Chitral Times

نوائے سُرود – مہنگائی اور مجبور عوام – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود – مہنگائی اور مجبور عوام – شہزادی کوثر

ملک کے معاشی حالات روز بہ روز بگڑتے جا رہے ہیں مہنگائی نے طوفان مچایا ہوا ہے، ٹی وی کے ہر چینل پہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھرانے اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ہر پارٹی اپنی نظر میں بے گناہ ہےجبکہ سارا قصور مخالف پارٹی کاہے، سیاست دانوں کی اس نورا کُشتی میں جو پس رہے ہیں وہ عام لوگ ہیں ۔جن کی آواز اتنی نہیں ہے کہ حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا سکے ،اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو سہتے جا رہے ہیں ان کے بازووں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ظالموں کو گریبان سے پکڑ سکیں ۔اپنی نا گفتہ بہ حالت پر چپ رہنے والے اور غاصبوں کو اپنا حکمران بنانے والے “مجبور ،بے حیثیت “عوام ۔۔۔ جن کی حالت دگر گوں ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے ،اشیا خوردونوش دسترس سے باہر ہیں۔ پیٹرول سونے سے بھی مہنگی ،ساتھ میں بجلی غائب، گیس میسر نہیں ،آٹا اور چاول دسترس سے باہر، چینی ناپید، پھلوں کا نام جان بوجھ کہ نہیں گنوا رہی کیوں کہ وہ اسباب تعیش میں شامل ہو گئے ہیں ۔گاڑیوں کا کرایا ، بجلی گیس اور پانی کا بل دیکھ کر سر چکرا جاتا ہے ۔ایسے میں غریب آدمی خود کشی نہ کرے،قتل میں ملوث نہ ہو ڈکیتی سے گریز کرے ،چوری کرنے اور چھینا جھپٹی سے خود کو روکے رکھے تو کیسے؟ ۔۔۔۔

 

جب بنیادی ضروریات سے ہی انسان کو محروم کر دیا جائے ، بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا دیکھنا پڑے،اپنے پیاروں کے علاج اور دوائیوں کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے انہیں موت کے منہ میں جاتے ہوئے بے بسی سےدیکھنا پڑ ے،تو انسان شرافت کا جامہ اتار پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔حالیہ دنوں میں چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔پہلے قیمتی سامان چوری ہوتے تھے اب کھانے پینے کی اشیا اور عام ضرورت کی چیزیں چوری ہو رہی ہیں ۔دیہاڑی دار طبقہ اور کم آمدنی والے افراد سب سے زیادہ مشکل میں ہے ۔پیسے کی قدر میں کمی آنے کی وجہ سے دیہاڑی ایک وقت کا چولہا گرم نہیں کر پا رہی ،پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر لوگ چوری کرنے لگ گئے ہیں ۔ بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا لیا ہے کیونکہ گھر کے اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے تو بچوں کی فیس اور آمد و رفت کا کرایہ کیسے برداشت کریں ۔۔دوائیں سوفیصد مہنگی ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد علاج سے محروم ہو گئے ہیں ۔

 

عوام پہ کبھی پیٹرول بم گرتا ہے اور کبھی انہیں بجلی کے جھٹکے سہنا پڑتے ہیں اور سیاسی گرو جھوٹی تسلیوں سے انہیں بہلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔سب کو معلوم ہے کہ معیشت برباد ہو گئی ہے بیرونی قرضے بڑھتے جا رہے ہیں ملک کی پوری آبادی سوائے (سیاستدانوں ،جرنیلوں،اور بیوروکریٹس کے)رُل رہی ہے ،استطاعت سے زیادہ معاشی بوجھ پڑنے کی وجہ سے خود کشی کےواقعات میں اضافہ ہو گیا ہے”کسی” کو بھی احساس نہیں کہ قرضوں کی شرائط پوری کرنے میں کتنی زندگیاں قربان کرنا پڑیں گی۔حکمرانوں کی عیاشیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ،ان کے محلات کی رنگریزیعوام کے خون سے کی جارہی ہے ۔معاشی حالات کی تنگی نے لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے اب بھکاری پیسے نہیں مانگتے بلکہ چاول ِآٹا،گھی یا چینی کا تقاضا کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ روپے کی قیمت دو کوڑی کی بھی نہیں رہی۔ایسا نہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زمین فصل اگانے سے انکاری ہے بلکہ یہ مہنگائی کی کارستانی ہے کہ سب کچھ ملک میں پیدا ہونے کے باوجود یہ نعمتیں عام آدمی کو میسر نہیں۔اس کی زندگی کی راحتیں کہیں کھو گئی ہیں، وہ ان ساری نعمتوں کو دیکھتا ہے انہیں کھانے کا متمنی ہے لیکن ان سے لطف اندوز ہونا اسے نصیب نہیں۔ بیماریوں سے لڑنے کے لیے غذا اور دوا کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے ملک میں دونوں کا فقدان ہے ۔بھوک اور بیماری تکلیف دہ صورت اختیار کر جائے تو زندگی کے مقابلے میں موت باعث راحت نظر آتی ہے اس وجہ سے زندگی ارزان ہو گئی ہے،حالات کے ستائے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں ورنہ مہنگائی ہی انہیں زندہ درگور کرنے کے لیے کافی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
79502

تیرے نام کی شہرت – گل عدن چترال

تیرے نام کی شہرت – گل عدن چترال

ساحر لدھیانوی صاحب نے کیا خوب لکھا ہے کہ ‘تو بھی کچھ پریشان ہے،تو بھی سوچتی ہو گی، تیرے نام کی شہرت تیرے کام کیا آئی،

میں بھی کچھ پشیماں ہوں،میں بھی غور کرتا ہوں ‘میرے کام کی عظمت ‘میرے کام کیا آئی ۔۔!!

اس دنیا میں گنتی کے چند لوگ ہوں گے جو ستائش _شہرت کی تمنا سے بے نیاز گمنامی کی زندگی بسر کرتے ہیں اور اس پر مطمئن بھی رہتے ہیں لیکن اکثریت کی زندگی نام کمانے میں،تعریف سمیٹنے کی جدوجہد میں صرف ہورہی ہے ۔کچھ لوگوں کو شہرت کی خواہش نہیں بلکہ بھوک ہوتی ہے۔تعریف کی خواہش یا شہرت کی تمنا ہونا ایک نارمل بات ہے ہر انسان میں پائی جاتی ہےلیکن شہرت کا جنون انسان کو نارمل رہنے نہیں دیتا۔آج سے کچھ سال پہلے جب ٹیکنالوجی عام نہیں تھی تو شہرت کا جنون بھی کریز بھی اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن اب سوشل میڈیا نے اس جنون کو کہیں گنا بڑھادیا ہے ۔اور اس مصنوعی زندگی کا بنیادی جزو” فوٹو گرافی “ہے۔الماری میں رکھے تصویروں کے البم جو ماضی میں کھبی خزانہ کی حثیت رکھتے تھے۔جو سال میں کھبی کھبار کسی خاص مواقع میں بڑی مشکل سے بنانا نصیب ہوتا تھا۔

 

ان تصویروں میں بھی حقیقت کی خوبصورتی جھلکتی تھی۔جو خوشگوار یادوں کو تازہ کرکے بیک وقت آپکو خوشی اور اداسی کی کیفیت میں مبتلا کردیتی تھیں۔مگر آج اپنے اسمارٹ فون سے دن میں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی جانے والی تصاویر نہ تو خوشیوں کو قید کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں نہ ہی یادوں کو محفوظ کرنے کی خاطر بنائی جاتی ہیں بلکہ ان تصاویر کا صرف ایک مقصد ہے کہ انہیں سوشل میڈیا کی زینت بنادی جائے اور لوگوں کو دکھایا جائے کے ہم کتنے خوش ہیں۔کتنے مزے میں ہیں یا کتنے مصروف ہیں اور زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔خود کو زندگی سے بھرپور دکھانے کا ایک مقابلہ چل رہا ہے انٹرنیٹ پر اور ہم اس مقابلے میں دوڑ رہے ہیں۔چند لائکس چند تعریف جملے چند رشک بھری آہیں اور کہیں کچھ جلنے کی بدبو ہماری زندگیوں کا اہم مقصد بن چکی ہیں۔اعتراض اس دوڑ میں شامل ہونے پر نہیں ہے دکھ اس بات کا ہے کہ ہم حقیقی زندگی میں نہ تو خوش ہیں نہ خوش مزاج۔۔۔

 

اور یہی چیز ہمیں ڈپریشن کا مریض بنارہی ہے۔حالانکہ ہم جتنی محنت سوشل میڈیا یا دوسروں کو دکھانے کے لئے کر رہے ہیں اگر اس ایک فیصد کوشش بھی حقیقت میں خوش رہنے کی کریں تو زندگی واقعی خوبصورت ہوسکتی ہے لیکن ہم نے موبائل میں پناہ ڈھونڈ لیا ہے۔ ہم اسوقت دو کشتیوں میں سوار ہیں۔زندگی ایک ہی ہے مگر ہم دو طرح سے گزار رہے ہیں۔ہماری ایک کشتی سوشل میڈیا ہےاور دوسری کشتی ہماری حقیقی دنیا۔سوشل میڈیا پر ہماری زندگیاں یعنی ہمارے دکھاوے کی زندگی بڑی پرفیکٹ ہیں بلکل ویسے جیسے ہم چاہتے ہیں۔خوش باش،بے فکر۔سوشل میڈیا پر ہم ناصرف نیک ہیں بلکہ عظیم شخصیات ہیں ۔انسان دوست، ہمدرد ،ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے والے، حساس اتنے کہ جانور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے اور سمجھدار اتنے کہ بڑے سے بڑے واقعات پر بھی مثبت رائے اور مثبت کردار نبھانے والے۔

 

حد تو یہ ہے کہ Facebook اور Instagram پر دو دن کی زندگی کو بھر پور طریقے سے خوشی خوشی جینے والے لوگ بھی ہم ہی ہیں ۔زندگی کے قدر دان۔ایک Fake زندگی کے قدر دان ۔لیکن جونہی ہم موبائل فون سائیڈ پر رکھ کر اپنی Real life میں قدم رکھتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے ہی تو سب سے پہلی چیز جو ہمارے چہرے(بلکہ ہماری زندگی سے) سے غائب ہوتی ہے وہ ہے ہمارے چہرے کی مسکراہٹ ہے ۔۔۔جس زندگی کا حقیقتا حق ہے کہ اسے مسکرا کر گزارا جائے وہی زندگی ہماری مسکراہٹ کو ترس رہی ہے۔دوسری چیز شکرگزاری۔سوشل میڈیا پر ہروقت الحمداللہ کا ورد کرنے والے ہم شکرگزار لوگ جونہی موبائل چارجنگ پر لگاتے ہیں ہمیں ہر چیز میں خامی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ہر چیز میں کمی، نقص، خامی ۔۔کھانے پینے میں ۔کپڑوں میں، کمرے میں ،گھر میں،ماں باپ میں،بہن بھائیوں میں،رشتہ داروں میں اور رشتوں میں ہر چیز میں کمی ۔۔اور یہ محرومیاں ہمیں مسکرانے ہی نہیں دیتیں۔یہ محرومیاں ہمیں جینے بھی نہیں دیتیں۔ اس لئے ہم اپنا زیادہ تر وقت اپنی موبائل کی دنیا میں غرق ہوکر گزارتے ہیں۔ اس سے ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی تو نہیں آتی مگر حقیقت سے فرار کا ایک راستہ مل جاتا ہے اور وقت گزر جاتا ہے۔اور ہمیں لگتاہے کہ سوشل میڈیا پر ہم نے جو نام بنالیا ہے بڑی محنت سے وہ کافی ہے۔

 

لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جسطرح ہم وقت گزار رہے ہیں کیا اسوقت کو یونہی گزرنا تھا؟کیا وقت اپنی بے وقعتی کا ہم سے حساب نہیں مانگے گا؟کیا ہماری زندگی خود کو دھوکہ دینے میں گزر جائیگی؟؟ضروری نہیں کہ دکھاوے کی زندگی صرف سوشل میڈیا پر ہی ہو ۔جو لوگ facebook پر نہیں ہوتے وہ بھی گھر سے باہر چاہنے والوں،سراہنے والوں کا مجمع رکھتے ہیں لیکن افسوس گھر کے اندر ایک شخص بھی انکی اخلاق سے متاثر نہیں ملتا۔یہ منافقت کی زندگی ہم نے کب اور کہاں سے شروع کی میں نہیں جانتی لیکن نام کی خواہش جہاں سے شروع ہوتی ہے وہ ہماری والدین کی گود ہے اور ہمارے اساتذہ کرام کے رویے ہیں ۔(میرے قارئین کو مجھ سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔)آپ نے کھبی غور کیا ہے کہ والدین کتنی آسانی سے اپنے بچوں کو ‘اچھےبچوں ‘ اور ‘برے بچوں ‘ میں بانٹ دیتے ہیں۔یہ سوچے بنا کہ اولاد کی تربیت انکی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔یہ سوچے بغیر کہ اولاد پر سب سے زیادہ اثر انکے والدین کا ہوتا ہے انکی محبت کا انکے غصہ کا۔سب سے منفی اثر جو اولاد پر والدین کا ہوتا ہے وہ ہے اولاد میں تفریق کرنا۔ بچپن سے اولاد میں فرق کرنے والے والدین بڑھاپے میں اپنی تمام اولادوں سے ایک جیسی عزت ،تابعداری اور محبت چاہتے ہیں۔یہ بھول جاتے ہیں کہ انکی کی ہوئی تقسیم ساری زندگی ان بد بخت اولادوں کا پیچھا کرتی ہے ۔

 

والدین کا بنایا ہوا اچھا بچہ معاشرے میں تاحیات “اچھا بچہ ” بنا رہتا ہے اور والدین کا بنایا ہوا “برا بچہ ” ساری زندگی کہیں اچھائیوں کے باوجود معاشرے میں “برے بچہ “کے طور پہ جانا اور مانا جاتا ہے۔اور اور ماں باپ کے بنائے ہوئے اچھے بچے ان برے بچوں کو کھبی بھی “اچھا ” بننے نہیں دیتے۔ یوں والدین کی یہ ظالم تقسیم قبر تک ان بچوں کا پیچھا کرتی ہے۔دوسری طرف سکول میں روحانی والدین بھی یہی ظلم کرتے ہیں۔معصوم بچوں کو “لائق اور نالائق” بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔اسی لئے کلاس میں پہلی جماعت میں جو لائق بچے ہوتے ہیں وہ تعلیم مکمل کرنے تک لائق رہتے ہیں۔اور ساری زندگی یہ لائق بچے ہر اونچے مقام کو ہر ایوارڈ کو ہر کامیابی کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں کلاس میں انکی تعداد 6 یا 8 یا 9،10 کے لگ بھگ ہوتے ہیں باقی 60 70 بچے خود کو گھسیٹ کر تعلیم یا مکمل کر پاتے ہیں یا نامکمل چھوڑ دیتے ہیں۔انکی تعلیم کی طرح انکی شخصیت،انکی خوشیاں انکے خواب خواہشیں سب کچھ ادھوری رہ جاتی ہیں۔میرا ایسے والدین سے صرف ایک سوال ہے کہ کیا اللہ تعالی اپنے بندوں کو آپکی اولاد کی حثیت میں اس لیے پیدا کرتاہے کہ آپ انہیں اچھے اور برے بچے میں تقسیم کردیں؟؟؟ میرا اساتذہ کرام سے بھی ایک ہی سوال ہے کے کیا یہ والدین اپنے بچوں کو اس مقصد کے لئے سکول بیچتے ہیں تاکہ آپ انہیں لائق اور نالائق بچوں میں تقسیم کر سکیں؟؟؟

 

یہ جو سوشل میڈیا پر یا گھر گھر میں،خاندان میں،محلے میں جنگیں چل رہی ہیں نام بنانے کی یہ انہی لائق اور نالائق بچوں کے درمیان کی جنگ ہے ۔یہ محبت ستائش تعریف نیک نامی اور چاہے جانے کی بھوک کی جنگ ہے۔یہ حسد نفرت دشمنیاں یونہی وجود میں نہیں آئیں ۔یہ روز روز خودکشیاں یہ قتل و غارت یہ جھگڑے فساد انہی “اچھے اور برے بچوں “کی جنگ ہیں ۔جو اس وقت تک چلیں گے جب تک والدین اس “تقسیم” سے باز نہیں آئیں گے۔جس دن جس لمحے والدین اور اساتذہ نے تسلیم کرلیا کہ بچے اچھے یا برے نہیں ہوتے بلکہ محض بچے ہوتے ہیں انہیں اچھے اور برے بنانے والے ہم ہوتے ہیں اس دن یہ جنگ یہ جنون یہ دھوکہ اور منافقت کی زندگیاں ختم ہوں گی۔اور لوگ سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ حقیقت میں جینا شروع کریں گے۔

 

ساحر لدھیانوی کے الفاظ کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کرتی ہوں جو میرے دل کی آواز ہیں

تیرا قبر تیری فن

میرا قبر میرا فن

تیری میری غفلت کو

زندگی سزا دے گی

تو بھی کچھ پریشان ہے

تو بھی سوچتی ہو گی

تیرے نام کی شہرت

تیرے کام کیا آئی ۔۔۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
78853

مختصر سی جھلک ۔ نیت میں فتور۔ فریدہ سلطانہ فّٰری

مختصر سی جھلک ۔ نیت میں فتور۔ فریدہ سلطانہ فّٰری

بادشاہ قباد جنگل میں شکار کے پیچھے چلتے چلتے اپنے لشکرسے بچھڑجاتے ہیں اورجنگل میں اچانک اس کوایک جھونپڑی مل جاتی ہے جہاں ایک بوڑھی اماں اپنی بیٹی اورچند گاِیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ بادشاہ مہمان بن کراس جھونپڑی میں پہنچ جاتے ہیں۔ بوڑھی اماں دودھ سے بادشاہ کی خاطرتواضع کرتی ہے۔ اتنے میں بوڑھی اماں کی لڑکی بھی گائے چرا کرگھرواپس اجاتی ہے اوروہ اپنی لڑکی کو دودھ دوہنے کا بولتی ہے ۔

 

بادشاہ یہ سب منظر دیکھ رہا ہوتاہے جب لڑکی دودھ دوہ کرلاتی ہے تودودھ کی مقدار بادشاہ کو بہت زیادہ لگتی ہےاوراچانک بادشاہ کی نیت میں فتوراجاتا ہےکہ ہماری وجہ سے یہ لوگ اس جنگل میں امن سے رہ رہے ہیں اورروزانہ اس قدر زیادہ دودھ حاصل کرتے ہیں اگر ہفتے میں ایک دن کا دودھ بادشاہ کی خد مت میں پہنچا دیا کریں تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔اب واپس جا کے میں یہ حکم صادر کروں گا کہ ہفتے میں ایک دن کا دودھ بادشاہ کے حصے میں ہوگا اس کا فایدہ یہ ہوگا کہ شاہی خزانے میں اس دودھ کیوجہ سے کئی گنا اضافہ ہو جایے گا ۔ بادشاہ رات کو اس نیت کے ساتھ سو جاتا ہے ۔

صبح اٹھ کر بیٹی جب گاِئوں کا دودھ دوہنے چلی جاتی ہے تو چیلانے لگتی ہے کہ اماں۔۔۔۔ اما ں اٹھو۔۔۔بس ہمارے بادشاہ کی نیت میں فتور اگیا ہے اورساتھ ہی بڑھیا بھی گڑاگڑا کرخداکے حضور دعا کرنے لگی۔۔۔۔اور بادشاہ کو یہ سب دیکھ کر شدید حیرانگی ہوئی کہ میں نے تو اپنے دل میں یہ سوچا ضرورتھا مگر اس بچی کو اس کا علم کیسے ہوا۔۔۔ پھر بادشا ہ نے بوڑھیا سے پوچھا کہ تمھں کیسے معلوم ہوا کہ بادشاہ کی نیت میں فتور ایا ہے۔۔۔۔ تو بوڑھی اماں نے جواب دیا کہ ہماری یہ گائے روزانہ صبح کے وقت جتنا دودھ دیتی ہیں اج ا س سے بہت کم دیا ہے اس لیے ہم نے سمجھ لیا کہ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ بادشاہ کی نیت میں خرابی اگئی ہے کیونکہ جب حکمران کی نیت میں خرابی اجاتی ہے تو اللہ تعالی زمین سے خیر و برکت اٹھا لیتا ہے خیروبرکت کے جانے کے یہی اثرات ہیں کہ ہرچیزمیں نقصا ن اور کمی اجاتی ہےاور جب حکمران کی نیت نیک ہوتی ہے تو خدا تعالی زمیں پراتنی ہی خیر و برکت نازل کرتا ہے کہ ہرچیزمیں انسانوں کو نفع ہونے لگتا ہے۔

