داد بیداد ۔ ذوق پرواز۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ ذوق پرواز۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ذوق پر واز دراصل سفر نا موں کا مجموعہ ہے نثری ادب میں اگر کلیات کی تر کیب مستعمل ہو تی تو اسے کلیات کا نا م دیا جا سکتا تھا اس سے پہلے مصنف کے کئی سفر نا مے اخبارات میں کا لموں کی صورت میں شائع ہو ئے پھر خا مہ بجوش، صحر ا میں اذان اور سفر کی دھول کے نا موں سے تین سفر نا مے شائع ہوئے ہر سفر نا مہ کئی ملکوں کے الگ الگ اسفار کی رودادوں پر مشتمل ہے 2023ء میں مصنف نے تمام سفر نا موں کا جا مع اور ضخیم مجمو عہ شائع کیا ہے جو ساڑھے پا نچ سو صفحا ت پر مشتمل ہے ان سفر نا موں میں عجا ئبات بھی ہیں تضا دات کا لطف بھی ملتا ہے چین اور امریکہ کے ہر سفر میں عجا ئبات سے پا لا پڑ تا ہے، تھائی لینڈ کے سفر میں بازار حسن کے جلوے نظر آتے ہیں تو اردن اور حجا ز کے اسفار میں انبیاء کے مزا رات کا رو حا نی پر تو نظر آتا ہے مصنف نے 2005سے 2019تک مختلف مر حلوں میں مختلف مقا مات پر سفر نا مے لکھے اس لئے اسلو ب میں رنگا رنگی اور بو العجبی ہے ایسا نہیں لگتا کہ ایک ہی شخص نے سفر کیا اور اسی نے اکیلے سب کچھ لکھا ہے
اثار مکہ و مدینہ میں قاری کو مورخ اور محقق سے پا لا پڑ تا ہے جبکہ مائیکل اینجلو اور ڈاو نچی کے وطن میں مصنف ایک کھلنڈرا سیا ح نظر آتا ہے اس نے خود اعتراف کیا ہے کہ وقت کی کمی کے پیش نظر مسو لینی کے وطن سے انصاف نہ کر سکا دو باتیں بہت نما یاں ہیں مصنف جہاں تر قی اور خو شحا لی دیکھتا ہے وہاں اپنے پیا رے وطن کی پسما ندہ گی اور بد حا لی اس کو یا د آتی ہے اور وطن کی نا اہل قیا دت کے لتے لیتا ہے گویا ”دل کے پھپھو لے جل اُٹھے سینے کے داغ سے“ دوسری بات بڑے مزے کی ہے مصنف پر و فیسر اشرف بخا ری کا دوست، مداح اور مولانا رومی کا مرید ہے علا مہ اقبال کا عقیدہ مند ہے رومی کے فارسی اور اقبال کے فار سی یا اردو اشعار سے اپنے نثر پارے کو مزین کر تا ہے
فارسی اور عربی میں دسترس کی وجہ سے مولانا ابو الکلا م آزاد کی طرح مر صع اور مسجع نثر پر بھی طبع ازما ئی کر تا ہوا دکھا ئی دیتا ہے مگر مشفق خوا جہ سے بھی متا ثر نظر آتا ہے جگہ جگہ ”خا مہ بگوش“ والی پھلجڑیاں پڑھنے کو ملتی ہیں نوائے مسا فر کے زیر عنوان کتا ب کے تعارف میں لکھتے ہیں ”ہندوستان کے را جہ رائے دا بشیلم نے جب باد شاہ ہو شنگ کی وصیت کے مطا بق علم کے مو تی چننے کے لئے سرا ندیب جا نا چا ہا تو ایک وزیر با تدبیر نے کہا کہ سفر کی تکلیف تو درزخ سے بھی زیا دہ ہو تی ہے راجہ دا بشیلم نے بر جستہ جواب دیا مسافر ت کے صبر ازما دریا کو پار کر کے ہی کوئی شخص متمدن اور مہذب ہو سکتا ہے باز کو باد شاہوں کی کلائی پر بیٹھنے کی عزت اس لئے حا صل ہے کہ وہ آشیا نے میں نہیں ٹکتا اور اُلّو کو لو گ حقیر نظر سے اس لئے دیکھتے ہیں کہ وہ ویرانے سے نکلنے کے لئے تیا ر ہی نہیں ہوتا“ان سفر نا موں میں کیا ہے؟
میں اس سوال کو غلط سمجھتا ہوں درست سوال یہ ہو سکتا ہے کہ ان سفر نا موں میں کیا نہیں؟ اردن میں وادی مو سیٰ ؑ وادی شعیب ؑ یوشع بن نون کا مزار، اصحا ب کہف کا غا ر، شعیب ؑ کا مزار مبار ک، قاہرہ میں علا مہ بدر الدین عینی ؒ اور حا فظ ابن حجر عسقلا نی کے مزا رات پر حا ضری کا شرف، اردن میں سلطان صلا ح الدین ایو بی کے تاریخی قلعے کی سیر، قطر میں اسلا مک آرٹ میو زیم کا دورہ اور بھی بہت کچھ، پڑھیے سر دُھنیے اور آگے بڑھتے جائیے چین کے شہر شنگھائی میں ایک کانفرنس کے دوران تل ابیب سے آنے سے آنے والے یہودی مندوب کی تقریر سننے کا سوئے اتفاق ہوا، اسرائیلی مندوب نے ویڈیو کی مدد سے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطینی بچے دہشت گر د ہیں وہ اپنے ساتھ غلیل اور پتھر لیکر پھر تے ہیں راہ چلتے ہم پر پتھر پھینکتے ہیں چونکہ امن قائم رکھنا بحیثیت قانون کے محا فظ ہماری ذمہ داری ہے
اس لئے ہم ان بچوں کو دیکھتے ہی گولی ماردیتے ہیں تا کہ دہشت گر دی ختم ہو، سفر اور کانفرنس کی یہ دلگداز روداد بیان کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کر تے ہوئے لکھتے ہیں کس قدر دکھ کی بات ہے شنگھا ئی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں اسرائیلی مندوب نے جر میات کے بین الاقوامی ما ہرین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کو شش میں تما م حدود پا ر کر دیئے غلیل سے پتھر پھیکنے والوں کو دہشت گرد کہا اور معصوم بچوں کو گولی مار کر خا ک و خون میں نہلا نے والوں کے لئے قانون کے محا فظ کا مغا لطہ آمیز اور گمراہ کن جملہ بولا نا طقہ سر بگر یباں ہے اسے کیا کہئیے مصنف ڈاکٹر فصیح الدین اشرف پو لیس سروس آف پا کستان کے سینئر افیسر ہیں، پا کستان جر نل آف کریمینا لو جی کے با نی ایڈیٹر اور پا کستان سو سائیٹی آف کریمینا لو جی کے با نی ہیں ایشین کریمینا لو جی سو سائیٹی اور ایشین ایسو سی ایشن آف پو لیس سٹڈیز کے ممبر ہیں اس حیثیت میں انہوں نے علمی کا نفرنسوں میں پا کستان کی نما ئندگی کر تے ہوئے 6بر اعظموں کے 26اہم مما لک کے متعدد دورے کیے لکھنے پہ آتے ہیں تو بے تحا شا لکھتے ہیں گویا Prolificرائٹر کا تا ج ان کے سر پر سجتا ہے