Chitral Times

Feb 9, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ امن و امان کی طلب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ امن و امان کی طلب ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

 

خبر آئی ہے کہ امن و امان ہر حال میں بر قرار رکھا جا ئے گا پھر خبر آئی ہے کہ امن کے دشمنوں نے امن و امان میں خلل ڈال دیا دونوں خبروں کا یہ تسلسل اس طرح جا ری رہتا ہے اسلا می تعلیمات میں امن و امان کو اللہ پا ک کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے سور ہ قریش میں ذکر آیا ہے کہ اللہ پا ک نے بھوک میں تمہیں کھا نا کھلا یا اور خوف میں امن دیا، سید نا عمر فاروق ؓ اپنے خلافت کے دور میں رات کے وقت حالات سے با خبر ہونے کے لئے گشت کیا کر تے تھے ایک رات اکیلی عورت سامان کی پوٹلی اٹھا ئے سفر پر جا تے ہوئے انہیں ملی، امیر المو منین نے پو چھا کیا رات گئے سفر پر جا تے ہوئے تمہیں خو ف نہیں آتا؟ اُس نے جواب دیا کیا عمر فاروقؓ مر گیا ہے کہ میں خو ف کے مار ے با ہر نہ نکلوں؟ اُس کے لئے یہی کا فی تھا کہ عمر فاروق ؓ زندہ ہے ملک میں امن ہے مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتاآج لو گ نا رو ے، سویڈن اور دوسرے مما لک کی مثا لیں دیکر امن کا ذکر کر تے ہیں

 

امن و امان کی طلب سب کو ہے، جن قوموں نے اعتما د کا رشتہ قائم کیا وہاں امن قائم ہوا، جن قوموں کے اندر اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہوا وہاں امن نہیں آیا کیونکہ با ہمی اعتماد امن کی بنیاد ہے ناروے کے دار الحکومت اوسلو کی ایک ٹریول ایجنسی میں انجا ن مسا فر آتا ہے ڈرائیور کے بغیر گاڑی مانگتا ہے ایجنسی کا منیجر کسی ضما نت اور رہن وغیر ہ کے بغیر40ہزار ڈالر کی گاڑی اُس کو دے دیتا ہے وہ 10دن گھوم پھر کر گاڑی واپس لا تا ہے کرایہ دے کر رخصت ہوتا ہے اور اچھے ممالک کی اچھی سوسائیٹی میں یہ معمول کی بات ہے بہت کم لو گوں کو معلوم ہو گا کہ یہ عہد فاروقی کا نمو نہ ہے جب معاشرے میں لو گ ایک دوسرے پر اعتماد کر تے ہیں آگے جا کر سب لو گ اپنی حکومت پر اعتماد کر تے ہیں، عدالت پر اعتماد کر تے ہیں اعتماد کا یہ رشتہ امن کا ضا من ہے دنیا میں جہاں حکومتوں کو استحکام حاصل ہوتا ہے

 

جہاں حکومت کی پا لیسیاں پچاس سالوں تک تبدیل نہیں ہو تیں جہاں قانون پچاس سالوں تک ایک جیسا رہتا ہے جہاں عدالت کا انحصار کسی ایک شخص کی ذاتی پسند اور نا پسند پر نہیں ہو تا وہاں سسٹم کام کر تا ہے سسٹم کی معمولی مثال یہ ہے کہ شہر کی 40لا کھ آبادی اور با ہر سے آنے والے ہر مہمان کا پورا ڈیٹا (Data) یعنی حال احوال، نا م نسب فون نمبر وغیرہ حکومت کے پا س مو جو د ریکارڈ یا ڈیٹا بیس (Database) میں جمع ہوتا ہے، کلو ز سرکٹ ٹیلی وژن کا کیمرہ (CCTV) شہر کے کونے کونے پر نظر رکھتا ہے، چھوٹا یا بڑا واقعہ کیمر ے کے اندر محفوظ ہوتا ہے، واقعہ رونما ہونے کے 10سیکنڈ بعد ملزم پکڑا جاتا ہے پکڑے جا نے کے بعد ایسی عدالت میں پیش ہوتا ہے جہاں کوئی بڑا آدمی اس کو بچانے کے لئے نہیں جا سکتا اگر جا ئیگا تو وہ بھی سزا پا ئیگا اس کا نا م سسٹم ہے یہ سسٹم کا ہارڈ وئیر یعنی نظر آنے والا حصہ ہے با ہمی اعتما د اس سسٹم کا سافٹ وئیر یعنی روح اور جان کی طرح نظروں سے پو شید ہ حصہ ہے جو سسٹم کے اندر خون اور حرارت پیدا کر تا ہے جس ملک میں دو گروہوں کے درمیان شدید جنگ میں ڈیڑھ سو شہریوں کی ہلا کت کے بعد پتہ لگ جا ئے کہ دونوں گروہوں نے لا کھوں راکٹ لانچر، لا کھوں اور کروڑوں کی تعداد میں دیگر آتشیں اسلحہ غیر مما لک سے لا کر ذخیرہ کر لیا ہے تو اُس ملک کے سسٹم پر ما تم کیا جا سکتا ہے

 

 

اتنی وافر مقدار میں اسلحہ جمع ہو نے تک سسٹم کیا کر رہا تھا؟ اور دونوں فریق بھاری اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ کیوں ذخیرہ کر رہے تھے؟ ایک غیر ملکی سیاح امریکہ اور یو رپ یا چین اور جا پا ن میں گھو منے کے بعد کسی ایسے ملک میں داخل ہو جہاں با زاروں میں پو لیس اور سیکیو رٹی اداروں کے لو گ ور دی میں کھڑے ہوں گاڑیوں کی تلا شی لے رہے ہوں، لو گوں سے تفتیش کر رہے ہوں وہ غیر ملکی سیا ح سو بار سو چیگا کہ اس ملک میں رہنا ہے یا نہیں اس ملک کی سیر کر نی ہے یا نہیں اس ملک میں سرمایہ لگا نا ہے یا نہیں اور سوچنے کے بعد وہ پہلی فرصت میں واپس جائیگا بازاروں اور سڑکوں پر ہر ایک کی تلا شی لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں سسٹم کا وجود نہیں، ملکی شہریوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں با ہر سے آنے والوں کو ویزہ اور امیگریشن کلیرنس دیتے وقت ان کا نام ڈیٹا بیس میں نہیں ڈالا گیا اس لئے چنگیز خا ن کے زما نے کا فر سودہ طریقہ آز مایا جا رہا ہے امن و امان کی طلب وقت کی اہم ضرورت ہے اُس کے لئے با ہمی اعتماد کے ساتھ فعال اور متحرک سسٹم کی بھی ضرورت ہے۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
98139