Chitral Times

Oct 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خود کشی کا سچا واقعہ……… تحریر: شمس الحق نوازش غذری

Posted on
شیئر کریں:

یہی دن تھے یہی خزاں کا موسم تھا اور یہی دسمبر کا مہینہ تھا،اس دن اس ماہ اوراس موسم میں اس نے خود کو پھانسی کی ٹکٹکی سے باندھا۔لغت اردو میں سانحے کے ماہ و موسم کو کیا کہتے ہیں یہ نہیں معلوم البتہ اس دن کو برسی کا نام دیا جاتا ہے۔آئیے!اس کی برسی کے مو قع پر مختصر لمحے کیلے اسکی حسین یادوں کو اپنے حافظے میں زندہ کردیں۔ویسے تو اکثر نازک اعصاب اور نازک مزاج کے مالک لوگ ایسی یادوں سے مزید دلبرداشتہ اور رنجیدہ ہوجاتے ہیں، بقول شاعر ؎
؎یاد ما ضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
.
جی ہاں! وہ بچپن سے نہ صرف ماں باپ کا بلکہ تمام گھر والوں کا لاڈلاتھا۔اگرچہ اس سے چھوٹے بہن بھا ئی بھی گھر میں موجود تھے لیکن جو محبت و شفقت شیرخواری میں اس کے حصے میں آ ئی وہ الفت و پیار و جوانی تک اس کے حصے میں رہی۔عمومماً ہر معاشرے کے اکثر گھروں میں دور ِ صغر سنی کی محبت ہر کسی کو جوانی تک میسر نہں ہوتی لیکن یہ اپنے معاشرے کا واحد خو ش نصیب انسان تھاجو سب کی محبتوں کا امین اور سب کا محبوب تھا۔یوں جب اس نے الفت اور پیار کی آغوش میں میٹرک پاس کر لیاتو مزید پڑھائی کی راہ میں لاڈلے پن کی دیوار حا ئل رہی۔حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہو ئے جونہی اس نے پاک آرمی میں بھرتی ہونے کی خواہش ظاہر کی تواس خواہش سے گھر والوں کوسخت دھچکا لگا اس عمر تک انہوں نے اس بچے کو شہزادے کی طرح پالا پوسا تھااب وہ اسے وطن عزیز کے کسی اونچے محاز پر دشمن کی گولیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے تھے۔ان کے والدین کی معصوم سی خواہش تھی کہ وہ کسی سول محکمے میں چھوٹی سی ملازمت اختیار کرلے اور بدستوران کا دل لبھاتارہے۔والدین کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہر سول محکمے کی طرف سے جاری کردہ اشتہا رد یکھ کر و ہ درخواست جمع کرتا رہا،وقت گزرتا رہا اور نوجوان دفتروں کا چکر کاٹتا رہا۔انہیں ہمیشہ ہر محکمے کا اکاونٹنٹ اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ انٹری ٹسٹ میں بلانے کا کہہ کر درخواست وصول کرتا۔۔۔ لیکن انہیں خبر ہونے تک ہر بار کسی آفسر کا کزن،کسی کا بھائی اور کسی کا بہنوئی چور دروازے سے داخل ہوکر ایک ماہ کی تنخواہ بھی ہضم کر چکا ہوتا تھا۔یہ سلسلہ کیئ سال جاری رہا،ہر دفتر سے اسے انٹری ٹیسٹ میں بلانے کا جھانسا دیاجاتا رہا۔وہ جب بھی حصول روزگار کے لیے درخواست جمع کرواتااس کے درخواست کو دفتری بابوفا ئل کے کفن پہنا کر الماریوں کے قبرستان میں دفنا دیتے اور اسے ہمیشہ سرکاری کلرکوں کے تلخ زبان سے پھر کبھی پتہ کرو،آپ کا کام ہوجاے گاکا روایتی جواب ملتا۔۔۔
؎رات یہاں پر دن کہلاے
جیسی دنیا ویسی رسمیں
ان کی زبان سے سچ لگتے ہیں
جھوٹے وعدے جھو ٹی قسمیں
.
