داد بیداد ……. جس جھو لی میں سو چھید ہوئے ………. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
گرم خبر یہ ہے کہ پا کستان نے انٹر نیشنل ما نیٹیری فنڈ (IMF)سے نیا قرض لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بقول کسے یہ کڑ وی گو لی ہے جسے نگلنا ضر ور ی ہے یہ مشکل فیصلہ ہے جو قو موں کی زندگی میں آتا ہے دسمبر 1958 ء میں جسٹس رستم کیانی نے سی ایس پی افیسر وں کے سا لانہ ڈنر پر صدر ایوب کو بلا کر تقریر کی تھی تقریر میں انہوں نے کہا تھا “انگریزی کا مقو لہ ہے بد قسمتی اکیلئے نہیں آتی ہما ری قسمت میں جو بد قسمتی تھی و ہ بٹا لین بن کے آئی ہے” یہی حال ہماری قو می زندگی کے مشکل فیصلوں کا ہے اگر اس کو مبا لغے پر محمول نہ کیا جائے تو ریکارڈ کی رو سے پا کستان 105 ویں بار مشکل دور سے گزر رہا ہے اور قو می حکومت کو 210ویں بار مشکل فیصلہ کر نا پڑ رہا ہے یعنی ہر سال دو کے لگ بھگ بحران آئے ہر بحران پر ہم نے دو کے لگ بھگ مشکل فیصلے کئے ، کڑ وی گو لیاں نگلنے کا تجربہ کیا مگرہر مشکل فیصلے نے ہمیں پہلے سے زیادہ مشکل فیصلے تک پہنچا دیا ایک چر وا ہا بکر یاں چرا رہا تھا اتنے میں آسمان پر غبارہ نمو دار ہو ا، غبارے میں ایک شخص تھا اس نے زور سے آوازدی یہ کونسی جگہ ہے ؟ چر وا ہے نے کہا یہ چرا گاہ ہے غبارے والے نے پھر آواز دی کیا تم ما ہر نبا تا ت ہو ؟ چر واہے نے جواب دیا نہیں میں بکر یاں چرا تا ہوں پھر چر واہے نے اوپر والے سے پو چھا کیا تم پا کستان کے وزیر خزانہ ہو؟ غبارے والے نے کہا ہاں مگر تم نے کیسے پہچا ن لیا ؟ چر واہے نے کہا ظا ہر ہے تم غبارے میں اڑ رہے ہو اور منزل کا پتہ نہیں سمت کا پتہ نہیں پا کستا نی وزیر خزانہ کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کچھ لو گ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پا س جا نا رسوا ئی ہے کچھ لو گوں نے مو جو دہ حکمر انوں کی سا بقہ تقریر وں کے ریکارڈ چلا نا شروع کر دیا ہے جس میں وہ کہتے تھے کہ خود کشی کر ینگے مگر آئی ایم ایف کے پا س نہیں جائینگے ایسی تقاریر کو دوبارہ منظر عام پر لانے والے وہ لوگ ہیں جنکو تا ریخ کا ادراک نہیں تا ریخ ہر کسی کی خصو صیت سپیشیلیٹی (Speciality)پر توجہ دیتی ہے ما نگنا ہمارے حکمرانوں کی خصو صیت ہے سپیشیلیٹی ہے چندہ ، قرض اور گرانٹ ہمارے حکمرانوں کے لئے اوکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں اوکسیجن نہ ہو تو سانس لینا محال ہو جا تا ہے مگر مسلہ یہ ہے کہ کشکول کونسا اْ ٹھا یا جائے ! جھو لی کونسی پھیلائی جائے ! انشا جی نے 100با توں کی ایک بات کہی
اس دل کی در یدہ دامنی پہ دیکھو سو چو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھو لی کا پھیلا نا کیا
