
خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس میں صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی، سیاحت، ماحولیات، صفائی، توانائی و بجلی سمیت دیگر شعبہ جات میں عوامی فلاح و بہبود سے متعلق متعدد اہم فیصلے، اور گرانٹس کی منظوری
خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس میں صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی، سیاحت، ماحولیات، صفائی، توانائی و بجلی سمیت دیگر شعبہ جات میں عوامی فلاح و بہبود سے متعلق متعدد اہم فیصلے، اور گرانٹس کی منظوری
پشاور (چترال ٹائمزرپورٹ)خیبرپختونخوا کابینہ نے اپنے 30 ویں اجلاس میں صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی، سیاحت، ماحولیات، صفائی، توانائی و بجلی سمیت دیگر شعبہ جات میں عوامی فلاح و بہبود سے متعلق متعدد اہم فیصلے کئے ہیں۔کابینہ کا طویل اجلاس جمعرات کے روز وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت پشاور میں منعقد ہوا جس میں کابینہ اراکین، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، انتظامی سیکرٹریز اور ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے شرکت کی۔کابینہ اجلاس کے بارے میں وزیر اعلیٰ کے مشیر اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ کابینہ نے ضم شدہ اضلاع میں ”مفت درسی کتب اور سکول بیگز کی فراہمی” کے منصوبے کے لئے ایک ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی منظوری دی ہے۔ متعلقہ حکام کو ہدایت دی گئی کہ سکول بیگز کی فراہمی کے لیے ایک سکیم تیار کریں، جس کا آغاز ان بچوں سے کیا جائے جو موجودہ داخلہ مہم کے دوران سکولوں میں داخل ہو رہے ہیں۔
کابینہ نے بچوں کی بنیادی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ صوبے کے ہر بچے کو بنیادی تعلیمی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ درسی کتب کی بروقت طباعت، معیار کی بہتری، لاگت میں کمی اور محکمہ تعلیم کے واجبات کی ترجیحی بنیادوں پر ادائیگی کی ہدایت کی گئی۔کابینہ نے کنڈیشنل گرانٹ پروگرام کے تحت بنیادی سہولیات کی فراہمی کی لاگت میں نظرثانی اور پیرنٹ ٹیچر کونسل کے اخراجاتی حد میں اضافے کی منظوری دی۔ اس فیصلے کے تحت پی ٹی سی کی سالانہ اخراجاتی حد 5 ملین روپے سے بڑھا کر 7 ملین روپے کر دی گئی۔ کابینہ اجلاس میں شفاف طریقے سے فنڈز کے استعمال پر بھی زور دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ پی ٹی کونسلز اس مد میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔کابینہ نے دینی مدارس/دارالعلوم کے لئے گرانٹ اِن ایڈ کی بحالی و اضافہ کی منظوری دیتے ہوئے 100 ملین روپے جاری کرنے کی منظوری دی۔
کابینہ نے ”یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز سوات” کے ترمیم شدہ اے ڈی پی منصوبے کی 3636.50 ملین روپے کی لاگت سے منظوری دی اور یونیورسٹی کا نام ”یونیورسٹی آف کمپیوٹنگ سائنسز سوات” رکھنے کی منظوری دی۔
فیصلہ کیا گیا کہ رواں مالی سال کے دوران یونیورسٹی کا مرکزی کیمپس مکمل کرکے کرایہ کی عمارت سے یہاں منتقل کیا جائے گا۔صحت کے شعبے میں کابینہ نے ”صحت کارڈ ٹرانسپلانٹ و امپلانٹ سکیم” شروع کرنے کی منظوری دی۔ اس سکیم کے تحت صوبے کے تمام مستحق مریضوں کے بون میرو، جگر، گردے کی پیوند کاری اور کوکلیئر امپلانٹ کا خرچ حکومت برداشت کرے گی۔ یہ مہنگا علاج پہلے صحت کارڈ سکیم میں شامل نہیں تھا۔کابینہ نے محکمہ صحت کو پشاور کی ان یونین کونسلز میں سول ڈسپنسریز کی تعمیر کے لیے مقامی حکومت کی جائیداد کی لیز کے قواعد سے استثنیٰ دینے کی منظوری دی جو پولیو کے حوالے سے سپر ہائی رسک قرار دیے گئے ہیں۔کابینہ نے ڈی آئی خان میں ”کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ سائنسز” کے قیام کے لیے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو 30 ملین روپے گرانٹ دینے کی منظوری دی۔کابینہ نے خیبرپختونخوا ریونیو اتھارٹی کے لیے 189.65 ملین روپے کی ضمنی گرانٹ بھی منظور کی۔
اخراجات میں کمی کے لئے کابینہ نے گورنر انسپکشن ٹیم کو صوبائی انسپکشن ٹیم میں ضم کرنے کی منظوری دی۔ فاٹا کے انضمام اور یونیورسٹیز ایکٹ 2012 میں ترامیم کے بعد گورنر انسپکشن ٹیم غیر ضروری ہو چکی تھی، جس کے باعث اس کا انضمام ناگزیر تھا۔
