Chitral Times

Mar 21, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ۔ وائٹ ہاوس کی پالیسی ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

دادبیداد ۔ وائٹ ہاوس کی پالیسی ۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ذرائع ابلاغ میں وائٹ ہاؤس کی نئی پالیسی پربحث جاری ہے مگر یہ پالیس نئی نہیں پرانی پالیسی ہے اس پر برملااور کھل کراظہار پہلی بار ہوا ہے بھارت کو نئی جنگی جہازوں کی فراہمی،سستے داموں تیل اور گیس دینے کے معاہدے بھی خاصے متنازعہ ہوگئے ہیں غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف امریکہ کی فیصلہ جنگ کااعلان بھی باعث تشویش ہے یہ بھی نئی بات نہیں گذشتہ سال جب یہاں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات ہورہی تھی تو تجزیہ نگاروں کے ایک موثرطبقے کا خیال تھا کہ اسرائیل اکیلاجنگ نہیں لڑرہا،اصل جنگ امریکہ لڑرہاہے سامنے اسرائیل کاچہرہ ہے امریکہ اور یورپی میڈیا میں یوکرین میں امریکی پالیسی کوبھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کے حامی نہیں سوا تین سال پہلے یوکرین کی پہلی جنگ اس بات پرشروع ہوئی تھی کہ امریکہ یوکرین کو نیٹوکا ممبر بناناچاہتا تھا روس اس کی مخالفت کررہا تھا روس نے یوکرین پر حملہ کردیا،امریکہ نے یوکرین کی مدد کی اور یہ جنگ روس کے ساتھ امریکہ کی ایک اور جنگ بن گئی فروری 2022سے اب تک اس جنگ میں فریقین کابڑا نقصان ہوا ہے اتنے نقصان کے بعد وائٹ ہاوس کی نئی پالیسی آئی ہے کہ یوکرین کونیٹو میں شامل نہیں کیا جائیگا بقول مومن خان مومن کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پپشمان کا پیشمان ہونا۔۔۔ وائٹ ہاؤس کی نئی پالیسی کو کچھ لوگ اونٹ کی نئی کروٹ کہتے ہیں کئی دیگر اس کو کھلونوں کی دکان میں ہاتھی کانام دیتے ہیں نئے امریکی صدر کی شخصیت اور نفسیات میں ضرور خامیاں ہونگی تاہم اس کی ایک خوبی بار بار میڈیامیں آتی ہے کہ وہ کوئی بات چھپاتا نہیں وہ سفارتی زبان میں اشاروں اورکنایوں کی مددسے بات نہیں کرتا۔

 

دل میں جوبات ہولگی لپٹی رکھے بغیر ڈنکے کی چوٹ پرکہہ دیتا ہے۔نتائج کی پروا نہیں کرتا ناراض ہونے والے اس کی بلا سے ناراض ہوجائیں ہمارے لئے وائٹ ہاؤس کو سمجھنا اُس نے آسان بنادیا ہے،پہلے ہم اندازہ لگاکر ظن وتخمین اور قیاس کی مدد سے کہتے تھے کہ امریکہ نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو کبھی ترجیح نہیں دی۔آئیندہ بھی اُس کی پہلی دوستی بھارت کے ساتھ پوگی اب ہم وائٹ ہاوس سے آنے والے بیانات کاباقاعدہ حوالہ دے کر کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی دوستی پاکستان کوراس نہیں آئیگی کیونکہ اس کے معاشی،تجارتی اور نظریاتی مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں بھارتی وزیراعظم نرنیدرا مودی کا دورہ امریکہ اور ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کی تازہ ترین خبرسے اس کی مزید تصدیق ہوگئی ہے

 

پاکستان اگر اندرونی استحکام کی طرف آگے بڑھے،معاشی خود کفالت حاصل کرے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے باہرنکلے تو امریکہ کا محتاج نہیں رہے گا مگر یہ تین جملے آسان نہیں اندرونی استحکام کے لئے سیاسی بلوغت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی جمہوری عادت پاکستانی قیادت کے لئے ناممکنات کادرجہ رکھتی ہے۔معاشی استحکام بھی سیاسی بلوغت سے جڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے جان چھڑانا معاشی خودکفالت سے جڑا ہوا ہے جو موجودہ حالات میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔وائٹ ہاوس کی نئی پالیسی ہمیں اپنی ترجیحات کے ازسرنو تعین کاموقع فراہم کرتی ہے،اگر پہلے ہمارا دفتر خارجہ ملکی اور قومی مفادات کے ہرکام کے لئے امریکہ کی طرف دیکھتا تھا ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ایسا نہیں ہوگا اگرچار سال امریکی امداد کے بغیر گذرگئے توپھر وطن عزیز کے تمام مسائل حل ہوجائینگے

 

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged
99223