کافی عرصے بعد میری اُ ن سے ملاقات ایک ہوٹل کے لان میں ہو ئی۔یہ گلگت کی ایک جھلسا دینے والی دوپہر تھی،گرمی کی شدت سے ہر شخص مبہو ت ہوکررہ گیاتھا اور ہمارے جسموں سے پسینے کے چشمے بہہ رہے تھے۔دوران گفتگو ا نھوں نے اپنا بریف کیس کھولا اور اندر سے فایئل نکالی۔فائل میں موجود حصول برائے روزگار کے عنوان سے لکھی گیئ درخواستوں کو بے روزگار نوجوان نے پھا ڑ پھاڑکرعجیب نظروں سے مجھے گھورنے لگا میں بھی حیرت سے اُسے تکتا رہا۔اس نے کرسی سے ٹیک لگائی اور روایتی طور پر دامن جھاڑتے ہو ئے چائے کی چسکی لی۔اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے، اسکی کیفیت دیکھ کر میرے ذہن میں کیئ سوالات کلبلانے لگے۔میں نے پریشانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بوٹ کی ایڑیوں سے طبلہ بجاتے ہوے سر اٹھایا اور میز پر موجود پرچ کو گھماتے ہوے گویا ہوا اللہ تعالیٰ کی اس وسیع و عریض زمین میں بھی ایک بھی آفیسر مجھے ایسا نہیں ملا جو دل میں خوف خدا اور مرنے پر یقین رکھتا ہو۔سب کے حرص کی ماری نظریں مجھ جیسے بے روز گار نوجوانوں کی جیب پر مرکوزہیں اوروہ انتہائی بے شرمی اور ڈھنائی سے رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ ظالم اپنے آپ کو کس مخصوص مٹی سے بنے ہو ئے انسان سمجھتے ہیں،یہ لو گ خدا کو بھو ل گیئ ہیں۔یہ اپنے اختیار،اپنی رسا ٰئی اپنی عزت اور اپنے غرور کو غریبوں کا خدا سمجھ بیٹھے ہیں (معاذ اللہ)۔میرے دوست نے ایک ہی سانس میں ایمانداری اور دیانت داری سے محروم آفیسر وں کی کالے کار توتوں کو مختصر مگر جامع انداز میں بیان کر کے چا ے ئ کی پیالہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایااس وقت اس کے چہرے پر ایک وقار اور تمکنت تھی لیکن اس کے دل سے نکلنے والے شعلوں کی شعاعیں اس کے چہرے پرصاف دیکھائی دے رہی تھیں اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر چا ئے کی آخری چسکی لی اور کڑک دار آواز کیساتھ پیالی کو پرچ پر رکھتے ہوے مجھے یہ شعر سنا کر رخصت ہوےٗ۔
؎ زندگی جرم محبت کی سزا ہو جیسے
موت چھپتی پھرتی ہے خفا ہو جیسے
عمر بھر شدت احساس نے جینے نہ دیا
زندہ رہنا بھی کو ئی میری خطا ہو جیسے
.
کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک طرف بے روزگاری کے بے رحم تپھیڑ وں نے اس کی زندگی اجیرن کر دیا تھاتو دوسری طرف معاشرے میں موجود چند ناسو ر اور کینہ پرور لوگوں کی وجہ سے اس کا دل آزردہ اور رنجیدہ بن چکا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرہ ایسے بد امو ز اور بد اندیش لوگوں سے خالی نہیں جن کی زندگی کا مقصد غیبت اور،چغلی کے علاوہ دوسروں کی ذات پر کیچڑ اچھالنا ہے۔اگر اپ کی جیب سے ہمیشہ مختلف کرنسی کے نوٹ برآمد ہوتے ہیں،آپ کے پاس اعلیٰ عہدہ ہے آپ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تو حریص سماج کے خود غرض افراد نہ صرف آ پ کا گروید ہ بنیں گے بلکہ آپ کے ساتھ ہر طرح کا ناتا جوڑ نے میں بھی دیر نہیں کرینگے۔یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ماں سے سوا چاہے پھاپھا کٹتی کہلاےٗ کے مصداق ماں سے ز یادہ پیار جتا ئیں گے۔اگر خدانخواستہ آپ حرس و ہوس کے ان بچاریوں کی خواہشات پر پورے نہ اترے توان کی نطروں میں آپ اور کوبرا سانپ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
؎ ہمسفر آج ہیں کل داغِ جداٰئی دیں گے
ر اہ میں صرف بگولے ہی دکھائی دیں گے
مانتا ہوں کہ مجھے سب سے وفا کرنے ہے
جانتا ہوں کہ مجھے سب ہی برائی دیں گے
.
ہمارے معاشرے میں موجود یہ سرکش اور شریر بھیڑیے اگرچاہیں تو ماں کے موم دل کو سنگ میں اور ماں کی ممتا کو عداوت میں بدل سکتے ہیں اگر ان شرارتی شیطان مجسم کو شرارت سوجھے تو یہ باپ کی محبوبیت کو دشمنی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔میں یہاں یہ بات و ثوق سے کہہ سکتا ہو کہ میرے دوست کے سا تھ بھی ایسا ہی ہوا۔ان کے بد خواہوں نے ان کے ماں باپ کے سامنے ان کی اس حد تک غیبت کی کہ دفعتا ایک ماں اپنے دل کی دھڑکن اور اپنے لخت جگر کے ساتھ تند خو ئی او ر ترش روی سے پیش آنے لگی،معاشرے میں موجود ان بد تہنیت افراد کی مسلسل غیبت نے بلاآخر ایک باپ کے جگر پارہ کو باپ کا عدو بنا کے رکھ دیا۔ بقول شاعر
؎ہوا جس کو لگنے نہ دیتی تھی بلبل
وہ گل آج باد خزاں کھا رہا ہے
.
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ایک دن عین وقت ِ افطار ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہواٍٍٍ‘ اس وقت ماں خدا سے بھرا ئی آواز میں التجا ئیں کر رہی تھی لیکن شومیئ قسمت سے وقتی جذبات نے بدعا کے ایک دو بول بھی مُنہ سے نکلوا دیے‘ اِدھر ان الفاظ کے منہ سے نکلنے کی دیر تھی ُادھر فرشتوں نے آمین کہہ دی اور بددعا قبول ہوئی۔بقول کیفی ؎
؎شکوہ تو کچھ نہیں مگر اتنی سی بات ہے
تم نے وہ کہہ دیا جو دلِ دشمناں میں تھا
کیفی ہے جان گداز بہت قرب دوست بھی
مجھ کو ہی کچھ خبر ہے میں جس امتحان میں تھا
.
جب بٹیے نے ماں کی منہ سے ان الفاظ کی ادائیگی سنی تو اس کا دل نہ صر ف چھلنی ہوابلکہ اس کے جذبات کو اور ؎بھی بھڑکا دیادل ہی نے اسے سمجھایا کہ اگر اللہ کی وسیع زمین تجھ پرتنگ ہو گئی ہے تو کیا ہوا؟ تیرے پاس مرنے کا اختیار تو ہے‘یہ اختیار دنیا کی کوئی بھی طاقت تم سے چھین نہیں سکتی‘تجھے اپنی مرضی کی موت مرنے کا حق تو ہے‘اس وقت زمین تیرے لیے سمٹ گئی ہے اور آسمان تجھ پر تنگ ہوا ہے۔کیونکہ
ہر طرف جھکتی ہوئی چٹیل چٹانیں ہیں یہاں
اس جہنم زار تنگ و تار گھاٹی سے نکل
.
