دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں…. قادر خان یوسف زئی
دنیا کو اصل خطرہ تباہ کن جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے ہے۔ خطرناک جوہری تباہ کن ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے”سنجیدگی“ کا اندازہ،جاپان
کی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے میں اپنے فروعی مفادات میں جداگانہ موقف رکھتے ہیں۔ گو کہ اسمبلی میں ووٹ دینے کا حق رکھنے والے 180 سے زیادہ ممالک میں سے 160ملکوں نے اس قرارداد کو منظو کیاتاہم روس اور چین نے مخالفت کی اور امریکا نے اجلاس سے غیر حاضر رہا۔ واضح رہے کہ قرارداد کو جوہری ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق معاملات سے نمٹنے والی اسمبلی کی اول کمیٹی نے گزشتہ ماہ منظور کیا تھا۔ برطانیہ اور فرانس نے قرارداد کی حمایت کرچکے ہیں۔ لیکن سلامتی کونسل کے تین ممالک کے فیصلے کوکئی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ قرارداد میں دنیا بھر کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی غرض سے بین الاقوامی برادری کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ جوہری ممالک پر ان کی جوہری پالیسی کے حوالے سے شفافیت اور باہمی اعتماد میں اضافہ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
.
جوہری ہتھیارکی بھیانک نتائج سے پہلی بار اُس وقت دنیا آگاہ ہوئی جب جنگ عظیم دوم میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرایا۔ پہلا ایٹم بم 6 اگست 1945 کو جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا اور تباہ کن جوہری ہتھیار کا نام ’ لٹل بوائے ‘ رکھا گیا، جبکہ دوسرا جوہری بم اس کے تین روز بعد دوسرے جاپانی شہر ناگاساکی پر گرایا گیا، اس کا نام’ فیٹ مین‘ تجویزگیا تھا۔ اس مہلک اور مہیب اسلحہ کے استعمال نے لاکھوں انسانوں کو تو آن کی آن میں ہی فنا کر دیا اور بعد میں اس تعداد میں مزید ہلاکتوں سے اضافہ ہوتا رہا اور اس تباہ کن جوہری ہتھیار کے استعمال کی وجہ سے، عرصہ تک معذور اور سرطان زدہ معصوم بچے پیدا ہوتے رہے،کیونکہ جاپان جوہری ہتھیاروں کے بہیمانہ استعمال کا نشانہ بن چکا تھا اس لئے اس کی تباہ کاریوں سے بخوبی آشنا ہے۔ تاہم افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس قدر تباہ کن ہتھیار کو استعمال کرنے والوں نے جوہری ہتھیاروں میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے مزید تباہ کن بنانے کو فروغ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ تباہ کن جوہری ہتھیار طاقت ور ممالک کے جنگی جنون کا حصہ بن گئے۔ اس پہلو کا دوسرا شرم ناک پہلو یہ بھی ہے کہ دکھاوے کے لئے سلامتی کونسل کے جی فائیو نے جوہری ہتھیاروں کے دیگر ممالک میں پھیلاؤ کو روکنے کے مختلف پروگرام شروع کردیئے اور جو ملک اُن پر عمل نہیں کرتا تو اس پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کرکے دباؤ میں لایا جاتا۔ نویاتی(حیاتیاتی) اسلحہ میں جوہری بم،ہائیڈروجن بم،نیوٹرون بم،کوبالٹ بم،ڈرٹی بم،سوٹ کیس بم شامل ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کے لئے نویاتی اسلحہ،ٹیلرالم ڈیزائن،جوہری اسلحہ ڈیزائن کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ جب کہ تبکاری میں استعمال ہونے والامادہ یورنیئم،پلوٹونیئم اورڈیوٹیریئم کہلایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھی مرکزی اسلحہ کی کئی اقسام ہیں جس کی تباہ کاری کی صلاحیت الگ حیثیت رکھتی ہے۔ مثلاََ نیوٹرون بم، جو پھٹتے وقب دھماکا تو نسبتا کم کرتا ہے مگر تابکاری بے پناہ خارج کرتا ہے جو اس کی ہلاکت خیزی میں بدترین اضافے کا سبب بن سکتی ہے، ان کے گرد خاص قسم کی دھاتوں (مثلا کوبالٹ یا سونے) کے غلاف چڑھائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے نکلنے والی نیوٹرون تابکاری کو کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے، ایسے بموں کو سالٹد بم کہا جاتا ہے۔
قرار داد کی مخالفت میں روس اور چین نے حصہ لیا،جس کی بنیادی وجوہ میں دنیا کو عظیم خطرے سے دوچار کرنے والا امریکا کواہم سبب قرار دیا جاتاہے۔امریکا ممنوعہ میزائل تجربات کرتا رہتا ہے، جبکہ روس بھی ممنوعہ میزائل پروگرام پر عمل نہیں کرتا۔ یہ میزائل جوہری مواد کو طویل فاصلے تک لے جانے کی تباہ کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں مریکا نے بیلسٹک میزائل کے تجربے کی تصدیق کی جو 500میل تک غیر جوہری وار ہیڈ سے لیس ہوکر وار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکا کی تصدیق کے بعد روس نے اسے اعلان جنگ قرار دیا اور اس تجربے کی مذمت کی، یقینی طور پر اس قسم کے تجربوں سے خطے میں اسلحے کی غیر ضروری جنگ چھڑ جانے کے خدشات موجود ہیں۔