 

اب یہ ساری صورت حال دیکھ کر قباد بادشاہ نے تو اپنی بری نیت اور ظالمانہ فعل سے توبہ کرلی اور حکایت میں ہے کہ بادشاہ کو اس کے اس توبہ کا صلہ بھی مل گیا ۔۔اب پتہ نہیں ہمارے ملک کے حکمران اپنے ظالمانہ افعال اوربری نیتوں سے کب توبہ کر لیں گیں۔۔۔۔۔کب سیاسی پارٹیوں کی فکرچھوڑ کرملک کی فکر کریں گیں ؟ کب ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر  ملک کی اجتماعی مفاد کا سوچیں گیں ؟؟؟  مگریہ سب تواب خواب ہی لگ رہاہےکیونکہ یہاں ہرصاحب اقتدار قباد بادشاہ کی طرح نیت میں فتور لیے پھیر رہا ہے اورعوام بچارے بوڑھی اماں کی طرح گڑگڑاَتے ہوئے۔ ۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
78594

چترال میں خودکشیوں کا رجحان ۔ میر سیما آ مان

Posted on

چترال میں خودکشیوں کا رجحان ۔ میر سیما آ مان

پچھلے چند دنوں میں جس تناسب سے خود کشیوں کے واقعات ہوئے ہیں عقل دنگ رہ گئی ہے کہ چترال جیسے حسین وادی جہاں باہر کے لوگ اپنی ڈپریشن دور کرنے آ تے ہیں وہاں زندگی اتنی سستی کیوں ہوگئی ہے ۔۔ ڈاؤن ڈسٹرکٹ میں ناکام شادیوں نے جب زور پکڑا تو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بڑی وائرل ہورہی تھی کہ بیٹا ہم نے انسان کا بچہ سمجھ کر رخصت کیا ہے جانور بنے تو واپس آ نا کیونکہ طلاق یافتہ بیٹی بحرحال بیٹی کی لاش اٹھانے سے بہتر ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہمارا یہ پوسٹ صرف سوشل میڈیا کہ ہی زینت ہے ذاتی ذندگیوں میں ان اقوال ذریں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔ہم کبھی اپنے بچے سے نہیں کہہ سکتے کہ بیٹا فیل ہوجاو تو کوئی بات نہیں ۔۔کیونکہ فیل ہونا کم نمبر لینا یا کوئی بھی ناکامی مرجانے سے بہتر ہے ۔۔

 

chitraltimes suicide river koghuzi

ہمیں قبول ہی موت ہے ناکامی نہیں ۔۔وجہہ احساس کمتری ۔۔ چترال میں منفی سرگرمیوں سمیت بڑھتی ہوئی خود سوزیوں کی سب سے بڑی وجہہ یہی احساس کمتری ہے جسکے سبب لوگوں نے اپنی زندگیاں عذاب بنائی ہوئی ہیں ۔۔ ہمیں خود کو پرفیکٹ بنانے حتیٰ کہ سمجھنے کی اس قدر عادت پڑ گئی ہے کہ ذرا سی کمی بیشی ہم سے برداشت ہی نہیں ہوتی ۔۔ ہمیں لگتا ہے کہ شادی ہوگئی ہے تو ہر صورت کامیاب ہی ہونا ہے بچہ امتحان دے رہا ہے تو ہر صورت ٹاپ کرنا ہے بندہ کمانے نکلا ہے تو ہر صورت کمائی لاکھوں میں ہی ہونی چاہیے کیوں ۔۔۔۔کیونکہ ہمیں عادت پڑ گئی ہے ۔ کثرت کی ۔۔ہمارے باپ دادا جس دور میں پیدا ہوئے وہ اسائشات کی قلت کا دور تھا ۔۔ سکوں سے جئے سکوں سے مرے ہم نے اسائشات کا ذرا سا منہ تو کیا دیکھ لیا اب انکے بغیر جینے کا تصور نہیں کر پارہے ہیں ۔۔۔ہمیں اپنی نسلوں کو یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لوگ کامیاب دکھ رہے ہیں یہ کہیں ہزار نا کامیوں سے گزرے ہیں تب کہیں جا کر کامیاب ہوئے ہیں ۔۔شوبز میں جتنے لوگ ہیں جو تین تین چار چار شادیاں کرتے ہیں تب کہیں جا کر کوئی ایک شادی کامیاب ہوتی ہے ۔۔ ہم بڑے بننے کے خواب دیکھنے والے چھوٹے غموں کے گرداب سے نہیں نکل پاتے ۔۔

 

بچہ میڈیکل میں نہیں جاسکا ساری زندگی کے لیے طعنہ بن گیا ۔۔ بیٹی کا رشتہ نہیں ٹوٹا خاندان میں قیامت ٹوٹ گئی۔شادی کے بعد ایک کے بعد ایک بیٹیاں پیدا ہورہی ہیں۔ بیٹا کیوں نہیں ہو رہا ۔۔عورت کی سکون غارت ہو جاتی ہے ۔۔یہ جو اقوال ذریں ہم سوشل میڈیا پہ شیئر کرتے رہتے ہیں کہ سسرال برا ہے تو بیٹی واپس آ جاؤ ۔۔یہ کہنا تو بڑی ہی دور کی بات ہے ہم تو شادی شدہ بیٹی سے یہ بھی پوچھنا گوارا نہیں کرتے کہ بیٹا تمھارے ساتھ ان کا برتاو کیسا ہے ۔۔ہم تو حقیتا آ ج بھی بیٹی کو رخصت کرتے وقت سسرال سے اسکا جنازہ ہی اٹھنے کی دعا کرتے ہیں اور اسی کو شادی اور خاندان کی کامیابی سمجھتے ہیں ۔۔کتنی بوریاں لاشوں کی آگئی ہیں ۔۔کیوں۔کیونکہ میکہ میں رخصتی کے ساتھ انکے گنجائش ختم ہوگئی تھی ہمیں جنازے اٹھانا قبول ہے لیکن ہم ناکام شادیوں کا بوجھ اپنے اردگرد کے زمینی خداوں کے طنز و طعنوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ۔۔بلکل اسی طرح ہم دریاؤں سے طلبا کے لاش اٹھانے کے لیے تیار ہیں لیکن امتحان میں نمبرز فلاں فلاں فلاں کے برابر آ نے چاہیے ۔۔۔۔۔افسوس ۔۔

 

لاہور کی ایک بچی ارفا کریم نو سال کی عمر میں پوری دنیا میں جسکی ذہانت کے ڈنگے بج گئے لیکن منوں مٹی تلے جا سوئی ۔۔ پورے ملک سمیت خود چترال کے کہیں نوجوان خوبصورتی ذہانت اعلیٰ ڈگریوں سے لبریز ہوئے لیکن عین جوانی میں سارے خواب تہہ خاک لیکر جا سوئے اور ہم نے عبرت نہیں لی ۔۔۔۔ ہمیں لگاکہ موت تو صرف انہی لوگوں کو آ نہ تھی ہمارے پاس تو بڑا وقت ہے ہم مریں گے تو ہمارے گھر کون سنبھالے گا ہمارے رشتے کون سنبھالے گا یہ سب تو ہماری دم سے ہے۔۔ یقین کریں قبرستان میں سویا ہوا ہر شخص اسی غلط فہمی کا شکار تھا کہ انکے بغیر گھر نہیں چلے گی دنیا تک جائے گی کرسی خالی رہے گی مگر دیکھ لو دنیا اسی شان وشوکت سے چل رہی ہے۔۔ تو اپنی اولاد کو اپنے ارگرد لوگوں کو جینے دو انکی کمیوں سمیت وہ عزت میں کمتر ہیں ۔۔نا لائق ہیں کم حیثیت ہیں بد صورت ہیں غریب ہیں بد کردار ہیں جو بھی ہیں ۔۔۔ اپنی زندگیاں جینا سیکھو خدارا جیو اور جینے دو ۔۔ آپکے لیے بہترین زندگی کا میعار جو بھی ہو اسکو دوسروں پر مسلط مت کرو ۔۔کیونکہ کوئی دوسرا انسان تمھاری خوابوں کے بھینٹ چڑھنے کے لیے اس دنیا میں نہیں آ یا ہے۔۔ لہذا اپنی احساس کمتری کو اپنی ذات تک محدود رکھیں دوسروں کو انکے انداز اور انکے میعار کے ساتھ جینے دیں ۔

chitraltimes drosh suicide two sisters chitral lower

chitraltimes drosh suicide two sisters3 scaled chitraltimes women suicide chitral river rescue 1122 operation 1

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
78590

پاک-افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل – تحریر: غزالی فاروق

Posted on

پاک-افغان سرحد کے مسائل اور ان کا تسلی بخش حل – تحریر: غزالی فاروق

 

امریکہ نے بھارت کو ایک صنعتی مرکز بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ پاکستان کو اندرونی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بھارت کا ویژن بھارت کا اپنا نہیں بلکہ امریکہ کاویژن ہے۔ اسی طرح خطے کے لیے پاکستان کی اختیار کردہ پالیسی بھی امریکہ ہی کی دین ہے۔ مشرف کے “سب سے پہلیپاکستان” اور ترقی اور خوشحالی کے بدلے مغرب کی غلامی کے تصور نے پاکستان کے اسٹرٹیجک اثر و رسوخ اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔افغانستان- پاکستان کے سرحدی علاقے کی جغرافیائی سیاست بڑی طاقتوں اور خطے کے لیے ان کی پالیسیوں کے درمیان ایک مقابلے کے نتیجہ میں تشکیل پائی ہے۔یہ پالیسی پہلے روس اور برطانیہ، اور پھر سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کشا کش کے نتیجے میں تشکیل پائی۔ اس کے بعد جب امریکہ اکیلا عالمی طاقت رہ گیا ، تو اس نیاس خطے سمیت پوری مسلم دنیا کے لیے اپنی پالیسی دی۔یوں خطے کے لیے ہمارے اپنے اسٹریٹجک وژن کی عدم موجودگی میں ہمیشہ بیرونی طاقتیں خطے کی تقدیر کو تشکیل دیتی رہیں گی۔

 

افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد، امریکہ کی طرف سے پاکستانی ریاست کو حکم دیا گیا کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پشتون مسلمانوں کو افغانستان میں جہاد کرنے سے اور امریکہ کے خلاف افغان طالبان کی مزاحمت کی حمایت کرنے سے روکے۔ امریکہ نے جہادی نظریے کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا اور پاکستان کو پچھلی پالیسی (یعنی افغانستان میں امریکی مدد سے سوویت یونین کے خلاف جہاد کی حمایت)کو واپس لینے کا حکم دیا۔ اسی طرح بھارت میں لڑنے والے جہادی گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا بھی حکم دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پشتون قبائل اور پاکستانی ریاست کے درمیان تصادم واقع ہوا۔ اس تصادم کے لیے پاکستانی فوج کو قبائلی علاقوں میں داخل ہونے اور وہاں چھاؤنیاں قائم کرنے کی ضرورت پڑی۔ ٹی ٹی پی 2007 میں عسکریت پسند کمانڈر بیت اللہ محسود کی طرف سے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے داخل ہونے کے براہِ راست ردعمل کے طور پر منظر عام پر آئی۔

 

پاکستان کی فوج اور پشتون عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی نے قبائلی علاقے میں سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ قبائل اور ان کے رہنماؤں پر پاکستانی ریاست یا عسکریت پسندوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس تصادم نے خطے میں پرانے سیکورٹی کے نظام کو تباہ کر دیا۔تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کا مغربی سرحد پر سیکورٹی کو یقینی بنانے کا طریقہ کاریہ تھا کہ سرحدی قبائل کو ڈیورنڈ لائن کے آر پار آنیجانے کی اجازت دی جائے، انہیں ہتھیار لے جانے کی اجازت تھی اور انہیں پاکستانی ریاست کی انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ بارڈر سیکورٹی فورسز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ “دہشت گردی” کے خلاف جنگ نے خطے میں سیکورٹی کے اس پرانے ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔

 

پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں اپنی مستقل موجودگی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو افغان طالبان اور کابل میں نئی حکومت کو سنبھالنے کا حکم دیا ہوا ہے۔ اس کام کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی ریاست قبائلی علاقوں میں فوجی چھاؤنیوں اور قانون نافذ کرنے والے مضبوط ڈھانچوں کی زیادہ فعال موجودگی کو ناگزیر سمجھتی ہے۔پاکستانی حکمران قبائلی علاقوں اور وسیع تر افغان مسئلے کو عالمی برادری سے جڑے رہنے کا موقع سمجھتے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں اور مہمات کو امریکہ اور مغرب سے اُن کیجیو پولیٹیکل اہداف کو حاصل کرنے کے عوض ڈالر حاصل کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

اسلامی سرزمینوں میں عسکریت پسندی بنیادی طور پر مغربی استعمار کی پالیسیوں اور مسلم دنیا میں اس کے اثر و رسوخ کا ردعمل تھا۔لیکن اس حقیقت سے قطع نظر، پاکستانی فوج نے پاکستانی ریاست کی زبردست طاقت کو استعمال کیا تاکہ فاٹا کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا جا سکے اور پاکستانی ریاست کی رٹ کو قبائلی علاقوں تک بڑھایا جا سکے۔ یہ تصور کیا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے خصوصی اقتصادی مراعات ملنے اور اس کی سیاست میں باقاعدہ شمولیت سے خطے میں عسکریت پسندی کے مسئلہ کا خاتمہ ہو جائے گا۔پاکستانی ریاست نے فاٹا کے علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے کے حفاظتی نظام پر واپس جانے کی کوشش کی۔ تاہم قبائل اور عسکریت پسند خطے میں پاکستانی فوج کی موجودگی سے سخت ناراض ہیں۔ پشتون عسکریت پسند فاٹا کی خیبرپختونخوا میں شمولیت کی واپسی چاہتے ہیں اور اپنے لیے اور قبائل کے لیے خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پشتون قبائل کا ایک بڑا اور اہم مطالبہ ڈیورنڈ لائن کو کھولنا اور سرحدی باڑ ہٹانا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر خطے کی معیشت اور سرحدی علاقوں میں سماجی اور سیاسی انتظامات پر پڑتا ہے۔

 

پاکستانی ریاست کی نوعیت اور اس کی غیر قانونی حیثیت پاکستانی معاشرے میں ایک بہت وسیع بحث ہے۔ پاکستان کو سیکولر ریاست ہونا چاہیے یا اسلامی ریاست،یہ موضوع پاکستان میں فکری گفتگو کا محور رہا ہے۔ پاکستان کی امریکہ اور مغربی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کی خارجہ پالیسی کی پشتون قبائل کی جانب سے مخالفت کے نتیجے میں پاکستانی ریاست اور قبائل کے درمیان تصادم ہوا۔ پشتون عسکریت پسندی عملاً پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خلاف بغاوت تھی۔پاکستانی ریاست کا یہ دعوی کہ صرف وہ ہی ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے اور قبائل سے اُس کی اس اجارہ داری کوقبول کرنے کا مطالبہ کرنا، درحقیقت قبائل کو خود مختاری دینے، ہتھیار رکھنے اور اپنی زمینوں کو محفوظ رکھنے کی ریاست کی اپنی ہی پچاس سالہ پالیسی کے خلاف تھا۔ قبائل نے درست طور پر یہ بھانپ لیا کہ پاکستانی ریاست کے رویے میں اس اچانک تبدیلی کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔

 

نام نہاد “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کے دوران، امریکہ کی حوصلہ افزائی سے، پاکستانی ریاست کے اداروں کو عسکریت پسندی سے لڑنے کے لیے باقاعدہ تشکیل دیا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں، نیکٹا(NACTA)، پاک فوج کے فوجی نظریے میں تبدیلی، انسدادِ دہشت گردی کے پولیس یونٹس کا قیام، فوجی عدالتوں کا قیام، تعلیمی نصاب میں تبدیلی، مدارس میں اصلاحات اور نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نے ریاست کی صورت ایسی کردی جسے قبائلی علاقوں میں بہت سے لوگوں نے جابرانہ اور ناجائز سمجھا۔

 

پشتون تحفظ موومنٹ کے سر اٹھانے نے پشتون قبائل کے غصے کو غیر متشدد سیاسی سرگرمی کی طرف موڑ دیا اور علاقے میں فوج کی پالیسیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس طرح اس علاقے میں ریاست کی رٹ کے قیام کے مطالبے کو ایک ناجائز ریاست کے مطالبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو قبائل پر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو وسعت دے کر انہیں اپنے تابع کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔پشتون قبائل اسلام اور جہاد سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کو ایک سیکولر اور غیر اسلامی ریاست، اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح عسکریت پسندوں نے سیکولر ریاست کی قانونی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان میں علمائے کرام عسکریت پسندوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ایک اسلامی ریاست ہے جس سے وفاداری کرنا لازم ہے۔تاہم علماء نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معصوم مسلمانوں اور سیکورٹی عملے پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک غیر سنجیدہ دلیل نظر آتی ہے کیونکہ ان کے سیاسی مطالبات میں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ شامل نہیں ہے، لیکن انہوں نے اسے پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے اور پاکستانی ریاست کی قانونی حیثیت کو مسترد کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔قبائل پاکستانی ریاست کی بارڈر پر سختی سے عملدرآمد کی پالیسی کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست اثر ان کی معیشت اور معاش پر پڑا ہے۔ وہ ڈیورنڈ لائن کو ناجائز اور قبائل کی طاقت کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

افغان طالبان فعال طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت نہیں کر رہے لیکن افغانستان میں اُن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتیہیں۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان اور امریکہ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو افغان طالبان بھی ایسی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغان طالبان سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔افغان طالبان کا خیال ہے کہ اگر وہ جہادی ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو طالبان کے جہادی ہونے کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچے گا۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں تو اپنی صفوں کے اندر اُن کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔

 

طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت خود ہی ” اسلامی ریاست- خراسان “(IS-K) کی جانب سے قبول کردہ مسلسل بمباری کی ایک لہر کی زد میں آچکی ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی درحقیقت ٹی ٹی پی کے عناصر کو ” اسلامی ریاست- خراسان “کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہے یا وہ خود کابل کی حکومت پر اپنی بندوقیں تان سکتے ہیں۔لہٰذا افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سمجھداری سے نہیں نمٹا گیا تو، مشرقی افغانستان میں عسکریت پسندی کا خطرہ،افغان طالبان مخالف محاذ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ افغان طالبان پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو نرم کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا خطرہ اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فوج کی فوجی کارروائیاں ڈیورنڈ لائن کو نرم سرحد بنانے کے ان کے ہدف کو مزید مشکل بنا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خطرے کو حل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن بغیر کوئی قیمت ادا کیے۔ ان کی نظر میں ایسا کرنے کا بہترین طریقہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنا ہے، جس کی انہوں نے کوشش بھی کی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

 

مسلمانوں کے درمیان جنگ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:” اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور اللہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے”(النساء،4:93)۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے فرمایا، “مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے”(بخاری و مسلم)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، “جب دو مسلمان لڑائی میں آمنے سامنے ہوں اور ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہیں”۔ صحابہؓ نے پوچھا، “اے اللہ کے رسولﷺ، یہ قاتل ہے- لیکن اُس غریب کا کیا ہوگا جو مارا گیا ہے؟” آپﷺ نے فرمایا، “وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا”(بخاری)۔

 

پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت واضح طور پر افغانستان کے ساتھ اپنی مغربی سرحد کی صورتحال پر پریشانی کا شکار ہے۔ سلامتی کا یہ بحران امریکہ کے اسٹریٹجک وژن کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا نتیجہ ہے۔ یہ صرف اسلام کا نظام خلافت ہی ہو گا جو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر سلامتی اور خوشحالی کی ضمانت دے گا۔ یہ نظام ڈیورنڈ لائن کو ہمیشہ کیلئے مٹا دے گاکیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کے مسلمان بھائی بھائی ہیں اور امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ ان کے معاملات کو مصنوعی سرحدوں کے ذریعے تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ خلافت ایک ایسا حفاظتی انتظام قائم کرے گی جس میں قبائل بھی شامل ہوں گے۔ قبائل کی فوجی طاقت، اسلام کے غلبہ کو مزید آگے بڑھائے گی۔ یہ پشتون قبائل ہی تھے جنہوں نے آزاد کشمیر کو آزاد کرانے، سوویت روس کو پسپا کرنے اور استعماری امریکہ کو نکالنے میں مدد کی۔لہٰذا یہ خلافت ہی ہو گی جو مؤثر طریقے سے قبائلی جنگجوؤں اور مسلح افواج کو کفار کے خلاف ایک قوت وطاقت کے طور پر متحرک کرے گی۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
77885

