Chitral Times

Mar 21, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان -“لایف سٹائل ” -محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان -“لایف سٹائل ” -محمد جاوید حیات

بڑے أفیسر کی بیوی کو ایک پارٹی میں جانا ہے اس پارٹی میں اس کے علاوہ بھی بڑے بڑوں کی بیویاں اور صاحب لوگ مدعو ہیں۔۔۔پارٹی میں جانے کی تیاری میں صاحب کی بیوی نیدو دو گھنٹے لگاٸی ہیں۔۔کونسا جوڑا پہنا جاۓ، کونسے زیور ہوں کیسی پرفیوم ہو۔۔جوتوں کا رنگ۔۔۔گھڑی انگوٹھا۔۔۔ان کو دوسروں کو متاثر کرنا ہے۔۔۔لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔۔۔صاحب کی بھی یوں ہی کچھ تیاری ہے ہر چیز قیمتی۔۔۔اس لیے کہ دیکھانا ہے۔۔۔متاثر کرنا ہے۔۔۔اپنی شخصیت،اپنا سٹیٹس۔۔اپنے مقام کا خیال رکھنا ہے۔۔۔گوشت پوست کا انسان۔۔۔وہی پانچ فٹ قد۔۔۔۔وہی ہاتھ پاٶں۔۔۔وہی اکھیاں کان۔۔۔وہی بال بخیۓ۔۔۔وہی جسم اور جسم کے اعضاء۔۔ وہی نظام انہظام،نظام تنفس،۔۔۔دل کی وہی دھڑکنیں۔۔۔دیکھنے کی وہی صلاحیت۔۔۔اگر پارٹی میں چھینک آجاۓ تو اس کو روکنے کی قوت نہیں۔۔۔وہی اگر واش روم جانے کی حاجت ہو تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں پارٹی میں ہوں بعد میں جاٶں گا۔۔۔دو دن کی زندگی کی اتنی تیاریاں۔۔۔۔دوسری طرف آدمی کی ایک اور بھی قسم ہے۔۔۔۔۔ جھونپڑی کی چھت گرنے ہی والی ہے۔۔۔

 

بارش شروع ہے۔۔۔ چھت ٹپک رہی ہے۔ جھونپڑی میں جلانے کی لکڑیاں بھی نہیں۔۔۔بچے بھوکے ہیں۔۔۔بیوی نے آج دیہاڑی سے واپس آنے والے خاوند سے پوچھنے کی جرات بھی نہیں کی کہ دیہاڑی لگی کہ نہیں۔۔ خاوند بھی یہ بتانے کی جرات نہیں کی کہ آج دیہاڑی نہیں لگی۔۔۔ان کیجوتے پھٹے ہیں چار سال پرانے ہیں۔کپڑوں کے چیھتڑے نکلے ہوۓ ہیں۔۔بچوں کے کپڑوں، جوتوں اور تعلیم کی فکر ہے۔۔ کل بازار میں شام ڈھلے ایک بچے کو جوار کے بھنے ہوۓ سٹے بھیجتے ہوۓ دیکھ کر تڑپ اٹھا تھا اس کے اپنے بچے کی عمر کا معصوم پیارا سا بچہ۔۔۔بچے پرندوں کی طرح شام کو گھر آتے ہیں۔۔ لیکن یہ بچہ اپنے گھونسلے سے باہر ہے یہ أدم زاد،یہ اشرف المخلوقات گھونسلے جانے کی بجاۓ اب بھی رزق کی تلاش میں ہے باقی سارے پرندے اپنے بیٹ بھر کے مطمین لوٹے ہیں۔۔۔آج انھوں نے بازار میں بچے کو تھیلی میں مٹھاٸی رکھے بھیجتے ہوۓ دیکھا تھا تڑپ اٹھا تھا۔۔۔مٹھاٸی تو بچے کی مان ہوتی ہے شدید خواہش۔۔۔یہ بچہ اپنی آخری خواہش بھیج رہا تھا۔۔

 

