچھ سوچتے سوچتے امتحانی ہال میں داخل ہوتا ہوں تو اس میں موجود میرا مستقبل ڈگمگاتا ہے میں پریشان ہوتا ہوں میرے ارد گرد اندھیرا چھا جاتا ہے ۔

 

 

میرے ساتھ امتحانی عملہ ہے یہ ہیں ابراہیم صاحب ایچ ایم ہیں ۔۔یہ ہیں شبیر احمد خواجہ سی ٹی پوسٹ پہ ہیں یہ ہیں مولانا شہاب الدین قاری پوسٹ پہ ہیں ۔یہ ہیں شگوفہ انگریزی ادب میں ماسٹر ہیں اور اچھے استاذ ہیں ۔۔ان سب کے اپنے اپنے احساسات ہیں۔ میں جب امتحانی ہال میں داخل ہوتا ہوں تو وہ دیانت ،صداقت، امانت وغیرہ یاد آتے ہیں پھر یکلخت بھول جاتا ہوں ۔۔میرے سامنے موجود چہرے ان ساری صلاحیتوں سے خالی لگتے ہیں ۔۔میں خود ان صلاحیتوں سے خالی ہوں ۔۔میں استاذ ہوں مجھے خود ان کے چہروں پر خود اعتمادی کا رنگ بھر کر ان کو امتحان کے لیے تیار کرنا تھا۔۔۔میں نے ان چہروں میں خود اعتمادی کا رنگ نہیں بھرا ۔ان کے لہجوں میں صداقت کی مٹھاس نہیں بھر دی۔ان کو یہ نہیں پڑھایا کہ مہارتیں چوری نہیں کی جاسکتیں “تعلیم” حاصل کیا جاتا ہے چوری نہیں کی جاسکتی۔۔سب سے گھناونا جرم اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے ۔۔۔

 

یہ سارے چہرے مجھے غیرت سے عاری لگتے ہیں ۔مجھےفخر موجودات ص کی حدیث یاد آتی ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے پھر یکایک یاد آتا ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔مجھے أین سٹاٸین یاد آتا ہے معمولی کلرک کا ایک ارٹیکل چھپتا ہے پھر دوسرے لمحے ان کو اٹھا کر ایک لیب میں بٹھایا جاتا ہے خزانے کی چابیان اسکو تھمادی جاتی ہیں اس کے ٹیلنٹ کو موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ قاٸد اعظم کو ٹیلنٹ پہ ایمان تھا ۔۔مجھے یاد آتا ہے محمد علی جوہر انگریزوں کی انگریزی تحریریں درست کرتے تھے ۔۔مجھے یاد آتا ہے کہ سی ایس ایس کے امتحان میں خود پروین شاکر کی شاعری پر سوال آیا تھا اور وہ امتحان میں بیٹھی تھی ۔۔مجھے یادآتا ہے کہ علامہ المشرقی نے “صفر” پر اکسفورڈ یونیورسٹی میں دو دن تک لکچر دیا تھا لیکن ٹاپک مکمل نہیں ہوا تھا ۔۔

 

مجھے یاد پڑتا ہے کہ قدرت اللہ شہاب کے انگریزی کے استاذ نے ان کو سوکی جگہ 105 نمبر دیئے تھے پوچھنے پر کہا تھا ” کیونکہ میں اس سے زیادہ نہیں دے سکتا ہوں ۔۔مجھے شاہ ولی اللہ ،تقی عثمانی اور مولانا مودودی پاد آتے ہیں۔۔۔ یکایک پروفیسر خورشید احمد یاد آتے ہیں جن کا انتقال ابھی ابھی ہوا تھا ۔یہ سب کسی نہ کسی انداز سے اسی امتحانی عمل سے گزرے تھے ۔۔۔لیکن امتحانی ہال میں مجھے ان چہروں میں سے کوٸی ان جیسا چہرہ دیکھائی نہیں دیتا ۔۔میں افسردہ ہوتا ہوں ۔شگوفہ میری افسردگی سے پریشان ہوتی ہے ۔۔کہتی ہے سر ! اس میں ہمارا بھی قصور ہے ۔۔ہم مجرم ہیں ۔۔اس سمے مجھے اپنا وزیر اعظم ،صدر اور حکمران یادآتے ہیں ۔۔پھر مجھے وہ میرے ایم پی اے ایم این اے یاد آتے ہیں جن کو نہ ٹھیک طرح سے انگریزی آتی ہے نہ اردو أتی ہے نہ سیاست أتی ہے نہ درست طریقے سے تقریر کر سکتے ہیں ۔

 

 