اب بھی وقت ہے – از: کلثوم رضا

اب بھی وقت ہے – از: کلثوم رضا

موج بڑھے یا اندھی آئے دیا جلائے رکھنا یے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو اخر اپنا ہے۔۔۔

سوشل میڈیا ہر خبر کو جلد بلکہ بہت جلد اپنے صارفین تک پہنچاتی ہے۔ سچ ہو چاہے جھوٹ ۔۔۔جتنی خیر پھیلائی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ شر پھیلایا جا تا یے۔۔۔
کبھی کوئی کہتا ہے کہ “علامہ محمد اقبال پاکستان بنانے کے خلاف تھے” ،کوئی کہتا ہے کہ “قائد اعظم محمد علی جناح اس ملک کو ایک سیکولر ملک بنایا تھا،بعد میں مذہب کے ٹھیکیداروں نے اسے اسلامی بنانے کی کوششیں کیں”۔

کوئی کہتا یے کہ “پاکستان بنانے میں جتنی قربانیوں کا ذکر ہے اس سے کہیں ذیادہ ناروا سلوک پاکستان حاصل کرنے والوں نے ہندوؤں ،سیکھوں اور یہاں سے جانے والے انگریزوں کے ساتھ کیا”۔

اور کوئی کہتا ہے کہ “پاکستان بنانے والوں نے اسے اپنے چند مقاصد کے لیے بنائے تھے۔اس میں پاکستانی عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔یہ صرف سیاسی تجارت ہے”۔اور تو اور اب سکولوں میں بھی معاشرتی علوم کا پریڈ استاد بچوں اور بچیوں کو یہ پڑھانے میں گزارتا ہے کہ “جو اس کتاب میں لکھا گیا ہے اور پڑھایا جاتا رہا ہے سب جھوٹ ہے۔نہ ہی پاکستان کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا نہ ہے ۔یہ ایک سیکولر ملک تھا اور ریے گا۔۔”
خدا ناخواستہ ۔۔
جانے یہ کون لوگ ہیں
” جو ہم ہی میں رہ کر ہمارے گھر کو جلا رہے ہیں۔۔”
جو ہماری نسلوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔انہیں اپنے وطن سے بیزار کر رہے ہیں ,اذاد ملک اور اذادی سے لا تعلق بنا رہے ہیں۔

پچھلے سال میں نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر سٹیٹس لگائی جس میں “کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ تھا تو فوراً ایک صاحب نے مسیج کیا “کیوں اسے مصیبت میں ڈال رہی ہو اس سے اچھا ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ مل جائے دو وقت کی روٹی اسے اسانی سے مل جائے گی”۔

اب دو روز پہلے کسی نے سٹیٹس لگایا کہ “اب بھی وقت ہے ملک کو گوروں کے حوالے کرتے ہیں”۔میں نے کہا کہ “یہ کیا۔۔ پھر سے غلامی کی تدبیریں”؟۔تو کہا کہ “اب ہم کون سے آزاد ہیں ،اس سے تو بہتر ہو گی گوروں کی غلامی “۔
یہ سب نا امیدی کون پھیلا رہا ہے؟

کل ہی میرا بیٹا کہہ رہا تھا کہ فیس بک پر دیکھایا گیا ہے کہ واہگہ بارڈر فلیگ مارچ دیکھنے پاکستانی نہیں جاتے اور بھارت سے بہت سارے لوگ آتے ہیں ۔
اس یوم آزادی کے موقع پر ایسے دلخراش واقعات اور پیغامات ملتی ہیں کہ الامان ۔
زرا سوچیں یہ سب قوم کا حوصلہ پست کرنے اور عوام میں ناامیدی پھیلانے کی سازشیں ہو سکتی ہیں۔ایسے میں تصویر کا ایک رخ دیکھ کر اسی پر اکتفاء نہیں کرنی چاہیئے بلکہ دونوں رخ اپنے آنکھوں سے دیکھ لینی چاہیئے ۔

حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر ہم نے اپنی آزادی کے دن کو آزاد قوموں کی طرح اپنے اسلامی اقدار کے مطابق شکرانے کے نوافل پڑھ کر منانی چاہیئے ۔
ازادی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر کوئی جاکے کشمیریوں اور فلسطینیوں سے پوچھے،بنگال کے بے بس بہاریوں سے پوچھے ،جا کے شامیوں سے پوچھے،اور کوئی جا کے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے پوچھے کہ آزادی کیا شے ہے؟
یہ سب ہماری ذہنی غلامی کا نتیجہ ہے جو خوف اور ناامیدی کو اپنے اوپر مسلط کر رہے ہیں ۔مسلمان کبھی نا امید اور بزدل نہیں ہوتا۔۔ہر رات کے بعد سویرا ہے یہ میرے آللہ کا فرمان ہے۔

 

کبھی مایوس مت ہونا
اندھیرا کتنا گہرا ہو
سحر کی راہ میں حائل
کبھی بھی ہو نہیں سکتا
سویرا ہو کے رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا،

 

میں تو کہتی ہوں
” اب بھی وقت ہے” مایوسی اور ناامیدی سے نکل جائیں۔
ابھی بھی وقت ہے ملک کو گوروں کے حوالے کرنے کے بجائے ان کے دئے ہوئے کلچر سے آزادی حاصل کر لیں ۔
“اب بھی وقت ہے”اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتے ہوئے مضبوط قوت ارادی سے قرآن پاک کو رہنما بنا لیں۔
“اب بھی وقت ہے”اس ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے،اپنی پہچان اور روشن مستقبل کے لیے زمام کار صالحین کے ہاتھ میں دے کر صالحیت کی ترویج کے لیے کوشاں ہو جایئیے ۔پھر دیکھیں یہ سازشیں ،یہ مایوسیاں کیسے اپ سے دور بھاگیں گی۔۔
چلو

 

اِک نظم لکھیں
اے اَرضِ وطن آ تیرے لیے اِک نظم لکھیں
تِتلی کے پَروں سے رَنگ چنیں
اِن سازوں سے آہنگ چنیں
جو رُوح میں بجتے رہتے ہیں
اور خواب بُنیں ان پھولوں کے
جو تیری مہک سے وابستہ
ہر آنکھ میں سجتے رہتے ہیں
ہر عکس ہو جس میں لاثانی
ہم ایسا اِک اَرژنگ چُنیں
اور نظم لکھیں…!
وہ نظم کہ جس کے حرفوں جیسے،
حرف کسی ابجد میں نہیں
وہ رنگ اتاریں لفظوں میں،
جو قوسِ قزح کی زد میں نہیں
اور جس کی ہر اک سطر میں،
خوشبو ایسی لہریں لیتی ہو،
جو وہم و گماں کی حد میں نہیں
اور جب یہ سب انہونی باتیں،
ان دیکھی، ان چھوئی چیزیں
اک دوجے میں مل جائیں تو نظم بنے
اے ارض وطن وہ نظم بنے،
جو اپنی صِفَت میں کامل ہو
جو تیرے روپ کے شایاں ہو،
اور میرے ہنر کا حاصل ہو!
اے ارضِ وطن اے ارضِ اماں
تو شاد رہے، آباد رہے
میں تیرا تھا، میں تیرا ہوں
بس اتنا تجھ کو یاد رہے
‘اس کشت ہنر میں جو کچھ ہے’
کب میرا ہے!
سب تجھ سے ہے، سب تیرا ہے
یہ حرف و سخن، یہ لوح و قلم
سب اڑتی دھول مسافت کی
سب جوگی والا پھیرا ہے
سب تجھ سے ہے، سب تیرا ہے
سب تیرا ہے
…امجد اسلام امجد
پاکستان پائندہ باد

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
77832

سانحہ یونیورسٹی اور ہماری زمہ داریاں ۔ تحریر! شہاب ثنا برغوزی

سانحہ یونیورسٹی اور ہماری زمہ داریاں ۔ تحریر! شہاب ثنا برغوزی

پروفیسر برے ہیں کمینے ہیں تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ، یہ ٹھیک نہیں وہ ٹھیک نہیں ،اسے مار دو اسے مر جانا چاہیے۔۔۔یہ وہ۔۔۔
میرا لوگوں سے سوال ہے کیا قصور پروفیسروں اور تعلیمی نظام کا ہے؟کیا آپ نے اپنی بچیوں کی تربیت ایسی کی ہے ؟کیا ہراسانی اور دباؤ کی شکایت آپ سے شئیر کر سکیں ۔۔کیا آپ نے بچیوں کو یونیورسٹی میں داخل کرانے سے پہلے ایک بار بھی سوچا کہ کسی گرلز یونیورسٹی میں کرایا جائے ؟کبھی بچیوں سے پوچھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں اتنا میک اپ اور تیار ہو کہ کیوں جاتی ہیں ؟کبھی سوال کیا ہے کہ اتنے مہنگے تحفے دے کون اور کیوں رہا ہے؟؟؟؟؟

جی کچھ سوال آپ والدین سے ہیں جو اپنی زمہ داریاں پوری نہیں کرسکے۔۔اور کچھ سوال معاشرے سے ۔۔کیا لڑکیاں بن ٹھن کر یونیورسٹی نہیں جاتیں ؟کیا وہ خود کو پروفیسر اور امیر لڑکوں کے سامنے پیش نہیں کرتیں ؟ کیا جی بی بڑھانے کے لیے شرم و حیا کی حدیں پار نہیں کی جاتی ؟
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی سب گناہ گار ہیں کوئی ایمان داری سے کام نہیں کر رہا۔۔نہ بچوں کی پرورش کرنے والے والدین ،نہ استاد نہ معاشرہ ۔۔۔تو صرف استاد ہی گالیوں کے حقدار کیوں؟؟؟

وہ لڑکیاں جو گھر سے پردے میں آتی ہیں لیکن ادارے میں جاتے ہی پردہ غائب،لڑکوں کی توجہ اور واہ واہ پانے کے لیے تنگ کپڑے اور گھٹیا فیشن کرتی ہیں پہلے سے سوئے ہوئے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دوستیاں ہوتی ہیں ۔
دودھ خود بخود نہیں ابلتا
آگ جلتی ہے ابالنے کے لیے

جب تک ہم بذات خود اپنا محاسبہ نہیں کریں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اپنے بچوں کو تعلیم ضرور دیں لیکن ان پر مکمل نظر بھی رکھیں اجکل یونیورسٹیوں کی حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں وہاں جنسی معاملات اور نشہ عام سی بات ہوگئی ہے ثقافت کے نام پر بے حیائی اور فحاشی ہر ادارے کا معمول بن چکا ہے ۔۔اگر علم اس چیز کا نام ہے جو ایسے یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے جہاں کبھی بہن کے فگر کی پیمائش مانگی جاتی ہے اور کہیں اس مقدس رشتے کو پامال کیا جاتا ہے باقی نسل نو کی جو تربیت یہ تعلیمی ادارے کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔۔جب تک ہم خود نہیں بدلیں گے یہ واقعات ہوتے رہیں گے ایام کربلا ہیں جس طرح اس وقت بی بی زینب نے پردہ و ایمان کی حفاظت کی ۔۔ہماری ماؤں اور بہنوں کے لیے تاریخ کی صورت میں موجود ہے۔اپنے افکار بدلیں اس سے پہلے کہ یہ آگ آپ کے گھر تک پہنچ جائے اللّٰہ پاک ہماری اور آپ سب کے عزتوں کو محفوظ رکھے۔۔فی امان اللہ ۔۔۔
خوش رہو ۔۔اختلاف کی اجازت ہے۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستانTagged
77176

روزانہ روڈ ایکسیڈنٹ ‘آخر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

روزانہ روڈ ایکسیڈنٹ ‘آخر کیوں؟؟ – گل عدن چترال

ہم اکثر یہ کہتے اور سنتے رہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی چیز بہت سستی ہے تو وہ انسانی جان ہےاور یہی سچ ہے۔اسکا ثبوت ملک میں لاقانونیت اور ناانصافی اور دیگر مثالیں جیسا کہ روز بڑھتی ہوئی مہنگائی ،تعلیمی اداروں میں نشے کا بڑھتا ہوا رجحان اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ سر فہرست ہیں ۔لیکن آج جس چیز نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے وہ ایک تواتر سے ہونے والے ٹریفک حادثات ہیں۔اس ایک ماہ میں صرف چترال کے اندر جتنے روڈ ایکسیڈینٹ ہوئے ہیں یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔سالوں پہلے ایسے حادثات مہینوں میں کھبی کوئی ایک دو بار ہوتے تھے مگر اب روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات ہماری روز کا معمول بن چکی ہیں۔

 

 

ایک دن کا اخبار بھی اس سرخی کے بغیر نہیں آتا۔کیوں؟ کیا انسانی جان اتنی سستی ہے خود ہمارے ہاتھوں ۔کیا ہمیں ہر حادثے کی وجہ صرف تکنیکی خرابی پر ڈال کر روز اپنی جانوں کا نذرانہ دینا چاہئے؟؟ یا ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈالنا چاہئے؟؟اگر حقیقت تسلیم کی جائے تو آجکل پورے پاکستان میں اور خاص طور پہ چترال میں جس نشے نے ہمارے ڈرائیوروں اور نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے وہ ہے تیز رفتاری کا “جنون”۔۔اور جیسا کہ ہمارا ماننا ہےکہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے واقعی آئے دن کے یہ حادثات یہ بات ثابت کررہے ہیں ۔موجودہ دوڑ میں نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص انتہائی جلدی میں ہے۔آپ بازار میں سودا سلف لینے جائیں،گاہک تو جلدی میں ہیں سو ہیں مگر دکاندار گاہکوں سے زیادہ جلدی مچا رہے ہوتے ہیں ۔ اس جلدی جلدی میں کوئی ناپ تول میں کمی بیشی کر رہا ہے کوئی کچھ کررہا ہے۔ہسپتال جائیں’ڈاکٹر کو مریض سے ذیادہ جلدی ہے۔۔

 

بینک میں کھڑے ہوں ‘مسجد میں نمازیوں کی بے صبری دیکھیں،مسافر اڈے پر پانچ منٹ کھڑے ہوکر ملاحظہ کریں عجب جھپٹا جھپٹی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس بات کی جلدی ہے سب کو۔کیا چھیننے کی کوشش ہورہی ہے خوف آتا ہے اس بھاگ دوڑ سے۔بلکل ایسے ہی خوف ناک جلدی ڈرائیور حضرات کو ہے۔کراچی سے خیبر تک ہر شخص کو اپنی اپنی منزل پر پہنچنے کی انتہائی جلدی ہے۔چاہے ایک رکشہ ڈرائیور ہو،ٹرک ڈرائیور ہو کوئی سرکار کا آدمی ہو یا ہمارے گھر کا ایک فرد اپنی ذاتی گاڑی چلا رہا ہو ۔گاڑی چلانے کے معاملے میں ان سب کی بے صبری، ذہنی کیفیت اور معیار ہو بہو ایک جیسی ہے۔چاہے پڑھا لکھا آدمی ہو یا ان پڑھ غریب سب کو لگتا ہے کہ تیز رفتاری انکی شخصیت کو چار چاند لگا دے گا مگر افسوس چار چاند کا تو نہیں پتہ لیکن چار سو ٹانکے ضرور لگ جاتے ہیں۔

 

ان حادثات سے بچنے کے لئے حکومت تدابیر کرے یا نہ کرے مگر ہمارے ڈرائیور حضرات عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنا بند کریں۔قیمتی جانوں کو اپنی تیز رفتاری کے جنون کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ایک ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص کو اپنی زندگی سے پیار ہے یا نہیں ہے مگر پیچھے بیٹھے افراد کی زندگی اہم ہے، قیمتی ہے ،پیاری ہے۔ایک مہذب شہری ہونے کا ثبوت دیں اور دوسروں کی زندگیوں کو جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنے سے گریز کریں خدارا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
76959

ایک لڑکی کی داستان!! ۔ تحریر: شہاب ثنا برغوزی

ایک لڑکی کی داستان!! ۔ تحریر: شہاب ثنا برغوزی

میں ایک لڑکی ہوں۔۔

میں زیادہ بولوں تو چالاک، چپ رہو تو دبو۔۔ میں پڑھوں تو تیز طرار، نہ پڑھوں تو جاہل۔۔ میں اپنے حق کے لیے لڑوں تو منہ پھٹ، اور اگر نہ بولوں تو اللّٰہ میاں کی گائے ۔۔۔میں ہمسفر کے لیے پسند بتاؤں تو بے شرم، اور اگر بڑوں کے فیصلوں پر سر جھکاؤں تو بھیڑ بکری۔۔۔ میری شادی نہیں ہو رہی تو میرا قصور، میں طلاق یافتہ ہوں تو بھی میرا قصور ۔۔ میں ماں بہن بیٹی بیوی ہوں تو عزتوں کی امین، میں دوسروں کی ماں بہن بیٹی بیوی ہوں تو مفت کا مال۔۔۔ میں پینٹ پہنوں تو ماڈرن، میں عبایا پہنوں تو بیک ورڈ۔۔۔ میں میک اپ کروں تو آرٹیفیشل، میں میک اپ نہ کروں تو پینڈو۔۔۔ میں گھر سے نکلوں تو اوور کانفیڈنٹ، میں گھر میں رہوں تو آئی ہیو نو کانفیڈینس ۔۔۔ میں کچن میں ہی رہوں تو سگھڑ،میں باہر سے منگواوں تو جدید عورت۔۔۔ میں سوشل میڈیا یوز کروں تو ہاتھ سے نکل گئی،میں مدرسے جاؤں تو ٹیپکل دینی۔۔۔

 

میں مردوں کے ساتھ کام کروں تو آزاد خیال، میں مردوں کے ساتھ کام سے انکار کروں تو بیک موڈد۔۔۔ میں خود ساختہ بنائی ہوئی روایات ،رسموں اور رواجوں میں جھکڑی ہوئی ہوں کیونکہ میں لڑکا نہیں “لڑکی” ہوں اس دین نے دیا ہے اعلی مقام مجھے، پھر کیوں لوگ میری پیدائش کی خوشی نہیں مناتے؟ غرض کہ جس کی جیسی سوچ ،اس نے ویسا جانچا مجھے۔۔۔ میں ان سب رویوں کے ساتھ جیتی ہوں، کیونکہ میں ایک آزاد ملک کی قیدی لڑکی ہوں۔۔ میں اڑنا چاہتی ہوں پر میرے پر آنے سے پہلے کاٹ دیے جاتے ہیں۔۔ میں اسلام کے دائرے میں رہ کر آزاد فضا میں سانس لینا چاہتی ہوں پر یہاں کی فضا حبس زدہ ہے ۔۔۔ میرے خوابوں کو آنکھوں سے نوچنے والے اور میری صلاحیتوں کو دبانے والی نہیں ۔۔۔ ۔بلکہ۔۔۔ میرے خوابوں کو آنکھوں میں سجانے والے اور صلاحیتوں کو ابھارنے والے بنو۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ میں ایک لڑکی ہونے سے پہلے ایک جیتی جاگتی انسان ہوں۔۔۔ اس مردوں کے معاشرے میں مجھے سر اٹھا کے چلنا ہے مجھے اپنی کانچ سے زیادہ نازک عزت کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔ اور مردوں کے اس معاشرے میں پردے میں رہ کر مجھے اپنے آپ کو منوانا ہے مجھے لوگوں کی بیمار سوچ کو بدلنا ہے مجھے بوڑھے والدین کا سہارا بننا ہے مجھے پردے میں رہ کر روٹی کے لئے باہر نکلنا ہے۔۔میں ایک لڑکی ہوں تو کیا؟؟؟

 

میرے اپنے بھی کچھ خواب ،ارمان اور خواہشات ہیں۔۔۔ میں اللّٰہ کی بنائی ہوئی ایک خوبصورت مخلوق ہوں۔۔ بحیثیت “ماں” اللّٰہ پاک نے میرے قدموں تلے جنت بنائی ہے تو پھر یہ معاشرہ میرا بھی اتنا ہے جتنا مردوں کا ۔ میں مردوں کی برابری نہیں چاہتی بس اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتی ہوں۔۔ میں سڑک سے گزروں تو نظریں طواف کرنے کی بجائے نیچی ہونی چاہئے ۔۔ کیونکہ گھر سے نکلی ہوئی ہر لڑکی بری بدکردار نہیں ہوتی کچھ لڑکیاں مجبوری میں نکلتی ہیں ۔۔ میں ایک لڑکی ہوں اور میں کمزور نہیں ہوں کیونکہ میرے اللّٰہ نے مجھے کمزور نہیں بنایا الحمد اللّٰہ ۔۔۔
خوش رہو اختلاف کی اجازت ہے۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
76634

