Chitral Times

Mar 15, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان -“رشتوں کے المیے”- محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

دھڑکنوں کی زبان -“رشتوں کے المیے”- محمد جاوید حیات

 

ایک پر خلوص سیاسی کارکن نے بڑے درد سے فرمایا۔۔۔۔بھاٸی سارے ووٹ منگے بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔۔۔ایک ممبر ووٹ مانگنے کی مہم جوٸی میں مجھے پل پل ساتھ رکھتے رہے کٸ وعدے وعید،میرے احسانات نہ بھولنے کا وعدہ،مجھے ساتھ رکھنے کا وعدہ، میرا ہر مسلہ حل کرنے کا وعدہ۔۔ سارے وعدے انتخابات کے نتاٸج تک رہے پھر ممبر موصوف سب کچھ بھول گئے اب میری کال کا جواب بھی نہیں دیتا گویا کہ میں اجنبی ہوں اور وہ مجھے جانتا تک نہیں۔۔۔میں نے عرض کیا حوصلہ رکھو یہ المیہ سب کے ساتھ ہے البتہ ہماری کوتاہی ہے کہ محبت اور نفرت میں کچھ چھوڑتے نہیں محبت بھی ٹوٹ کر کرتے ہیں اور نفرت کا انداز بھی ایسا ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ سارے تعلقات کسی لالچ تمع کی بنیاد پر ہوتے ہیں بے لوث نہیں ہوتے۔۔۔۔

 

بھاٸی بظاہر انسانوں کا یہ معاشرہ پتھر کا بھی بن جاتا ہے انسان بڑا بے وفاواقع ہوا ہے یہ وفا وفا کی لفاظی کرتا ہے اگر نفرت پہ اتر آۓ تو بھاٸی بھاٸی کا گلہ کاٹتا ہے باپ کے سینے میں گولی اتارتا ہے۔۔۔لخت جگر کو چھلنی کر دیتا ہے ذرا اپنے ارد گرد دیکھیں۔۔۔بھاٸی دنیا میں سب سے مضبوط رشتہ ماں کا ہوتا ہے ان کے بھی اگر دو بیٹے ہوں ایک أفیسر دوسرا بے روزگار ہو تو ماں جی أفیسر کو بیٹا اور بے روزگارکو لونڈا کہتی ہے۔بھاٸی دنیا میں رشتوں کے بڑے المیے ہیں معاشرے میں رشتوں اورتعلقات کی جنگ ہمیشہ جاری ہے یہاں سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔۔انسان کو معاشرتی حیوان نہیں ہونا چاہیے تھا اکیلا رہتا کسی کو گلا شکوہ کیا کرتا۔۔نہ کسی پہ بوجھ بنتا اور نہ کسی کا بوجھ اٹھاتا۔۔۔سب سے فضول رشتہ سیاسی رشتہ ہے۔یہ مکھڑی کا جالا ہے اس کی کوٸی حیثیت نہیں ہوتی۔۔۔

 

ہٹلر کا مشہور قول ہے کہ عوام نعروں سے آسانی سے بے وقوف بناۓ جاسکتے ہیں۔۔ہاں اگر لیڈرشب مخلص ہو تو اس کے ساتھ پیار کا بھی مزہ ہے ورنہ ضائع ہوجاوگے وہ آگے حمایت کو اپنا حق سمجھے گا اور فرغون بن جاۓ گا۔۔۔بھاٸی کا رشتہ دوسرا فضول رشتہ ہے۔اگر بھاٸی کسی لحاظ سے دوسرے بھاٸی سے اچھا اور برتر ہو تو تباہی ہے یہ کسی لحاظ سے کمتر بھاٸی ساری عمر کڑھتا رہے گا نہ رشتہ جوڑ سکے گا نہ رشتہ توڑ سکیگا اس ناٹک میں عمر گنوا دے گا۔۔بچوں کا رشتہ انسان کی مجبوری ہے کوٸی اپنے جسم کے ٹکڑے کاٹ کر پھینک تو نہیں سکتا۔۔
** کس طرح ترک تعلق کا میں سوچوں تابش۔۔۔
ہاتھ کو کاٹنا پڑتا ہے چھڑانے کے لیے۔۔۔

 

دوستی کے رشتے سارے عرض پہ انحصار کرتے ہیں اس لیے ضرب المثل ہے کہ دوست وہ جو مصیبت میں کام آۓ۔میرے بھاٸی توقعات کے سمندر میں غوطہ مت لگاو۔۔۔ہمارے سیاسی لیڈروں کے پاس وہ معیار ہی کہاں ہے کہ وہ اپنے کارکن کا احترام کریں۔۔۔یہ کلچر تقریبا بٹھو سینیرتک آکر ختم ہوگیا ہے اب کارکن کیڑے مکوڑے ہیں ان کی راۓ کی کوٸی اہمیت نہیں۔۔ان کی حمایت فضول لگتی ہے۔ان کا ہونا کوٸی اہمیت نہیں رکھتا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے جذباتی ہوتے ہیں اپنے لیڈروں کی غلطیاں ہمیں نظر نہیں أتیں۔یہ ہمارے نزدیک دودھ کے دھلے اور بیمثال ہوتے ہیں۔اس لیے ہمارا انتخاب ناقص ہوتا ہے ہماری عقیدتیں اکارت جاتی ہیں۔۔ہماری محبتوں کا قتل ہوتا ہے۔شکوہ کرنا بہادری نہیں اس مت شکوہ کر یہ اس کا معیار ہے جو آپ کو بھول گیا ہے یہ رشتوں کے المیے ہیں۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
99326