دوغلے – شہذاد احمد خان
دوغلے – شہذاد احمد خان
چند روز قبل ایک نہایت ہی پڑھے لکھے اور معاملہ فہم دوست نے فرمائش کی کہ کچھ دور تک اُن کے ساتھ چہل قدمی ہو جائے۔تو میں نے بلا جھجک اس صحبتِ گراں قدر کے واسطے ہامی بھرلی ۔واپسی پر اُن کے ساتھ اِن فارمل سی گفگتو ہو رہ تھی کہ بات چل پڑی ہمارے معاشرے کے جنسی مسائل اور موجودہ دور کے زن و فرزندانِ اسلام کے جذباتی پن اور بے رہروی کی طرف۔ انھوں نے اپنے سر گزشتہ اور کچھ چشم دیدہ واقعات بتاۓ اور نشاندہی کی کہ ان واقعات کے پسِ منظر میں یہ یہ وجوہات اور خامیاں کار فرما ہیں۔ جن سے میں نے اتفاق کیا اور کہیں اختلاف۔ میں نے بھی کچھ اہم نکتوں کی پھیکی سی وکالت کی، جن میں معاشر ے کے بے تکے رسم و رواج، روایات اور اسلامی تعلیمات و احکامات سے لا علمی، جس کی وجہ سے نکاح مشکل اور زنا کا آسان ہونا، نوجوان اور دوشیزہ کی پسند نا پسند یا مرضی کے بر عکس بعض اوقات، والی کی ناجائز دخل اندازی شامل تھیں۔ العرض، جو باتیں اس حوالے سے میری کھوپڑیا میں یکجا ہوئیں ہیں، میں نے سوچا کہ اُنھیں چند سطور کی شکل میں لیکر آپ قارئین کرام کے سامنے رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔حالانکہ اِن پیچیدگیوں کا ادراک کم و بیش سب کو ہوتا ہے لیکن کھل کر بحث نہیں ہوتی۔
ایک فلسفی کہتا ہے ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں، یا ہمارے مقامی اکثر شعراء کو سن لیں تو اِنکا کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، حسرتوں، اور پچھتاووں کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔ آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت چاہے شٹل کاک بُرقعے میں ہی ملبُوس کیوں نہ گُزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ دورانِ گُفتگو، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں بَکیں گے۔
آپ مذہبی مُبلغین و عُلما کے بیانات بھی سُن لیں، اِن میں بہتر72 حُوروں کے نشیب و فراز کے سائز پر سیر حاصِل روشنی ڈالی گئی ہوگی۔ آپ پاکستان کے ڈرامے، ناول، ڈائجسٹ، فلمیں بھی دیکھ لیں، یہ عِشق معشوقی، اور لو افئیرز کے اِرد گِرد گھوم رہے ہوں گے۔ آپ ہر روز اخبار بھی پڑھ کر دیکھ لیں، کِسی ن نے م بی بی کے ساتھ یا کِسی ف نے کِسی ش بی بی کے ساتھ زیادتی بھی کی ہوئی ہوگی، ننھے بچے حتیٰ کہ قبر میں زن کی عزت بھی محفوظ نہیں مِلے گی۔ آپ کو کہیں سائینسی ڈاکومنٹری، مریخ پر زندگی، یا روبوٹس کا تذکرہ نہیں مِلے گا، کوئی سیرت النبی(ص)، مجاہد کی آزاں، مسلم سائنسدان، آئینسٹائین، یا فلسفہ پر گفتگو کرتا نہیں مِلے گا۔۔۔۔یہ کیا ہے؟ یعنی انگریزی میں (زور دیکر اور کندھے اچکا کر)?WHAT. IS. THIS کیونکہ ہم “اُن”سے متاثر پاۓ جاتے ہیں لہذا اِس میں اثر بہت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ «میرا دین تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے ہے»۔ لہذٰا خالص مسلم امت کو اقوام عالم کی امارت کرنا تھی۔ جس کی بنا پر درج زیل بیرونی پیدا کردہ اصول آج ہمیں فالو نہ کرنا پڑتا۔
ایک ایسا دور اور معاشرہ جہاں شادی کرنے کیلیے ایک مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے تعلیمی ڈگریوں کے انبار، نوکری، گھر، گاڑی، بینک بیلنس بنائے، تاکہ جب جوانی اختتام پذیر ہو، تب شادی کا سوچے، یعنی اپنی آدھی سے زیادہ عُمر کنوارا گھومتا رہے۔ لڑکیوں پر جہیز کا بوجھ الگ۔ اگر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنسی تسکین ایک بُنیادی اِنسانی ضروت ہے، اور جب تک انسان کی یہ بنیادی ضروت پوری نہ ہو، انسان دیگر تخلیقی کاموں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتا، ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہے، تو ہم یہ حقیقت ماننے سے انکاری کیوں ہیں؟ ہم کب تک نیوٹن، آئینسٹائین، بِل گیٹس کے بجائے شاعر، مجنوں، رانجھا، اور غمزدہ نسلیں پیدا کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک زندگی کے چار میں سے دو دن آرزو اور باقی کے دو دن انتظار میں گزارنے پر نوجوانوں کو مجبور کرتے رہیں گے؟
ہم کِس سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ کیسا نظامِ زندگی ہے جہاں بُنیادی اِنسانی ضروریات کے اظہار، اور تکمیل پر پابندی ہے، گھُٹن ہی گھُٹن ہے؟ جب سچائی اور حقیقتوں کے اظہار کے تمام دروازے بند کر دئے جائیں، تو ہوتا تو تب بھی سب کُچھ ہے، مگر مُنافقت کے پردہ میں، ہر شخص فرشتہ صفت ہونے کا دعویدار بن جاتا ہے، اور ڈھونڈنے سے بھی کہیں کوئی اِنسان دِکھائی نہیں دیتا۔