والد محترم – تحریر ۔ کلثوم رضا

Posted on

والد محترم – تحریر ۔ کلثوم رضا

خطائیں دیکھ کر بھی نظر انداز کرتے تھے
میرے والد تیری شفقت کے کیا کہنے۔۔۔

جب سوشل میڈیا سے متعارف ہوئی تو پتہ چلا کہ 19 جون “ورلڈ فادر ڈے” کے نام سے منایا جاتا ہے۔
والدین کے لیے صرف ایک دن۔۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

ہمارے سارے دن ،ساری راتیں انھی کی مرہونِ منت ہیں۔۔۔ہمارا نام ،ہماری جان پہچان سب انھی کی بدولت ہے۔۔کیا کیا نہیں کیے ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ،نا ختم ہونے والی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے ۔۔۔جب سے خود اس عہدے پر فائز ہو گئے ہیں تو پتہ چلا کتنا مشکل ہے بچوں کی خوشیوں کی خاطر نا چاہتے ہوئے بھی وہ کام کرنا جس کو کرنے کا اپ کا دل نہیں چاہ ریا ہو۔مگر پھر بھی آپ کر جاتے ہیں ۔بچے کوئی فرمائش کریں آپ کو پتہ بھی ہے آپ پوری نہیں کر سکتے تو پھر بھی آخری حد تک کوشش کرتے ہیں کہ کہیں سے ان کی یہ خواہش پوری کر دیں۔

ہم بھی کوئی فرمائش کرتے تو والد صاحب چب ہو جاتے تو ایک ،دو،تین دنوں میں وہ فرمائشی چیز لا کر دے دیتے تھے۔ورنہ اس فرمائش پر تو فوراً جواب دے دیتے جس سے پوری کرنا اس کے لئے آسان ہوتا “کیوں نہیں میں آج یا کل یا پرسوں جب بازار جاؤں گا تو ضرور اپنی بیٹی کے لئے خرید کر لاؤں گا “.
اب جا کے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس چیز پر وہ چپ ہو جاتے تھے اسے پوری کرنےکے لیے اسے کتنی محنت کرنی پڑتی ہو گی۔

امی کچھ سمجھاتی کہ یہ “فضول خرچی ہے ۔آپ لوگ یوں فرمائشیں نہ کرو ،جس چیز کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے وہ آپ کو ابو لا کر دیتے ہیں “یا کسی بات پر ڈانٹ دیتی تو والد صاحب فوراً امی کو منع کرتے ۔”یہ بچے ہیں انھیں نہ ڈانٹیں اور نہ ہی انھیں روکیں ،جو مانگتے ہیں اپنے والد سے مانگتے ہیں ،اب اگر ان کی یہ خواہش ہم پوری نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔”

پہلی اولاد ہونے کے ناطے میرے تو بہت ناز ،نخرے اٹھائے ہیں میرے والد محترم نے۔
کھانا بھی اپنے ہاتھوں سے گرم ،سرد کو نرم کرکے کھلاتے ،چائے ،دودھ بھی اپنے ہاتھوں سے پلاتے،خوبصورت پھول،رنگین پرندے اور تتلیاں،اچھے میوے اور خوبصورت جگہیں میرے نام سے منسوب کرتے۔میں بھی جب خوب بڑی ہو گئی تو سمجھ گئی یہ سب میرے نہیں ہیں۔۔۔

میں کوئی اچھا کام کر جاتی تو خوب تعریف کرتے اور ہر رشتہ داروں اور دوستوں کو بتاتے،جب کوئی غلطی کر جاتی تو یکسر نظر انداز کرتے کہ کہیں بیٹی شرمندہ نہ ہو جائے،بعد میں اکیلے میں سمجھاتے اس بات کو لے کر نہیں کہیں سے مثال دے کر ،میں سمجھ جاتی کہ یہ فلاں وقت کی فلاں غلطی پر سمجھایا ہے۔

گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا تو چہارم پاس کرنے کے بعد امی نے مجھے اپنے گھر بھیجا پڑھنے کے لیے۔۔۔تو والد محترم ہر دو دن میں ملنے آ جاتے ،میرے لیے گھر سے بھی میری پسند کی چیزیں دیسی مرغی پکا کے،دیسی انڈے ابال کے،مکھن،کھیرا اور انجیر وغیرہ لاتے اور بازار سے جلیبی ،تکہ،کباب اور شکر پارے لاتے۔پیسے الگ سے دیتے کہ دوستوں کو لے کر کچھ کھاؤ ،پیو۔میری سہیلیاں بھی جب اسکول کی خالہ کلاس میں آ جاتی تو سب سمجھ جاتیں کہ والد صاحب آئے ہیں اور مجھ سے پہلے پہلے ابو کے پاس پہنچ جاتیں ۔ابو ان سب کو پیار کرتے ان کا اور ان کے گھر والوں کا حال پوچھتے ۔میرے ابو کو میری تمام سہیلیوں کے نام انکے والد صاحباں کے نام یاد تھے۔

میری امی بتاتی ہیں کہ ہم دونوں بہنوں کے جب ہم ننھیال میں ہوتے تو میرے ابو ہمارے کپڑے خود استری کر کے الماری میں ٹانک دیتے اور ہمارے استعمال کے قابل تو کیا پرانے جوتے بھی صاف کر کے اوپر کپڑا لپیٹ کے رکھ دیتے تھے ۔

ہر جمعرات کو ہمیں لے کر گاؤں جاتے تو مہمانوں کی طرح ہماری خوب مدارات کرتے ۔کھیتوں میں لے جاتے ،رشتہ داروں سے ملواتے ،ان کے کسی مسلے کا حل ہم سے پوچھتے ،کوئی معلومات ان تک ہم سے پہنچاتے ۔اج سوچتی ہوں تو یہ ان کا کتنا بڑا پن تھا ۔۔شاید انھیں ایسا لگتا ہو گآ کہ ہم گاؤں سے دور رہ کر اپنے لوگوں کے دکھ سکھ سے غافل رہیں گے ۔اور وہ اسی ذریعے سے ہمیں ہمارے گاؤں کے لوگوں کے قریب لے جاتے اور ان کے دل میں ہمارے لیے محبت و احترام پیدا کرتے تھے۔

ہم دو بہنیں دو بھائی ،دونوں بھائی ہم بہنوں سے چھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے والدین نے ہمیں بہت محبت اور محنت سے پالا پوسا ،پڑھایا لکھایا ۔اپنے گاؤں اور خاندان کی میں پہلی بیٹی ہوں جس نے ماسٹر کیا۔بیٹے ،بیٹیوں کی شادی بھی قریب قریب علاقوں میں رشتہ داروں اور جان پہچان والوں میں کیا ۔جلدی جلدی ملنے آتے اور ہمیں بھی جلدی جلدی اپنے ہاں بلاتے ۔

میرے بھائیوں سے کہتے کبھی خالی ہاتھ اپنی بہنوں کے گھر نہ جائیں ان کے لیے انکی پسند اور اپنی پسندیدہ چیزیں ہی لے کر جانا ۔الحمد للہ میرے دونوں بھائی ہماری اور ہماری امی کی خوشیوں اور ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انکے عمر،مال اولاد میں برکت ڈالے رکھے امین۔
میرے والد محترم کو ہم سے بچھڑے سات سال ہونے کو ہے لیکن ایک پل بھی نہیں لگتا کہ وہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔انکی یادیں انکی باتیں ہر وقت ہر لمحہ ساتھ ریتی ہیں۔
میں اپنے والدین،بہن بھائیوں اور انکے بچوں کے خاص دن ڈائری میں نوٹ کرتی رہتی ہوں مگر آج تک مجھ سے میرے والد صاحب کے وفات کی تاریخ نہی لکھی جاسکی۔حالانکہ ان کے گزارے ہر ہر خاص دن ،ان پر دل کا دورہِ پڑنے ،انجیو گرافی،انجیو پلاسٹی ،بائی پاس ،انکھ کا آپریشن ،حج پر جانے،انے کی تاریخ سب لکھے ہیں صرف وہ دن (جو مجھ سے کبھی بھلایا نہیں جائے گا ) نہیں لکھا ہے۔

ان دنوں میرے ابو کا شوگر ذیادہ ہونے وجہ سے بھائی اسے لیکر پشاور گئے وہاں وہ بہت بہتر ہوگئے تو بھائی نے فیصلہ کیا کہ سردیاں پشاور ہی میں گزاریں گے۔اس روز بھی میں نے فون پر ابو سے تقریبا دو گھنٹے تک بات کی ۔ابو نے گھر کے اور باہر کے سارے کاموں کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ سارے ہو گئے ہیں تو بہت خوش ہوئے ۔اور یہ بھی میں نے بتایا کہ میں اور عمرانہ (میری چھوٹی بہن)عمرہ کے لیے جارہی ہیں تو اور بھی خوش ہوئے اور بہت ذیادہ دعائیں دیں۔اور ساتھ ہم نے منصوبہ بھی بنایا کہ جاتے ہوئے بچوں کو ان کے ہاں چھوڑ جائیں گے اور عمرے سے واپسی پر سب ساتھ چترال آئیں گے تب تک بچوں کی چھٹیاں بھی ختم ہو جائیں گی اور سردی کا زور بھی نہیں رہے گا۔۔۔رات کو پھر بھائی سے فون کروایا کہ دن بھر کی مصروفیت اور خیریت کے بارے میں بتائیں تو میں نے بھائی کو بتایا کہ مجھے ہلکا سا بخار ہے ڈاکٹر کے پاس گئی تھی دوائی دے دی ہے۔۔۔تو ابو کی آواز آئی اپنی بہن سے کہیں کہ ٹھنڈ سے خود کو بھی بچائے اور بچوں کو بھی بچائے ،انکو ٹھنڈ لگ جاتی ہے تو دیر تک رہتی ہے ۔۔۔اور ذیادہ بات کرنے سے بھی منع کیا کہ گلہ مزید خراب نہ ہو جائے اور آرام کرنے کو کہا ۔۔۔مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ شفیق آواز میں پھر کبھی نہیں سن پاؤں گی ۔۔۔میں دوا لینے کے بعد آرام کی غرض سے کمرے میں گئی اور سونے کی کوشش کرتی رہی ۔۔۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی شاید اسے میرے سر سے گھنے چھاؤں کے اٹھنے کا غم تھا کروٹیں بدلتے بدلتے رات کے تیسرے پہر میری نظر پڑی کہ موبائل سے روشنی ا رہی ہے میں سمجھی شاید الارم ہے اٹھا کے دیکھا تو بھائی کا مسیج تھا “میرے ابو کا انتقال ہو گیا”فورا کال ملایا تو وہ زاروقطار روئے جا رہے تھے کہ تھوڑی دیر پہلے مجھ سے باتیں کرتے کرتے(مہمان بھی تھے ان سے بھی باتیں کیں)پھر سو گئے تھے پھر اچانک آواز دی کہ” بیٹا ذرا مجھے اٹھا کے بیٹھاو میرا دل گھبرا رہا ہے” ۔۔۔بھائی کہتے ہیں میں نے فورا اٹھایا تو ابو پسینے میں شرابور تھے اور کہ رہے تھے” اتنی سردی میں یہ پسینہ کہاں سے آ گیا”اور میری طرف دیکھ کر کچھ بولے بغیر کاندھے میں سر رکھ کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو گئے ۔میں نے دوستوں کی مدد سے اٹھا کے گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی خود چلائی تاکہ تیز قریب ہی لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچ جاؤں۔ لیکن جب پہنچا تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ والد صاحب وفات پا چکے ہیں ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔پھر کیا ۔۔وہ دن اور اج کا دن اس سے بڑی خبر مجھے کوئی نہیں لگتی۔

مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں چھوٹی سی تھی تو میرے والد صاحب داڑھی بنواتے اور انکی داڑھی کے کچھ بال زمین پر گرتے تو میں انھیں چمکیلے کاغذ میں محفوظ کر کے الماری کے خانے کے کونے میں چھپا کے رکھتی۔ان کے پرانے پھٹے کپڑے اور جوتے زمیں پر گرتے تو گناہ سمجھتی تھی لیکن اب میرے والد زمیں کے نیچے سوئے ہوئے ہیں میں کچھ نہیں کر سکتی ۔اگر یہ حکم ربی نہ ہوتا تو شاید سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتی۔

یقینا یہ لحد میرے والد صاحب کے لیے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔کیوں کہ میرے والد صاحب بچپن سے لے کر اخر وقت تک دنیا میں اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے کر کے گئے ہیں۔زندگی کے نشیب و فراز اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں صبرو تحمل کے ساتھ گزارے ہیں۔فوج سے منسلک رہنے کی وجہ سے وطن عزیز سے محبت اور عزت ایسے کرتے تھے کہ ہمیں بھی رشک اتا کہ کاش ہم بھی فوج میں تعینات ہوتے اور وطن کی خدمت ایسے کرتے جس طرح میرے ابو نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں کیے۔سن 71 کا واقعہ سنا کر میرے والد صاحب کو بہت افسوس ہوتا کہ کس طرح حکومت پاکستان نے بے غیرتی سے پاک فوج سے ہتھیار ڈالوایا ۔

اپنے والد محترم کی کون کونسی خوبیوں کا ذکر کروں میرے پاس قلم ،سیاہی اور وقت بھی کم پڑ جائے اگر لکھنے بیٹھوں ۔اور نہ ہی میرے انسو تھمتے ہیں،دوپٹے کا پلو اور دامن تر ہو جاتے ہیں رو رو کر۔۔۔

اپنے والد محترم کے نام لکھے ہوئے نظموں میں سے ایک نظم کے ساتھ اپنی تحریر کا اختتام کرتی ہوں۔۔

کوئی چراغ آنکھوں میں اب، جلتے ہی نہیں
تیری یادوں کے دیئے کبھی بھجتے ہی نہیں

ایسی روانی لاتی ہیں ،تیری یادیں
میرے انسو ہیں ،کہ تھمتے ہی نہیں

ہر وقت رہتا ہے تیرا چہرہ روبرو میرے
ایسے بچھڑے ہیں، بچھڑتے ہی نہیں

دلاسہ دے دے کر سنبھالنا چاہوں خود کو
میرے حالات ایسے ہیں ،سنبھلتے ہی نہیں

تیرے جانے کے دن سے، یہ لگتا ہے مجھے
ٹھہر سے گئے ہیں یہ دن، بدلتے ہی نہیں

کیسے بتاؤں بابا! تیرے ہجر میں یہ دن
ایسے گزارے ہیں ، گزرتے ہی نہیں

جو دیا تم نے ہمیں پیار ،محبت دل سے
اب کوئی خلوص ، مہرو وفا جچتے ہی نہیں

ملیں گے تم سے ایک روز جنت میں
اب اسی شوق میں اوروں سے ملتے ہی نہیں

حوروں نے کی ہوں گی اپ کا
،خیر مقدم
چہرہ پر نور سے نظر ،ہوں گے ہٹتے ہی نہیں

رکھے گا مولا ! تجھے ،فردوس بریں میں
سنا ہے بیٹی کے دعا کبھی ٹلتے ہی نہیں۔۔۔

کلثوم رضا

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
75768

صاحب گفتار ۔ تحریر: میر سیما آ مان 

Posted on

صاحب گفتار ۔ تحریر: میر سیما آ مان

 

دنیا بھر کے دانشور کم گوئی کو سمجھ داری تصور کرتے ہیں لیکن عورتوں کی منطق ہر بات میں الگ ہے۔ہمارے ہاں خواتین کی محفل میں بغیر سوچے سمجھے بے تکا بولنے والی ہی سمجھدار بلکہ صاحب گفتار کہلاتی ہے ۔۔ اور خاموش رہنے والی کو کمزور یہاں تک کہ جاہل ناسمجھ اور بے وقوف  تصور کیا جاتا ہے ۔۔ سوال یہ ہے کہ خود کو صاحب گفتار سمجھنے والے واقعی صاحب گفتار ہیں بھی یا نہیں ۔۔۔

 

گفتگو کا  سلیقہ ذیادہ یا کم بولنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ آپکے الفاظ  اور طر یقہ  گفتگو سے تعلق رکھتا ہے میرے نزدیک کسی بھی محفل کے تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ اپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر تین چار لوگ بیٹھے ہیں تو تیسرا شخص آپکی محفل میں خود کو بے کار تصور نہ کرے ۔۔ یہ آپکے صاحب گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ تمیز دار ہونے کی بھی سب سے بڑی دلیل ہوگی۔ لیکن ہماری محفلوں میں ہوتا کیا ہے کہ اول تو کوئی سننے والا نہیں ہر کوئی صرف اپنی سنانے کا نہایت شوقین دوم اگر سنتے بھی ہیں تو صرف اپنے ہی جیسے کسی دوسرے کو ۔۔وہ تیسرا بندہ جو انکی سوچ سے میچ نہیں رکھتا وہ ان محفلوں میں صرف ایک لسنر کے حساب سے موجود ہوتا ہے ۔۔ اور یہ بات احادیث سے بھی ثابت ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تین لوگ کسی جگہ اکھٹے بیٹھے ہوں تو دو لوگ آ پس میں کھسر پھسر نہ کریں اس سے تیسرے شخص کی دل شکنی ہوگی ۔۔اسی طرح رسول پاک سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ جہنم میں لے جانے والی چیز کیا ہوگی تو آ پ نے فرما یا ذبان۔۔اسی طرح کہیں احادیث سے یہ حوالہ ملتا ہے کہ مومن کی زبان ذیادہ لعن طعن کرنے والی نہیں ہوسکتی۔۔یوں غیبت چغل خوری بہتان تراشی جیسے بد زبانی کی تمام قسموں کے بارے میں اسلام باقاعدہ تعلیم دیتا ہے

 

۔مگر ہم ان تمام باتوں سے آزاد ہو کر صرف بے تکا بولنے کو  ہی اپنا فن سمجھتے ہیں۔۔ چاہے ہمارا بولنا کسی کی دل آزاری کا باعث ہی کیوں نہ ہو ۔۔ لہذا بحثیت مسلمان جب کبھی صاحب گفتاری کا شوق چڑھے تو اتنا ضرور خیال کریں کہ کہیں آپکی زبان بد زبانی کے زمرے میں تو نہیں آ رہی۔دوسری اور آ خری بات وہ جو کسی نے کہا  ہے کہ آپکے الفاظ آپ کو کسی کے دل میں اتار بھی سکتے ہیں اور دل سے نکال بھی سکتے ہیں۔ لہذا  کوشش کریں کہ کم بولیں لیکن اچھا بولیں اور صرف بے تکا بولتے رہنے کو اپنا ہنر مت سمجھیں بلکہ کوشش رکھیں کہ آپکی زبان ہمیشہ حق کا ساتھ دینے والا ہو۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
75739

غریبی ختم – تحریر:کلثوم رضا

Posted on

غریبی ختم – تحریر:کلثوم رضا

“مبارک ہو غریبی ختم ،امیری ہی امیری ہو گی….نئی انقلابی حکومت ائی ہے”

یہ بات چھ سال پہلے جب ہم ایک رشتہ دار سے ملنے گئے تو کسی بات پر ان کے جواں سال بیٹے نے کہا ۔کچھ حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو مزید کہا ۔”کہ جس تیز رفتاری سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اس سے یقیناً غریبی ختم ہو جائے گی۔کیوں کہ جب غریب کھانے کے لیے کھانا اور علاج کے لیے دوا لینے کے قابل نہیں رہے گا تو اس کی موت یقینی ہے۔اور جب سارے غریب ایک ایک ہو کر مر جائیں گے تو بچیں گے صرف امیر لوگ۔یوں غریبی ختم امیری ہی امیری رہ جائے گی”_
اس کی بات ذرا دل کو لگی مگر ہم نے ناامیدی اور مایوس کن خیالات سے خود کو اذاد کرکے جواب دے دیا “کہ ہو سکتا ہے نئی حکومت کچھ تبدیلی لائے۔”
لکین روزانہ تو کیا صبح و شام کے حساب سے مہنگائی بڑھتی ہی چلی گئی ۔

