Chitral Times

Apr 29, 2025

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خوشگوار گھریلو زندگی  – تحریر : اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

خوشگوار گھریلو زندگی  – تحریر : اقبال حیات اف برغذی

معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا کرنے اور رونق بخشنے میں جہاں باہمی محبت،رواداری،ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اورغمخواری بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہاں خاندان کی لذت اور سرور کا دارومدار بھی اہنی عوامل کے ساتھ مربوط ہے خصوصاً گھر کے بڑوں یعنی میاں بیوی کی زندگی میں بہار کا رنگ صرف اس صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب ان کی زبانین خوش گفتاری اور نظرین محبت کی صفات کے حامل ہوں۔ اس ضمن میں دونوں اپنے حدود میں رہتے ہوئے زندگی کے شب وروز گزارنا بھی بنیادی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ چونکہ عورت کی تخلیق پسلیوں کے بیچ میں سے ہوئی ہے۔ اور پسلیاں ٹیڑھی ہوتی ہیں انہیں سیدھا کرنے کی کوششوں سے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یوں عورت ذات کی فطرت بھی اس قسم کی کیفیت کا حامل ہونا یقینی امر ہے۔ اور اس کی فطرت کے خلاف ترش رویہ روبرو عمل لایا جائے تو خاندان کے بگاڑ کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اسلئے حضور صلی اللہ علیہ والسلام کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ عورت کے اندر اگر ننانوے خرابیاں اور ایک اچھائی موجود ہو تو خرابیوں کو نظر انداز کرکے اسی ایک اچھائی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ بہتریں شخص وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ حسن سلوک رکھے۔

 

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر کوئی عورت ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو اس کا مداوا مشکل ہوگا۔ اس کی مثال اس واقعے سے ملتی ہے کہ ایک صاحب کشف بزرگ کی اہلیہ ان کی کرامات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی اور انہیں لوگوں کو بیوقوف بنانے کا عمل تصور کرتی تھی۔ ایک دن صاحب مذکور ہوا میں پرواز کرنے کے بعد جب گھر پہنچتے ہیں تو ان کی اہلیہ انہیں طعنہ دیتی ہوئی کہتی ہیں کہ کرشمہ اس کو کہتے ہیں جو آج ایک شخص نے ہوا میں اڑ کر دکھایا۔بزرگ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ چلو آج مان گئی۔ وہ شخص تو میں تھا۔ ان کی اہلیہ فوراً جواب دیتی ہیں کہ میں سوچ رہی تھی کہ یہ شخص ٹیڑھا ٹیڑھا کیون اڑتا ہے۔اب پتہ چلا کہ یہ تم تھے۔

 

دین اسلام میں جہاں عورت کے حقوق متعین ہیں وہاں مردوں کو بھی حقوق دے گئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورت کو اپنے شوہر کو سجد ہ کرنے کا حکم دیتا۔ ایک شخص شادی کے بعد اپنی اہلیہ کو چار نصیحت کی ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ سے لباس عروسی میں کہتا ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے اس لئے میں نے آپ کو شریک حیات کے طور پر پسندکیا ہے۔ تاہم میں انسان ہوں اگر زندگی کے سفر میں مجھ سیکچھ کوتاہی ہوجائے۔ تو اس سے دوپٹے کے پلو میں نہ باندھنا بلکہ درگزر اور نظر انداز کرنا۔مجھے ڈھول کی طرح نہ بجانا یعنی اگر میں غصے کی کیفیت سے دوچار ہوجاوں تو جواب دینے سے اجتناب کرنا۔ کیونکہ دونوں طرف زبانوں کی یلغار سے خاندان اجڑنے کا احتمال ہوگا

 

مجھ سے رازونیاز کی ہر بات کرنا مگر لوگوں کی شکوے شکایتیں نہ کرنا۔چونکہ اکثر اوقات میاں بیوی کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں مگر نند یا ساس وغیرہ کی باتین زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دل ایک ہونے کی بنیاد پراس میں یا محبت ہوسکتی ہے یا نفرت ایک وقت میں یہ دونوں چیزیں دل کے اندر نہیں سما سکتیں اگر خلاف اصول میری کوی بات بری لگے تو اس کا اظہار جایز اور شریفانہ انداز میں کرنا۔ اور اسے دل میں نہ رکھنا کیونکہ باتوں کو دل میں رکھنے سے انسان شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوتا رہتا ہے اور یوں تعلقات بگڑکر زندگی کا رخ بدل جاتا ہے۔بحرحال خاندان کے اندر زندگی کی لذتوں کا ماحول پیداکرنے کا تمام تر انحصار میاں بیوی کے دینی اقدار کی پاسداری سے مشروط ہے۔اوریہ شرط اس وقت قابل عمل ہوسکتا ہے جب دنیا کی چند روزہ زندگی کو خوشیوں کیلئیناکافی تصور کرتے ہوئے اس میں تلخیوں کی آمیزس کو حماقت سے منسوب کیا جائے۔

 

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
101092