دل حزین دل۔۔۔۔کے فیصلے کو لبیک کہتے ہوے۔۔۔زندگی سے ہاتھ اٹھا کر۔۔۔جینے سے مایوس ہو کر۔۔اور مرنے کے لیے تیار ہو کر نوجوان جب گھر کی چوکھٹ سے قدم باہر رکھا تو جیون ساتھی سے رہا نہ گیاوہ بھی اس کے پیچھے باہر نکلی۔نوجوان نے پیچھے مڑ کر گلوگیر آواز میں انہھیں مخاطب کیااور کہاکہ ”میں تھوڈی دیر بعد واپس آجاؤں گا‘ کل کے بعد ہی کہی جانے کا حتمی فیصلہ کروں گا۔میرے بارے میں بلکل پریشان مت ہوہاں ایک ضروری بات یاد آگیٗ تمھیں کل بتانا بھول گیا تھاکہ آپ نے عید کی خوشیاں خوشی سے منانی ہے
اور ہمیشہ خوش رہنے کی کوششں کرنی ہے‘اس وقت رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جارہا ہے لہذاتم گھر لوٹ جاؤ
ہر روز یہ ستم ہر لمحہ یہ ماتم یہ سوا د کوئے جاناں
تو یہی سے گھر لوٹ جا تیری زندگی ہے پیاری
.
جب وہ اپنی اہلیہ کونصیحت کر رہا تھا تو وہ ان پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کررہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوبھی رواں تھے او راسے یہ بات بھی عجیب لگ رہی تھی کہ وہ خود تو گھر سے نکل رہا ہے اور مجھے عید کی خوشیاں منانے کی تلقین کر رہا ہے غالباًایسے ہی کسی موقع کے لیے شاعر کایہ شعر صادق آتا ہے
تیرے آنگن میں رہے عید کی خوشیاں رقصاں
ؔ؎دل جگر سوختہ ہم واپس گھر کو آئیں کیسے
.
حیات جا دیدانی کی طرف کوچ کر جانے سے پہلے اس نے با ئیں ہاتھ سے آنسو پونچھتے ہوے دائیں ہاتھ سے اپنے جیون ساتھی سے آخری بار مصافحہ کے واسطے ہاتھ آگے بڑھایا نوجوان جوڑے کا یہ خاکی زمین پر آخری غمگین اور افسردہ مصافحہ تھاالودعی مصافحہ کے اس لخراش منظرکو صرف رات کی تاریکی‘آسمان کے تارے اور دیو ہیکل پہاڈ دیکھ رہے تھے۔اس مصافحہ کے دوران دونوں ہاتھوں کو جونہی میاں بیوی کے محبت کے شکنجے سے رہائی ملی توزمین ہلنے لگی‘پہاڑ لرزنے لگے اور تاروں کی چمک ماند پڑگئی او ر یہ نوجوان رات کہ اس تاریکی میں اس ملک کے نظام سے بغاوت کے واسطے اور ظالم سماج کے بدخواہوں کے تیروں کی طرح چھبتی نظروں سے چھٹکارے کی خاطراپنے جیون ساتھی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوااور لڑکھڑ اتے قدموں سے آہستہ آہستہ ایک نظر آسمان کے تاروں پرڈال کر یہ شعر گنگنانے لگا۔
میں اہل زمین کی سنوں چہ مگو ئیا ں کب تک
میرے آسمان کی خاموشیو ذرا کلام کرو
.