پہلے ہر کوئی سستی چیزوں میں دال، روٹی اور چائے چپاتی کی مثالیں دیتا تھا اب یہی دال ،روٹی ،چائے چپاتی بھی غریب کی پہنچ سے دور جا چکی ہے۔سنا ہے اکثر گھرانوں میں دودھ والی چائے پینا بھی بند ہو گیا ہے۔دال ،گھی،اٹا،چاول،چائے،چینی، ادویات حتیٰ کہ سبزی اور میوے کی قیمتیں بھی اسمان سے باتیں کرنے لگیں تو گوشت کا کوئی کیسے سوچ سکتا ہے۔ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مناسب ہوتیں تو غریب،مزدور کار اور متوسط کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو کچھ کھلا پلا سکتے۔کچھ توانائی ان کے جسم میں آ جاتی ۔مناسب غذا اور بنیادی تعلیم ہر شہری کا حق ہے۔اب ہر کوئی پیٹ کی فکر میں ہلکاں ہوئے جا رہا ہے تو تعلیم کی طرف سوچے بھی کیسے۔۔۔بیچارے لوگوں نے تو اپنی معمولی خواہشات کی تکمیل کو بھی فراموش کر دیا ہے۔

بقول راحیل احمد
*اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
خواب آنکھوں میں اب نہیں اتے*

گزشتہ تین ،چار برسوں میں ہم نے جس تیز رفتاری سے بنیادی ضروریات زندگی کے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور عوام کی امیدوں کو بکھرتے دیکھا، بیان سے باہر ہے۔چونکہ بندی کے ذمہ الخدمت فاؤنڈیشن ویمن ونگ ضلع چترال کی نگرانی ہے تو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ مزید پریشانی کا باعث بنا۔دو سال پہلے ایک چھوٹا راشن پیکج 24سو 20کلو اٹا 930 ملاکے 33سو، پچھلے سال وہی راشن پیکچ 44سو 20کلو اٹا 14سو پچاس ملا 5ہزار 8سوپچاس اور اس سال وہی راشن 6ہزار سے تجاوز اور اٹا 3ہزار میں 20کلو یعنی تقریباً 55 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔اور اسی سلسلے میں پچھلے دنوں چکدرہ جانا پڑا تو چترال میں گاڑی میں پیٹرول ڈال کر گئے شام کو واپسی پر دیر میں 6روپے فی لیٹر میں اضافے کے ساتھ ڈالا۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی تب بھی بڑھتی رہی جب دنیا میں کہیں اور نہیں بڑھی۔
گزشتہ رمضان میں جس طرح پریشانی اور بے غیرتی سے لوگ آٹوں کے پیچھے ذلیل ہوئے، اور عید پر اپنے بچوں کے لیے عید کی خریداری کرنے بازاروں میں نکل کر ہر دکان میں یہ سوچ کر گھسنا کہ شاید کہیں سے معصوم بچوں کے لیے کچھ خرید سکیں ،جیب ٹٹولتے رہ جانا اور مایوس گھر کو لوٹنا ان کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔میرے سکول کے اکثر بچے عید پر نئے کپڑے نہیں پہن سکے۔۔۔سکول اتے ہوئے بھی زنانہ ومردانہ،ناپ بے ناپ کا فرق نہ کرتے ہوئے پرانے جوتے پہن کر اتے ہیں (حالانکہ بازاروں میں پلاسٹک کے جوتے بھی دستیاب ہیں ) یقینا یہ لوگ وہ بھی نہیں خرید سکتے۔۔ٹوٹے چپل پہن کر دور سے اتی بچی کو دیکھ کر جب ان کی والدہ سے یہ کہا کہ ان بچیوں کے لیے بےنظیر انکم سپورٹ والوں کی طرف سے تو پیسے اتے ہیں کم از کم ان سے ان کی ضروریات کو ہورا کریں تو اس نے کہا کہ ہم کہاں سے پورا کریں کوئی مزدوری بھی نہیں ہے ادھار لا کر کھاتے ہیں جب یہ پیسے ملتے ہیں تو ادھار ہی پورا نہیں ہوتا جوتے کہاں سے لا کر دیں۔

سب سے بڑی مایوس کن بات تو یہ ہے کہ ہر پڑھا لکھا نوجوان موجودہ ملکی حالات کی بے ترتیبی سے اتنا مایوس ہو چکا یے کہ اسے اپنی مستقبل کی کوئی امید اس ملک میں بر انے کی نہیں رہی۔ہر نوجوان یہ کہتا نظر اتا ہے جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس ملک سے فرار ہونا ضروری ہے۔یہ اسلام کے نام ہر حاصل کیا گیا پاکستان نہیں رہا۔یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔یہاں کسی غریب کو تو کیا متوسط طبقے کا جینا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔یہ کچھ جاگیر داروں کا پاکستان ہے جو باری باری اپنی آقائی کو تسلیم کروانے کے لیے چھینا جھپٹی کر کے اقتدار میں آتے ہیں۔اور عوام کا خون چوس چوس کر اپنی من پسند مشروب سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ۔اس ملک میں تبدیلی اور ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں اتے ۔جس چیز نے روز بروز ترقی کر لی ہے وہ بدامنی،ناامیدی اور مہنگائی ہے۔اور متبادل راستہ بھی کوئی نہیں یے جس سے بندہ اپنی امدن بڑھا سکے ۔ اس ملک میں رہ کر بندہ اپنی کون کونسی ضروریات کے لیے تگ و دو کرتا ریے۔

*زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمین
پاوں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے*۔۔
(شاعر نامعلوم)

معشیت کے ماہرین کے مطابق چیزوں کی قیمتیں امدن سے دوگنی بڑھ رہی ییں جس کے سبب والدین اپنے بچوں کی ضروریات و معمولی خواہشات کو پورا نہ سکنے پر جوان اولاد خودکشی کرتے ہیں یا نشے کی لعنت کو گلے لگا کر دنیا سے بے رغبتی اختیار کر لیتے ہیں۔

اور یہ بھی انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ حکومت اس مہنگائی اور پریشانی سے نپٹنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی۔اب عوام کو خود ہی اس بارے میں سوچنا ہو گا کہ
????کیا ہم یوں ہی اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات کوشش کے باوجود ایک وقت کھانے ہر اکتفا کرتے رہیں گے؟
????کیا ہم یوں ہی اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو بھی دفن کرتے رہیں گے؟
????کیا ہم شرمندہ تعبیر نہ ہونے کے ڈر سے خواب دیکھنا چھوڑ دیں؟
????کیا ہم یہ سب دیکھتے رہ جائیں کہ ہمارے زہین اور ہنر مند جوان اپنی مستقبل سنوارنے بیرون ملک روانہ ہوتے رہیں؟
????اور ہمارے ملک میں صرف غذائی قلت کے شکار لاغر جسم والے اور تعلیم و تربیت سے محروم جاہل پیٹ کے پجاری سیاسی نعرے باز ہی رہ جائیں؟
????یا ہم ان ازمودہ نسخوں کو پھینک کر نیا اور بہتر نسخہ آزمائیں گے؟
????️*کیوں چھینتے نہیں ہو موالی سے اقتدار
ڈھایا ہے ظلم جس نے ہر خاص و عام پر*
(رشید حسرت)

کیا ہی اچھا ہو اگر اس بار عوام اپنے لیے ایک ایسے حکمران کا چناؤ کریں جو صاحب علم ہو اپنے اقتدار کے اصول و ضوابط قرآن وسنت سے اخذ کر سکے۔دین کی نفاذ کی طاقت رکھتا ہو جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی حکومت کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔دین کے خلاف کوئی بات اپنی دور حکومت میں نہیں ہونے دیا اور ساتھ ساتھ تبلیغ دین اور ا سکی نشرو اشاعت کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔۔۔ملکہ سبا کا اپنے دین کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ تعالیٰ کے اگے جھکنا اسی دیندار حکمران کی تبلیغ کا نتیجہ ہے۔

صاحب حکمت و دانا ہو جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط پڑنے سے پہلے اس سے بچنے کی تدبیر کی۔۔۔اور ہمارے حکمران اس چکر میں پڑے رہتے ہیں کہ کب کوئی افت ائے اور ہم کشکول لیے دنیا بھر میں پھرتے رہیں” ایک روپئی بابا ایک روپئی”۔
ہمارے پاس بہتر تدبیریں نہ ہونے کی وجہ سے اب تو سیلاب سے ہماری زمینیں بھی گئیں دہقان بھی گئے۔

اب کی بار اگر عوام چنیں تو ایسے حکمران کو جو عدل وانصاف والا ہو،جس طرح ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تھے کہ _قبیلہ بنو مخزوم کی ایک صاحب حیثیت عورت نے چوری کی تو اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔۔۔سفارش آنے پر خدا کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ “اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرے تو اس کے لیے یہی حکم ہے”.اور اپنی پاک دور حکومت میں عوام کی فلاح بہبود کے لیے بہترین منصوبہ زکوٰۃ ،عشر اور صدقات کے نظام کو قائم کیا۔

کاش اس بار عوام ایسے حکمران کا انتخاب کر سکیں جو انہیں اندرونی اور بیرونی شر پسندوں سے محفوظ رکھ سکے اور ان کی طرف انے والی ہر مصیبت کے سامنے ایسا بند باندھے جس طرح حضرت ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کے اگے باندھا ہے۔۔۔۔

لیکن یہ سب تب ممکن ہے جب عوام ایسے لوگوں کو اپنا قائد اور راہنما بنائیں جو درج بالا اوصاف کے مالک ہوں ورنہ یہی کرپٹ اور عدل و انصاف کے دوہرے معیار والے ہی ان پر باری باری حکومت کریں گے ۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
74685

ہمارا پاکستان – گل عدن چترال

ہمارا پاکستان – گل عدن چترال

دیہاتوں میں جب بچہ بہت رونے لگے تو اسکا نام بدل دیا جاتاہے پھر اگر وہ مسلسل بیماری میں مبتلا رہے تو دوبارہ نام تبدیل کیا جاتاہے۔پھر آگے جاکر سکول میں اگر بچہ پڑھائی میں دلچسپی نہ دکھائے تو ایک بار پھر نام کی تبدیلی عمل میں آتی ہے۔یہ ہمارے بزرگوں کا نہایت مضحکہ خیز اعتقاد ہے نام پر۔کہ صرف نام بدلنے سے بچے کی حالت اور قسمت بدل جائے گی۔کچھ ایسا ہی سلوک ہمارے وطن عزیز کے ساتھ ہمارے بڑوں نے کیا ہے۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بڑوں اور خاندان کے بڑوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ہم پرانے پاکستان کے باسیوں کو کھبی نئے پاکستان منتقل کردیاگیا کھبی ریاست مدینہ کا خواب دکھایا گیا اور اب ایک نئے نام “ہمارا پاکستان “ہم سے جسطرح متعارف کیا گیا پورا پاکستان مقبوضہ کشمیر’ فلسطین’شام اور برما کے حق میں بولنے کے قابل نہیں رہی۔گو کہ کچھ بھی نیا نہیں ہوا پچھلے ستر سال کی یہی مختصر کہانی ہے۔ہر بار اس گھر کو آگ ‘گھر کے چراغ سے ہی لگی.جب جب جس نے چاہا آئین کا مذاق بنایا ‘جمہوریت کی دھجیاں اڑادیں،قانون کی خلاف ورزیاں ستر سالوں میں ہزاروں بلکہ لاکھوں بار ہوا۔

 

سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کے ساتھ بھی علاقائی’صوبائی سطح پر ڈرانے دھمکانے کی نیچ کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں ہاں البتہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کی اتنی بے حرمتی اور ایسا توہین آمیز سلوک تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ایسے واقعات سے کسی ایک ادارے کا نقصان نہیں ہوا۔بلکہ بین الاقوامی سطح پر لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کی گئی ایک پوری ریاست کی توہین ہوئی ہے۔مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ملک کا کوئی ایک ادارہ بھی اس توہین کو محسوس نہیں کررہا کسی ایک سیاسی یا مذہبی جماعت نے کوئے مذمتی بیان نہیں دیا اور یہ ان جماعتوں کے لئے زیادہ بے عزتی کی بات ہے لیکن سچ کہا ہے کسی دانا نے کے توہین انکی ہوتی ہے جنکی عزت ہو ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار کی حرص میں اپنی عزت کب کی گنوا چکے ہیں۔ان واقعات اور ایسے واقعات پر اس خاموشی کے پیچھے اس قوم کی سطحی ذہنیت چھپی ہوئی ہے۔اسی لئے میں قوم کا ایک خالصتا گھریلو تجزیہ پیش کررہی ہوں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ ہمارے ملک کے بڑوں اور خاندان کے بڑوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ہمارے گھروں میں بھی کنبہ چھوٹا ہو یا بڑا ایک باس بےبی ضرور ہوتا ہے جو نا صرف اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں پر حکومت کرتا ہے بلکہ اسکے بڑے بہن بھائیوں سمیت والدین بھی گھر کی امن و سلامتی کی خاطر ‘جھگڑے فساد سے بچنے کے لئے گھر کی سکون کے لئے اپنے ہی باس بےبی کے ماتحتی میں زندگی گزار لیتے ہیں۔

 

اپنی مرضی اور خوشی سے ایک بے بی کو “باس بے بی” بنانے والے والدین باقی بچوں کو قربانی صبر برداشت اور سمجھوتے کی گھٹی پلاتے نہیں تھکتے۔۔اہم چیز یہ نہیں ہے کہ فسطائیت کا آغاز گھروں سے ہوا ہے یا ملک کی فسطائیت کا اثر گھر گھر پر ہوا ہے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے بڑوں کی غلام ذہنیت کی وجہ سے گھر گھر میں فسطائیت جھیل رہے ہیں۔ہماری تربیت میں ہی غلط کو غلط نہ کہنے کا درس شامل ہے۔اختلاف رائے کی صورت میں آپکو بد اخلاقی اور نافرمانی کا سرٹیفکیٹ بھی ملتا ہے اور آپ کو غدار ثابت کرکے عاق بھی کیا جاسکتا ہے سو ناانصافی کا بد ترین دور شروع ہوتا ہے جسکا نتیجہ نا اتفاقی آپس میں دشمنی کی صورت میں نظر آتا ہے کیونکہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو اس معاشرے میں ظلم ہوتا ہے اور کا انجام انتشار، فساد، تباہی کے سوا کچھ نہیں۔اور جن بڑوں میں اختلاف رائے سننے کی طاقت نہیں ہوتی انہیں پھر بچوں کی بدتمیزی سہنی پڑ جاتی ہے۔میں موجودہ حالات کی اس گھریلو سطح پر تجزیہ کرنے پہ اس لئے بھی مجبور ہوں کیونکہ میں نے ہمیشہ دیکھا ہےکہ سیاسی اختلافات میں ہمارے کتنے پڑھے لکھے بظاہر مہذب اور خاندانی لوگ محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر اپنے مخالفین کے لئے کتنی نیچ اور گھٹیا زبان استعمال کرتے ہیں۔

 

عوام کو چھوڑیں ہمارے سیاسی قائدین کی مثال لیجئے جو آئے دن بڑے پیمانہ پر بلا وجہ جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں جس زور و شور سے جلسوں کی تیاری ہوتی ہے گمان ہوتا ہے کہ شاید ملک کی مفاد کے لئے اہم ترین فیصلوں کا اعلان ہونے جارہا ہے۔انکی ایک آواز پر دور دور سے انکے حمائتی اپنی جان مال اور وقت کو داو پر لگا کر آتے ہیں مگر کیا سننے آتے ہیں؟خطاب کے نام پر ہمارے عظیم لیڈروں کا ایک دوسرے کی کردار کشی’ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا’برے برے القابات سے نوازنا۔اس سب سے سیاست کا یا کسی کے اعلی تعلیم یافتہ لیڈران ہونے کا تاثر نہیں ملتا بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سوتیلے بہن بھائیوں اور ساس بہو کے روایتی لڑائی جھگڑوں کی عدالت سجائی گئی ہو۔لیکن اس سب کے باوجود بھی افسوس کا مقام یہ ہے کہ نہ تو ان جلسوں میں کمی آتی ہے نہ ان کے شرکاء میں جس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ہم چاہے کتنے ہی پڑھ لکھ جائیں کتنی ہی ترقی کرلیں’خود کو کتنا ہی لبرل دکھائیں ‘رہیں گے ہم مجموعی طور پر سطحی سوچ والے گھریلو قوم ہی۔۔دوسرا یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس قوم کے سب سے بڑے دشمن اس ملک کی عوام ہیں۔ملک کے اداروں پر انگلی اٹھانا اور انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوششیں کرنے سے پہلے ایک لمحے کے لئے عوام سوچے کے ہم خود کتنے پانی میں ہیں؟آج احتجاج اور جلسوں کے نام پر ہم ہر سیاسی جماعتوں کے ذاتی مفادات کی جنگ میں شامل ہیں۔انکی آپس کی لڑائیاں نمٹانے انکی ایک آواز پر گھر میں بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر پارٹی سے وفاداری نبھانے جارہے ہیں بنا سوچے کہ اس جنگ میں ہمارا فائدہ کیا ہے۔

 

کرسی کی لڑائی میں 23 کروڑ عوام کو کتنا فائدہ ہوگا۔جس دن عوام صرف اپنے ذاتی حقوق کے لئے باہر نکلے گی یقین کریں اس دن کوئی سیاسی جماعت آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔مثال کے طور پر جب جب سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں کے لئے احتجاجا سڑکوں پر آکر بیٹھ جاتی ہیں تو آپکے علاقے کے کتنے سیاسی جماعتیں آپکے احتجاج میں شریک ہو کر آپ کا ساتھ دیتی ہیں؟؟عوام پر جب مشکل وقت آتا ہے تو یہ سیاسی جماعتیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔سمجھنے کی ضرورت صرف اتنی ہے کہ ان سیاست دانوں نے اپنے بچوں کو باہر ملک سے پڑھانا ہے’ان لوگوں نے اپنے سر درد کا بھی علاج دوسرے ملک جاکر کرنا ہے ان لوگوں نے ہمارے ووٹ سے کرسی پا کر اتنی دولت اکھٹی کرلی ہے کہ ان کی سات نسلیں بھی بیٹھ کر کھائیں تو ختم نہیں ہوں گی۔مگر اس خانہ جنگی سے ہمارے ہاتھ میں کیا آئیگا؟؟؟ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ‘سہولیات سے محروم ہسپتال،جعلی ڈاکٹر جعلی پیر جعلی ادویات ‘دو نمبر کے علماء،بے روزگاری مہنگائی بھوک افلاس غربت ترقی کے نام پر پھٹی جینز؟؟؟جلسوں اور سیاسی جماعتوں کے حمائتی ہمیں ضرور بتائیں۔یہاں میں اس قورمہ کا ذکر ضرور کرنا چاہتی ہوں جو خانہ جنگی کی صورتحال میں کورکمانڈر کے گھر سے چوری کی گئی۔رونے کا مقام ہے کہ حالت جنگ میں ایک شخص فریج سے قورمہ کا سالن چراتا ہے ایک کیچپ اور ایک پیپسی کی بوتل اٹھائی جاتی ہےاور ان واقعات کو لیکر عوام ایک مخصوص ملوث سیاسی پارٹی کو تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں۔۔

 

تو مجھے اس واقعے سے 2008 کا زلزلہ یاد آگیا ہے جہاں ملبے تلے دبے مردہ لوگوں کے ہاتھوں سے زیورات چرائے گئے تھے۔کیا وہ زیورات چرانے والے کسی سیاسی پارٹی کے کارکن تھے؟ہرگز نہیں ۔یہ قورمہ چور بھی پاکستانی عوام ہیں اور وہ مردوں کے ہاتھوں سے زیورات چرانے والے بھی پاکستان کی عوام تھے۔کسی پارٹی کے نام کا لیبل لگانے سے پاکستانی عوام کی افلاس چھپ نہیں سکتی۔ان واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں بھوک اور حرص بڑھتی جارہی ہے اشرافیہ کی حرص اور عوام کی بھوک۔۔جو اشرافیہ عوام کو اپنی رعایا سمجھ کر اور اقتدار کو اپنی میراث سمجھ کر ستر سالوں سے عوام کو انکم سپورٹ پروگرام ‘آٹے کی تھیلیوں’ٹکے ٹکے کی نوکریوں’لنگر خانوں ‘ سے بہلاتے آرہے ہیں تو ایسی بھولی عوام نے آج حالت جنگ میں قورمہ ہی چرانا تھا۔لیکن اب بہت سننے میں آرہا ہے کہ عوام میں شعور آگئی ہے اگر واقعی شعور آگیا تو آئندہ اشرافیہ کی لالی پاپ اسکیمز کامیاب نہیں ہوں گی انشاءاللہ۔بشرطیکہ شعور آئے۔شعور لانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں ایسا تعلیمی معیار ہو جو صرف (اشرافیہ کو) دو جمع دو نہ سکھائے۔اور بحثیت ایک اسلامی ریاست کے ایسا نظام ہو تعلیم کا کہ دینی تعلیم یونیورسٹی لیول تک لازمی قرار دی جائے تاکہ ملک سب سے پہلے دین فروشوں سے پاک ہوجائے۔

