
خیبرپختونخوا مجوزہ منرل ایکٹ سے نظام مذید پیچیدہ اورغیر شفاف ہوجائیگا، لہذا ان پالیسیوں پر نظرِثانی کی جائے۔ چترال مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن
خیبرپختونخوا مجوزہ منرل ایکٹ سے نظام مذید پیچیدہ اورغیر شفاف ہوجائیگا، لہذا ان پالیسیوں پر نظرِثانی کی جائے۔ چترال مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن
چترال(نمائندہ چترال ٹائمز ) چترال مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے صدر، شہزادہ مدثر الملک نے کہا ہے کہ معدنیات سے متعلقہ فیصلوں میں دیگر محکموں کے مزید افسران کی شمولیت بدعنوانی کے دروازے کھول دے گی۔ ہر نیا شامل ہونے والا افسر لیز کی منظوری کے لیے لیز ہولڈرز کو بلیک میل کرنے کے اختیارات استعمال کر سکتا ہے، جس سے نظام مزید پیچیدہ اور غیر شفاف ہو جائے گا۔ خدشہ ہے کہ بااثر افراد فیصلوں پر اثر انداز ہوں گے، شفافیت اور انصاف پس پشت چلا جائے گا۔کے پی منرل پالیسی 2025 پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ویڈیو بیان پر اظہار خیال کرتےہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے ہی آٹھ مختلف متعلقہ محکموں کے نمائندے بشمول جنگلات،وایلڈ لایف، ماحولیات، محکمہ قانون اور دیگر MTC کا حصہ ہیں ۔مزید اداروں کے افسران کی شمولیت کی کیا ضرورت ہے؟اگر حکومت واقعی سرمایہ کاروں اور لیز ہولڈرز کی حوصلہ افزائی چاہتی ہے تو لیز کی مدت میں اضافہ کرے، نہ کہ کمی۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، تو دوسری طرف لیز کی مدت کم کی جا رہی ہے۔ یہ تضاد باعث تشویش ہے۔
ایک اخباری بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ چترال جیسے بلند و بالا علاقوں میں مائننگ کے لیے کئی سال اور کروڑوں روپے صرف سڑکوں کی تعمیر اور مائن ڈیولپمنٹ پر خرچ ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں برفباری کی وجہ سے سال کا بڑا حصہ کام ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے حالات میں لیز کی مدت کم کرنا ظلم ہے اور ناقابل قبول ہے۔انھوں نے کہا کہ ویسے بھی معدنیات کا محکمہ پہلے ہی غیر فعال لیزز کو ایک سال میں منسوخ کر رہا ہے، تو لیز کی مدت مزید کم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟کے پی منرل ایکٹ 2025 کی ترمیم شدہ شق نمبر 30 کے مطابق، “عوامی مفاد” یا “ایمرجنسی” کی بنیاد پر حکومت یا دیگر محکمے کسی بھی دی گئی لیز یا پلانٹ کو مکمل یا جزوی طور پر حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ شق سراسر ظلم ہے۔ ایک سرمایہ کار اگر سڑکوں کی تعمیر، مائن ڈیولپمنٹ اور پراسیسنگ پلانٹ پر کروڑوں روپے لگاتا ہے، تو وہ سب کچھ ایک دن میں “ایمرجنسی” کے بہانے چھین لیا جا سکتا ہے. اور وہ عدالت سے بھی رجوع نہیں کر سکتا۔ یہ ایک سیاہ قانون ہے، جو سرمایہ کاری کے راستے بند کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت نے عملاً کے پی کے معدنی وسائل کو نیلام کر دیا ہے۔
انھوں نے مذید کہا کہ ہم ان ظالمانہ ترامیم اور پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ چترال مائنز اینڈ منرلز ایسوسی ایشن دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان قوانین کو معزز عدالت میں چیلنج کرے گی۔ سرمایہ کار اور لیز ہولڈرز خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم فوری طور پر ان فیصلوں پر نظرِثانی اور اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ انصاف، سرمایہ کاری کا تحفظ، اور صوبے کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔مزید برآں، مائننگ کے لیے دھماکہ خیز مواد (explosives) کی اشد ضرورت ہے، لیکن گزشتہ دو سالوں سے چترال کے لیز ہولڈرز کو EL-4 لائسنس فراہم نہیں کیے جا رہے، جس کا بہانہ سیکیورٹی خدشات ہے۔ اس کی وجہ سے چترال کے متعدد علاقوں میں مائننگ کی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں۔ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
اسی طرح، جنگلات کے محکمے نے چترال میں راتوں رات بغیر ایک درخت لگائے، مختلف علاقے “محفوظ جنگلات” میں شامل کر دیے ہیں۔ ان علاقوں میں کوئی جنگل موجود ہی نہیں، اور نہ گرینایٹ کے ان چٹیل پہاڑوں پہ کوی مٹی ہے نہ اس پہ سبزہ اگ سکتا ہے لیکن محض کاغذی کارروائی کے ذریعے لیز ہولڈرز پر غیر ضروری پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ یہ اقدامات چھوٹے سرمایہ کاروں کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت چھوٹے سرمایہ کاروں کو اس شعبے سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے، نہ کہ ان کی معاونت کرنے کی۔ ہم وزیر اعلیٰ اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان پالیسیوں پر نظرِثانی کریں اور ایک منصفانہ، شفاف اور سرمایہ کاری دوست ماحول فراہم کریں۔