اس نے عظیم مصنف نجیب محفوظ کا یہی جملہ اپنے استاذ سے سنا تھا۔ کہ آج بچہ بازار میں مٹھاٸی نہیں اپنی زندگی کی سب سے پیاری ارزو بھیج رہا تھا۔۔گھر پہنچنے کے بعد سوچا تھا کہ یہ گھر ہے۔۔۔۔ یہ زندگی ہے۔۔۔اس نے زندگی کی کوٸی اور تشریح سنی تھی۔۔خوراک،پوشاک، گھر۔۔۔ایک بار استاذ نے کلاس روم کی بلیک بورڈ یہ شعر لکھا تھا اور بڑے درد سے اس کی تشریح کرکے کہا تھا کہ بچو! گھر مکان کو نہیں کہتے۔۔ عمارت گھر نہیں کہلاتی۔۔۔اگر جھونپڑی میں بھی سکون ہو وہ جھونپڑی گھر کہلاتا ہے اگر کوٹھی کے اندر بے سکونی ہو تو وہ گھر نہیں کہلاتا۔۔۔شعر یوں تھا۔۔۔۔

#… میرے مولا مجھے اتنا تو معتبر کردے۔۔۔۔۔
میں جس مکاں میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے۔۔۔۔

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جاۓ تو زندگی کی حقیقتیں ایک جیسی ہیں۔بیماری دونوں قسم کے انسانوں کی مشترک ہے۔۔بھوک پیاس دونوں کی مشترک ہے۔بنیادی انسانی حاجات دونوں کی مشترک ہیں۔البتہ ایک زربفت و کمخواب پہنتا ہے اور ایک پھٹے پرانے کپڑوں میں ہے۔۔۔ایک جھونپڑی میں رہتا ہے ایک محل میں۔۔۔ایک ساری زندگی عیاشیاں کرتے تھکتا نہیں اگر مر مر کے جیتا ہے۔لیکن انجام دونوں کے چھ فٹ کی زیر زمین کھڈ میں سونا ہے۔دونوں کے اعضا ایک جیسے ہیں جس کی سانس چلتی ہے وہ زندہ ہے جس کی رکتی ہے وہ مر جاتا ہے۔چاہیے تھا کہ لاٸف سٹائل ایک جیسا ہوتا۔۔۔۔انسان کے علاوہ ساری مخلوقات کی لاٸف سٹائل ایک جیسی ہے۔۔کوئی مغرور،کوئی دولت مند کوئی لاچار نہیں۔کوئی بادشاہ،کوئی وزیر کوئی فقیر نہیں۔۔۔شاعر نے سچ کہا۔۔۔
#.. خدا نے کیوں دل درد اشنا دیا ہے مجھے۔۔۔۔۔۔
اس أگاہی نے تو پاگل بنا دیا ہے مجھے۔۔۔۔

ایک بار لاٸف سٹائل ایک جیسا کرکے دیکھایا گیا ہے دنیا جنت بن گئی تھی۔۔پوری سلطنت میں زکواة خیرات لینے والا کوئی نہیں تھا۔۔حکمران بھی وہی کچھ کھاتا پیتا اور پہنتا تھا جو رعایا کھاتی،پیتی،پہنتی تھی۔۔حکمران کے کپڑوں پر پیوند تھے۔۔۔ان کا سرعام احتساب ہوتا۔۔دنیا نے جنت کے یہ مناظر دیکھی ہے۔۔لیکن وہ امت خواب ہوگئی۔۔۔آج اسی امت کے افراد میں آسمان زمین کا فاصلہ ہے۔۔۔انسان جتنا رنگینیوں میں کھو جاۓ غیر سنجیدہ ہوتاجاتا ہے۔۔۔قران نے انسان کو یاد دیلایا۔۔ان کے دل ہیں حق سوچتے نہیں۔۔آنکھیں ہیں حق دیکھتے نہیں۔کان ہیں حق سنتے ہیں۔۔وہ چوپاۓ ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔۔۔۔۔آج اگر عورت ناخن بڑھانے،بال سنوارنے،میک اپ کرنے اور ننگی پھرنے کو لاٸف سٹائل کہدے تو اس کی کیا تعریف ہو سکتی ہے۔۔۔۔ایک دن آۓ گا کہ دنیا کی ساری لذتیں،آساٸشیں،عیاشیاں اور سٹائل چھین لیے جائیں گے۔۔وہ قیمتی کپڑے بھی اتارے جائیں گے اور وہ پھٹے پرانے بھی۔۔۔کفن کے کپڑے دونوں کے ایک ہی قیمت کے ہوں گے۔۔قبر کا سائز وہی ہوگا۔۔۔کفن دفن کے رسمات وہی ہوں گے۔۔دو چار دن خویش و عقارب افسردہ ہوں گے پھر وہی قہقہے بلند ہوں گے۔۔۔۔۔

 

#. چو آہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ بر روۓ خاک

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99796