Chitral Times

Apr 29, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ تو سیع شہر۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ تو سیع شہر۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

پشاور کے شہر نے گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں فصیل سے با ہر تو سیع شہر کے کئی مرا حل دیکھے اور ہر مر حلے نے شہر کو نیا روپ دیدیا لاہور، ملتان اور دہلی جیسے قدیم شہروں میں فصیل شہر کے اندر ہرابادی کو ”والڈ سٹی“ فصیل والے شہر کا نا م دیا جا تا ہے یورپ کا سفر کرنے والوں کو پتہ ہے کہ وہاں بھی فلو رینس کی طرح کئی قدیم شہروں میں فصیلیں ہوا کر تی تھیں در وازے ہوا کر تے تھے بعض شہروں میں دونوں کی نشا نیاں اب بھی ملتی ہیں فلورینس کی فصیل کا چھوٹا ساحصہ نظر آتا ہے دو دروازے بھی سلا مت ہیں

 

لا ہور کی فصیل اور اس کے تاریخی دروازوں کی بحا لی کا کام گذشتہ 30سالوں سے یونیسکو (UNESCO) اور آغا خان ٹرسٹ برائے ثقا فت کے تعاون سے جا ری ہے شاہی حمام اور مسجد وزیر خان کی بحالی کا کام مکمل ہوا ہے پشاور کی فصیل جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کرنا پید ہو چکی ہے چند دروازے اب بھی مو جود ہیں گذشتہ دو سالوں میں قصہ خوانی بازار کی بحا لی اور تزین وارائش پر اچھا کام ہوا ہے فصیل شہر کے اندر قصہ خوانی کی طرح دلچسپ اور تاریخی نا موں سے مو سوم کئی تاریخی مقا ما ت حکومت اور شہریوں کی تو جہ کے متقا ضی ہیں تحصیل گور کٹھڑی، بازار کلان، مو چی لڑہ، ریتی بازار، ڈھکی نعلبندی، بازار فیل بان، بازارِشتر باناں، بازار ٹین گران، بازرِ چڑدی کوبان، بازار دالگراں، محلہ گلا ب خانہ، چوک شادی پیر جیسے بے شمار نا م ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی تایخ ہے، مگر وہ زما نہ گذر گیا اب زما نہ تو سیع شہر

کا آگیا ہے علا مہ اقبال نے کہا تھا
نہیں میری نظر سوئے کوفہ و بعداد
کرینگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

 

دیر، سوات اور چترال کے سینئر تاجر کہتے ہیں کہ 1910میں ہمارے اباو اجداد پشاور میں سامان تجا رت کی خریداری کر کے پراچگاں کی تلا ش میں شہر سے با ہر کا رخ کر تے تھے تو ان کو بتا یا جا تا تھا کہ شہر سے با ہر بھا نہ ماڑی کا علا قہ ہے وہاں پر اچگاں رہتے ہیں، ان سے بات کریں وہ تمہارا مال اٹھائینگے چنا نچہ ایسا ہی ہوتا تھا آج بھا نہ ماڑی شہر کے وسط میں آگیا ہے شہر کی تو سیع نے بڈھ بیر تک اپنا دامن پھیلا یا ہوا ہے، آج آپ بھا نہ ماڑی کو شہر سے با ہر کے علا قوں میں شمار نہیں کر سکتے، پشاور شہر کی تو سیع کا پہلا مر حلہ صدر یا کنٹونمنٹ کی صورت میں 1870کے وسط میں شروع ہوا اس کے بعد 1950میں یونیور سٹی ٹاون اور شامی روڈ کے مر حلے آئے پھر 1970کے بعد حیات آباد کی داغ بیل ڈالی گئی،

 

اس کے بعد 1990ء کی دہا ئی میں ریگی ٹاون شپ کا اعلا ن ہوا پھر اکیسویں صدی کی ابتدا میں ڈیفنس ہاوسنگ اتھا رٹی آگئی اس کے بعد بحریہ ٹاون کا اعلا ن ہوتے ہی بڑے بڑے تنا زعات نے سر اٹھا یا، مگر چھوٹی اور درمیانہ درجے کی ہاوسنگ سکیموں پر ان تنا زعات کا کوئی اثر نہیں ہوا چنا نچہ نو شہرہ روڈ، چارسدہ روڈ اور ورسک روڈ پر اچھی اچھی ہاوسنگ سکیمیں بن گئیں اور توسیع جا ری رہی شہر کی تو سیع کے ساتھ انسانی ضروریات اور نئی بستیوں کے بنیا دی تقاضوں پر بھی کام ہوا،

 

شہری سہو لیات کی فراہمی پر بھی کام ہوا، ان کاموں میں نجی شعبے نے اہم کر دار ادا کیا شہر کے تعلیمی اداروں میں نجی شعبے نے بڑھ چڑھ کر اپنا مثبت کر دار ادا کیا اس طرح طبی سہو لیات کی فراہمی میں بھی نجی شعبے کا کر دار قابل تحسین رہا، جہاں بجلی اور گیس سرکاری اداروں نے فراہم کی وہاں پبلک ٹرانسپورٹ نجی شعبے نے مہیا کی آج کا پشاور توسیع شہر کی وجہ سے حد نظر تک پھیل چکا ہے ڈرون کیمرے کی تصویر وں اور گوگل انجن کے نقشوں میں فصیل شہر کے اندر واقع ایک ہزار سال پرانے پشاور کو ڈھونڈ یں تو قلعہ بالا حصار کے مشرق میں شہر کا چھوٹا سا حصہ آب کو نظر آتا ہے اسے دیکھ کر آپ سوچنے لگتے ہیں کیا یہی وہ پشاور ہے جو سمر قند، بخا را، کا بل، تاشقند، کا شغر اور یارکند سے آنے والے تجارتی قافلوں کو اپنے دامن میں جگہ دیتا تھا

 

آج بھی پشاور خطے کے شمال اور جنوب کے درمیان تجا رت میں مر کزی کردار ادا کر رہا ہے مگر اس کا طرز الگ اور اسلوب جدا گانہ ہے آج پشاور کی خشک گودی وسطی اور جنو بی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لئے کھلی ہوئی ہے آج پشاور میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے اور ٹر شری کئیر کے جدید ہسپتال اپنی خد مات پیش کر تے ہیں اور یہ تو سیع شہر کی ایک خو بی ہے

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
100972