داد بیداد – چل اڑ جا رے پنچھی – ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
داد بیداد – چل اڑ جا رے پنچھی – ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
پشاور ائیر پورٹ کے رن وے پر جہاز نےدوبئی کے لیے اڑان بھراتو بے ساختہ زبان پر یہ مصرعہ آیا “چل اڑ جاتے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ” مگر ایسی کوئی بات نہیں تھی ہمیں بیٹے نے اٹلی کے شہر روم آنے کی دعوت دی اور ہم نے رخت سفر باندھاغالب کا شعر ہے”جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا تپش شوق نے ہر ذرے پہ اک دل باندھا” گوادر اور مسقط کی فضاؤں پر مست پرواز کرتے ہوے ہم دوبئی پہنچے رسمیات سے گذر کر اگلے جہاز کے لیے مختص دروازے پر
آکر ڈیرے ڈال دیے،دلچسپ بات یہ تھی کہ ائیر پورٹ کی وسعتوں کو پاٹنے کے لیے
ہمیں ریل پر سفر کرنا پڑا ریل میں بیٹھے تو علامہ اقبال کا فارسی کلام یاد آیاشاعر چاند سے خطاب کر کے کہتاہے”سفر نصیب !نصیب تو منزلےاست کہ نیست” ہماری نصیب کی منزلیں اب آنے والی تھیں،دوبئی سے روم جانے والی پرواز کا اعلان ہواتو ہم نے خراماں، خراماں جہاز کی طرف پیش قدمی شروع کی جہاز
میں بیٹھ کر اپنی سیٹ کا ٹیلی وژن سکرین لگایا تو معلوم ہوا کہ4300 کلومیٹر سے زیادہ کا فضائی فاصلہ ہمارا منتظر ہے پشاور سے دوبئی کا فضائی فاصلہ 1800 کلومیٹر کے برابر تھا جہاز نے خلیج فارس کے بعد عراق،کویت ،ترکیہ اور یونان کے اوپر سے گذرتے ہوےبحر احمر کے کنارے پر واقع شہر روم میں ہمیں اتارا، شام کے دھندلکے میں روم کے اندر محمد فاروق کا پتہ ڈھونڈنا آسان نہ تھاتاہم فاروق نے بچوں کے ہاتھوں میں گلدستے دے کر ہمارا استقبال کیااو ر کسی ردوکد کے بغیر پلک جھپکتے ہی ہمیں “ویا انتونیو ترس مونٹے 10” میں واقع اپنے گھر پہنچا دیا یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں کا موسم پشاور کی طرح ٹھنڈا ہے دن کو دوپ پڑتی ہے تو گرمی محسوس ہوتی ہے شام اور صبح کا وہی خزاں رسیدہ حال ہے جو پشاور کا ہےفاروق نے بتایا کی پنج وقتی نماز کے لیے مسجد کافی دور ہے جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھیں گے یہ مسجد ایک گھر میں تھی بلکہ پورے گھر کو مسجد بنایا گیاہے ،
پیش امام اور مؤذن بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں،نمازیوں کی اکثریت بھی بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی ہے،دوسرے مقامات پر مراکشی، مصری اور دیگرافریقی مسلمانوں کی مساجد واقع ہیں روم کا شہر یورپ کا پرانا شہر ہے،انگریزی ادب کے سینکڑوں ناولوں،اور ڈراموں کا پس منظر اسی شہر سے لیاگیاہےچترال کے ساتھ اس کی دو نسبتیں ہیں،ڈولومایٹ کا پہاڑی سلسلہ اس کی پہچان ہے جس طرح ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ چترال کے حوالے سے شہرت رکھتاہےطیبر نامی دریا (River Tiber) شہر کے عین وسط میں بہتاہےجس طرح دریاے کابل چترال شہر کے وسط میں بہتا ہےاور دریاے چترال کہلاتاہے روم کو سیاحت کا شہر کہا جاتاہے۔ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے مقامات کا شمار ممکن نہیں،تاریخی قلعےبھی ہیں، عیسائیوں کے مذہبی مقامات بھی ہیں کیتھولک چرچ کے سربراہ پاپائے روم کا مرکز ویٹی کن سٹی بھی یہاں واقع ہے جو شہر کے اندر خودمختار ملک کا درجہ رکھتاہےدنیا کے کسی اور شہر میں ایسی مثال نہیں ملتی,
چرچ اور تاج و تخت کے درمیاں اختیارات کی تقسیم کے مباحثے سب سے پہلے روم میں شروع ہوےجولیس سیزر، وکٹر ایمانویل دوم اور نیرو جیسے بادشاہ بھی روم میں گذرے ہیں سر زمین حجاز میں محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت یعنی 610 عیسوی میں زوال پذیر رومی سلطنت کی سرحدیں مشرق میں عراق اور شام تک پھیلی ہوئی تھیں،روم کے شہر کی سیر کے لیے اک عمر چاہئیے دوچار دنوں میں مسافر کیا دیکھ سکتاہے! سیاح کے لیے اطمینان کی بڑی بات یہ ہےکہ اس شہر میں پولیس اور فوج کی وردی میں کوئی بندہ نظر نہیں آتا،اخبارات میں ججوں اور وزیروں کی تصویریں نہیں آتیں ٹیلی وژن پر وزیر اعظم اور آرمی چیف کو نہیں دکھایا جا تا اور کسی بھی جگہ بھکاری نظر نہیں آتاپاکستانی سیاح کے لیے اس قدر خوشی بھی کافی ہے