 

دوسرا ہر ادارے کو پتہ ہو کہ اسکی اصل دینی اور دنیاوی ذمہ داری کیا اور کتنی ہیں ۔(اور یہ معیار تعلیم بدلنے سے ہی آئیگا )ہر ادارہ اپنی ذمہ داری نبھائے گا اپنے کام سے کام رکھے گا’تو یقینا ملک میں نا انصافی نہیں ہوں گی اور جب ناانصافی نہیں ہوگی تو فسادات بھی نہیں یوں گے۔مگر یہ نظام کون لائے گا جہاں عوام سیاست کا شکار ہوکر مختلف جماعتوں میں بٹ گئی ہو۔یاد رکھیں ملک کی سلامتی میں کردار ادا کرنے کے لئے کسی سیاسی جماعت کی حمائتی بننا کسی پر لازم نہیں ہے جب تمام جماعتیں صرف اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہوں تو عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اپنی راہیں الگ کرلیں لیکن اگر اتنا بھی نہ کرسکیں تو کم از کم اپنی رائے الگ کرلیں۔ساحر لدھیانوی صاحب نے شاید ہمارے پاکستان کے لئے ہی کہا تھا کہ، “لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے’ میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی’ میں جہاں ہوں وہاں انسان نہ رہتے ہوں گے’ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
74683

مختصر سی جھلک – باہمی مہارتیں – فریدہ سلطانہ فریؔ

مختصر سی جھلک – باہمی مہارتیں – فریدہ سلطانہ فریؔ

باہمی مہارتیں وہ مہارتیں ہیں جوہم روززندگی میں انفرادی طور پراورگروہوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے استعمال کرتےہیں۔ان میں مہارتوں کی ایک وسیع تعداد موجود ہے،لیکن ان میں سے خاص طورپربات چیت کی مہارتیں جیسے سننا، موثربولنا اپنے جذبات اور احساسات کوالفاظ میں ڈھال کردوسروں تک اچھے سے پہنچانا اوران جذبات پرقابوپاکراپنی بہترین نمائندگی کرنا یہ تمام صلاحیتن شامل ہیں۔ باہمی مہارتوں کواکثرلوگوں کی مہارت یا سماجی مہارت بھی کہتے ہیں۔ اس میں اَن اشاروں کوسمجھنا شامل ہوتا ہے جوہم روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے سےرابطہ کرتے ہوئےاستعمال کرتے ہیں اوراس غرص سےکہ موثرروابط پیدا ہوسکےاس کا درست جواب دیتے ہیں ۔ زندگی کی بنیادی مہارتوں میں اس مہارت کواس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ یہ زندگی کے ہرمیدان میں انسان کو ایڈجسٹ ہونے میں مدد دیتی ہے کیونکہ مضبوط مہارتوں والے لوگ ہی خاندان ،دفاتروکاروبار کھیل کودغرض زندگی  کےہرمیدان اورہرشعبےمیں موثرتعلقات پیدا کرکےکامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

 

اب جب بات بچوں کی کرتے ہیں توان کے لئےاس مہارت کوسیکھنااس لئے ضرروی ہے کہ اس کے زرئعے ان کواپنے دوستوں اورکلاس فیلوزسے بہترین وخوشگوارتعلقات استوارکرنےمیں مدد ملتی ہےاورکلاس روم میں باہمی تعاون،دوستانہ ماحول اورمثبت رویوں سےسیکھنے کےعمل میں بھی اسانی پیدا ہوتی ہے یہی بچےپھراگےجا کرزندگی کے ہرمیدان میں اپنی بہترین نمائندگی کرتے ہوئے اسانی سے اپنا نام ومقام پیدا کرسکیں گیں۔اب اس مہارت کوہم سکول اورگھرکی سطح پرکس طرح بچوں میں پروان چڑھا سکتے ہیں۔گھروں کے اندرازادی رائےکا حق بچوں کوضروردیں تاکہ وہ اپنے احساسات اورجذبات کوالفاظ کی شکل میں اسانی سے بیان کرنےکےقابل ہوسکیں کیونکہ اب کا گھرایک چھوٹا معاشرہ ہے اوراپ اس چھوٹے معاشرے میں انہی سرگرمیوں کی مدد سے اپنےبچےکو بڑے معاشرے کے لئے تیار کر لیتے ہو۔

 

زبانی بات چیت کےعلاوہ خود کو ظاہرکرنے کے بہت سے اور بھی طریقہ کارہیں۔اپنے بچےکوالفاظ کااستعمال کیےبغیراپنےجذبات کا اظہارکرنے کے دوسرے طریقوں سے ذہن سازی کرنے میں مدد کریں۔

 

کیونکہ غیرزبانی بات چیت بھی اہم ہے۔ کچھ جگہوں میں، غیرزبانی اظہار کو زبانی اظہار سے زیادہ طاقتورسمجھا جاتا ہے. اپنے چھوٹے بچوں سے کہیں کہ وہ الفاظ استعمال کیے اپنےچہرے کے تاثرات سے اپنے جذبات کا اظہارکریں اس کےساتھ ساتھ بچوں کے مشاغل اوردلچسپیوں میں بھی ان کا ساتھ دیں اور ہرقدم پران کی حوصلہ افزائی کریں ان کو دوسرے بچوں سے ملنے جلنےاوراچھے روابط قائم کرنے کا درس دیں ۔ سب سے اہم بات یہ کہ جوکام اپ کرنےکا بول رہے ہواس میں رول مڈل بن کرانہیں دیکھائے کیونکہ بچے ہراس کام میں دلچسپی لیتے ہیں جوان کے بڑے ان کے سامنےعملی طور پرکررہے ہوتے ہیں۔ اس کےعلاوہ اساتذہ کرام سکولوں میں بہت سے ایسے طریقےبھی اختیار کرسکتے ہیں جوبچوں کے اندراس ہنرکو فروغ دینے میں مدد گار ہو جیسا کہ

اسٹڈی گروپس۔

ٹیم ڈیبیٹ پروجیکٹس۔

-پییرمنٹورینگ

یہ ایسی سرگرمیاں ہیں جن میں بچوں کا ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اوران میں بولنے،سننے سمجھنےاورایک دوسرے کوبرداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔بچے ہمارے کل کا مستقبل اورقوم کا معمار ہیں ان کی تعلیم اورتربیت میں اساتذہ اوروالدین دونوں کا کرداراہم ہے اسی لئے ہمیں ہراس حکمت عملی کواپنانا چاہیے کہ جس کی وجہ سے ہرلحاظ سے بچوں کی مکمل تربیت اورنشوونما ہوسکیں ۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
74056

نوائے سُرود  – ایسے بیٹوں پر صد افسوس – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود  – ایسے بیٹوں پر صد افسوس – شہزادی کوثر

میرے دیس میں چاند اپنی چاندنی بکھیرنے میں بخل نہیں کر رہا، دریاوں میں وہی روانی ہے ۔ٹھنڈی اور جان پرور ہواوں میں وہی نمی اور خوشبوبسی ہوئی ہے۔ سورج کی تپش دھرتی کے سینے پہ سوئی ہوئی نباتات کو گدگدا کر جگا رہی ہے ،سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے جانور اور پرندے اپنے معمول کی زندگیوں میں مگن ہیں لیکن بندہ بشر کی ہستی میں ایک بےبسی اور بے چارگی در آئی ہے۔ جدھر نگاہ ڈالوبھوک کے ستائے ہوئے لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے ۔اشیا خوردو نوش کی وافر مقدار پاکستان میں پیدا ہوتی ہے جن میں سبزیاں ، دالیں ،اناج، پھل اور دودھ کی پیداوار شامل ہے ۔ مٹر کی کاشت میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے گنے کی پیداوار میں چوتھے جبکہ پیاز اور دودھ کی پیداوار میں پانچواں نمبر ہے۔ لیکن نہ تو چینی آسانی سے عوام کو میسر ہے اور نہ دودھ ہی خالص ملتا ہے ۔گندم کی پیداوار میں ساتواں بڑاملک ہے مگر عوام آٹے کے حصول کے لیے جس قدر ذلیل ہو رہے ہیں ایسا نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔

 

مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے اور دھکم پیل سے کئی زندگیاں موت کی دہلیز پار کر گئی ہیں ۔صبح آٹا لینے گئے ہوئے باپ کی منتظربھوکی آنکھوں کو روٹی دیکھنے کے بجائے والد کی لاش دیکھنا پڑ جاتی ہے۔ کئی معصوموں کو بھوک کی اذیت سہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے  وہ کھیلنا اور مستی کرنا بھول گئے ہیں انہیں یہ تک یاد نہیں کہ خواہش کسے کہتے ہیں ،انہیں صرف روٹی چاہیئے جو انہیں موت کی چکی میں پسنے سے بچائے۔ معاشرے کے وہ افراد جو ساری عمر اپنی شرافت کی رکھوالی کرتے آئے ہیں اب لمحہ لمحہ مرنے لگے ہیں ،ان کی خودداری کسی در پہ سر جھکانے نہیں دے رہی اور دوسری طرف بھوک سے بلکتے بچوں کی فریاد کلیجہ پھاڑ رہی ہے ۔ مفت آٹا تقسیم تو ہو رہا ہے لیکن ناقص انتظام کے باعث مستحقین کی کثیر تعداد اس سے محروم رہتی ہے۔ لوگ اپنے گھر کی قیمتی چیزیں اور عمر بھر جمع کی ہوئی کتابیں کباڑئیے کو فروخت کر کے دس کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں ۔نا اہل اور بے ایمان لوگوں کے ہاتھوں عوام کی اتنی تذلیل دنیا کی کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔

 

قدرت نے پاکستان کو ہر قسم کی نعمت سے نواز رکھا ہے گیس کے ذخائر کے حوالے سے براعظم ایشیا میں چھٹا بڑا ملک ہے مگر عوام گیس سے محروم ہے اور ستم ظریفی تو دیکھیئے کہ گیس کا بل ہزاروں میں آرہا ہے۔ کوئلے کے ذخائر کو صحیح طریقے سے کام میں لا کر بجلی پیدا کی جائے توملک کئی عشروں تک خود کفیل ہو سکتا ہے ۔ روزانہ لاکھوں کیوسک پانی جو ضائع ہو رہا ہے اگر مناسب حکمت عملی اپنائی جائے تو بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنا کر خوشحالی لائی جا سکتی ہے لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود ہمیں غربت اور پسماندگی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہے ۔دریوزہ گری کا کشکول ہمارے ہاتھوں میں تھما کر ہماری غیرت کو کچلا جارہا ہے ۔آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق ہمارے گلے میں ڈال کر ہماری خودداری کا گلا گھونٹا  جا رہا ہے ۔

 

 

مہنگائی نے ملک کو گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا ۔ ہمارے”بڑے” اپنی دھن پروری میں ایسے مگن ہیں کہ انہیں بھوکے اور مفلوک الحال عوام کی پکار سنائی ہی نہیں دے رہی ۔ لوٹ کھسوٹ سے انہیں فراغت ملتی ہے تو بڑی بے شرمی سے ایک دوسرے پر دشنام نچھاور کرتے ہیں ۔ایسے ایسے القابات سے ایک دوسرے کی مدح سرائی کی جاتی ہے کہ شریف آدمی سن کر سر نہ اٹھا سکے ۔اپنی طعن آلود زبان اور جملوں کے زہریلے ڈنک سے یوں للکارتے ہیں جیسے ابھی کفر کے خلاف صف آرائی ہوئی ہے اور “حق کے یہ سپوت” اسلام کے دشمن کو موت کے گھاٹ اتار کر ہی دم لیں گے۔ ان کی ایک دوسرے کے لیے نفرت اور تحقیر اس لیے نہیں کہ یہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں یا انہیں عوام کی فکر ہے اور ان کے مستقبل کو سنوارنے کی تگ ودو میں لگے ہیں بلکہ ان کی نہ ختم ہونے والی حرص اور لالچ نے سب کے سامنے ہماری جگ ہنسائی کر دی ہے ۔ پیسے کے بھوکے  ان لوگوں کے ذہنوں میں کشادگی کا فقدان ہے ۔

 

برداشت کی صفت اور انسانیت سے عاری یہ لوگ بھلا کیسے گلستان سازی کا فریضہ سر انجام دیں گے۔۔۔ان کی جہالت نے پاکستان کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک روا رکھا ہے ۔ ہم جس فضا میں سانس لینے کے عادی تھے اب اس میں تناو اور گھٹن ہے ،جہاں خوشحالی کے گیت گائے جاتے تھے اب وہاں بھوک اور افلاس کی کراہ سنائی دیتی ہے ۔آج یہ دن بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ بیٹے اسے دھرتی ماں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں جس نے انہیں اپنی آغوش میں پناہ دی کھلایا پلایا پروان چڑھا کر ایک نام اور مقام دیا ملکی وقار کو پائمال کرنے والے ان ” بیٹوں ” پر صد افسوس ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73693

عذاب جاریہ یا صدقہ جاریہ ۔ ۔!!-تحریر: گل عدن چترال

عذاب جاریہ یا صدقہ جاریہ ۔ ۔!!-تحریر: گل عدن چترال

رمضان ہو یا عید یا کوئی بھی خاص موقع بچھڑے ہوئے اپنوں کی یاد شدت سے آتی ہے چاہے یادیں کتنی ہی پرانی ہوتی جائیں ۔ایسے ہی ہمارے ایک عزیز بھائی جو پچھلے سال رمضان میں ہمارے ساتھ تھے اب بحکم اللہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو ان کی یاد کے ساتھ ساتھ ان پر رشک بھی آرہا ہے ۔رشک آنے کی کہیں وجوہات ہیں میرے پاس وہ حافظ قرآن تو تھے ہی معلم بھی رہ چکے تھے ایک اچھے بیٹے ،بھائی ایک اچھے مسلمان کی تقریبا تمام صفات ان میں موجود تھیں ۔وہ ،انکے باقی بہن بھائی، اللہ انہیں سلامت رکھے اور انکی تربیت کرنے والے عظیم ہستیاں یعنی انکے والدین ہمیشہ سے میرے آئیڈیل لسٹ میں ہیں ۔خیر جس بھائی کا میں ذکر کر ہی تھی، انکی ایک خاصیت رمضان کے متعلق تھی ۔جب تک انکی زندگی رہی انکا ایک معمول تھا کے وہ عام دنوں میں بھی مگر خاص طور پر رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے عزیز مرحومین کو ایصال ثواب پہنچانے کی غرض سے ختم قرآن کا خاص اہتمام فرما تے تھے یوں رمضان کے اختتام تک وہ نجانے کتنی بار قرآن ختم کرتے تھے نجانے کتنے مرحومین کو انکے طرف سے تحفہ پہنچتا تھا دعاؤں کا، یوں وہ حافظ ہونے کا حق بھی ادا کرتے تھے اور اچھی تربیت کا ثبوت بھی بنتے تھے۔

 

اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ۔۔یہاں انکا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ صدقہ جاریہ کے بارے میں ہمیں رٹایا جاتا رہا ہے کہ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے۔ مسجد بنانا، کہیں پانی کا انتظام کرنا،کنواں بنوانا وغیرہ وغیرہ ۔۔ یہ سب یقینا صدقہ جاریہ کے ضمن میں آتے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر اللہ کا دیا ہوا مال خرچ کرکے آپ اپنے لئے صدقہ جاریہ کا انتظام کرسکتے ہیں تو اولاد بھی تو اللہ کی عطا ہے جسے آزمائش قرار دیا گیا ہے تو آدمی کا حق نہیں بنتا کہ اسکی اولاد اسکے لئے اولین صدقہ جاریہ بنے؟؟صرف مال ہی کیوں؟ ہمیں ہزاروں بار بتایا جاتا ہے اور یہ عین حقیقت بھی ہے کہ جو اولاد والدین کی عزت اور فرماں برداری نہیں کرتے انکی بد دعائیں لیتے ہیں وہ اس دنیا میں بھی اسکی سزا پاتے ہیں اور آخر ت میں بھی عذاب و رسوائی انکا مقدر ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے والدین کو اتنا اونچا درجہ عطا فر مایا ہے۔لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا والدین کو اونچا مقام صرف اولاد کو پالنے کے لئے عطا کیا گیا ہے؟؟کیا اولاد کو صرف سہولیات فراہم کرنے کی بنیاد پر والدین اعلی مقام کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔یقینا نہیں۔

 

اگر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو جو حال ایک نافرمان اولاد کا ہوتا ہے وہی حالات ان والدین کے بھی ہوتے ہیں جو اولاد کی تربیت کو اہمیت نہیں دیتے۔ایسے والدین اپنی نافرمان بدتمیز اور خود سر اولاد کے ہاتھوں دنیا میں کتنا غم اٹھاتے ہیں ہم سبکو نظر آتا ہے۔پھر جو والدین دنیا میں اپنے ہی اولاد کے ہاتھوں غمگین رہتے ہوں تو ایسی اولاد قبر میں آپکو کونسا ثواب پہنچائے گی؟اس دنیا کا حساب تو ہمیں نہیں پتہ لیکن اندازا ہم کہ سکتے ہیں کہ جو اولاد دنیا میں چین و سکون کا سبب نہ بن سکی وہ اولاد مرنے کے بعد بھی آپکو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی ۔نجانے آج کتنے لوگ ہیں جو اس دنیا سے جاچکے ہیں، ان پر اعمال کا دروازہ بند ہوچکا ہے کیا یہی کم عذاب ہے کہ دنیا سے انکی اولاد انکے حق میں صدقہ جاریہ بننے کے بجائے عذاب جاریہ بنے قبر میں عذاب کا تحفہ بھیج رہے ہیں ۔بد قسمتی کی انتہا ہے کے قبر کی سختیوں میں اضافہ کا سبب بننے والے اگر آپکے اپنے ہی اولاد ہوں۔لیکن ایسے بھی خوش نصیب ہیں جنہیں روز نیک اولاد کی طرف سے راحت نصیب ہورہی ہے جو قبر میں بھی اپنی اولاد کی طرف سے خوش اور مطمئن ہیں اور یقینا یہی لوگ اللہ کی آزمائشیوں میں پورے اترے ہیں ۔۔

 

وہ تمام مسلمان جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک دنیا سے جا چکے ہیں ہمارے مسلمان آباؤاجداد انکے حال پر اللہ رحم فرمائے ان طاق راتوں میں یہ دعا ضرور کیجئے گا کیوں کہ ہم انکے خوش قسمتی اور بدقسمتی کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ہم نہیں جانتے کہ اندھیری قبروں میں کسی پر کیا گزر رہی ہے ۔لیکن جو لوگ حیات ہیں اور آج والدین کے مرتبہ پر فائز ہیں وہ اپنی خوش قسمتی یا بدقسمتی کا فیصلہ آج اپنی زندگی میں کرسکتے ہیں ۔یہ تسلیم کرکے کہ اولاد کھلونا نہیں ہوتی نہ ہی اولاد کی تربیت کوئی کھیل تماشہ ہوتی ہے۔اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی خاطر ماں اور باپ دونوں کو سب سے پہلے یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہئے کہ اولاد صرف دل بہلانے کا سامان نہیں ہوتی۔بلکہ اولاد کی تربیت ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے جسے ادا کرنے کے لئے والدین کو ایک دوسرے کی عزت کرنی پڑتی ہے،ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑتا ہے، ایک دوسرے کا ساتھ دینا پڑتا ہے ۔۔

 

چھوٹی بڑی ہر آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کر ایسی اولاد نصیب ہوتی ہے جو دنیا میں بھی راحت کا سبب بنے اور آخرت میں بھی کامیابی کا صنعت بن سکے۔یاد رکھیں جیسا اولاد دنیا میں چھوڑ کر جائیں گے ویسا ہی صلہ پائیں گے ۔جھوٹے دھوکہ باز بے رحم بے ایمان، ظالم، رشوت خور،بد اخلاق اور بخیل اولاد آپکی بخشش اور نجات کا ذریعہ نہیں بن سکے گی ۔اولاد کے نام پر متکبر مجسمے آپکے صدقہ جاریہ نہیں بلکہ عذاب جاریہ بنیں گی ۔جسکی سزا تا قیامت بھگتنی پڑے گی۔آئیں سوچتے ہیں کہ آیا ہم اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بن رہے ہیں یا نہیں؟اور فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی اولاد کو اپنے لئے صدقہ جاریہ بنانا ہے یا عذاب جاریہ ۔۔ فیصلہ سب کا اپنا ۔