کابینہ نے خیبرپختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ سسٹم کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں فنانس، ٹیکنیکل اور ایچ آر ممبران کی تقرری کی منظوری دی۔
کابینہ نے ورسک روڈ سے ناصر باغ روڈ تک پشاور رنگ روڈ کے شمالی حصے کی تعمیر کی منظوری دی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ اس سڑک کو صنعتی اسٹیٹ حیات آباد سے منسلک کیا جائے۔ کابینہ نے خیالی، متھرا، مچنی اور کبابیاں میں چار پلوں کی تعمیر کی ری ٹینڈرنگ کی بھی منظوری دی۔کابینہ نے 2021 کے ماڈل بائی لاز میں ترمیم کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے ٹی ایم ایز اور تحصیل مقامی حکومتوں کو نجی پھل و سبزی منڈیوں کے قیام کی اجازت دی، بشرطیکہ نئی منڈی کم از کم دو کلومیٹر فاصلے پر ہو، تاکہ صحت مند مقابلے اور عوامی سہولت کو فروغ دیا جا سکے۔کابینہ نے خیبرپختونخوا گورنمنٹ سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن بل 2025 کی منظوری دی جس کے تحت سرکاری ملازمین کو باقاعدہ طریقے سے گھروں کی تعمیر کے لیے پلاٹ فراہم کیے جاسکیں گے۔
کابینہ نے فیصلہ کیا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس کیس (پٹیشن نمبر 11/2020) اور دیگر مقدمات میں سپریم کورٹ میں خیبرپختونخوا کی نمائندگی کے لیے الگ قانونی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا خود دفاع کریں گے۔ کابینہ اجلاس میں خیبرپختونخوا بار کونسل کو 30 ملین روپے گرانٹ کی بھی منظوری دی گئی۔
کابینہ نے ”خیبرپختونخوا اپرنٹس شپ رولز 2025” کی منظوری دی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سال 1962 میں اپرنٹس شپ آرڈیننس جاری ہوا تھا۔ صوبائی حکومت نے جدید صنعتی تقاضوں اور عالمی معیارات کے مطابق نیا ایکٹ صوبے میں 2022 میں نافذ کیا، جس کے تحت یہ نئے قواعد و ضوابط وضع کیے گئے ہیں تاکہ مہارتوں کے معیار کو یقینی بنا کر صوبے میں تجارت اور صنعت کو فروغ دیا جا سکے۔ ان رولز کے لاگو ہونے سے نوجوانوں کو صنعتوں میں کام کرنے کے مواقع دستیاب آئیں گے۔
کابینہ نے محکمہ سیاحت، آثار قدیمہ اور عجائب گھر اور محکمہ جنگلات، ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور جنگلی حیات کے مابین ایکو ٹورازم منصوبوں کی ترقی کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی منظوری دی۔کابینہ نے 132 ٹی ایم ایز کے لیے صفائی کی گاڑیوں کی خریداری کی غرض سے 3.6 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری دی اور صوبے میں گاؤں گاؤں صفائی یقینی بنانے پر زور دیا۔ اس ضمن میں مختلف تجاویز پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کابینہ نے مہمند ڈیم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے واٹر سپلائی سکیم کے لیے انٹیک سٹرکچر اور ٹنل کی تعمیر کی لاگت کو صوبائی وسائل سے پورا کرنے کی منظوری دی۔ ساتھ ہی ہدایت کی گئی کہ ضلع مہمند کے پانی کی کمی والے علاقوں کو بھی اس منصوبے میں شامل کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔ منصوبے کے تحت مہمند ڈیم سے 300 ایم جی ڈی (470 کیوسک) پانی پشاور کو فراہم کیا جائے گا جو 2048 تک شہر کی 80 فیصد ضروریات پوری کرے گا۔ اگرچہ مہمند ڈیم کا ذخیرہ آب پینے کے پانی کی فراہمی کا احاطہ کرتا ہے، تاہم واپڈا کی جانب سے تیار کردہ اصل پی سی ون میں اس سکیم کی لاگت شامل نہیں تھی جو اب شامل کرلی گئی ہے۔
کابینہ نے خیبرپختونخوا ”کینابیس کے پودوں کی طبی تحقیق، صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے کاشت، نکالنے، ریفائننگ، تیاری اور فروخت” سے متعلق قواعد 2025 کی منظوری دی۔ اس کے تحت حکومت طبی اور صنعتی مقاصد کے لیے کینابیس کی پیداوار کو منظم کرے گی، اس کی معاشی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا، لائسنسنگ کے سخت شرائط و ضوابط، نگرانی کا مؤثر نظام، محصولات کا حصول، غیر قانونی پیداوار و اسمگلنگ کی روک تھام اور مقامی روزگار کے مواقع کے ساتھ ساتھ تحقیق کو فروغ حاصل ہوگا۔ ان قواعد کے تحت متعدد اقسام کے لائسنس جاری کیے جائیں گے، جن میں کاشت، نرسری، پروسیسنگ، لیبارٹری ٹیسٹنگ، طبی و تحقیقی مقاصد، صنعتی و تجارتی فروخت، نقل و حمل، فارمیسی یا میڈیکل ڈسپنسری، تھوک، پرچون، صرف سی بی ڈی خوردنی کینابیس کی کاشت اور اس کی پروسیسنگ کے لائسنس شامل ہوں گے۔