اس کی رفیقہئ حیات کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ اس نے اپنے زندگی کے خاتمے کااندوہناک منصوبہ تیار کیاہوا ہے اب اس گھنا ؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس سے آخری بار مصافحہ کر رہا ہے۔ یہ تو اس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھاکہ آج کی شب دیجورکی تاریکی میں اس کا ہمدم اپنے ہاتھوں سے اپنی ر وح کو تن سے جدا کر کے گھر کو ماتم کدہ ‘ بستی کو غم زدہ اور اس کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انتہائی درد ناک اورافسوس ناک صدمہ دے کرخود پیوند زمین ہونے والا ہے۔خیر وہ اس کی واپسی کا خواب دل میں بسا کراور اس کی آخری مسکراہٹ پر اعتمادکر کے خواب گاہ کی طرف چل دی۔بقول شاعر
.
؎تبسم میں چھپا رکھا ہے اپنے غم کو اس ڈ ر سے
پریشاں دیکھ کر ہم کو پریشاں او ر بھی ہوں گے
ابھی تو آنسوؤں کی کہکشاں آنکھوں میں چمکی ہے
محبت ہے سینے میں تو چراغاں اور بھی ہونگے
.
اسے کیا معلوم تھاکہ کل صبح طلوع ہونے والا سورج تلخی کی چادر اوڈھ کر غموں اور خون کے قطروں کی آمیزش کو ا پنی کرنوں میں رسمیٹ کراور افسردہ سانسوں کواپنی شعاؤں میں بسا کران پر پڑتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگانے والا ہے اور صبح جی ہاں!کل کی صبح ہوتے ہی اس کی حسین خوابوں کے محلات چکنا چور ہونے والے ہیں۔رات بھر انتظار کی شدت نے اسے بے چین کر دیا‘نیند اڑ گیئ اور سحری تک پلک سے پلک نہ لگی۔سحری کے بعد سونے کی بہت کوشش کی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات بالآخر خرتارے گنتے ہوے ئجب صبح ہوگیئ تووہ اپنے گھریلومعاملات نمٹاکراسکی راہ تکنے لگی۔ ”الانتظار اشدت من الموت“کے مصداق جب اس کے راہ تکتے تکتے تھک گیٗ تو انتظار اضطراب میں بدل گیا‘بے قراری انتہاکو پہنچ گیٗ‘اس حالت میں اس نے کمرے کے اندر بکھر ئے ہوا سامان سٹور میں رکھنے کے لیے جونہی سٹور کا دروازہ وا کیا تو اس کا محبوب۔۔جی ہاں وہی محبوب جس سے ملنے کے لیے وہ ہر لمحہ بے تاب رہتی تھی‘جس کی راہیں تکتے تکتے اس کی آنکھیں پھترا گیٗ تھیں۔وہ دلبراور دلاویز شخصیت اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈال کر خود کو پھانسی کی ٹکٹکی سے باندھ کر آنکھیں موندھے ہوے ئلٹک رہا ہے اور بزبان حال کہہ رہا ہے
.
؎ یہ منزل دشوار تھی سر ہو گئی کیسے
حیرت ہے مجھے تاب نظر ہو گئی کیسے
آتے ہی تیر ا تصور آنسو نکل آے ئ
کمنجت ان آنکھوں کو خبر ہو گئی کیسے
ہم ہوش میں آے ئ تو لٹک رہے تھے
پھر یا د نہیں کچھ کہ سحر ہو گی ٗ کیسے
.
یہ کر بناک منظر دیکھتے ہی اس پر قیامت ٹوٹ پڑی وہ چیختی ہوئی اپنی شریک حیات کوجھنجوڑنے لگی لیکن اس کے بدن سے زندگی کب کی رُخصت ہوچکی تھی اوراس کا ملایم ئ اور نازک بدن لکڑی کا تخت بنا ہوا تھا۔اس وقت اسکی کیا حالات و کیفیت تھی میرا ناتواں قلم اس درد ناک منظر کو بیان کرنے قاصر ہے جب گھر میں ایک ساتھ چیخیں اٹھیں تو اہل محلہ اور اہل گاوں کا پلک جھپکتے ہی حاضر ہونا فطری تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا صحن انسانوں سے بھر گیا‘ہر ایک کے لیے قیامت خیز خبر تھی۔اس ہجوم میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھاجو دھاڑیں مار کر رو نہ رہا ہو‘چندمضبوط ا عصاب کے مالک افراددوسروں کو صبرو تحمل کا درس دیتے ہوے ئخود اپنے آنسوضبط نہ کر سکے جب ان کی میت کو آخری دیدارکے لیے ماں کے سامنے نہ رکھا گیا تو اس وقت سب کے ضبط کے بدھن ٹوٹ گییئ۔شاید ایسے ہی موقع کے لیے شاعر نے کہا
.
