خواجہ حیدرعلی آتش – ڈاکٹرساجدخاکوانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خواجہ حیدرعلی آتش – (13جنوری یوم وفات پر خصوصی تحریر) – ڈاکٹرساجدخاکوانی
خواجہ حیدرعلی آتش اردوادب کا ایک لازوال باب ہے۔آپ کاشماراردو زبان و ادب کے ابتدائی شعرامیں ہوتاہے،تین صدیاں بیتنے کوہیں لیکن اس نام کی آب و تاب میں کمی نہیں آئی،اردوادب میں دبستان لکھنوکی قدآورشخصیات میں آپ کاشمارہے۔آباواجدادبغدادسے دہلی واردہوئے،یہ خواجہ علی بخش کا مائل بہ تصوف گھرانہ ہے جہاں اردوادب کایہ آفتاب و ماہتاب اٹھاوریں صدی کے تقریباََآخرمیں طلوع ہوا۔گورے سامراج کی آمددہلی کے لیے براشگون ثابت ہوئی اورامن وامان اور تہذیب و تمدن اورعلوم و معارف کاگہوارہ یہ شہرسورشوں اور بغاوتوں کاگڑھ بن گیا،آئے دن کے عدم استحکام کے باعث یہ خواجہ خاندان یہاں سے فیض آبادمنتقل ہوگیا،جو لکھنوسے سواسوکلومیٹرمشرق کی طرف دریائے سریوکے کنارے واقع ہے اورکسی زمانے میں شہزادگان اودھ کی سیرگاہ بھی ہواکرتاتھا۔کاتب تقدیرنے بہت چھوٹی عمرمیں یتیمی لکھ دی تھی،شایداسی وجہ سے تحصیل تعلیم بھی تعطل کاشکاررہی۔ابتدائی عمرسے ہی بانکپن طبیعت کاخاصہ بن گئی اورلڑکپن میں جب قلم و قرطاس کاساتھ ہواکرتاہے تب تلوارہی خواجہ حیدرعلی آتش کی کمرمیں حمائل رہتی تھی اورالجھتے رہنے کی عادت نے انہیں جہاں “تلواریے”کالقب دیاوہاں ایک طرح سے تنہابھی کردیاتھاجس کے اثرات عمرعزیزکے آخرتک مزاج پرغالب رہے۔تاہم ان کی یہ جنگجوطبیعت نواب کوپسندآئی اور نوکری مل گئی۔نواب زادوں کی صحبت میں عربی و فارسی سے آشنائی میسرآئی اور تہذیب میں رچ بس جانے سے اندرکاشاعرجاگ اٹھااوریوں اردوادب کایہ یکے ازمشاہیراپنے فطری و فنی سفرپرپا بہ رکاب ہوا،اس وقت عمر کی انتیسویں بہارکے پھول کھل رہے تھے۔مرزامحمدتقی کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا،استادمحترم جب لکھنوسدھارے تو شاگردرشیدبھی باریک دھاگے سے کھنچے ہندوستانی زوال پزیرتہذیب کے اس مرکزمیں چلے آئے۔
لکھنواوردہلی کے دبستان اس وقت اردوادب کے دومکاتب فکرتھے۔دہلی لٹنے کے بعداہل علم وادب نے کثرت سے لکھنوکارخ کیاکیونکہ اس وقت لکھنومیں جہاں امن و امان اوردولت کی ریل پیل تھی وہاں سلطنت اودھ کے حکمران بھی شعراء کے قدردان تھے۔چنانچہ لکھنونے دہلی سے جدااپنارنگ منواناشروع کیا اور تہذیب و معاشرت کے اثرات شعروادب پر بھی پڑنے لگے جس کے نتیجے میں پرتکلف شاعری،طویل بحریں،مشکل سے مشکل ترکیبات،فکرکی رنگینیاں،کلام میں تصنع اوربناوٹ کی بہتات،تشبیہات و استعارات کاکثرت استعمال ،سابقوں اورلاحقوں سے تزئین کلام،تذکرہ نسوانیت اور وقاعت اشعارکے لیے عربی و فارسی کی طرف نارواجھکاؤکاعام رواج ہوگیا۔لکھنوکے نوابین اس زمانے میں جس قدر نسائیت پرفریفتہ تھے وہ کسی سےڈھکاچھپانہیں،یہی اثرات شاعری پر بھی مرتب ہوئے اور لب و رخصار اورزلف گرہ گیرکی اسیرشاعری رقم ہونے لگی اورمقابلہ اس قدربڑھتاگیاکہ اخلاقیات کی حدیں بھی پیچھے رہنے لگیں۔شعراکی باہمی رقابت بھی اشعارمیں ہویداہونے لگی اوریوں اقتدارکے ساتھ ساتھ اقدارسے بھی ہاتھ دھوناپڑا۔
