
داد بیداد ۔ پشاور کے کتب خانے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ پشاور کے کتب خانے ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
جو تنظیمیں کتابوں کے میلے منعقد کر تی ہیں اور جو اشا عتی ادارے ان میلوں میں سٹال لگا تی ہیں ان کی طرف سے شکا یت آتی ہے کہ لو گ کتا بوں سے دوستی نہیں کر تے مگر جو لو گ لائبریریوں میں کتا بیں تلا ش کر نے کے لئے جا تے ہیں ان کا تجربہ اس شکا یت سے قطعی طور پر مختلف ہے میں نے 50سال پہلے کی لائبریریاں بھی دیکھی ہیں گذشتہ چند سالوں کے اندر اسلام اباد، پشاور، تیمر گرہ،چترال اور کو ہاٹ کی پبلک لائبریریوں میں کتب بینوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر مجھے بہت خو شی اور مسرت حا صل ہوئی ہے میرا مشا ہدہ یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید میں کمی ضرور آئی ہے مگر کتا بوں سے دوستی پہلے کی نسبت آج کل بہت زیا دہ ہے نصف صدی پہلے کا پشاور کتب خانوں کا شہر تھا مگر کتب بینوں کی اتنی بڑی تعداد لائبریروں میں نظر نہیں آتی تھی ہشتنگری میں میونسپل کا ر پوریشن کی مشہور لائبریری تھی
خیبر بازار کے سوئیکا ر نو سکوائیر میں مر کزی اردو بورڈ کی لائبریری ہوا کر تی تھی، صدر روڈ پر بینو لنٹ فنڈ کی عمارت میں پبلک لائبریری تھی، جنرل پوسٹ آفس سے آگے جا کر بائیں ہاتھ پر نیشنل سنٹر کی لائبریری تھی، فوارہ چوک میں کنٹونمنٹ بورڈ کا کتب خانہ تھا ارباب روڈ پر سعید بک بینک سے ذرا آگے امریکن سنٹر کی لائبریری ہو تی تھی، مال روڈ پر سٹینڈرڈ چارٹر ڈ بینک کے قریب برٹش کونسل کی لائبریری تھی، سر سید روڈ پر خانہ فرہنگ ایران کی لائبریری آتی تھی افغان خا نہ جنگی سے پہلے تما م کتب خا نے عوام کے لئے کھلے ہوتے تھے پھر ایسا ہوا کہ تما م کتب خا نے بند ہوئے پرانی پبلک لائبریری گور نر ہاوس کے سامنے عجا ئب گھر سے متصل اپنی نئی عما رت میں منتقل ہو گئی اگرچہ کتب خا نوں کا بنیاد ی ڈھانچہ ختم ہوا تا ہم پشاور کے عوام کی کتاب دوستی پہلے سے زیا دہ ہوگئی، مطا لعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضا فہ ہوا
چند ما ہ پہلے پشاور کی پبلک لائبریری کے دورے پر محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ایڈشنل سکر ٹری سید مظہر علی شاہ آئے تو اپنی باری کے انتظار میں کھڑے شائقین کتب نے مطا لعہ گاہ کی تنگی اور کر سیوں کی کمی کا شکوہ کیا، گذشتہ ماہ ڈپٹی کمشنر عبد الاکرم نے کوہاٹ ڈیولپمنٹ اتھار ٹی میں قائم پبلک لائبریری کا دورہ کیا تو مطا لعہ گاہ کے باہر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے شائقین کتب نے لائبریری میں تین شفٹ لگا کر رات 2بجے تک لائبریری کو کھلا رکھنے کا مطا لبہ کیا ایک سہا نی صبح کو مجھے حیات اباد فیز 1کی پبلک لائبریری میں جا نے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مطا لعہ گاہ یعنی ریڈنگ روم کے با ہر در جنوں جو تے رکھے ہوئے ہیں جو تے اتار کر اندر گیا تو دائیں بائیں میزیں شائقین کتب سے بھری ہوئی تھیں اتنی خا مو شی تھی کہ سوئی گرے تو شور بر پا ہوجا ئے،
میں نے الما ریوں کا جا ئزہ لیکر مطلوبہ کتا بوں کی مو جود گی پر اطمینان کا سانس لیا اور لائبریری انچارج انور افریدی کو اشارہ کیا تو مجھے با ہر لے گئے، لان میں جا کر میں نے مد عا بیان کیا تو انہوں نے کہا ابھی دونوں کتابیں آپ کو دے دیتا ہوں، میں نے کہا کر سیاں بھر جا نے کے بعد بہت سے شائقین فرش پر بیٹھ کر مطا لعہ کر رہے ہیں، انہوں نے کہا یہ دیکھو کئی شائقین کتب لان میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں،ا نہوں نے اپنی میز اور کر سی مجھے پیش کی میں نے دو دنوں تک ان کی نشست پر بیٹھ کر کام کیا خو شی اور مسرت کا مقام یہ ہے کہ کا لجوں میں بی ایس پرو گرام اور یو نیور سٹیوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کا کلچر آنے کے بعد تحقیق کی نئی روا یت آگئی ہے نو جوانوں کے ساتھ ادھیڑ عمر کے اساتذہ اور پرو فیشنلز نے بھی کتاب کی طرف رجوع کیا ہے ارباب بست و کشاد کا فر ض ہے کہ شائقین کتب کی بڑھتی ہوئی تعداد کی منا سبت سے شہو لتوں میں اضا فے کی منصو بہ بندی کریں۔