؎کیا ستائیں گی ہمیں دوران گی گردشیں
ہم اب حدو د سود وزیاں سے نکل گیے
شاید ہمارے بعد درخشاں ہو بزم گل
ہم تو ہیں اسے پھول جو صحر ا میں جل گیے ئ
کس دل سے اب کسی سے امید وفا کریں
جب تم ہی مثل گردش دوراں بدل گئے
.
بیٹا بیٹا پکارتے ہوے ئ ماں کی ہچکی بندھ گیٗ اور ماں کی زندگی کا پہلا دن تھا کہ بیٹا بیٹا کہہ کررونے والی ماں کو ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ لبیک کہنے والی زبان تقدیر کے فیصلوں پر خاموش تھی۔بلاآخر آنسؤں اور سسکیوں میں ان کی نعش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر والوں سے الوداع ہوکر کیفی کی زبان میں دنیا کویہ کہتے ہوے ئآخری منزل کی طرح رواں ہوئی۔
؎ رہو آرام سے اہل چمن اب کچھ نہیں ہوگا
یہ چشمک برق و باراں ہمارے آشیاں تک تھی
.
قارئین کرام!ان کے جسد خاکی کو آغوش زمیں کے سپردجب ہم واپس ماتم کدہ پہنچے۔۔۔ہمارے سماج کے چند شاطر دماغ شیطان ٹولیوں میں بیٹھ کراس وقت انکی خوبیوں کے تذکرہ کر رہے تھے جب وہ قبر کا مہمان بنا ہوا تھا۔ریاکاروں اور منافقوں کی مکارمی دیکھ کرمیں اور میرے چند دوست یہ سوچنے پر مجبور ہوگییئ کہ کاش زمین پھٹ جاے ئاور ہم اس میں سما جائیں لیکن اس سے قبل کہ ہمارے پاوٗں کے نیچے سے زمین سرک جاتی محفل ماتم میں موجودایک حرف ابجدسے نابلد بوڑھے دانشورنے ہمارے پریشانی کو بھانپ کر اپنا فلسفیانہ قول داغ دیا۔عزیزاں! یہ بات یاد رکھے مردے وہ نہیں کہ جن کی روحیں ان کے جسم سے پروازکر چکی ہیں بلکہ مردے وہ ہیں جن کے تن بدن میں روحیں تو ہیں لیکن ضمیر نہیں۔۔ضمیر سے محروم زندوں کی بستی میں زندہ رہنے سے روح سے محروم مردوں کے قبرستان میں گھر بسانالاکھ درجہ بہتر ہے۔لہذا بے ضمیرانسانوں کے منہ سے کسی کی خوبی کے تذکرے پرپھولے نہ سمانا یا کسی کی تذکرہ خامی پرناراضگی مول لینامورکھ پن کی علامت ہے۔عزلت نشین بوڑھے کے یہ الفاظ سُن کر مجھے ہوش آیا کہ بوڈھے دانشور نے ہمارے جذبات کی چنگاریوں میں اس لیے صبرو تحمل کا یخ پانی انڈھیل دیاکہ مایوسی کی یہ چنگاری کسی کے دل میں بے بسی کی شعلے اگلوا کرپھر کسی حسین نوجوان کوخود کشی کی سراے ئ میں دھکیل نہ دے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30005