Chitral Times

May 17, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دنبہ یاد رہا باقی سب بھول گئے ۔ پروفیسرعبدالشکورشاہ

Posted on
شیئر کریں:

دنبہ یاد رہا باقی سب بھول گئے ۔ پروفیسرعبدالشکورشاہ

 

مسلمان ہر سال دنیا بھر میں سنت ابراہیمی پوری کرنے کے لیے بڑے جوش و خروش سے قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے ہم حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مابین ہونے والی بات چیت بھول چکے اور صرف دنبہ یاد رکھ لیا ہے۔اصل پیغام اور اس عمل کی روح وہ گفتگو تھی جو والد اور بیٹے کے درمیان ہوئی۔ہم نے سنت ابراہیمی کی روح سے بے خبر ہوکر اپنے آپ کو جانور کی خریداری اور گوشت کی تقسیم تک محدود کر لیا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ اب قربانی بھی ایک فیشن کا درجہ حاصل کرتی جارہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔زیادہ تر قربانی کا جذبہ جانور زبح کرنے تک قائم رہتا ہے اور گوشت کی تقسیم میں ہم سنت ابراہیمی کو قدرے بھولتے جاتے۔آہستہ آہستہ گوشت ہمارے فریج میں جمع ہونے لگتا اور اپنا فریج بھرجانے پر قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے فریج تک رسائی حاصل کی جاتی۔بعض اوقات گوشت پڑا پڑا خراب ہوجاتا اور اکثر اوقات زیادہ کھانے سے صحت کے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ہم جتنا جوش و جزبہ قربانی کرنے کے لیے دیکھاتے اگر اتنا جوش وخروش اور ولولہ سنت ابراہیمی کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں دکھائیں توسماجی عدم تقسیم کی موجودہ صورتحال کافی حدتک کم کی جاسکتی ہے۔عجب بات ہے سارا سال بینکوں میں سود پہ پیسے رکھ کر انہی پیسوں سے قربانی کا جانور خریدتے اور فریضہ پورا کرتے۔سودی نظام پر چلنے والے بینکوں کے زریعے ہم خیراتی کاموں، مساجد کی تعمیر، مدارس کی امداد اور دیگر اسلامی اور نیکی کے کاموں کے لیے پیسے بھیجتے اور وصول کرتے ہیں۔

 

ہم قرض ادا نہیں کرتے مگر قربانی کے لیے جانور کا بندوبست کسی نہ کسی طرح کرہی لیتے ہیں۔ہم بیٹیوں کی شادیاں تو سنت کے مطابق کرنے کو تیار نہیں مگر قربانی کی سنت پر باقاعدگی سے عمل پیرا ہوتے۔ہم والدین کی خدمت،ان کے حقوق کی ادائیگی،قریبی رشتہ داروں کے حقوق کو سال بھر یاد نہیں رکھتے مگر قربانی کا گوشت بھیجنا نہیں بھولتے۔سال بھر ہمارا پڑوسی کس حال میں رہتا،وہ مہنگائی کے اس دور میں اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالتا،وہ بچوں کی فیسیں کیسے ادا کرتا،وہ بجلی پانی اور گیس کے بل کیسے بھرتا،وہ گھر کا کرایہ کیسے دیتا،وہ بیماری میں کیسے علاج کے پیسوں کا انتظام کرتا ہم سارا سال باقی ساری سنتیں بھول کر اپنے ڈرائینگ روم میں پسندیدہ پروگرامات دیکھتے مگر عید قرباں قریب آتے ہی ہمیں سنت ابراہیمی یاد آجاتی۔سارا سال رشتہ داروں سے بدسلوکی،قریبی رشتہ داروں کی حق تلفی،رشوت خوری،اقربہ پروری اور دیگر ان گنت برائیوں کی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہتے اور ایک پاو گوشت دینے کے لیے ہم سب رشتہ داروں اور قریبی افراد کی فہرست ایسے فخر اور باہمی مشاورت سے ترتیب دیتے جیسے ہم حاتم طائی سے مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہوں۔جس گاوں،محلے،شہر میں غریبوں کا چولہا نہ جلتا ہو،بیمارکے پاس علاج کی رقم نہ ہو،مقروضوں کے پاس قرض ادائیگی کی رقم نہ ہو،کرائے داروں کے پاس کرایہ نہ ہو،جو عید پہ بھی ادھار لے کر گزبسر کریں انہیں ایک پاو گوشت کے بجائے دووقت کی روٹی چاہیے نہ کہ ایک دن کے لذیز پکوان۔ہماری اکثریت قربانی کی اصل روح سے ناآشنا ہے۔وہ پیغام،وہ جذنہ،محبت رب ذولجلال کا جنون اور تڑپ،احکام خداوندی پر سختی سے عمل اور اللہ تبارک و تعالی کے حکم پر تن من دھن قربان کردینا،

 