(نوٹ: یہ تحریر میں خاص طور پر محترم اساتذہ کرام اور والدین کے نام کرتی ہوں کیونکہ ہماری تربیت میں سب سے اہم کردار ہماری والدین کا اور اساتذہ کا ہوتا ہے ۔)

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73594

رمضان اور مسلمان – رمضان ڈایری حصہ۳ – میر سیما آمان

Posted on

رمضان اور مسلمان – رمضان ڈایری حصہ۳ – میر سیما آمان

آج کے دور میں مذہب پر بات کرنا مذہب پر عمل کرنا اور اسکی تبلیغ کرنا دقیانوسی کہلاتا ہے ۔۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو اپنی اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ہم اپنے انداز میں جی رہے ہیں ۔۔ چند وہ الفاظ جو اٹھتے بیٹھتے سنائی تو دیتے ہیں لیکن عملاً دیکھائی نہیں دیتے میں یہاں مختصراً اسلام کی رو سے انکی تشریح کرنا چاہونگی۔۔۔۔۔
رحمدلی ۔۔
ر سول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آ سمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ایک اور جگہ فرمایا۔جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جا تا۔۔ اب زمین والے صرف ان دو احادیث کی روشنی میں اپنی گریبان پر جھانکیں اور ایمانداری سے بتائیں کہ کن کن مواقع پر خود سے منسلک کن کن لوگوں پر آپ لوگوں نے رحم کا سلسلہ رکھا ہے ۔۔۔۔

غریب پروری
علامہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں جب حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی محتاج کو ملاحظہ فرماتے تو اپنا کھانا پینا تک اٹھا کر عنایت فرما دیتے حالانکہ اس کی آپ کو بھی ضرورت ہوتی، آپ کی عطا مختلف قسم کی ہوتی جیسے کسی کو تحفہ دیتے، کسی کو کوئی حق عطا فرماتے، کسی سے قرض کا بوجھ اتار دیتے،کسی کو صدقہ عنایت فرماتے، کبھی کپڑا خریدتے اور اس کی قیمت ادا کر کے اس کپڑے والے کو وہی کپڑا بخش دیتے، کبھی قرض لیتے اور (اپنی طرف سے) اس کی مقدار سے زیادہ عطا فرما دیتے،کبھی کپڑ اخرید کر اس کی قیمت سے زیادہ رقم عنایت فرما دیتے اور کبھی ہدیہ قبول فرماتے اور اس سے کئی گُنا زیادہ انعام میں عطا فرما دیتے

اب اس حوالے سے اگر ہم اپنے اعمال دیکھ لیں تو ہم کیا کرتے ہیں ۔۔غریب رشتہ دار کی ہم عزت نہیں کرتے اسکے ساتھ روابط رکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اور جس غریب مسکین یا کسی محتاج کی ہم تھوڑی مدد کرتے ہیں اسکے پیچھے بھی ہمارا اپنا کوئی فایدہ چھپا ہوتا ہے اول تو اچھی چیز کسی کو دے نہیں سکتے اور اگر بچا کچھا کچھ دے بھی دیں تو بدلے میں کوئی کام اس سے نکال ہی لیتے ہیں یہ ہیں ہم اور ہماری غریب پروری۔۔۔

انصاف پسندی اور حق گوئی
حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ تم میں سے پہلے لوگ اسلیے ہلاک ہوگئے کہ اگر انمیں سے کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے ۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے اگر فاطمعہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اسکے ہاتھ کاٹ دیتا ۔۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ مسلمان تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے ۔۔۔یہ اتنا بڑا پیغام ہے امت کے لیے کے صرف اسی بنیاد پر پورے معاشرے میں انصاف کا نظام قائم ہو سکتا ہے لیکن ہم ان پر عمل کر ہی نہیں سکتے ہماری سوچ ہماری پسند ہمارا معیار اپنے بھائی کے لئے اپنے برابر کا ہو ہی نہیں سکتا ہے ۔۔ معاشرے میں موجود انتشار کی بنیادی وجہ ہی ہماری دہرا میعار ذندگی ہے۔۔

یہی حالات حق گوئی کے ہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات میں اس قدر حق گو تھے کہ دشمن بھی انھیں صادق کے نام سے پکارتے تھے ۔۔لیکن حق گوئی کے ساتھ ساتھ وہ نرم مزاج اور شرین گفتار بھی تھے اجکل بہت سے لوگ اس شدید غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ حق گو ہیں۔۔ حق گوئی وہ ہوتی ہے جہاں انسان مناسب الفاظ کے ساتھ کسی کو اسکی غلطی کا احساس دلائے اور دوسروں کی خامیوں پر ہی نظر نہ ہو بلکہ دوسروں کی اچھا ئیوں کو بھی تسلیم کرے ۔۔بد قسمتی سے موجودہ دور میں ہمارا واسطہ ایسے حق گو لوگوں سے پڑا ہے جو ہماری کسی ایک خوبی کو تسلیم کرنے سے تو ڈرتے ہیں لیکن اٹھتے بیٹھتے ہمیں ہماری کمزوریاں ۔ ہماری غلطیاں اور گناہ بتانا نہیں بھولتے ۔۔جس سے کوئی اپنی کمزوری تو کیا تسلیم کرے گا الٹا ہمارا ان لوگوں سے ہی دل اُچاٹ ہو جاتا ہے جنھوں نے خواہ مخواہ حق گوئی کا بیڑا اٹھا کر ہماری زندگیاں اجیرن کردی ہیں ۔۔دوسری بات یہ کہ جب آپ دوسروں کو انکے متعلق بتا سکتے ہیں تو اپنے بارے میں سننے کا بھی ظرف رکھیں ۔۔سچ تو یہ ہے کہ سب سے بڑی حق گوئی دوسروں کے متعلق سچ اگلنا نہیں بلکہ اپنے متعلق سچ سننا ہے ۔۔۔۔۔اس رمضان کچھ اور نہ سہی اپنے روزمرہ کے معمولات زندگی میں ہونے والی رحمدلی۔ غریب پروری عدل و انصاف حق گوئی سچ جھوٹ جیسی چھوٹی مگر معاشرے کو تشکیل دینے والی بنیادی اجزا پر غور ضرور کیجے ۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73539

مختصرسی جھلک – نہ معلوم سسکیاں . فریدہ سلطانہ فَری

Posted on

مختصرسی جھلک – نہ معلوم سسکیاں . فریدہ سلطانہ فَری

میں لیب ٹاپ پرکام کررہی تھی میرا فون خاموش موڈ پہ تھا کام سے فارغ ہوکردیکھا کہ کسی نہ معلوم نمبرسے کافی کالیں اچکی تھی میں کال کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ دوبارہ کال آیی ، میں نے کال اٹھایا توروتی ہوئی اوازمیں بولی باجی خدا کے لئے مجھےاس نمبر پرکال کرومیں اپ کوکچھ بتانا چاہتی ہوں یہ کہہ کراس نے کال کاٹ دی۔
واپس اس نمبرپرمیں نے کال ملائی تواس نے اپنی روداد کچھ یوں سنائی کہ ‘:باجی میری شادی کوپانچ سال ہوچکےہیں میں جب چھٹی کلاس میں تھی تومیری والدہ کا انتقال ہوگیا اس کے کچھ مہینے بعد میری شادی کرادی گئی اب میری تین بیٹیاں ہیں ۔شادی کے کچھ مہینے تک تومیں خوش تھی مگراس کے چند مہینے بعد مجھ پرگھر کےسارے کاموں کی زمہ داری ڈالی گئی میری دونندیں تھی وہ کالج جاتی تھی بہت بڑا گھراس کی صفائی، گھر میں بہت سارے لوگ ان کے لیے کھا نا پکانا، کپڑے دھونااورگھر میں مہمانوں کا ہجوم، مال مویشیوں کی خبر گیری ۔ والدین کے گھرمیں کبھی میں نے گھر کے کا م کاج کو ہاتھ بھی نہیں لگایاتھا جس کی وجہ سے مجھے کام کرنے میں بڑا مسئلہ ہوا۔۔۔

اب بھی اسی طرح گھر کے کام کاج کرتی ہوں مگر کوئی مجھ سے خوش اور راضی نہیں۔ شوہر نشے کا عادی ہے کچھ بولنے پر مارتا پیٹتا ہے صبح کو نکل کر شام کو لوٹتا ہے میری ساس پورا دن مجھ پر ظنز کے تیر برساتی رہتی ہے کہ تم کسی کام کے نہیں ہو تین بیٹیاں ہیں بیٹے کا پتہ نہیں اور نہ تمھیں کام کرنے کا ڈھنگ آتا ہے،ماں باپ کے گھر میرا کبھی کبھی جانا ہوتا ہے جب میں اپنی سوتیلی امی کویہ بتاتی ہوں تو کہتی ہیں کہ صبر کرلو اب کیا اتنی چھوٹی سی عمر میں طلاق لوگی۔ب

اجی میں زہنی مریص بن چکی ہوں کس کوبتاوں یہ سب اورکہاں جاوں۔۔۔۔ کبھی کبھی تومیں خودکشی کا بھی سوچتی ہوں۔۔۔باجی میری ماں اگر زندہ ہوتی تو،میرے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوتا: اس سے پہلے کہ میں دلاسے کے کچھ الفاظ کہتی اوراس سے نام اتہ پتہ پوچھ لیتی اس نہ معلوم بچی نے سسکیاں لیتے ہوئے یہ کہہ کرفون بند کردیا کہ باجی شاید کسی نےمجھے سن لیا ہے۔۔۔اس واقعے کوپچیس دن ہوچکے ہیں ابھی تک وہ نمبر بند ہے اوروہ سسکیاں اج بھی مجھے ایسے درد دیتی ہیں جیسے کہ یہ سب مجھ پر گزرچکی ہو۔

اس واقعے کواپ سب کے ساتھ شیر کرنے کے کئی مقاصد ہیں لیکن میرا ان سے اگررابطہ ہوجاتا تو میں یہ مضمون ہرگز نہیں لکھتی اورخاموشی سے اس کا مسئلہ اپنی طرف سے حل کرنے کی کوشش کرتی مگراس نے نہ نام بتایا نہ اتہ پتہ یا شاید اس کو ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو اسے سن سکے اوروہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکے۔۔۔۔

یہ ہم سب کے لیے ایک سبق اموز واقعہ ہے اورساتھ ہی میں یہ ضرور کہوں گی کہ چترال ایک پرامن سرزمین ہے یہاں بہت پرامن لوگ بستے ہیں دوسرےعلاقوں کی نسبت یہاں کی خواتین ہرلحاظ سے محفوظ بھی ہیں اورپرامن زندگی بھی گزاررہی ہیں مگر کچھ جگہوں پرخواتین بہت سارے اورمسائل کے ساتھ ساتھ ایسے مشکلات کا بھی شکار ہیں جوزیربحث ہے۔
اس واقعے سے ہمیں یہ معلو٘م ہوتا ہے کہ چترال میں
۱۔کم عمری کی شادی بھی عام ہے چا ہے وہ چترال کے اندرکی جاتی ہو یا چترال سے باہر

۲۔ خواتین پراب بھی گھریلو تشدد ہوتا ہے

۳ ۔اب بھی بچیوں کو سکول سے چھوڑوا کربے جوڑ شادی کے نام پرایک آزمایش میں ڈالا جاتا ہے جوان کو زہنی بیماریوں کا شکار کرتی ہیں

۴۔ اب بھی شادی کے وقت والدین بچیوں کو یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ اگر تمھیں کوئی مسئلہ درپیش اجائے توتمھارے باپ کا درتمھارے لئے ہمیشہ کھلا رہے گا خود کشی کا سوچنا بھی نہیں

۵ ۔ آج بھی عورت ہی عورت کا سب سے بڑا دشمن ہے ساس بہونند دیورانی یا جیھٹانی یا سوتیلی ماں کی صورت میں

۶۔ اب بھی والدین بچیوں کو یہ نہیں سمجھاتے کہ زندگی میں ہرطرح کے حالات اور لوگوں کا سامنا ہوگا اپ نے ان کا بہادری ہمت و چلاکی سے مقابلہ کرنا ہے نہ کہ خود کو زہنی مریض بناکرخود کشی کا سوچنا ہے ۔

اگرواقعی ایسا ہے تواپ کونہیں لگتا کہ ہم سب کواپنے اپنے کردارپرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے ہم بحثیت ماں پاب اپنی بچیوں کوکم عمری اور بے جوڑ کی شادی سے بچا سکتےہیں اگرشادی ہوبھی جاتی ہے توکم ازکم کسی مشکل گھڑی میں باپ کا دران کے لیے کھلے ہونے کا احساس ان کوضرور دلا سکتے ہیں،بحثیت ماں باپ اپنی بچیوں کوتعلیم کے زیورسے اراستہ کرکے ان کو زندگی کے مسائل سے مقابلہ کرنے کا ہنرسکھا سکتے ہیں اورخاص کربحثیت عورت ہم ایسا روایہ اختیار کر سکتے ہیں کہ ہماری وجہ سے ہم سے رشتے میں جڑی کسی دوسری عورت کی زندگی جہنم نہ ہو۔

مگر قصہ یہاں ختم نہیں میں نے ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں جو بہت اچھی ساس بہو اورنند ہیں جو اپنےکردارکوبخوبی اورانصاف سے نبھا رہی ہیں کیونکہ اچھے برے لوگ ہرجگہ موجو ہوتے ہیں اورہم کچھ بروں کی وجہ سے اچھوں کا کرداربرا ظاہر نہیں کرسکتے نہی میرا مقصد کسی کی دل آزاری ہے بلکہ میرا مقصد تووہ خواتین اور بچیاں جو کسی نہ کسی لحاظ سے حالات کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کی زہنی وبدنی صحت متاثر ہورہی ہے ان کے لئے کچھ کرنا ہے تاکہ خود کشیوں کا یہ بڑھتا ہوا رجحان کسی نہ کسی حد تک کم ہواورہم بہت نہ سہی ایک جان ہی کو بچا کراس کوخوش وخرم اور صحت مند زندگی کی طرف دوبارہ لا سکے۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73514

ہمدرد بنیں، سر درد نہیں ۔ گل عدن چترال

Posted on

ہمدرد بنیں، سر درد نہیں ۔ گل عدن چترال

دنیا کی آنکھ کٹا ہوا بازو دیکھ سکتی ہے اور کٹے ہوئے بازو کا درد سمجھ سکتی ہے مگر سلگتا ہوا دل نہیں دیکھ سکتی۔تو دل کی تکلیف بھی نہیں سمجھ سکتی۔بلند قہقہے سبکو سنائی دیتے ہیں مگر ان قہقہوں میں چھپی سسکیاں کوئی نہیں سن سکتا کیوں کہ ہم نہیں سننا چاہتے ۔کسی کے چہرے کی مسکراہٹ ہمیں دور سے نظر آتی ہے مگر آنکھوں میں آئے آنسوؤں کی نمی کھبی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ہمیں ہمدرد بننا نہیں سکھایا گیا بلکہ ہمییں ہمدردیاں بٹورنا سکھایا جاتا ہے۔ہمیں دوسروں سے توقعات باندھنا اور شکوے شکایات کی گٹی پلائی گئی ہے۔ہم مجموعی طور پر نسل در نسل ایک بیماری میں مبتلا قوم ہیں جس کا نام خود ترسی ہے۔ ۔جی ہاں خود ترسی ہماری قومی بیماری ہے۔ اس قوم کی اکثریت خود کو حساس لوگوں میں شمار کرتی ہے لیکن ہماری حساسیت کا پیمانہ یہ ہے کہ ہمیں بس اپنا دکھ درد محسوس ہوتا ہے، ہمیں ہر حال میں اپنے آپکو مشکلات اور مصائب سے بچانا ہے چاہے اسکے لئے دوسروں کو کتنے مشکلات میں ڈالنا پڑے۔

 

دن رات اپنے رونا رونے میں ہم اتنے مصروف لوگ ہیں کہ دوسروں کو سننے کا نہ ہمارے پاس وقت ہے نہ ارادہ۔۔ہماری خوشیاں اور ہمارے غم ‘میں ‘ سے شروع ہوکر ‘میں ‘ پر ختم ہوتے ہیں پھر بھی ہمارا دعوا ہوتا ہے کہ ہم حساس لوگ ہیں ۔ذرا غور کریں ہم ہمیشہ اپنے عزیزوں کو اپنے موت سے ڈراتے ہیں کھبی دوسروں کی موت کا سوچ کر خود کو نہیں ڈراتے۔۔ذرا سوچئے ہمیشہ اپنی بیماری سے ،اپنی ناراضگی سے اپنی بد دعاؤں سے دوسرے کو ڈرانا والا بندہ حساس نہیں ہوتا بلکہ ظالم کہلاتا ہے ایسا شخص انتہائی خود غرض اور بے حس ہے جو چاہتا ہے کہ ہر کوئی بس اسکا خیال رکھے ۔۔۔اگر حساس ہونا ایک پلس پوائنٹ ہے تو واقعتا حساس یعنی درد مند بنیں۔اگر آجکل کی ٹینشن زدہ ماحول میں اگر آپ دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا چاہتے ہیں تو آج ہر شخص کو ایک ہمدرد ساتھ کی ضرورت ہے ۔

 

لہذا اپنے ساتھ رہنے والوں، ملنے والوں غرض اپنے غیر ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں ۔پہلی چیز چاہے کوئی آپکو پسند ہو یا نہیں پسند، آپ ہمدردی سے پیش آئیں ۔ بھلا پسندیدہ لوگوں پر بھی مہربان ہونا کوئی مہربانی ہے؟؟دوسری بات: چاہے کوئی اچھا مسلمان ہو یا نہ ہو بلکہ بے شک کوئی مسلمان بھی ہو یا نہ ہو ۔ تیسری اور اہم بات چاہے کوئی خوش دکھائی دے یا ہر وقت اداس رہتا ہو ، آپ مہربان ہوکر ملیں یاد رکھیں آنسو دکھی ہونے کی علامت نہیں ہے اور نا ہی ہنستے چہرے خوشیوں کی ضمانت ہوتے ہیں۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ہنسنے ہنسانے والوں کا صرف چہرہ بظاہر ہنس رہا ہوتا ہے مگر اسکے اندر کا رواں رواں رو رہا ہوتا ہے کیونکہ ہر کوئی دکھوں کا اشتہار نہیں بنتا لیکن ہماری اکثریت ہنسنے ہنسانے والوں کو حیسیات و جذبات سے محروم کوئی مخلوق سمجھتے ہیں ۔ہمیں لگتا ہے کہ انکے سینے میں دل نہیں پتھر ہیں اور ہمارا سلوک انکے ساتھ ایسا ہوجاتا ہے جیسے واقعی ان کے پاس دل نہیں بلکہ وہ پتھر دل ہوں ۔ اسلئے خدارا جس کے ساتھ بھی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے، جسکے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے، جن کا ساتھ لکھا ہے ان سب کے لئے اپنے دلوں میں تھوڑی سی گنجائش تھوڑا سا رحم پیدا کریں۔

 

بظاہر انکی کوئی بھی حالت ہو۔آپ مہربانی سے پیش آئیں ۔۔ چوتھی اور آخری بات رحمدل بنیں تو سب کے لئے بنیں آخر کب تک کسی کے لئے فرعون اور کسی کے لئے مسیحا کا کردار ادا کریں گے اور آخر کیوں ہم کسی کی زندگی کا سبب بنتے ہیں تو کسی کی موت کا؟؟ ہم سب کے لئے ایک جیسا دل کیوں نہیں رکھ سکتے؟دل نہ سہی ایک جیسا رویہ ایک سا لہجہ کیوں نہیں رکھ سکتے؟ ہماری زندگیوں سے تفریق کا زہر کب ختم ہوگا؟؟؟ہم سب کے لئے، اپنے لئے اور دوسروں کے لئے ایک جیسا کیوں نہیں سوچ سکتے؟۔ہمیں خود پر جتنا ترس آتا ہے دوسرے پر کیوں نہیں آتا؟آپ سب کو پتہ ہے کہ کائنات کا پہلا گناہ نہ قتل تھا نہ غیبت تھی نہ فحاشی تھی نہ جھوٹ بلکہ پہلا گناہ تھا میں اس سے بہتر ہوں ۔اسی گناہ کے نتیجے ابلیس فرشتے سے شیطان بنادیا گیا ۔

 

