
داد بیداد ۔ علماء کی صحبت میں ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ علماء کی صحبت میں ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
دینی مدارس، مساجد اور علماء نے اسلام کی اشاعت اور دعوت میں اہم کردار ادا کیا ہے لاہور میں وارد ہوتے ہی خیال آیا کہ مولانا عبدالرحیم چترالی کے مزار پر انوار پر حاضری دی جائے آپ کا شمار خیبرپختونخواکے جید علماء میں ہوتا تھا دارالعلوم سرحد میں ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد مولانا ایوب جان بنوریؒ کی اجازت سے جامعہ اشرفیہ لاہور چلے گئے پھر ساری عمر جامعہ اشرافیہ میں گزاری وفات کے وقت جامعہ کے شیخ الحدیث تھے جامعہ اشرافیہ کے قبرستان میں آ سودہ خاک ہیں پنجاب یونیورسٹی کے خطیب مولانا اشفاق احمد سے رابط نہ ہوسکا تو مولانا چترالی کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد نعمان سے رابط کیا انہوں نے کمال شفقت اور مہربانی سے میری رہنمائی کی چنانچہ سات گھنٹوں کے مختصر دورانیے میں مولانا چترالی کے مزار پر حاضری بھی ہوئی
مولانا مرحوم کے زیر انتظام و انصرام چلنے والے چار مدارس ومکاتب کی زیارت ہوئی مولانا کے بزرگ چچا مولانا فضل علی قریشی مسکین پوری ؒکے خلیفہ مجاز مولانا محمد مستجاب ؒکے نام سے منسوب تین اہم مساجد کا دورہ ہوا،جامعہ اشرافیہ لاہور کے شیخ الحدیث مولانا فیاض الدین چترالی صاحب کے ساتھ ایک مفید علمی نشست کا موقع ملا، مولانا عبیداللہ، مولانا محمد امین زار اور مولانا محمد سلمان نقشبند ی سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو ا یہ بات مسلمہ حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ اولیاء کی صحبت میں چند ساعتیں گزارنا عمر بھر کی بے ریا عبادت سے افضل ہے ہما رے عہد کے علماء ہمارے لیے اولیاء کا درجہ رکھتے ہیں،ان کی صحبت میسر آنا غنیمت سے کم نہیں مولانا فیاض الدین چترالی مدظلہ عصر حاضر میں اسلاف کی سیرت اور بزرگوں کے بلند کردار کا عملی نمونہ ہیں میں نے ان کی کتاب دروس مسلم شریف کا تذکرہ کیا تو اپنی کتاب درس ابن ماجہ کی جلد مرحمت فرمائی تصنیف وتالیف کی مصروفیات کا ذکر آیا تو تیسری کتاب انمول جواہرت مرحمت فرمائی
اس کے ساتھ مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے لکھی ہوئی کتاب دلچسپ اصطلاحات کا تحفہ عنایت فرمایا مسلم شریف اور ابن ماجہ کے دروس کا سلسلہ اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ دینی تعلیمات سے شفف رکھنے والے عام مسلمانوں کے لیے بھی مفید ہے انمول جواہرات میں مصنف کے مطالعے کا نچوڑ 203ذیلی موضوعات کی تحت دلچسپ اور دلنشین اسلوب میں پیش کیاگیا ہے یہ کتاب بی ایس اور ایم فل کے طلبہ کے ساتھ ساتھ مقابلے کا امتحان دینے والوں کے لیے بھی مفید ہے اس میں علمی نکات،چید ہ واقعات اور مصنف کے مشاہدات دیے گئے ہیں مولانا فیاض الدین چترالی صاحب کے ساتھ گفتگو کے موضوعات میں ان کے نانا مولانا مستجابؒ کا ذکر آیا تو گفتگو کا رخ نقشبندی سلسلہ عالیہ کے بزرگوں کی طرف مڑگیا برصغیر میں اسلامی تعلیمات اور شرعی احکامات کی ترویج میں صوفیا ئے کرام کی خدمات پر بات چیت ہوئی مولانا عبیداللہ بھی شریک گفتگو رہے، مولانا محمد امین زار کے ساتھ وحید برادرز کالونی کے اندر مسجد المستجابؒ میں ملا قات ہوئی آپ دین اسلا م کے بے مثال داعی تھے
انہوں نے اپنی دعوت کے زریعے راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لے آیا مولانا محمد نعمان نے مجھے کلمہ چوک اور دیگر مقامات پر مولانا مستجاب سے منسوب مساجد کی زیارت کرائی اور اپنے والد گرامی مولانا عبدالرحیم چترالی ؒکی شخصیت اور سیر ت پر روشنی ڈالی اپنے عموئے محترم ومکرم کے نقش قدم پر چل کر انہوں نے بھی اپنی زندگی قرآن و حدیث کی تعلیم اور راہ حق کی طرف دعوت کے لیے وقف کی تھی ان کا مشر ب محبت اور اصلاح کا مشرب تھا ہر مکتب فکر کے لوگ ان سے علمی استفادہ کرتے تھے اور تقا ضا کر تے تھے کہ ہر سال ہمارے دیہات کا دورہ کریں مولانا محمد سلمان نقشبندی حضرت مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی کے مرید اور خلیفہ ہیں
نوجوانی کی عمر میں آپ پر فیوض و برکات کی بارش ہوئی قدیم علماء اور اولیا ء کے تذکروں میں آتا ہے کہ وہ درس نظامی کے مروجہ نصاب میں دستاربندی کے بعد تزکیہ نفس کے لیے کسی والی کا مل کے دست حق پرست پر بعیت کرکے اپنے شیخ کی صحبت میں روحانی علوم اور سلوک کی عملی تربیت حاصل کرتے تھے مولانا سلمان نقشبندی کو اسلاف کے نقش قدم پر چل کر روحانی منازل طے کرنے کا موقع ملا”ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدا بخشندہ“ لا ہور میں قیام کے دوران علما ء کی صحبت میں روحا نی فیوض و بر کات حا صل کرنے کے مواقع اور بھی تھے لیکن وقت کا دامن تنگ تھا گلچین بہار تو زتنگی داماں گلہ دار د کے مصداق رخت سفر با ندھنا پڑا