Chitral Times

Dec 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دادبیداد ……….. دُشمن کا مکاّ رانہ حربہ ……….. ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on
شیئر کریں:

”ففتھ جنریشن وار“ کی انگریزی اصطلاح کو دشمن کا مکارانہ حر بہ کہا جا سکتا ہے یہ بظا ہر کوئی جنگ نہیں بلکہ کھیل کھیل میں دشمن ایسے حر بے استعمال کر تا ہے کہ دوسرے فریق کو کمزور کر کے آخر کار شکا ر کر لیتا ہے اور شکار ہونے وا لا یہ نہیں سمجھتا کہ مجھے دشمن نے ما را بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے میرے اپنے بھائی اور بازو نے ما را تازہ ترین خبر یہ ہے کہ فوج اور سول بیورو کریسی کے تین بڑے افسروں کو بڑی بڑی سزا ئیں دی گئیں دو کو سزائے مو ت اور ایک کو عمر قید کی سزا ہوئی عدلیہ کے ججوں کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہونے کاریفرنس تیار کرکے سپریم جو ڈیشل کونسل کو بھیج دیے گئے ہیں اس بات پر فخر کیا گیا کہ احتساب صرف سیا ستدانوں کا نہیں ہو تا فو جی افیسروں اور ججوں کا بھی ہو تا ہے نتیجہ کیا ہوا عوام کے سامنے ادا روں کو بے تو قیر کیا گیا اعلیٰ تر بیت یا فتہ افیسروں کی تو ہین کی گئی اوردشمن کے سامنے اپنی اندرونی کمزوری کو عیاں کیا گیا 2001ء میں سید با بر علی کے ایک رفا ہی ادارے میں لا کھوں روپے کا غبن سامنے آیا، غبن کرنے والا بڑا معتبر افیسر تھا ملکی اور غیر ملکی اداروں کے سامنے ان کی بڑی عزت تھی رات 10بجے یہ خبر ادارے کے 3افیسروں کو ملی، انہوں نے سید با بر علی کو اطلاع دی، اگست کا مہینہ تھا سید بابر علی نے رات کے 4بجے تین مخبروں کے ساتھ غبن میں ملوث افیسر کو ملا قات کے لئے وقت دیا ملا قات پر کھل کر بات ہوئی سید با بر علی نے کہا کہ غبن ثابت ہو چکا ہے یہ میرا چیک ہے اداارے کا نقصان میں اپنی جیب سے پورا کر تا ہوں غبن کرنے والے سے استعفیٰ لے لیا اُس نے ذاتی وجوہات اور مستقبل کے نئے خوابوں کا بہانہ بنا کر استعفیٰ دیدیا اگلے دن پارٹی دے کر گلے میں ہار ڈال کر مذکورہ افیسر کو رخصت کیا گیا سید با بر علی نے کہا روپے پیسے کا نقصان کوئی بات نہیں اس غبن کا چرچا ہوا تو مذکور ہ افیسر کی بدنامی کے ساتھ ہمارے رفاہی اداے کی بھی بہت زیادہ بد نا می ہوگی اور ہمارے دوستوں کا اعتماد ہم پر نہیں رہے گانیز ہمارے مخالفین کو نئے حربے ازمانے کا موقع ملے گا دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسے مواقع آتے ہیں دنیا کے اہم اداروں میں بھی ایسے مواقع آتے ہیں منیجمنٹ کا ایک اصول یہ ہے کہ نقصان اٹھاؤ بدنامی سے بچو بدنامی اعتماد کو زک پہنچاتی ہے اعتماد کھوجائے تو کچھ بھی نہیں بچتا”ففتھ جزیشن وار“ یہی ہے کہ فریق مخالف کو اعتماد اور اعتبار سے محروم کرو ہر اہم ادارہ دوسرے ادارے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگ جائے اور ہر اہم شخص دوسرے اہم شخص کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے پر اپنی تمام توانائیاں صر ف کرنے لگے تو دشمن کہتا ہے کہ میں کا میاب ہوگیا ہمارا دفاعی نظام 1947ء سے انڈیا سینٹرک (India Centric)چلا آرہا ہے کیونکہ پہلا دشمن اور ازلی دشمن ہمارا پڑ وسی ملک ہے ہم اپنے پڑوسی کے خلاف چار کھلی جنگیں لڑچکے ہیں کھلی جنگوں کے چار مرحلے ہوتے ہیں پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دشمن کے خلا ف پرو پگینڈہ کرو دشمن کے وسائل پر قبضہ کر دشمن نے ہم پر الزامات لگائے ہمارا پانی روک دیا ہمارے 3دریا خشک کردئیے تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ دشمن کے اندر گھس کر کوارٹ اپریشن (Covert Operation)کرو یعنی مفتی لباس میں تربیت یافتہ کمانڈو بھیجو ان کے ذریعے پٹاخے، دھماکے، اغوا، ڈاکہ وغیرہ کے ذریعے دشمن کو زک پہنچاؤ اس کے بعد فو ج بھیج کر کھلی جنگ لڑو ان چار مرحلوں میں سے اگر کھلی جنگ ممکن نہ ہو کھلی جنگ میں نقصانات کے اندیشے زیادہ ہوں یا بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہو تو کھلی جنگ کی جگہ دشمن کے اندر گُھس کر اُس کے اداروں میں توڑ پھوڑ کرو مختلف اداروں کو آپس میں لڑاؤ ہر ادارے کی کمزوریا ں ڈھونڈ کر سامنے لاؤ دوسرے ادارے کو اُس پر چڑھائی کا موقع دو ادارے کمزور ہوگئے توکھلی جنگ کے بغیر تمہارا دشمن زیر ہوجائے گا یہ ففتھ جنریشن وار کہلا تا ہے 2018ء اور 2019ء میں دونو ں پڑوسی ممالک کے اندر انتخابات ہوئے انتخابات کو 5معیار ات سے جانچ لیجئے اور موازنہ کیجئے پڑوسی ملک میں حکمراں جماعت نے انتخابات کرائے کسی نے اعتراض نہیں کیا اُن کا الیکشن کمیشن آزاد تھا فوج اور عدلیہ کی مدد درکار نہیں ہوئی اُنکے ووٹوں کا تمام ریکارڈ ایک جگہ محفوظ کیا گیا ڈھائی ماہ بعد ایک ہی مقام سے نتائج دے دیئے گئے کسی نے انگلی نہیں اٹھائی نتائج آنے کے بعد ہارنے والوں نے کھلے دل سے نتائج کو تسلیم کیا ہمارے ہاں کیا ہوا؟ حکمران جماعت کو انتخا بات کرانے کی اجا زت نہیں دی گئی نگران حکومت لائی گئی کیونکہ اعتماد کا فقداں تھاا لیکشن کمیشن پر کسی کو بھروسہ نہیں تھا عدلیہ اور فوج کی مدد لی گئی نتائج پولنگ سٹیشنوں پر مرتب ہوئے مرکزی گنتی پر کسی کو اعتبار نہیں تھا نتائج آنے کے بعد ہارنے والوں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا منتخب حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں ہورہی ہیں اور آخری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں انتخابی نتائج اورحکومت سازی میں مہینہ لگ جاتا ہے پڑوسی ملک میں ہفتہ بھی نہیں لگتا سبق یہ ہے کہ دشمنوں نے ہمارے اداروں کو بے تو قیر کرنے کے لئے ہماری اپنی خدمات حاصل کی ہوئی ہے یہ ایسا حربہ ہے جس کو ففتھ جزیشن وار کہا جاتا ہے اعتبار اور اعتماد کا کھو جا نا دشمن کا مکا رانہ حربہ ہے تاہم تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
22685