دہلی کادبستان اس سے کافی مختلف ہے۔یہاں چونکہ فسادگرم رہااورجنگ و جدل کے بادل ہمیشہ منڈلاتے رہے اوراس شہرنے انقلابات زمانہ کو بنظرخود مشاہدہ کیا،دہلی لٹتی رہی،زخمی ہوتی رہی اوریہ شہر باربارلہولہان ہوتارہاتو ان سب حالات کے اثرات یہاں کے ادب پربھی پوری شدومد کے ساتھ ثبت ہوتے رہے۔احساسات وجذبات کااظہاریہاں کے شعراکاوطیرہ رہا،خوف کے مارے اس شہرنے شاعروں کے دل پر خوف خداطاری کردیا اور محبوب مجازی کی بجائے یہاں کے شعراء نے عشق حقیقی کی طرف رجوع کرلیا۔دنیاسے بے رغبتی اور حالات کی بے رخی نے یہاں کے اشعارمیں ناامیدی،مایوسی اور ستم ظریفی کوبھردیا۔فناکے احساس نے یہاں کے شعراء کرام کو بالیقیں تصوف کی طرف دھکیل دیااوروہ دنیاکی بے ثباتی کواپنی غزلوں اورنظموں کاظاہری اورباطنی عنوان بناتے رہے۔لکھنووالے جہاں تکلفات کے عادی تھے وہاں دہلی والوں میں سادگی کوٹ کوٹ کربھری تھی،اہل لکھنو طویل بحوراور لمبی نظمیں کہتے تھے وہاں دہلی والے اس سے یکسرالٹ تھے تاہم عربی اورفارسی کاکثرت استعمال دونوں میں قدرمشترک تھی۔
یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ خواجہ حیدرعلی آتش مزاجاََتودہلوی نظرآتے ہیں لیکن لکھنوکے رنگ میں اس قدررنگے گئے کہ آج تک دبستان لکھنوان کی پہچان ہے۔آتش ذاتی طورپردہلویت کی تصویرتھے،لٹے پٹے،سادہ،بے رنگ اور فقیرمنش۔آپ کو اسی روپے وظیفہ ملتاتھا،پندرہ روپے گھردیتے اورباقی فی سبیل اللہ تقسیم کردیتے۔گھرکی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی اور مورخ لکھتاہے کہ اس قابل نہ تھا کہ کوئی مہمان وقارسے بٹھایاجائے۔اپنی رہائش گاکے باہروالے ٹوٹی چھت کے نیچے اکثرلنگی پہنے براجمان رہتے تھے۔لکھنوی تہذیب اپنالی تھی،چنانچہ بھوؤں تک ٹوپی،حقہ نوشی ،ملگجی داڑھی ،ہاتھ میں چھوٹاساڈنڈااورکبوتربازی کے شوق کے باعث لکھنوکےکتھے لگتے تھے۔ان سب کے باوجود باطن میں وقت کے صوفی تھے،بے نیازی طبیعت پرغالب تھی،فقیرمنش رویہ ہمیشہ مزاج پر غالب رہاچنانچہ بے شمار شاگردہونے کے باوجود کبھی کسی کے احسان مندنہیں ہوئے،بادشاہ وقت نے مہربانیاں کرناچاہیں لیکن اپنی قلم کوکبھی قصیدہ نویسی سے آلودہ نہیں کیا۔آخری عمرمیں بینائی جاتی رہی اورپھرگوشہ نشینی کی آماجگاہ میں سدھارگئے اور ۱۸۴۷ء میں داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔ایک بیٹاتھا جس نے شوق تخلص کیا۔
خواجہ حیدرعلی آتش نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ڈوبتے ہوئے اقتدارکواپنی آنکھوں سے دیکھا۔شاعر کسی بھی قوم کا بہت حساس طبقہ ہوتاہے۔آتش کے حالات پڑھ کر صاف اندازہ ہوتاہے کہ وہ اپنی قوم سے مایوسی کاشکارتھے اوران کی آنکھیں بندہوتے ہی مسلمانوں کے اقتدارکاسورج بھی غروب ہوگیا۔شایدیہی آنے والے حالات کے اندازے نے انہیں آخری عمرمیں بے حدمضمحل کردیاتھا۔ہندوستان کے مسلمانوں کاسیاسی اقتدارجہاں دہلی میں ڈوباہے وہاں اخلاقی گراوٹ کامقام چاہ لکھنوہے۔آپ کی شاعری سے صاف پتہ چلتاہے کہ بیداری کی بہت کوشش کی لیکن آسمان سے نازل ہونے والے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔لکھنوکی اخلاقی پستی بلآخردہلی کی سیاسی موت کاباعث بن گئی۔اس زمانے میں لکھنوکے بعض شعراء نے ایسے ایسے بے ہودہ،واحیات اورلچرقسم کے کلام لکھے کہ پھرتاریخ میں دوسری بارشائع نہ ہوسکے۔بداخلاقی،باہمی رقابت میں عریانیت کابے دریغ استعمال اورزیرجامہ شاعری کے مقابلے جیسے جیسے زورپکڑتے گئے توقدرت خداوندی کے ناراضگی کے اثرات بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ آسمان نے غلامی کاطوق گردنوں میں پیوست کردیا۔خواجہ حیدرعلی آتش کا بھلایاہواسبق جب علامہ محمداقبال کی زبانی قوم نے دہرایاتو آزادی کی دہلیزنے قوم کے قدم چومے۔اب شعراء پریہ قرض ہے کہ وہ اپنے اسلاف کی روح کونوجوانان ملت میں اس طرح پھونکیں کہ غلامی کی باقیات سے بھی یہ سرزمین پاک ہوجائے اورمقصدآزادی لاالہ الاللہ سے یہ چمن معمورہوجائے،ان شااللہ تعالی۔