پھر مجھے وہ سارے پرنسپلز ہیڈ ماسٹرز یاد آتے ہیں جن سے میں کبھی مطمین نہیں ہوا ۔۔پھر مجھے وہ سارے اساتذہ یاد آتے ہیں جن کو اپنی معلمی کی لاج رکھنے کا احساس تک نہیں ۔میں شگوفہ کی بات پہ کان دھرتا ہوں ۔۔۔میرے سامنے میری تربیت کیے ہوۓ پود ہیں میرے سینچے ہوۓ پودے ہیں ۔میں سوچتا ہوں کہ میں نے کلاس روم میں ان کو کیا پڑھایا ہے ۔۔ان کو کس صداقت کی درس دی ہے کونسی خودی پڑھاٸی ہے ۔کب ان کو پڑھاتے پڑھاتے تھکن سے چور چور ہو چکا ہوں ۔۔مجھے اپنی کلاس میں دیر سے جانا جلد نکلنا یادآتا ہے ۔۔بے جاچھٹی کرنا ان کا وقت ضائع کرنا یاد آتا ہے ۔۔اپنا طریقہ تدریس یاد آتا ہے ۔سکولوں میں کوٸی لیبارٹی نہیں کوٸی ساٸنس روم نہیں کوٸی ریسورس روم نہیں کوٸی پریکٹیکل نہیں ہوتا،کوٸی عملی کام ،انفرادی ،اجتماعی کام نہیں ۔بچوں کو نئی دنیا کے تقاضوں سے واقفیت کی صلاحیت نہیں ۔بچوں کی چھپی صلاحیتوں کا ادراک نہیں ۔

 

 

سکولوں میں جزا سزا اور سرزنش کا تصور نہیں ۔۔امتحانوں میں فیل پاس کا تصور نہیں ۔غیر حاضری کوٸی جرم نہیں ۔ہوم ورک نہ کرنا کوٸی قصور نہیں ۔باپ بچے کا نہ پوچھے تو کوٸی مضائقہ نہیں ۔۔ایم فل پی ایچ ڈی تک کاپی راٹنگ ہو بس ڈگری ملے ۔۔۔کسی کا تحقیقی مقالہ کسی کام کا نہیں ۔۔استاذ کا مسلہ تنخواہ بڑھانا ،تنخواہوں میں سالانہ اضافہ،امتحانی ڈیوٹی ،قریب سٹیشنوں میں تبادلہ ،اتفاقی اور استحقاقی چھٹیاں ۔کسی کی غمی خوشی میں شرکت ،گاٶں کے سماجی کام ،سیاسی وابستگیاں یہ سب یاد آتے ہیں ۔۔پھر کلاسوں کا خالی ہونا ،بچوں کا شور شرابا،موسمی حالات بے جا چھٹیاں ۔۔یہ سب یاد آتے ہیں ۔۔پھر یہ سارے چہرے جن کو کسی نے محنت کا درس نہیں دیا ۔۔ان کو یہ نہیں بتایا کہ زندگی گزارنے کی چیز نہیں یہ میدان کارزار ہے میدان جنگ ۔۔۔اس کو گزارو نہیں اس سے لڑو ۔۔Fightکرو ۔۔سارے چہرے مردہ ہیں کسی غیبی مدد کا انتظار کر رہے ہیں ۔کوٸی مدد ،کوٸی تباہی ان کا منتظر ۔۔۔جس کو وہ “تعاون” کہہ کر مطمین ہوجاتے ہیں ۔۔پھر یہ کیسا مستقبل ہوا ۔۔

 

اس ہال میں بدعنوانی سیکھاٸی جاتی ہے ۔۔ایمانداری کا جنازہ نکلتا ہے یہ بچہ جس کی رگوں میں دوڑنے والا گرم خون سرد پڑ جاتا ہے ۔یہ کل سی ایس ایس افیسر بنے گا ۔۔۔یہ ڈاکٹر بنے گا یہ کیسے بنے گا اس کی صلاحیتیں چوری ہوگئی ہیں ۔۔اس کا ٹیلنٹ بے موت مرچکا ہے۔۔اس کے سامنے جو استاذ کھڑا ہے یہ روبوٹ ہے ۔۔یہ ایمانداری کا عملی مظاہرہ کیوں نہیں کرتا ۔۔اس کی قیمت کھانے کی دعوت سے لگاٸی جا سکتی ہے۔۔ چاۓ پلاکےاحترام کا نام دیا جاتا ہے ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچی ہے ۔۔AI کا دور ہے ۔۔ساٸنسی ترقی عروج پر ہے ۔۔

 

ٹیکنالوجی نے قوموں کو غلامی سے اٹھا کر أقا بنا دیا ہے ۔۔استاذ سوچتا ہے کہ کیا اس کے پاس صرف دعا رہ گئی ہے ۔ان کے امتحانی ہال میں کسی کے چہرے پر ساٸنسدان کی عظمت کی روشنی نہیں پھیلتی ۔۔صداقت اور ایمانداری کا جھومر کسی کی پیشانی پر نہیں ۔۔پروفیسر عالمزیب کی آواز آتی ہے ‘ بچو ! نقل نہ کرو ۔۔جب نقل نہ کروگے تو ایک سال کے لیے فیل ہوجاؤ گے اگر نقل کرو گے تو ساری زندگی تباہ ہو جاۓ گی”۔۔شگوفہ ہمارا مستقبل کا کیا بنے گا ۔۔۔۔سر ! اس سوال کا جواب میرے پاس بھی نہیں ۔۔۔۔ أگے سوچتا ہوں تو میرے سارے امتحانی عملے کےپاس بھی نہیں ۔۔۔

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگین ہوا۔۔۔۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
101300