
داد بیداد ۔ اکوڑہ خٹک کا المناک سانحہ ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ اکوڑہ خٹک کا المناک سانحہ ۔ ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی
ملک کے ممتاز دینی درس گاہ جا معہ حقا نیہ کی مسجد میں جمعہ کی نما ز کے وقت خو د کش دھما کہ ایک المنا ک سانحہ ہے اس کی باز گشت صدیوں تک سنا ئی دیتی رہے گی قیام پا کستان کے ایک سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے عالم دین مولانا عبد الحق ؒ دیو بند سے اپنے گاوں آئے ان کے ہمراہ چند طلباء بھی آئے تھے اپنے گاوں میں گھر کے سامنے درخت کے نیچے مسند بچھا کر ان طلبا کو پڑ ھا نے کا سلسلہ شروع کیا اتفاق سے مولانا محمد قاسم نا نوتوی ؒ نے دار العلوم دیو بند کا آغا ز بھی اسی طرح درخت کے سایے میں کیا تھا اکوڑہ خٹک کا یہ بے سرو سامان مد رسہ اتنا معتبر ہوا کہ 77سالوں کے اندر پا کستان کے چار بڑے مدارس میں اس کا شمار ہوتا ہے اس کے فارغ التحصیل طلباء اور علما ء بڑے فخر سے حقانی کہلوا تے ہیں
علا قے میں مدرسہ حقا نیہ کے بانی کا اتنا اثر و رسوخ تھا کہ 1970ء کے انتخا بات میں انہوں نے ووٹ نہیں ما نگے، مہم نہیں چلا ئی پھر بھی لو گوں نے بھاری اکثریت سے انہیں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کیا ان کا بیٹا مولا نا سمیع الحق شہید بار بار ایوان بالا کے ممبر سنیٹر منتخب ہوئے، ان کے پو تے مولانا حامد الحق حقا نی کو 2002میں قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کیا گیا اکوڑہ خٹک کا لمنا ک سانحہ اس لحا ظ سے بھی قوم کو دکھ اور رنج دے گیا ہے کہ اس سانخے میں مولانا حا مد الحق حقا نی نے جا م شہا دت نو ش کیا، ان کا جوان اور عالم دین بیٹا بھی شہید ہوا، 10دیگر نما زی شہید اور کئی نما زی زخمی یا معذور ہوئے تفتیش کرنے والے ادا روں نے ابتدائی تفتیش میں ذکر کیا ہے کہ حملہ آور کا ہدف مولانا حا مد الحق حقا نی تھے اداروں نے یہ بھی کہا ہے کہ مسجد اور مد رسے کی سیکیورٹی میں کوئی کمی نہیں تھی گارڈ بھی مو جود تھے پو لیس کے جوان بھی ڈیوٹی دے رہے تھے
اس المنا ک سانحے کے تین پہلو قابل غور ہیں 1979سے اب تک 46سالوں میں 50سے زیا دہ جید اور نا مور علما ء کو ٹا رگٹ بنا کر شہید کیا گیا ہے کسی بڑے عالم دین کو شہید کر کے دشمن دو مقا صد حا صل کر تا ہے پہلا مقصد دینی قیا دت کو راستے سے ہٹا نا ہے دوسرا مقصد عالم دین کی شہا دت کے ذریعے ملک میں افرا تفری پھیلا نا ہے اس پہلو سے دیکھا جا ئے تو اکوڑہ خٹک کا سانخہ ملک اور قوم پر دشمن کا حملہ ہے اور یہ محص حملہ نہیں کاری ضرب بھی ہے، اس المنا ک واقعے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ افغان جہا د میں مدرسہ حقا نیہ اکوڑہ خٹک کے طلبا ء اور علما کا نما یاں کر دار تھا افغا نستان کے علما کی بھا ری اکثریت مد رسہ حقا نیہ سے سند لینے والوں کی ہے افغان جہا د کا حقا نی نیٹ ورک پورے چار دہا ئیوں تک دشمن کے سر پر سوار رہا اور ذرائع ابلا غ میں بار بار آتا رہا مولانا سمیع الحق شہید کا نا م ملی یک جہتی کونسل اور دفا ع افغا نستان کو نسل کے سر براہ کے طور پر میڈیا کی زینت بنتا رہا ان کی شہا دت بھی را ولپنڈی میں ٹا رگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہوئی گویا مدرسہ حقا نیہ عرصے سے دشمن کا ٹارگٹ ہے
اس واقعے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ سیکیورٹی اور کلو ز سر کٹ کیمروں کے ہوتے ہوئے حملہ آور کا مدرسے میں داخل ہو کر واردات کرنا ملکی اداروں کے کر دار پر سوا لیہ نشان ہے اس پہلو کو سامنے رکھ کر مستقبل کا لا ئحہ عمل طے کرنا چاہئیے اس المنا ک سانحے کا آخری پہلو سب سے اہم ہے پا کستان میں دہشت گردی کے مجرموں کو سزا دینے کا کوئی سسٹم نہیں ہے سب سے بڑا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ خو د کش حملہ آور کے اعضا ء کے نمو نوں کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھیجا گیا ہے، ہمارے پا س ڈی این اے کا ڈیٹا بیس مو جو د نہیں اور ڈیٹا بیس کے بغیر ڈی این اے کا کوئی فائدہ نہیں یہ فضول، بیکار اور پُر فریب مشق ہے، پو لیس کے ا ندر تفتیش کو الگ کر کے سسٹم کو نقصان پہنچا یا گیا پھر پرا سیکیو شن کو پو لیس سے واپس لیکر محکمہ قانون کی ما تحتی میں دینے سے فو جداری مقدمات کا ستیا نا س کیا گیا،
عدالتوں کے اندر 99فیصد مقد مات میں مجر موں کو شک کا فائدہ دیکر بری کر نے کا معمول ہے اس لئے کوئی بھی دہشت گرد پا کستان میں دیدہ دلیری کے ساتھ واردات کرتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ پا کستان میں وہ پکڑا نہیں جا ئے گا اگر پکڑا گیا تو عدالت سے بری ہو کر اپنے گھر جا ئے گا اکوڑہ خٹک کا تازہ ترین سانحہ قوم کے حکمرا نوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ دہشت گردی کے خا تمہ کے لئے ملکی اداروں کی نئی صف بندی ہونی چاہئیے ور نہ دشمن یہی سمجھتا ہے نہ خنجر اٹھیگا نہ تلوار ان سے یہ بازو میرے آزما ئے ہوئے ہیں