Chitral Times

Mar 21, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ۔”آخر زمہ داری کس کی ہے؟ ” ۔محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان ۔”آخر زمہ داری کس کی ہے؟ ” ۔محمد جاوید حیات

 

عرصہ ہفتہ دس دن پشاور میں رہنے کا موقع ملا ۔پشاور کی گلی کوچوں ،سڑکوں فٹ پاتھوں ،شاپنگ مالز ،دفتروں ،ہسپتالوں مسجدوں ،ہوٹلوں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔۔جہان جاو لوگوں کا ایک اژدھام ہے ۔۔افراتفری ۔۔ہر ایک اپنے دھن میں مگن ۔۔ایک طبقہ اشرافیہ کا بھی ہے ان کو عام انسانوں کی پرواہ ہی نہیں ۔۔وہ اور ان کے گھر والے اپنے آپ کو سب انسانی کمزوریوں ،تکالیف اور مجبوریوں سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔۔جو سردرد لے کے ڈاکٹر کے کلینک کے سامنے سر پکڑ کے اپنی باری کے انتظار میں ہے کسی بڑے کو یہ نظر ہی نہیں آتا یا تو بڑے کے پاس گویا سر نہیں اگر سر ہےبھی تو کبھی اس میں درد نہیں اٹھتا۔

 

حقیقت بھی یہ بھی اسی ریاست کا باشندہ جس کا باشندہ یہ بیمار ہے۔اگر یہ ملک فلاحی ریاست کہلاتا ہے تو یہاں پر کوٸی زمہ دار ،کوٸی قانون اور اصول بھی ہونا چاہیے ۔وہ سر پکڑا ہوا بیمار بھی قانون کا پابند ہو اور وہ بڑا أدمی بھی ۔۔معاشرہ ویسے بھی ایک بے ربط اجتماع ہوتا ہے ۔۔مسائل اور تکالیف کی اماجگاہ ۔۔لیکن فلاحی ریاست میں ان مسائل کا ادراک کیا جاتا ہے حکمران ان کا زمہ دار اور ان کے لیےاللہ کے حضور جواب دہہ ہوتا ہے ۔پشاور میں اپنے خوابوں کے شہر میں گھومتے ہوۓمجھے جن بڑے مسائل کا ادراک رہا ان میں سے ایک صفاٸی ستھراٸی کامسلہ تھا اگر ہم میں شعور ہوتا تو یہ کوٸی بڑا مسلہ نہ تھا اگر ہم شہر میں گند پھیلا سکتے ہیں تو اس کو صاف بھی رکھ سکتے ہیں جو ہاتھ کاغذ کا ٹکڑا راستے میں پھینک رہا ہے وہی ہاتھ یہ ٹکڑا کسی ڈسٹ بن میں بھی پھینک سکتا ہے ۔۔

 

ولی سوات کے بارے میں قصمہ مشہور ہے کہ وہ جمعہ پڑھنے گھر سے نکلے دیکھا کہ ایک بندہ راستے میں کھڑے ناک صف کر رہا اس آدمی نے ولی کو دیکھا اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے دوڑ لگایا ۔۔۔ایک مسجد کے اندر داخل ہوا اور ایک صف میں جا کر بیٹھ گیا ۔۔ولی نے ان کے کپڑوں کے رنگ کو نوٹ کیا تھا سیدھا اس کے پیچھے مسجد گیا اس کو صف سے اٹھایا سب کو اس کی غلطی بتاٸی اس کو باہر لاکر وہی معمولی گندگی صاف کرایا اسی کو معیار کہتے ہیں ۔۔ہم اگر خود نہیں سدھرتے تو سدھارنے والا کوٸی ضرور ہو ۔۔پشاورشہر ولی سوات والے اس معیار کا محتاج ہے اس کو ایسے باشندے چاہیں کہ وہ اس کو دلہن کی طرح سجا کے رکھیں ۔۔دوسری رلا دینے والی چیز یہ تھی کہ شام ہوتے ہی دیواروں کی ساتھ لگے گندگی میں قوم کے بچے، بڑے بوڑھے نشہ کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر انسانیت کی اس تزلیل پر رونا آتا ہے ایسا خوبرو جوان جو ہر لحاظ سے بے مثال ہے نشے کی لت نے اس کو تباہ و برباد کر دیا ہے ۔۔

 

ان کے بارے میں جس سے پوچھو بڑی حقارت اور لا پرواہی سے کہے گا ۔۔۔یار پوڈر والے ہیں ۔۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ان تباہیوں کی روک تھام کیسی ہو ۔۔یہ چند لوگ ہیں کیا ریاست ،حکمران اور معاشرے کے اشرافیہ کے پاس ایسے وسائل نہیں کہ اس لعنت کو معاشرے سے دور کیا جاۓ ۔۔اس پر سنجیدگی سے ہم سوچتے کیوں نہیں ۔۔۔یہ پوڈر کہاں سے آتا ہے کہاں فروخت ہوتا ہے یہ لوگ کس کے ہاتھ لگتے ہیں ۔یہ دشمن قوم کون ہے ۔یہ بچہ جو نشے کی لت میں گرفتار ہے کیا یہ ریاست کا بیٹا نہیں اگر کوٸی بڑا أدمی ،کوٸی زمہ دار أفیسر کوٸی فرض شناس شہری اس سمے یہ سوچے کہ خدا نخواستہ یہ اس کا بیٹا ہوتا تو اس پر کیا بیتتا ۔

 

یہ ہسپتال ،یہ فلاحی ادارے کس لیے ہیں بلکہ ہمارے گھر ،ہماری جیب میں پیسے ،ہماری تنخواہیں کس لیے ہیں ۔کیا ہمارا نشٸ نہ ہونا ،ہمارا بیمار نہ ہونا ہمارا کمال ہے یا اللہ کا ہم پر خاص انعام ہے اس پر سوچنا چاہیے اگر ہم اس مصیبت کا سامنا کریں ہمارا کوٸی عزیز اس عادت میں گرفتار ہو تو کیا ہوگا ۔۔۔اگر ریاست سنجیدہ ہو تو کوٸی مشکل نہیں ۔صرف اپنی پولیس کو متحرک کرے ۔اہداف مقرر کرے ۔۔اپنے معالجیں کو کام سونپے ۔اپنے صحت کے مراکز کو مرکز مقرر کریں ۔نشے کی چیزوں کے دھندے کرنے والوں کی گردنیں اڑا دیں تب قلیل عرصے میں سارا کچھ اچھا ہوگا ۔ہم انسان ہیں لیکن ہمارے ارد گرد انسانیت کی اس طرح بے قدری ہورہی ہےگویا کہ ہم احساس کھو چکے ہیں ہم مردہ ہوچکے ہیں ۔۔۔۔شہر پشاور زندہ دلوں کا شہر ہے چند خداترس نوجوان بھی اٹھ سکتےہیں۔۔۔ تہیہ کر سکتے ہیں انسانیت کی خدمت کر سکتے ہیں اور اپنے شہر کو اس لعنت سے پاک کرسکتے ہیں ۔۔۔۔
#. . . . احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
انچل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99443