دین الہی کے لیے اپنے بیٹے تک کی قربانی سے گریز نہ کرنا اور بے شمار دیگر پیغامات جن پر ہمیں اتنے ہی جوش و خروش اور تن دہی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جتنا جوش و ولولہ ہم قربانی خریدنے سے گوشت ہضم کرنے تک دکھاتے ہیں۔قربانی سے مراد صرف جانور کی قربانی نہیں ہے بلکہ دنیاوی لگن کی قربانی دے کر اللہ کی رسی کو تھام لینا ہے۔ہم عید پہ زرق برق لباس زیب تن کر لیتے،مہنگی خوشبو لگاتے،اعلی جوتے پہنتے جبکہ ہمارے گاوں محلے،رشتہ داروں اور پڑوس میں ایسے افراد بھی موجود ہوتے جو یا تو نئے کپڑے لینے کی استطاعت نہیں رکھتے یا سماجی رسموں کے ڈر سے استعمال شدہ کپڑے ہی پہن لیتے۔اگر حقیقی معانی میں دیکھا جائے تو ہمیں ساری زندگی ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت گزارنی چاہیے۔ ہم اچھا،موٹا تازہ،مہنگا اور خوبصورت جانور تو خرید لیتے اور سنت پوری کرنے کے جوش و ولولے میں فرائض بھول جاتے ہیں۔سال بھر غرباء مساکین کا خیال رکھنا، بے کس و بے یارومددگار افراد کی مدد کرنا، رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا، اگر صاحب ثروت ہیں تو مقروضوں کاقرض ادا کرنا، بیماری کے علاج میں ان کی مدد کرنا، بیواوں او ر یتیموں کی کفالت کرنا بھی قربانی ہے مگر ہم یہ سب بھول کر ایک جانور کی قربانی تک محدود ہو چکے اور دیگر تمام باتیں پس پشت ڈال چکے ہیں۔ قربانی کا جذبہ ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ جس طرح ہم گوشت کے برابر تین حصے کرتے ہیں اور اس وقت سنت طریقہ کو اچھی طرح اپنے دل و دماغ میں موجود رکھتے ہیں

 

اسی طرح قربانی کے جانور کے گوشت کے علاوہ عملی زندگی کے دیگر میدانوں میں بھی ہمیں احکام شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم قربانی کے گوشت میں تو انصاف سے کام لیتے مگر قربانی سے پہلے اور بعد دوسروں کا حق مارتے، دوسروں کے ساتھ ناانصافی کرتی، دوسروں کو برابر نہیں سمجھتے اور دوسروں کا خیال رکھنا مکمل طور پر بھول جاتے۔ ہم والدین کی خدمت کے احکامات پس پشت ڈال کر قربانی پر زور دیتے، ہم بہنوں کا حق مار کرسال میں ایک بار انہیں ایک پاو گوشت بھیجنا لازمی سمجھتے، ہم سارا سال پڑوسی کی مشکلات سے بے خبر رہ کر عید پر گوشت سے نوازتے ہیں۔ ہم نے صرف دنبہ یاد رکھا ہوا ہے قربانی کی روح کو ہم بھول چکے ہیں۔ ہمارے علماء کرام بھی روائیتی تقاریر میں الجھے رہتے۔ سارا وقت قربانی کا روائیتی بیان جاری رکھتے اور قربانی کے لوازمات پر بات کرتے مگر قربانی کے باقی پہلوں پر روشنی ڈالنے پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ مہنگائی کے ا س دور میں کسی کے گھر کا چولہا جلانا، کسی کا ماہانہ خرچہ برداشت کرنا، کسی کی مدد کرنا، کسی بے روزگار کو کام پر لگانا، کسی غریب کے بجلی، گیس اور پانی کے بل ادار کرنا، کسی محتاج کے گھر کا کرایہ اداکرنا بھی کسی قربانی سے ہر گز کم نہیں ہے۔

 

قربانی ہمیں انصاف کا درس دیتی تو یہ کہاں کا انصاف ہے خود اور اپنے بچوں کو مہنگے کپڑے خرید کر دیں جبکہ آپ کے بھتیجے، بھانجے اور دیگر قریبی رشتہ دار جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے وہ پرانے یا استعمال شدہ کپڑوں تک محدود رہیں۔ ایسے بھی سفید پوش دیکھے ہیں جو اپنی عزت نفس مجروح ہونے کے ڈر کی وجہ سے عید کے دن کسی بہانے سے اپنے بچوں کو لیکر جنگل کی طر ف نکل جاتے تھے۔عید ملنے کے لیے آنے والے جب استفسار کرتے تو بہانہ بنایا جاتا کے رات کو مال مویشی واپس نہیں آیا اسے تلا ش کرنے کے لیے گئے ہیں ابھی آتے ہی ہوں گے۔ ایسے سفید پو ش گھرانوں میں کپڑے کا صرف ایک ہی جوڑا سلائی کروانے کی سکت ہوتی ہے اور یہ جوڑا خاندان کے جس فرد کا ہوتا وہ عید پر مہمانوں کی خدمت کے لیے گھر پر قیام کرتا۔ شام ڈھلتے ہی یہ جوڑا اتنی تیزی سے اتار کر صندوق میں ڈال کر تالا لگا دیا جاتا جیسے ہم اپنی قیمتی ترین چیز کو سنبھال کر رکھتے۔ یقینا غرباء کے لیے ایک جوڑا بھی ان کی کل متاع ہوتی ہے۔ جب ہم بازار سے مختلف قسم کے مصالحہ جات اور رنگ برنگے پکوان خرید رہے ہوتے اس وقت بھی ہمیں قربانی کا جذبہ یاد رکھنا چاہیے اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں سے ضرورت مندوں کے لیے بھی حسب توفیق خریداری کر لینی چاہیے۔ غریب، مسکین، بے آسرا، نادار افراد کو گوشت کھانے سے کہیں زیادہ گھر کا چولہا جلانے کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو جذبہ قربانی کی روح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
63020