داد بیداد ۔ اپنا بندہ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
وطن عزیز پا کستان میں ہر تین سال بعد حکمرانوں کے سامنے ایک گھمبیر مسلہ آجا تا ہے مسلہ ایسا ہے جو کبھی میا نمر، بھوٹان اور روانڈا میں بھی پیدا نہیں ہوا، ترقی یا فتہ اقوام کے ہاں تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا، ہم ہیں کہ اس مسلے سے ہماری جا ن نہیں چھوٹتی، مسلہ یہ ہے کہ افسر میری مر ضی کا آنا چاہئیے معروف معنی میں روزمرہ کے مطا بق اپنا بندہ ہونا چاہئیے، تھا نیدار اپنا ہونا چاہئیے، سپہ سالار اپنا بندہ ہونا چاہئیے، جج اپنا بندہ ہونا چاہئیے، جہاں جہاں میرا کام پڑنے والا ہے وہاں میرا بندہ پہلے سے مو جو د ہونا چاہئیے ورنہ کام بگڑ جا ئیگا یہ پا کستانی خواص کی ذہنیت ہے، پا کستانی خواص کی مخصوص عادت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خواص کو آئین اور قانون کے مطا بق اپنا حق لینے اور دوسرے کا حق دینے کی عادت نہیں
اس لئے آئین کو ہم نہیں مانتے، قانون کو ہم اپنے راستے کی رکا وٹ سمجھتے ہیں اہلیت یا میرٹ سے ہم نا واقف ہیں، گھر اور سکول میں ہماری ایسی تر بیت ہوئی ہے اس تر بیت نے معا شرے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے جو لو گ 1974میں ریڈیو سننے، ٹی وی دیکھنے اور اخبار پڑھنے کی عمر کو پہنچ چکے تھے ان کو ”واٹر گیٹ سکینڈل“ کا نا م اب بھی یا د ہو گا یہ امریکہ کا مشہور سیکنڈل تھا اس میں جج کا کلیدی کر دار تھا امریکی صدر رچرڈ نکسن ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا تھا، مقدمہ ایسا تھا جو پا کستان میں مقدمہ ہی نہیں بنتا، صدر نکسن پر الزام تھا کہ اُس نے ری پبلیکن کی مخا لف پارٹی ڈیمو کریٹک پارٹی کے دفتر واٹر گیٹ بلڈنگ میں پارٹی کی میٹنگ میں ہونے والی خفیہ گفتگو کا ریکارڈ حا صل کرنے کے لئے سرکاری ملا زم کے ہاتھ رٹیپ ریکارڈراُس دفتر میں بھیج کر گفتگو کو ریکارڈ کروایا،
سیا سی مقاصد کے لئے سرکاری وسائل استعمال کر کے بد دیا نتی اور نا اہلی کا مر تکب ہوا چنا نچہ وہ کر سی صدارت پر فائز رہنے کا اہل نہیں رہا، مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی، ڈیمو کریٹک پارٹی کے وکیل نے ثبوت لا کر عدالت کے سامنے رکھے، صدر نکسن نے جج کو تبدیل نہیں کیا بلکہ اپنا جرم تسلیم کر کے صدارت سے استعفیٰ دیا، نا ئب صدر جیرالڈ فور ڈاس کی جگہ عہدہ صدارت پر فائز ہوا، جر م کیا تھا؟ سرکاری ٹیپ ریکارڈر، سرکاری کیسٹ اور خفیہ ایجنسی کا اہلکار سیا سی مقصد کے لئے استعمال ہوا تھا، امریکی آئین کے مطا بق یہ جر م تھا، صدر نکسن پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں ترمیم کرواسکتا تھا لیکن اس نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا، وہ جج کو تبدیل کروا سکتا تھا پوری عدلیہ کو گھر بھیج سکتا تھا، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، اُس نے آئین کی پا سداری کی اس نے قانون کا احترام کیا منصب صدارت سے استعفیٰ دیا قانون اور نظم و نسق کی تعلیم دینے والی یو نیورسٹیوں میں ایسی مثا لوں کو ”بہترین مثال“ بیسٹ پریکٹس کہا جا تا ہے اور باقاعدہ نصاب میں شامل کر کے پڑھا یا جا تا ہے
اس کے مقا بلے میں روانڈا، سوڈان، میانمر اور بھوٹان جیسے مما لک میں جب حکمران اپنے ذاتی مفاد کے لئے آئین، قانون اور جج کو بدل دیتے ہیں اُس کو ”نا کا می کی کہا نی“ فیلیئر سٹوری کے طور پر پڑھا یا جاتا ہے لبنا ن کے مشہور قانون دان اور انٹر نیشنل کورٹ آج جسٹس کے صدر نشین جسٹس نواف سلا م نے ایک انٹر ویو میں غیر ترقی کردہ اقوام کی طرف سے باربار قانون اور جج بدلنے کی روش یا عادت پر اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ جس ملک کا حکمران غیر آئینی اور غیر قانونی حرکات کا مر تکب ہوتا ہے وہ آئین اور قانون میں بار بار تبدیلی لا تا ہے اپنی مر ضی کا سپہ سا لا ر لگا تا ہے اپنی مر ضی کا جج لگا تا ہے، اپنی مر ضی کا پو لیس افیسر لگا تا ہے تا کہ اُس کے جر ائم پر اس کو سزا نہ ہو اس کے مقا بلے میں جس ملک کا سربراہ آئین اور قانون کی پا بندی کر تا ہے وہ نہ آئین میں تر میم کی خوا ہش کر تا ہے نہ جج کو تبدیل کر کے اپنا آدمی یا اپنا بندہ لانا چاہتا ہے، جہاں آئین اور قانون کی پا سداری ہو تی ہے وہاں کسی جج کا نا م زیر بحث نہیں آتا، صرف آئین کی بات ہو تی ہے، ”اپنا بندہ“ ڈھونڈ نا نہیں پڑتا۔