داد بیداد ۔ عید اور مہنگائی ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ عید اور مہنگائی ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
عید قریب آتے ہی مہنگائی بھی یاد آرہی ہے وجہ یہ نہیں کہ بازار کی طاقتیں بہت ظالم ہیں یا حکومت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ ہمارا طرز زندگی ہے جس کوانگریزی میں لائف سٹائل کہا جاتا ہے اس طرز زندگی کی وجہ سے ہم نے رمضان المبارک کوبھی عبادت سے زیادہ پیٹ بھرنے کا مہینہ بنائے رکھا اورمہنگائی کارونا روتے رہے اب عید پروہی صورت حال ہے اسلامی تعلیمات میں عید پر صاف کپڑے پہننے کا حکم ہے نئے کپڑے اورجوتے خریدنے کا حکم نہیں مگرہمارے ہاں عید کے ساتھ نئے کپڑوں اورجوتوں کولازم وملزوم ٹھہرایا گیا ہے بات اتنی آگے بڑھی کہ ایک صاحب نصاب نے غریب لڑکے سے پوچھا عید پرکیا پہنوگے؟اُس نے معصومیت سے جواب دیا دوجوڑے سلواکررکھا ہے ایک جوڑا درزی کے پاس ہے عیدسے ایک دن پہلے وہ بھی تیار ہوجائے گادوجوڑے جوتے خرید کرلائے گئے ہیں ایک جوڑا عید سے دودن پہلے لیا جائیگا۔یہ اُس گھر کی بات ہے جس گھر کومولوی صاحب نے فطرانہ کاحقدار قرار دیاہے مسجد کی کمیٹی اجتماعی فطرانہ جمع کرنے کے بعد اس گھر کوفطرانہ اداکریگی اس مثال سے اندازہ لگائیں کہ ہم نے طرز زندگی کواپنے لئے کس طرح مصیبت بنایاہوا ہے ایک معقول اور عام گھر کی بنیادی لازمی ضروریات چھ چیزیں ہیں آٹا،گھی،لکڑی یا گیس کاچولہا،چینی،نمک اور دال یاسبزی ان چھ چیزوں سے گھر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں،
مگر آج کل ایک غریب اورنادار مزدور کے گھر میں بازار سے کیا کچھ لایا جارہا ہے اس کی جھلک دیکھ لیں،چار برانڈ کے ہاتھ دھونے والے صابن،چار برانڈ کے ٹوتھ پیسٹ اوربرش،2برانڈ کے برتن دھونے والے صابن،دوبرانڈکے کپڑے دھونے والے سرف اور صابن،چار برانڈ کے باڈی لوشن اور ویسلین،ٹائیلٹ پیپر،ٹشوپیپر اور سگریٹ یہ آٹھ آئیٹم وہ ہیں جن کی اس گھر میں کوئی ضرورت نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ساتھ ہی سیٹھ صاحب کا گھر ہے وہاں یہ تمام آئیٹم استعمال ہورہی ہیں اس لئے غریب پڑوسی نے بھی اپنے اوپر ان کو لازم کرلیا ہے۔رمضان المبارک کی بات کریں تو سحری میں ایک تندوری روٹی کے ساتھ چائے اور سستا سالن،افطاری کے وقت سستے سالن اور تندوری روٹی اور چائے۔یہ چیزیں روزہ رکھنے کے لئے کافی ہیں،ہمارا طرززندگی اس پربس نہیں کرتا،ہمارے طرززندگی میں سحری کے لئے چکن سالن،انڈا فرائی یااملیٹ ضرور ہونا چاہیئے پراٹھا لازمی ہے،چار برانڈکے کیچ اپ اور میکرونی ہونا چاہیئے،
افطاری میں پلاؤ،کڑاہی گوشت،سموسے،پکوڑے اورکم از کم چار اقسام کے سالن ضروری قرار دئیے جاتے ہیں دہی بھلے اور فروٹ چاٹ بھی افطاری کالازمی حصہ ہوتے ہیں ایک غریب گھرانہ یہ تمام لوازمات اس لئے پوری کرتا ہے کہ ساتھ والے گھر میں بڑا افسر رہتا ہے اس کا رہن سہن ایسا ہے،غریب ماں باپ کی اولاد بھی یہی چیزیں مانگتی ہے یہی حال ہماری عید کا ہے عید پرگھرمیں معمول کاکھانا پکنا چاہیئے کسی غیر معمولی اہتمام کاکوئی حکم نہیں،عید کے ساتھ حلوہ مانڈہ ضروری نہیں،شکر یا گڑ والی چائے کے ساتھ منہ میٹھا کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا دل نہیں مانتا دل مان بھی جائے توبچے نہیں مانتے،پڑوس میں رہنے والے سیٹھ کی بیوی نے عید کے لئے دوبئی سے شاپنگ کی ہوئی ہے دورپار کا رشتہ دار بڑا افسر ہے اس کے بال بچوں نے ہانک کانگ سے عید کی شاپنگ کی ہوئی ہے اس لئے غریب ماں باپ کو بھی بچوں کی ضد پوری کرنی ہوتی ہے
جب ہم ایسے بے جاخواہشات کولیکر بازار کا رخ کرتے ہیں توبازار کا حلیہ تبدیل ہوجاتا ہے طرز عمل بگڑ جاتا ہے ہمارے ملک کا سب سے بڑا آدمی عبدالستار ایدھی عید پرنئے کپڑے نہیں بناناتھا،ہمارے ملک کے لیڈروں میں ایک لیڈر ایسا گذرا ہے جوکھربوں مالیت کی جائیداد کامالک تھا مگر خود خمطا یعنی کھدر کے سادہ کپڑے پہنتا تھا اُس نے قوم کی اصلاح کے لئے آزاد سکول بنائے اُس نے رضاکارانہ خدمات کے لئے خدائی خدمت کارتنظیم بنائی،آج کل ایسے رول ماڈل(Role Model)نہیں ملتے،ہم نے رمضان کو مہنگائی کا مہینہ بے جا خواہشات کی وجہ سے بنایا عید کو مہنگائی کاموقع اپنی فضولیات کی وجہ سے بنارہے ہیں،قصورکسی اور کا نہیں ہمارا قصور ہے غریب اور متوسط طبقہ اگرسادگی اختیار کرے تو مہنگائی ضرورکم ہوگی۔