خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایچ آر سی پی کی رپورٹ جاری
خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرفیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری
پشاور(چترال ٹائمز رپورٹ ) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے خیبر پختونخوا میں گورننس اور ضم شدہ اضلاع میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کر دی سالانہ رپورٹ میں نئے ضم شدہ اضلاع میں نئے ضم شدہ اضلاع (این ایم ڈیز) کے ترقیاتی وسائل میں مبینہ بدنظمی، علاقے میں شدت پسندی کے دوبارہ پھیلاؤ، اندرون ملک نقل مکین افراد (آئی ڈی پیز) کی آبائی علاقوں میں واپسی کے عمل میں تاخیر، بنیادی آزادیوں پر پابندیوں، جبری گمشدگیوں کے واقعات اور حراستی مراکز کے مسلسل استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی سابق چئیر پرسن حنا جیلانی کی زیرِ قیادت فیکٹ فائنڈنگ مشن خیبر پختونخوا چیپٹر کے وائس چیئر اکبر خان، ایچ آر سی پی کے اراکین اعجاز خان اور جمیلہ گیلانی، اور عملے کے ارکان شاہد محمود اور مریم رؤف پر مشتمل تھا۔ رپورٹ میں مشن کے دورہ سوات، خیبر، پشاور، اور بکا خیل آئی ڈی پی کیمپ کی رُوداد رقم ہے، اور انضمام کے منصوبے کے سُست رو اطلاق پر این ایم ڈی کے باشندوں کی عدم اطمینانی کا اظہار بھی ہے؛ مقامی لوگوں نے یہ شکایت بھی کی کہ اِنضمام نے مساوات، قانون کے تحت مساوی تحفظ اور منصفانہ ترقی کا جو وعدہ کیا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوا۔ مسلح افواج کی مسلسل موجودگی کی وجہ سے پولیس کو اپنے اختیارات کے تحت امن عامہ اور قانون کے نفاذ اور معمول کے حالات واپس لانے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور اس کے علاوہ جبری گمشدگیوں اور حراستی مراکز میں من مانی گرفتاریوں کے تسلسل کے شواہد بھی نظر آئے۔ اِن کارروائیوں نیزصحافیوں اور کارکنوں کو درپیش خطرات کی وجہ سے شہری آزادیاں متاثر ہو رہی ہیں اور لوگوں میں خوف اور بداعتمادی پھیل رہی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے، فوج پولیس کو اپنا کردار ادا کرنے دے، اور پولیس کو مناسب وسائل دیے جائیں تاکہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر قابو پایا جا سکے۔ عدالتِ عظمٰی کو بھی عدالتِ عالیہ پشاور (پی ایچ سی) کے حکم نامے کے خلاف اپیل کی سماعت فی الفور کرنی چاہیے جس میں پی ایچ سی نے ایکشنز اِن ایڈ آف سِول پاور آرڈینینس 2019 کالعدم قراردیا تھا۔ اِس سے حراستی مراکز کی قانونی حیثیت اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں پایا جانے والا ابہام ختم ہو جائے گا۔
اگرچہ رپورٹ میں این ایم ڈیز کے حوالے سے کیے گئے بعض اقدامات جیسے کہ ضلعی عدالتوں کا قیام، بلدیاتی انتخابات، صوبائی اسمبلی میں نمائندگی، اور پولیس کی استعداد میں بہتری کا ذکر کیا گیا اور انہیں لائقِ تحسین قرار دیا گیا ہے، مگر اِس کے ساتھ ساتھ مقامی عدالتوں اور بنیادی سماجی سہولیات تک لوگوں کی محدود رسائی کی طرف توجہ دلائی گئی اور اِن مسائل کے حل پر زور دیا گیا ہے۔ رپورٹ نے آئی ڈی پی کیمپوں میں مقیم لوگوں کو بنیادی ضروریاتِ زندگی اور سماجی سہولیات تک مکمل رسائی دینے، نِیز این ایم ڈیز میں ترقیاقی کاموں کے لیے مختص فنڈز کے اجراء، مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی، اور اِس حوالے سے بدعنوانی اور وسائل و اختیارات کے غلط استعمال کے الزمات کی مکمل تحقیقات کی سفارش بھی کی ہے۔