اسی طرح جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں عالمی طاقتوں کا بڑا حصہ شامل ہے،جو بیلسٹک میزائل کے ذریعے دنیا میں کسی بھی حصے میں موجود ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔قدرت نے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایسے وسائل فراہم کئے جس سے انسان فائدہ اٹھاسکتے ہیں لیکن طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے اقدامات سے انسانیت کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔ بادی النظر جاپان کی پیش کردہ قرارداد کی مخالفت میں روس و چین کا رویہ اسی عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکا، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور تباہی کا موجد ہے، جب تک دنیا کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتا، طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طرفہ حمایت نہیں کی جاسکتی۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال پاکستان کی بھی ہے جس نے اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے جوہری صلاحیت حاصل کی۔ کیونکہ ارضِ وطن کو ہندو انتہا پسند ملک بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد شدید خطرات لاحق ہوچکے تھے جس کو روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ پاکستان دفاع کے لئے جوہری صلاحیت حاصل کرے۔ پاکستان جوہری تباہ کاریوں سے بخوبی آشنا ہے، لیکن اپنی سرزمین کو دشمنوں کے ناپاک عزائم سے بچانے کے لئے دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کا حق رکھتاہے۔ سلامتی کونسل کے جی فائیو کے پاس جوہری ہتھیاروں کو لے جانے کی وسیع صلاحیت موجود ہے۔ امریکا جنگی جنون میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کا موجب بن چکا ہے اس لئے امریکا جوہری ہتھیاروں کو کسی بھی فروعی مقصد کے لئے استعمال کرسکتا۔ امریکا اس حوالے سے انتہائی ناقابل اعتبار ملک ہے جو امن کے نام پر دنیا کے کئی ممالک میں جنگ مسلط کرچکا ہے۔ جاپان کی قرار داد پیش کئے جانے والے دن امریکا کی غیر حاضری یہی ظاہر کرتی ہے کہ اسے دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا مخالف ممالک طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے جوہری ہتھیار کے خاتمے کی خواہش رکھنے کے باوجود قرار داد کی مخالفت کرچکے ہیں۔اس وقت جوہری جنگ کو روکنے کی حکمت عملی پر دنیا کی توجہ مرکوز ہے اور اس پر تحقیق کی جارہی ہے کہ کس طرح مملکت کو جوہری حملے سے روکا جاسکے، اس میں پہلی حکمت عملی یہی سامنے آئی ہے کہ خود کو محفوظ کرنے کے لئے پہلے حملے میں جوابی کاروائی میں بھی یہی ہتھیار استعمال کئے جائیں تاکہ حملہ آور ملک کو نقصان پہنچانے سے روکا جاسکے۔ سرد جنگ کے دوران، جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کے لائحہ عمل کے تشکیل کاروں اور حربی نظریہ سازوں نے اس بات پر بہت تحقیق کی کہ ایسی کون سی حکمت عملیاں اختیار کی جائیں کہ جن سے جوہری حملہ سے ہمیشہ کے لیے بچا جاسکے۔جوہری یا مرکزی ہتھیاروں کی اقسام کے لحاظ سے انکو پہنچانے والے ذرائع بھی مختلف اختیار کیے جاتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گرائے یا پھنکے جانے والے مرکزی ہتھیاروں کا توڑ کیا جاسکے، کیونکہ ان کے خلاف کوئی پیشگی بچاؤ کا اسلحہ چلانا بھی ناممکن نہیں تو مشکل تر ضرور ہو۔
.
تفصیلات کے مطابق عالمی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے دنیا بھر میں موجود ایٹم بموں کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں ایٹم بموں کی تعداد 13 ہزار 865 تک جا پہنچی ہے۔رپورٹ کے مطابق کل ایٹم بموں کی تعداد میں امریکا اور روس جوہری بموں کی تعداد کے اعتبار سے سر فہرست ہیں، امریکا کے پاس 6450 اور روس کے پاس 6490 ایٹم بم ہیں۔اس کے بعد برطانیہ کے پاس 215، چین کے پاس 280، بھارت کے پاس 140، پاکستان کے پاس 150، رواں برس اسرائیل کی جانب سے 10 مزید ایٹم بم تیار کئے جانے کے بعد اس کے پاس ایٹم بموں کی تعداد 90 تک پہنچ گئی ہے۔شمالی کوریا کے پاس 30 جوہری بم موجود ہیں ہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری اور ہائیڈروجن بموں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ ان ایٹم بموں کو جنگی طیاروں، میزائلوں اور آبدوزوں کے ذریعے داغا جا سکتا ہے۔صہیونی ریاست کے ’جریکو‘ دیسی ساختہ میزائل خاص طور پر جوہری وار ہیڈ لے جانے کے لئے تیار کیے گئے ہیں جو بین البراعظمی سطح پر مار کر سکتے ہیں۔یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت میں جاری کیے گئے جب امریکا اور اس کے حواری ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے حصول سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے 2015ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم اب امریکا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ معاہدہ ختم ہوچکا ہے۔ اگر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھنا چاہتے تو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے جی فائیو کوغیر جانبدار پالیسی اپنانا ہوگی۔ طاقت کا توازن انسانیت کی بنیاد پر رکھنے کی ضرورت ہے جس کے لئے تباہ کن ہتھیاروں کو ختم کرنا ناگزیر ہے۔لیکن کمزور ممالک کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی روش جاری رکھنے کے سبب تخفیف جوہری اسلحہ کی کوششوں کے کامیابی کے امکانات انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