
داد بیداد۔قرآن کی لا زمی تعلیم۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
داد بیداد ۔ قرآن کی لا زمی تعلیم ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کی بر کات کا مو سم آتے ہی خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت نے سکولوں میں بارہ جما عتوں تک عر بی زبان اور قرآن مجید، فرقان حمید کی تعلیم کو لا زمی قرار دینے کا اعلا ن کیا ہے صو بے کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کی طرف سے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے تاریخ میں مذکورہے کہ 1949ء میں عربی زبان اور قرآن کی تعلیمات کو لا زمی مضمون بنا نے کی تجویز آئی تھی اس تجویز کو پذیرائی نہ مل سکی 1978ء میں جنرل ضیا ء الحق نے علما ء کے سامنے تجویز رکھی کہ تمام مسا لک کے علماء کسی ایک نصاب پر اتفاق کریں تو میں عربی زبان اور قرآن پا ک کی تفسیر کو سکولوں اور کا لجوں میں لا زمی مضمون قرار دونگا تفسیر پر اتفاق نہ ہو سکا تا ہم اسلا میات کو بطور لا زمی مضمون سکولوں اور کا لجوں میں پڑھا نے کا حکم جا ری ہوا حکم کے ساتھ عر بک ٹیچر اور قاری کی اضا فی آسا میاں بھی منظور کی گئیں،
امتحا نا ت میں اسلا میات لا زمی کے لئے نمبر بھی رکھے گئے، قاری اور عر بک ٹیچر کو سروس سٹرکچر کے ذریعے تر قی کے موا قع بھی دیئے گئے، جس طرح کا نصاب جنرل ضیا ء کو مطوب تھا اس پر اتفاق نہ ہو سکا، مو جود ہ حالات میں اگر سکولوں کا نظا م لا وقات اور امتحا نی نتا ئج کا جدوَ ل دیکھا جا ئے تو دونوں میں قرآن ناظرہ، اسلا میات لا زمی اور مطا لعہ سیر ت کے نا م سے تین مضا مین نظر آتے ہیں جو پڑھا ئے جا تے ہیں جن میں امتحا ن بھی ہو تا ہے، تا ہم عر بی کا مضمون لا زمی نہیں اختیا ری ہے سائنس یا ڈرائنگ کی جگہ اگر کوئی طالب علم یا طالبہ عر بی لے لے تو اس کو پڑھا نے کا انتظام ہے صو بائی حکومت کے نئے فیصلے کی روشنی میں متعلقہ مضا مین کے اسا تذہ، سکولوں کے ہیڈ ما سٹر وں اور کا لجوں کے پر نسپلوں پر مشتمل کمیٹی بنا ئی جائیگی جو بنیا دی معلو مات اور اعداد دو شما رکا جا ئزہ لیکر بیس لائن (Base line) کی روشنی میں نئی آ سا میاں تخلیق کرنے کی سفا رش کریگی اگلے ما لی سال کے بجٹ میں نئی آسا میاں تخلیق کی جا ئینگی اور اگلے تعلیمی سال سے اس منصو بے پر عمل در آمد کا آغا ز ہو گا
فیصلے کا اطلا ق نجی تعلیمی اداروں پر بھی ہو گا صوبے کے تمام تعلیمی و امتحا نی بورڈ اس کے پا بند ہونگے گذشتہ 200سالوں میں بر صغیر کے اندر مسلمانوں کا تعلیمی نظام دو متضا د دھا روں میں چلتا رہا ایک دھا را لارڈ میکا لے کا تجویز کر دہ تھا جو سکولوں اور کا لجوں کی صورت میں آج بھی ہمارے پا س ہے دوسرا علمائے دین کا نظام تعلیم تھا جو دار العلوم یا مدارس دینیہ کی صو رت میں ہم دیکھتے آئے ہیں 23سال پہلے 2002میں ایک نیا موڑ آیا خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں علمائے کرام کی حکومت آگئی تو پورے ملک کے جید علمانے دار لعلوم کے نصاب میں انگریزی مضمون اور کمپیو ٹر سائنس کی تعلیم متعارف کرانے کی تجویز دی بعض حلقوں نے اس کو نا قابل عمل قرار دیا لیکن رفتہ رفتہ اس تجویز پر عملی کام ہونے لگا آج دار لعلوم کے فضلا ء کی بڑی تعداد انگریزی بھی جا نتی ہے
کمپیو ٹر کی تعلیم سے بھی بہرہ ور ہے، دوسری طر ف سکولوں اور کا لجوں میں اسلا میات لا زمی کے ساتھ اگر عر بی زبان کو لا زمی مضمون کا درجہ مل گیا، قرآن پا ک کی تعلیم کو لا زمی قرار دیا گیا تو 200سالوں سے دونوں تعلیمی دھا روں میں جو فاصلے پیدا ہوئے تھے ان فاصلوں کو پاٹنے میں آسانی ہو گی، سکول اور کا لج سے تعلیم حا صل کرنے والوں کو عر بی زبان اور قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آگا ہی حا صل ہو گی اور مسٹر کو مولا نا کے قریب لا نے میں سہو لت ملے گی، خیبر پختونخوا کی حکومت کا فیصلہ قابل تحسین ہے آگے بڑھ کر اس فیصلے اور اس اعلا ن کے عملی تقا ضوں کو پورا کرنا سب کا فرض ہے۔