داد بیداد ۔ عہد فاروقی ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ عہد فاروقی ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
سادگی اور کفا یت شعاری کو وطن عزیز پا کستان سمیت عالم اسلا م کو درپیش مسائل کا واحد حل قرار دیا جا تا ہے ایک آدھ اسلا می ملک اور بہت سارے دیگر مذا ہب سے تعلق رکھنے والے مما لک میں اس کی مثا لیں ہمیں ملتی ہیں جن قوموں کے حکمرانوں نے ساد گی اپنا ئی اور کفا یت شعاری کا راستہ اختیار کیا وہ قو میں بڑی طاقت بن گئیں ار وند کیچریو ال نے ثا بت کیا ہے کہ اکیسویں صدی میں حکمران پرو ٹو کول اور سیکیورٹی گارڈ کے بغیر گھوم سکتا ہے سائیکل اور مو ٹر سائیکل پر ادھر اُدھر جا سکتا ہے دامن صاف ہو تو حکمران کو عوام سے ڈر نے کی ضرورت نہیں ہو تی اسلا می تاریخ حکمرانوں کی ساد گی اور کفا یت شعاری کی مثا لوں سے بھری پڑی ہے سب سے زیا دہ متا ثر کرنے والی مثا لیں خلا فت راشدہ اور عہد نبوی ﷺ میں ملتی ہیں عہد نبوی ﷺ میں اسلا می سلطنت کا دائرہ پھیلنا شروع ہوا،
عہد فاروقی میں اسلا می سلطنت کی سر حدیں 28لا کھ مر بع میل کے مما لک تک پھیل گئیں عراق، ایران،فلسطین اور شام بھی اُس دور میں فتح ہوئے عہد فاروقی میں حمص کی ولا یت سر سبز و شاداب اور وسائل سے بھر پور دولت مند اور ثروت مند ولا یت تھی سید نا عمر فاروق ؓ جتنے بڑے منتظم اور سخت گیر تھے، اتنے ہی مرد شنا س اور نفسیا ت دان بھی تھے، انہوں نے حضرت سعید بن عامر ؓ کو حمص کا والی مقرر کیا تو سعید بن عامر ؓ نے معذرت کی اور بہا نہ تراش لیا کہ میں اس عہدے کا اہل نہیں ہوں میرے ناتواں کندھوں پر اس عہد ے کا بوجھ نہ ڈالئیے لیکن عمر فاروق ؓ نے اصرار کر کے ان کو والی بنا کر حمص بھیجا کچھ عرصہ بعد امیر المو منین نے حمص کا دورہ کیا تو حمص کی بڑی مسجد میں لو گوں نے والی کے خلا ف پا نچ بڑی شکا یتیں پیش کیں پہلی شکا یت یہ تھی کہ جب یہاں آئے تو صبح کی نما ز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے لو گوں کے مسائل سنتے تھے موقع پر احکامات دیتے تھے اور فریادوں کی شنوائی کر تے تھے اب ایسا نہیں کر تے نما ز فجر کے بعد گھر جا تے ہیں اور نما ز چاشت کے وقت مسجد آتے ہیں ہم کو تب تک انتظا ر کرنا پڑ تا ہے،
دوسری شکا یت یہ تھی کہ ہمارا والی دن کے وقت عوام سے ملتا ہے عشاء کی نما ز کے بعد کسی سے نہیں ملتا تیسری شکا یت یہ تھی کہ سات دنوں میں ایک دن گھر سے با ہر نہیں آتا، گھر پر رہتا ہے پانچویں شکا یت یہ تھی کہ کبھی کبھی ہمارے والی پر مر گی کا دورہ پڑتا ہے اور اچا نک رو رو کر ہلکان ہو جا تا ہے، ساری شکا یات سننے کے بعد حضرت عمر ؓ نے سعید بن عامر ؓ سے ان شکا یات کی با بت دریافت کیا حمص کے والی نے امیر المو منیں کو جس طرح جواب دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کے اندر سنہرے حروف میں لکھا ہوا ہے پہلی شکا یت کا جواب یہ تھا کہ کچھ عرصہ سے میر ی گھر والی بیمار ہے میں نما ز فجر کے بعد گھر جا کر پا نی بھر تا ہوں گھر کی صفا ئی کر تا ہوں، آٹا گوندھتا ہوں نا شتہ تیار کر تا ہوں چاشت تک ان کا موں کو نمٹا کر مسجد میں آتا ہوں رات کو گھر سے با ہر نہ نکلنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے کہ دن کا وقت مخلوق کو دونگا رات کا وقت صرف خا لق کو دوں گا،
رات کو میں اپنے حا لق اور ما لک کی عبا دت میں گذار تا ہوں اس لئے گھر سے با ہر نہیں نکلتا، سات دنوں میں ایک دن غا ئب رہنے کی وجہ یہ ہے کہ میرے پا س ایک ہی جو ڑا کپڑا ہے چھ دن اس کو پہنتا ہوں ساتویں دن دھو کر سکھا تا ہوں اور اگلے دن پھر پہن کر با ہر آجا تا ہوں، اچا نک رورو کر ہلکان ہونے کی وجہ بتا تے ہوئے حمص کے والی نے کہا جب کسی واقعے کے بارے میں سن کر مو ت یا د آتی ہے تو مجھے رونا آتا ہے کہ موت کے وقت مجھے ایمان کی مو ت نصیب ہو گی یا نہیں، اس کے بعد انہوں نے التجا کی کہ مجھے اس عہدے سے سبکدوش کیا جا ئے، حضرت عمر فاروق ؓ نے کہا کہ اس عہدے پر تم سے زیا دہ مو زوں شخص نہیں آسکتا، عہد فاروقی میں ایک صو بے کے گورنر کی ساد گی اور کفا یت شعاری کا یہ معیار تھا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ کو بھلا دیا ہے۔