Chitral Times

May 17, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ۔ ادارہ جا تی حل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

داد بیداد ۔ ادارہ جا تی حل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

عنوان عام طور پر شنا سا نہیں ہے تا ہم بات بڑے پتے کی ہے اخبارات کی اس خبر نے پورے ملک میں خو شی اور اطمینا ن کی لہر پیدا کی ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) میں وزیر اعظم، چاروں صو بوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزراء اور اعلیٰ حکام نے طویل غور خوص کے بعد متنا زعہ نہروں کا معا ملہ مو خر کرنے کا فیصلہ کیا ہے فیصلے کے دو پہلو قابل تحسین ہیں پہلا پہلو یہ ہے کہ لمبی مدت کے بعد کوئی بڑا مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہوا ہے، دوسرا پہلو زیا دہ اہم ہے یعنی کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے 10سالوں میں پہلی بار کسی قومی ادارے کا سہا را لیا گیا قومی ادارے اسی لئے ہو تے ہیں لیکن وطن عزیزمیں شخصیات کا جا دو سر چڑھ کر بولتاہے ادارہ جا تی نظام کو با لکل بھلا دیا جاتا ہے

 

 

کسی بھی مسئلے کا ادارہ جا تی حل نکا لنے پر تو جہ نہیں دی جا تی اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو بھی خا طر میں نہیں لا یا جا تا عدالتی احکا مات کو بھی پس پُشت ڈالا جا تا ہے قوموں کو عزت اداروں کے ذریعے ملتی ہے، وقار بھی اداروں کے ذریعے ملتا ہے اعتبار اور اعتماد بھی اداروں کے ذریعے ملتا ہے، مسلہ اُس وقت پیدا ہوا جب دریا ئے سندھ سے صو بہ پنجاب کے لئے چار نہریں نکا لنے کا منصو بہ سامنے آیا ان میں ایک نہر چولستان کے بنجر علا قے کو سیراب کرنے کے لئے نکالا جا نا تھا سندھ کے دیہی اضلا ع اور ڈویژنوں میں ان منصو بوں کے خلا ف عوامی احتجا ج شروع ہوا سیا سی اور سما جی حلقے میدان میں آگئے جگہ جگہ جلسے اور دھر نے ہوئے احتجا ج کرنے والوں کا مو قف یہ تھا کہ ہمارے حصے کا پانی نئی نہروں میں جا نے کے بعد نشیبی اضلا ع اور ڈویژنوں کو سندھ کے حصے کا پانی نہیں ملے گا ہماری فصلیں سوکھ جا ئینگی با غات ویراں ہو جا ئینگے

 

 

احتجا ج میں زمیندار وں کے ساتھ کسا نوں کی بھا ری اکثریت بھی شامل تھی چونکہ سیا ست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ہمارے ہاں سیا ست کی صرف جیب ہوتی ہے اس لئے معمولی مسئلہ بھی طول پکڑ تا ہے مگر دونوں فریقوں نے مشترکہ مفادات کی کونسل پر اعتماد کیا معا ملہ CCIکے سامنے رکھا گیا اور پا نی کے مسئلے پر اندروں ملک جنگ چھڑ نے کا خطرہ ٹل گیا جنگوں کی پیش گوئی کرنے والے ما ہرین اور عالمی تجزیہ کا روں نے 100سال پہلے رائے دی تھی کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے جس طرح ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں پانی کے ذرائع اور چرا گا ہوں پر قبضے کے لئے قبا ئل میں جنگیں ہوا کر تی تھیں اس طرح اکیسویں صدی کے بعد دنیا واپس اُس حا لت کو لوٹ جا ئیگی اور پا نی کا شدید بحران پید ا ہو گا قوموں کی با ہمی جنگیں میٹھے پا نی کے ذرائع پر قبضے کے لئے ہونگی 100سال پہلے ما ہرین کی پیش گوئی کے وقت موسمیا تی تغیر، عالمی حدت، گلیشر پگھلنے کا تصور لیبارٹریوں تک محدود تھا عوام کو اس طرح کے خطرے کا اندازہ نہیں تھا

 

صرف ما ہرین کے پاس اس طرح کی معلومات ہوا کر تی تھیں 2025ء میں سب کچھ سامنے آچکا ہے عوام کو بھی میٹھے پا نی کی کمیا بی یا بالکل نا یا بی کے خطرے کا پورا پورا پتہ چل گیا ہے، ذرائع ابلا غ میں بھی اس کا ذکر بار بار آرہا ہے نیز یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ توا نا ئی کے وسائل مثلا ً تیل اور قدرتی گیس کے ذخا ئر چند سالوں میں ختم ہو جا ئینگے تو انا ئی کے حصول کا ذریعہ بھی سورج، ہوا یا پا نی ہو گا لا محا لہ جوا قوام اس وقت گیس اور تیل کے ذخا ئر پر قبضے کے لئے آپس میں لڑ رہی ہیں وہ بھی پا نی کے لئے جنگیں لڑینگی اس تنا ظر میں کینا لز پر ہونے والا جھگڑا کوئی معمولی جھگڑا نہیں کونسل آف کا من انٹر سٹ کی بروقت مدا خلت نے سر دست معا ملے کو دبا نے اور صو بوں میں ہم آہنگی کو بر قرار رکھنے میں مثبت کر دار ادا کیا ہے آگے جا کر کسی مر حلے پر مسئلے کو دوبارہ اٹھا یا گیا تو ایک بار پھر نا چا قی پیدا ہو نے کا امکان مو جود ہے قومی اتحا د، ہم آہنگی اور یک جہتی کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی طرح دوسرے اہم اداروں کو بھی اپنا کر دار ادا کرنا ہوگا۔

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
101919