داد بیداد ۔ ووٹ کا دن ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ ووٹ کا دن ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ووٹ کا دن آرہا ہے ہر پا کستانی کو اس دن کا انتظا ر ہے ووٹ کا دن اگلے 5سالوں کے لئے ملک کا حکمران اور اپنے حلقے کا نما ئندہ منتخب کرنے کا دن ہوتا ہے وطن عزیز پا کستان میں ووٹ کے بارے میں تین بڑی غلط فہمیاں پھیلا ئی جا تی ہیں یہ غلط فہمیاں افواہ کی صورت میں پھیلتی ہیں اور لوگ ان پر یقین کرنے لگ جا تے ہیں پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ ووٹ مغربی تہذیب کا حصہ ہے دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ میرے ووٹ سے کچھ نہیں ہوتا جس کو حکومت دینی ہو میرے ووٹ کے بغیر بھی اس کو حکومت دی جا تی ہے تیسری غلط فہمی یہ ہے کہ جس کو میں ووٹ دینا چاہتا ہوں اگر وہ ہار گیا تو میرا ووٹ ضا ئع جا ئے گا اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جا ئے تو تینوں باتیں غلط ہیں
تینوں بے بنیاد ہیں پہلی بات یہ ہے کہ ووٹ رائے شما ری ہو تی ہے اسلا می تاریخ میں پہلے چار خلفاء کے انتخا ب کے لئے با قاعدہ رائے شما ری ہوئی تھی البتہ 1400سال پہلے جمہوریت کا نا م نہیں تھا ساتویں صدی میں یہ نا م پوری دنیا میں کوئی نہیں جا نتا تھا گیارھویں صدی عیسوی میں دنیا کی پہلی جمہوری اسمبلی بر طا نیہ اور آئر لینڈ کے درمیان سمندری جزیرہ آئی لینڈ آف مین کے اندر قائم ہوئی اس کے 500سال بعد برطانیہ میں جمہوری پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا کالوں اور عورتوں کو ووٹ کا حق بیسویں صدی میں دیا گیا اس لئے ووٹ کو مغربی کلچر کہنا حقا ئق کے خلاف ہے جنوبی افریقہ کے عوام کو 1990تک انگریزوں نے مساوات کی بنیا د پر ایک شہری، ایک ووٹ کا حق نہیں دیا تھا وہ آبا دی کو دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے کہ گوروں کو کتنے ووٹوں کا حقدار ٹھہرانے سے گورا ممبر کا میاب ہوسکتا ہے اگرو وٹر وں میں گوروں کا تنا سب ایک نسبت 10ہے تو کا لا ایک ووٹ ڈالتا تھا، گورے کو گیا رہ ووٹ ڈالنے کا حق دیا جا تا تھا اس طرح گورے حکومت میں آتے تھے 1990ء میں یہ طلسم ٹوٹ گیا اور ایک شہری ایک ووٹ کا حق تسلیم کیا گیا تو کا لوں کی حکومت آئی دوسری غلط فہمی بھی بے بنیا د ہے
میرے اور آپ کے ووٹ سے کیوں فرق نہیں پڑتا ضرور فرق پڑ تا ہے ہمارے ہی ووٹوں سے حکومت آتی ہے پڑوسی مما لک میں قانون یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی پو لنگ سٹیشن پر نہیں ہو تی بلکہ سارے بیلیٹ بکس دار الحکومت لائے جا تے ہیں جہاں ووٹوں کی گنتی کئی دنوں تک جا ری رہتی ہے، گنتی مکمل ہونے کے بعد نتیجہ آتا ہے، ہمارے ہاں قانون کی رو سے گاوں کے پو لنگ سٹیشن میں مقا می پو لنگ ایجنٹوں کے سامنے ووٹوں کی گنتی ہو تی ہے اور پو لنگ سٹیشن پر ہی نتیجہ آجا تا ہے جو ریٹر ننگ افیسر کو بھی بھیجا جا تا ہے ہر امید وار کو بھی اس کی کا پی جا تی ہے، اُسی رات نتیجہ سامنے آتا ہے دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی ہو جا تا ہے سب کچھ میرے اور آپ کے ووٹ ہی سے ہو تا ہے ووٹ پر پکا یقین ہونا چاہئیے اور اس بات پر پختہ یقین ہونا چا ہئیے کہ نئی حکومت ہمارے ووٹ سے ہی بنتی ہے، تیسری غلط فہمی بھی با لکل بے بنیاد ہے جس کو میں نے ووٹ دیا اگر وہ ہار گیا تو میرا ووٹ ضائع ہو گیا یہ بھی غلط ہے میرا ووٹ شما ر میں آگیاہے اور اگلے 5سالوں تک میرا ووٹ ریکارڈ پر رہے گا،
میرے ووٹ نے اُمید واروں کی ہار جیت میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا ان غلط فہمیوں کو ختم کرکے ووٹ دینے میں ہر شہری کو بڑھ چڑ ھ کر حصہ لینا چا ہئیے ووٹ دینے کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ میری پارٹی کونسی ہے اور اس پارٹی سے کون امیدوار ہے اس کا انتخا بی نشان کیا ہے؟ ووٹ دینا آسان نہیں مشکل ہے ووٹ کی پر چی لیکر بوتھ کے اندر جا نے کے بعد اکثر اوقات ایسا ہو تا ہے کہ اچھا خا صا تجربہ کار شہری بھی یہ بات بھول جا تا ہے کہ میں نے کس کو ووٹ دینا تھا اس کا ذہن خا لی کمرے میں جا تے ہی بدل جا تا ہے اور پر چی پر درج نشانات میں سے کسی ایک پر مہر لگا کر واپس آجا تا ہے اس کا نا م قسمت اور تقدیر کا کھیل ہے، اس میں اشتہار بازی اور منصو بہ بند ی کا ہا تھ نہیں ہو تا، پو لنگ سٹیشن ایسی جگہ ہے جہاں ہر شہری اپی آزادانہ رائے دینے کے لئے آتا ہے اور ہر شہری کو اپنی رائے دینے کا پورا پورا حق ہوتا ہے اس لئے ووٹ کا دن جب بھی آتا ہے ہم پر بھا ری ذمہ داری ڈالنے کے لئے آتا ہے اور ہم کو ہر حال میں اس ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونا ہے