میڈیا میں اس حوالے سے جو بحث چل رہی ہے وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر چلائی جارہی ہے وطن عزیز میں معیشت اور اقتصا دیات کو 1991ء کے بعد تین بڑے جھٹکے دیئے گئے پہلا وہ تھا جب 1992ء میں سیف الرّ حمن کے ذریعے مخا لف سیا ستدا نو ں اور کا رو باری حلقو ں کے خلاف احتساب کے نام پر جنگ مسلط کی گئی دوسرا جھٹکا اْس وقت آیا جب آصف علی زرداری کے دور میں جوابی کاروائی کر کے مخا لف کیمپ کے کاروباری حلقے کو میدان جنگ میں اتارا گیا آخری جھٹکا اب آیا ہے جب کہ احتساب کا نام لیکر کاروباری حلقوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے 1992میں بڑے بڑے کاروباری حلقوں نے اپنا سر مایہ باہر منتقل کیا تھا 2008اور 2013کے درمیانی عرصے میں تمام قا بل ذکر سر مایہ داروں نے اپنا سر مایہ ملک سے نکال لیا اْس دور میں ہمارے تاجر وں نے سر ی لنکا اور بنگلہ دیش کو بھی پا کستان سے بہتر قرار دیا مو جو دہ دور میں احتساب کا جو چکر چل رہا ہے اس میں ملک ریاض کو بھی ہتھکڑ یاں پہنا ئی جا رہی ہیں قا ئد اعظم محمد علی جناح ، ایم اے ایچ اصفہانی اور عبد الستار ایدھی یا حکیم محمد سعید میں سے کوئی زندہ ہو تا تو اْ س کو بھی ہتھکڑ یاں پہنا ئی جاتیں کہ تمہا رے پا س گھر کہاں سے آیا ؟ مو ٹر کہاں سے آئی ؟ اس شیطا نی چکر میں معیشت کی نا ؤ ڈوپ جا تی ہے بھتہ کلچر پر وان چڑ ھتا ہے بھتہ دو یا حکمران پار ٹی میں آجا ؤ یا نتا ئج بھگتنے کے لئے تیار ہو جاؤ یہ بے حد خطر ناک رجحان ہے معیشت کو نا پنے کا پیمانہ بہت حساس ہو تاہے ایک کا روباری شخصیت کی گرفتاری کا اتنا اثر پڑ تا ہے کہ سٹاک ایکسچینج کا بٹھہ بیٹھ جا تا ہے کریش (Crash) کر جا تا ہے اگر وزیر اعظم ، وزیر تجا رت یا وزیر خزانہ کوئی غلط اشارہ دیدے تو اتنا بڑا نقصان ہو تاہے کہ کرنسی کی قیمت فو راً گر نا شروع ہو جا تی ہے حا لیہ دنوں میں چا ئنا پا کستان اکنا مک کو ریڈور (CPEC) کے حوالے سے منفی بیا نا ت نے مشرق سے مغرب تک الٹی ہوائیں چلائیں ایسے حا لات میں آئی ایم ایف یا کسی دوسرے بینک سے مزید قرض لئے بغیر چارہ نہیں رہا اگر ایسے حا لات جا ری رہے تو ایسا ہی ہو تا رہے گا کشکول توڑ نے ، جھو لی نہ پھیلانے اور خود انحصاری کی منزل تک رسائی کے لئے ہماری قیادت کو کاروباری حلقوں کے ساتھ دوستانہ روّ یہ رکھنا ہو گا ملک میں سر مایہ کاری کے لئے خو شگوار فضا قا ئم کر نی ہو گی جس طرح “دہشت گر دی “نے ملک کی سماجی اور سیا سی ساکھ کو نقصان پہنچا یا تھا اسی طرح چور،بد عنوان اور ہتھکڑی کی بے جا تکرار نے ہماری معا شی ساکھ کو متا ثر کیا ہے آئیڈیل کی تلاش درست ہے مگر اس تلاش میں پا گل ہو نا درست نہیں انشا جی نے یہ بھی تو کہا تھا
اس حسن کے سچے مو تی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے ہم دیکھ سکیں اور چھو نہ سکیں وہ دو لت کیا وہ خزانہ کیا