تفرقات کا بنیاد بھی یہی گناہ ہے جو ہمارے اندر سب سے زیادہ ہے۔رحم خود پر کرنا ہے تو خود میں اور دوسروں میں” فرق’ دکھانے کی بے کار کوششوں سے باز آجائیں۔مان لیں کہ ہر دوسرا شخص ہمارا اپنا عکس ہے۔اور مت بھولیں جس رب کو ہم سجدہ کرتے ہیں اسکے صفات میں سب سے اعلی صفت رحم دلی ہے ۔جس پیغمبر کے ہم امتی ہیں اسکی سب سے اعلی صفت رحم دلی ہے ۔اور میزان میں تولے جانے والے سب سے بھاری اعمال جن کا وزن ہوگا وہ اچھے اخلاق کے ہوں گے شرط یہ ہے کہ اگر ہمارا اخلاق ناپسندیدہ افراد کیساتھ بھی ویسا ہی ہو جیسا پسندیدہ لوگوں کیساتھ ہے۔۔۔ اسلئے جس سے بھی ملیں مہربان ہوکر ملیں کیوں کہ آپ نہیں جانتے کہ کون اپنے اندر کیسی کیسی جنگیں لڑ رہا ہے ۔کس کس اذیت سے گزر چکا ہے یا گزر رہا ہے ۔۔کسی کے چہرے پر درد کی لکیر نظر نہ بھی آئیں آپ کسی کو اپنی تلخ رویوں کا شکار نہ کریں۔بلکہ جس سے بھی ملیں ایسے ملیں کہ لوگ آپ سے دوبارہ ملنے کی تمنا کریں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ‘شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا ‘اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73474

رمضان ڈائری – رمضان، مسلمان اور خوف خدا ۔  قسط ۲- میر سیما امان

Posted on

رمضان ڈائری – رمضان، مسلمان اور خوف خدا ۔  قسط ۲- میر سیما امان

 

ہماری روزمرہ زندگی میں اکثر لوگ  ہمیں اللہ سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا عموماً تب ہوتا ہے جب ہم ان لوگوں کی مرضی کے خلاف کوئی بات یا عمل کرتے ہیں ۔۔۔ یوں ایک انسان بظاہر اللہ کا نام لیکر اپنی ذات سے آ پکو ڈرا رہا ہوتا ہے۔ اسکا مقصد آپ کو خدا کے بجائے اپنے تابع کرنا ہوتا ہے۔ یہاں پر دیکھا جائے تو ہر کوئی ایک دوسرے کو خوف خدا کا درس دیتا ہوا نظر آتا ہے لیکن خود اس بات سے بلکل بے خبر ہے کہ اسکے کون کونسے اعمال اسکو اللہ کی پکڑ میں لا سکتے ہیں ۔۔دیکھا جائے تو قرآن کریم میں اللہ پاک نے کہیں مرتبہ خود تمام مخلوقات کو اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے ۔۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا خوف کسی مخصوص طبقے یا مخصوص ذات کے لیے نہیں ہے بلکہ خوف خدا کا حکم خود اللہ کی طرف سے تمام مخلوقات کے لیے ہے ۔۔۔جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔ حضرت سیدنا فقیہ ابواللیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں ۔۔

 

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے پہلی چیز انسان کی زبان میں، اس طرح کہ ربّ تَعَالٰی کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اسے ذکرُاللہ، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔دوسرا اس کے شکم میں، اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت کھائے گا۔۔تیسری چیز اس کی آنکھ میں، اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا کی طرف رغبت سے نہیں بلکہ حصولِ عبرت کے لیے دیکھے گا۔۔چوتھی علامت اس  کے ہاتھ میں، اس طرح کہ وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا بلکہ ہمیشہ اِطاعت الٰہی میں استعمال کرے۔پانچویں علامات اسکےقدموں میں، اس طرح کہ وہ انہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی میں نہیں اٹھائے گا بلکہ اس کے حکم کی اِطاعت کے لیے اٹھائے گا۔ چھٹی چیز اسکے دل میں، اس طرح کہ وہ اپنے دل سے بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حسد کرنے کو دور کردے اور اس میں خیرخواہی اور مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔ ساتھواں  اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں، اس طرح کہ وہ فقط اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے لیے عبادت کرے اور رِیاء ونفاق سے خائف رہے۔ اور آ ٹھویں اسکے اس کی سماعت میں، اس طرح کہ وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔

میرے خیال میں خوف خدا کی اس سے زیادہ واضح اور مکمل تشریح نہیں ہوسکتی جن الفاظ میں محترم جناب نے کی ہے ۔۔۔  ایک حدیث کے ساتھ اس مضمون کو اختتام کی طرف لیکر جاؤنگی ۔  حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ اسے اس امر کا یقین رہے کہ وہ جہاں بھی ہے اس کا خدا اس کے ساتھ (نگران) ہے۔ بہت ہی سادہ بات ہے کہ آپ ہر قدم میں اللہ کی موجودگی کو تسلیم کریں ۔۔اس پورے فلسفے کا نچوڑ ہی یہی بات ہے جسے ہمارے ایک بہت پسندیدہ لکھاری ممتاذ مفتی کہتے ہیں کہ ساتھیوں اپنے اوپر ایک خدا مسلط کر لو باقی سب آسان ہو جائے گا ۔۔۔۔

رمضان کا مہینہ ہے اور مسلمان ہمیشہ  کی طرح خود سے زیادہ دوسروں کے اعمال پر پریشان ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس رمضان دوسروں پر  خدامسلط کرنے کے بجائے خود پر کر لیں اپنی آ خرت سنوارنے کی تھوڑی سی بھی کوشش کرلیں اور اپنے اوپر ڈھیر ساری خداؤں کے بجائے صرف ایک خدا مسلط کر لیں اسی کے تا بع ہو جا ئیں اور اپنے ہر عمل کا خود کو اسی ایک خدا کے آگے جوابدہ تسلیم کرلیں ۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73336

نوائے سُرود – اے کشتہ ستم تیری غیرت کوکیا ہوا – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود – اے کشتہ ستم تیری غیرت کوکیا ہوا – شہزادی کوثر

پچھلے کئی دنوں سے قبلہ اول میں اسرائیلی بربریت کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح مظلوم فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ صدیوں سے مسلمان مسجداقصی کی حرمت وعظمت کی حفاظت کی خاطراپنی جانیں وقف کرتے آئے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن نئی بات یہ ہے کہ آج دنیا بھر کے مسلمان خاموشی کی چادر تانے تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ رمضان کے اس مقدس مہینے میں مسلمانوں پر نماز پڑھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور انہیں تراویح سے روکا جا رہا ہے ،زور زبردستی انہیں گھسیٹ کرصفوں سے باہر لا کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ کی پرواہ کیے بغیر حق پر مرمٹنے والے رب کائنات کے آگے سربہ سجود ہیں ۔عورتیں قبلہ اول کی حفاظت کی خاطر اپنے خون کا نظرانہ دے رہی ہیں ۔

 

گزشتہ تین دنوں کے دوران تین سو نہتے فلسطینی شہید کئے گئے،انہیں بے دردی سے گھسیٹا اور مارا جارہا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا سے اُف تک کی اواز سنائی نہیں دے رہی ، سوائے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کے، انہوں نے اسرائیلی بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ باقی مسلمانوں کے جسم میں موجود امت محمدی کا پرجوش خون شاید جم گیا ہے ۔انہیں اسرائیل کے ساتھ اپنی تجارت اور سفارتکاری کو فروغ دینے کے مقابلے میں فلسطینی مسلمانوں کی یہ قربانی کوئی بڑی بات نظر نہیں آ رہی۔ ان کے خیال میں حالات کیسے بھی ہوں  اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کسی قسم کی دراڑ نہیں آنی چاہئیے ،گویا یہ صرف فلسطینیوں کا مسلہ ہے ،جس کا سامنا انہیں خود کرنا ہے اور اس کا حل بھی خود ہی نکالنا ہو گا ۔ایک ارب ستاون کروڑ مسلمانوں کی یہ خاموشی بہت بڑا سوالیہ نشان جو ہمارے دلوں کی چیر رہا ہے۔

 

کیوں ہماری زبانیں گُنُگ ہو گئی ہیں ؟ کیوں ہمارا خون جوش نہیں مار رہا ؟ ہمارے دست وبازو کیوں اپاہچ ہو گئے ہیں ؟ کیا ہم ایمان کے اس کمزور درجے پر بھی نہیں ہیں کہ باطل کو باطل کہنے کی طاقت بھی سلب ہو گئی؟ کیا ہماری رگوں میں وہ خون موجود نہیں تھا جو مظلوموں کی پکار پر ظالموں پر بجلی بن کر گر جاتا تھا؟ ہماری تلوار کی کاٹ سے باطل کے وجود پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا ۔ کہاں گئے ہمارے مسلمانی کے دعوے؟ کیا صرف نماز پڑھنا روزے رکھنااور تسبیح رولنا ہی ایمان ہے ؟مظلوموں کے حق میں بولنے اور ان کا ساتھ دینے کی ریت کیا دم توڑ گئی ہے؟   اس ظلم کے خلاف اور مسجد اقصی کے تقدس کی پامالی کے خلاف کوئی جلسہ کوئی جلوس،کوئی مذمتی قرار داد سامنے نہیں آئی ۔کسی نے اسرائیل کا بائیکاٹ نہیں کیا ،کوئی آواز فلسطینیوں کے حق میں سنائی کیوں  نہیں دے رہی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شاید اس لیے کہ عمر بن خطاب کا زمانہ گزر گیا جو مظلوم کے خون کے ایک قطرے کے بدلے ظالم کے خون کا سمندر بہا دیتے۔  خالدً بن ولید موجود نہیں جس کی تلوار اسرائیل پر زلزلہ بن کر نازل ہو جاتی۔ کوئی طارق بن زیاد ،کوئی محمد بن قاسم، کوئی حجاج بن یوسف بے گناہ فلسطینیوں کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے موجود نہیں ۔ان کا مقابلہ غاصب اسرائیلی فوج سے ،اس کے طاقتور اسلحے اور مشین گنوں کی گھن گرج سے ہے ۔انہیں صرف جذبہ ایمانی کے سہارے صہیونی طاقت سے لڑنا ہے۔ کوئی اور مسلمان ملک ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں کیونکہ انہیں اپنے مفادات کے سامنے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔ پچھلے پچھتر سالوں سے ظلم و جبر کے آگے ڈٹ جانے کی مثال جو انہوں نے پیش کی ہے آئیندہ بھی کرتے رہیں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اسلام سے محبت کے دعوے دار اپنی غیرت کا سودا کیے بیٹھے ہیں۔                                                                                                                  ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73304

کیا پاکستان میں اسلامی نظام خلافت کا قیام ایک اور عالمی جنگ کو جنم دے دے گا؟- غزالی فاروق

کیا پاکستان میں اسلامی نظام خلافت کا قیام ایک اور عالمی جنگ کو جنم دے دے گا؟- غزالی فاروق

 

چند لوگوں کا خیال یہ ہے، خصوصاً وہ جو حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں،کہ اگر پاکستان میں اسلام کا نظام خلافت قائم ہوتا ہے تو پوری دنیاپاکستان پردھاوا بول دے گی۔ اور یوں پاکستان میں نظام خلافت کیقیام سے ایک اور جنگِ عظیم چھِڑ جائے گی۔ اس تصور کے پسِ منظر میں بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ موجودہ ورلڈآرڈر، جس کی سربراہی امریکہ کرتا ہے،اپنے خلاف کوئی آواز بھی اٹھائے جانے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔

اس نئی صدی کے آغاز سے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ نے عراق کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ امریکہ نے ایران، شمالی کوریا اور یہاں تک کہ روس کے خلاف یوکرائن کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے سخت ترین پابندیاں لگائیں۔ حالانکہ یہ وہ ریاستیں ہیں جو کہ نظریاتی طور پر موجودہ ورلڈآرڈر کو چیلنج نہیں کررہیں، بلکہ وہ عالمی سیاست کے میدان میں اپنے حجم کے مطابق کسی حد تک ایک قابل احترام مقام رکھنا چاہتی ہیں لیکن پھر بھی امریکہ کو یہ بات پسند نہیں، وہ بس اپنا تسلط چاہتا ہے اور اسی لئے وہ کسی اور کو اس رستے پر چلنے کی اجازت نہیں دیتا جس سے وہ بالآخر اپنا ہدف حاصل کر سکیں۔

لہٰذا ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی شدت اور سختی کے ساتھ امریکہ اور باقی تمام مغربی دنیا اپنا ردِعمل ظاہر کرے گی جب ریاستِ خلافت کا اعلان ہوگا جو کہ موجودہ ورلڈآرڈر کو نہ صرف ایک بارُعب اورباوقار مقام حاصل کرنے کے لئے چیلنج کرے گی بلکہ خلافت موجودہ مغربی ورلڈآرڈر کو تبدیل کر کے اس کی جگہ ایک نیا ورلڈآرڈر قائم کرے گی جوکہ اسلام کا ورلڈآرڈرہوگا۔

اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور باقی تمام مغربی دنیا ریاستِ خلافت کے قیام کی بھرپور مخالفت کریں گے، کیونکہ 1924ء میں خلافت کے انہدام سے لے کر انہوں نے ہرممکن کوشش کی ہے کہ خلافت کبھی بھی واپس نہ آسکے۔وہ ہرسطح پر یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ مسلم دنیا میں خلافت کی بحالی کا کام کرنے کے لئے سیاست کے میدان میں کسی کو بھی کوئی موقع نہ مل پائے۔لیکن مسلمانوں کی گردنوں پر سوار بدترین جابرانہ حکومتیں مسلط کرنے کے باوجود بھی خلافت کے قیام کی پُکار نہ صرف مسلم دنیا کے ہرکونے میں مضبوطی سے اپنے قدم جمانے کے قابل ہوچکی ہے بلکہ اب یہ پوری اُمت کا مطالبہ بھی بن چکی ہے۔ لہٰذا ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ خلافت کی پُکار کودبانے، ختم کرنے اوراسے مٹا دینے کے لئے ہرطرح کانسخہ آزما لینے کے باوجود بھی، استعماراور ان کی کٹھ پُتلی حکومتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی ہیں اور یہ اس لئے کہ یہ پُکار اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دین کی طرف پُکار ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ خلافت دوبارہ عین نبوت کے نقشِ قدم پرضرور قائم ہوگی۔

اس کے علاوہ ہم پچھلی دودہائیوں میں یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان کے مسلمانوں پر عالمی جنگ برپا کئے رکھی۔ ہم اسے عالمی جنگ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اس لئے کہ ایک طرف تو اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ نیٹو تھا اورمسلمانوں کے کٹھ پُتلی حکمرانوں کی فوج اور انٹیلی جنس پر مبنی معاونت شامل تھی جبکہ دوسری طرف افغانستان کے نہتے مسلمان تھے۔ افغانستان کے پاس کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی ان ہلکے معمولی ہتھیاروں سے لیس مسلمانوں نے پوری دنیا کے لئے یہ ناممکن بنا دیا کہ وہ ان پر غلبہ پاسکیں بلکہ آخر میں وہ بُری طرح شکست کھانے کے بعدذلیل ورُسوا ہوکرافغانستان سے نکلے۔ یہی ایک مثال ہی اس بات کی دلیل کے لئے کافی ہے کہ خلافت کے قیام کے بعد، اگرپوری دنیا مل کر بھی اس کے خلاف عالمی جنگ چھیڑدے وہ اسے شکست دینے کے قابل ہونا تو دَرکنار، وہ پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت کے خلاف مقابلہ کرنے کی ہمت بھی نہ کرپائیں گے۔

خلافت کے قیام کے بعد، کفارہرگز ریاستِ خلافت کے خلاف عالمی جنگ کرنے کے قابل نہ ہوسکیں گے۔ فروری 2012ء میں امریکہ کے سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے ویسٹ پوائنٹ کیڈٹس کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا، کہ امریکہ کے لئے یہ انتہائی غیردانشمندانہ بات ہوگی کہ وہ کبھی دوبارہ، عراق یا افغانستان جیسی ایک اور جنگ میں سرکھپائے، اور یہ کہ اس انداز میں دوبارہ حکومت تبدیل کر دینے کے امکانات بہت کم ہیں۔رابرٹ گیٹس نے کہا:” میری رائے میں، مستقبل میں آئندہ اگرکوئی سیکرٹری دفاع،صدر کو دوبارہ ایک بڑی امریکی بَرّی فوج کوایشیا یامشرقِ وسطیٰ یا افریقہ بھیجنے کا کہتا ہے تو اس سیکرٹری دفاع کو ‘اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے’ جیسا کہ جنرل میک آرتھر نے بھی کہا تھا“۔

“In my opinion, any future defense secretary who advises the president to again send a big American land army into Asia or into the Middle East or Africa should‘have his head examined,’as General MacArthur so delicately put it.”(Robert Gates)

رابرٹ گیٹس نے فوجی کیڈٹس کے اجلاس کے دوران یہ کہا تھا۔لہٰذا درج بالا بیان کی روشنی میں اگر امریکہ اپنی فوج کو کسی قلیل سے گروہ سے جنگ کرنے کے لئے بھی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ بھجوانے پر راضی نہیں ہے تو پھر آخرکیسیامریکہ اور باقی تمام دنیا پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت پرحملہ کرنے کی جرأت بھی کرسکیں گے، جبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس پہلے سے دنیا کی چھٹینمبرپربڑی فوج موجود ہے جوکہ ثابت شدہ نیوکلئیرصلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ بیلسٹک اور کروز میزائلوں کی صورت میں مؤثر ہتھیاروں سے لیس ہے؟ یادرہے کہ اس زبردست فوجی طاقت کے علاوہ، ریاستِ خلافت کے پاس لاکھوں کی تعداد میں رضاکار مجاہدین بھی موجود ہوں گے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ، روس کے ساتھ یوکرائن میں براہِ راست نہیں اُلجھ رہا بلکہ وہ روس کے خلاف پراکسی وار لڑرہاہے۔اگرچہ روس اس مقام پر نہیں ہے کہ عالمی تجارت میں مداخلت کرسکے، لیکن پھر بھی سپلائی چین اس بُری طرح متأثر ہو رہی ہیں کہ تیل اور دیگرضروریاتِ زندگی کی قیمتیں انتہائی حد تک بڑھنے کی وجہ سے یورپ کے لوگوں نے یوکرائن میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنا شروع کردیاہے۔ روس سے موازنہ کریں تو پاکستان خلیج فارس کے متصل واقع ہے اور مغرب سے مشرق کیاطراف تجارتی جہاز بحیرۂ عرب میں عین پاکستان کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کسی قیمت پر پوری عالمی تجارت کو نقصان پہنچانے کا اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

لیکن بہرحال ان تمام مشکلات کے باوجود، پھربھی اگرمغرب پاکستان پر حملہ آور ہونے کی ہمت کربھی لے تو وہ ہرگز ایسا کرنے کے قابل نہ ہوسکے گا۔ افغانستان پر ہونے والے حملہ کو یادکریں تو امریکہ کبھی بھی ہمسایہ ممالک، جیسے پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان پر حملہ نہ کرسکتا تھا۔ چونکہ افغانستان کے پاس سٹریٹجک اور جدید ہتھیار موجود نہ تھے اس لئے امریکہ نے آسانی سے اپنی فوج افغانستان میں منتقل کردی اور آس پاس کے ہمسائیوں سے بغیر کسی دِقّت وخطرہ کے سپلائی روٹ قائم کرلئے۔ لیکن پاکستان کے معاملہ میں، امریکہ کو وہی سہولت دوبارہ فراہم نہ ہوسکیگی جیسی افغانستان پر حملہ کے وقت میسرتھی۔اور اگر امریکہ خطہ میں کسی ہمسایہ ملک کی حمایت لے بھی لے تو پاکستان اپنے جدید نیوکلئیر ہتھیاروں کی وجہ سے کسی بھی امریکی جارحیت کا آسانی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔ پس جس طرح آج امریکہ روس کے نیوکلئیرہتھیاروں کے خوف سے یوکرائن کے تنازعہ میں براہِ راست کُود پڑنے سے ہچکچارہا ہے بالکل اسی طرح امریکہ، نیوکلئیرہتھیاروں سے لیس پاکستان میں قائم خلافت پرحملہ کرنے کے بارے میں سوچنے کی بھی جرأت نہ کر سکے گا۔

آج پاکستان کی قیادت، ایک شکست خوردہ قیادت ہے جو ہرحالت میں امریکہ اور اس کے عالمی آرڈر کی چاپلوسی اورغُلامی کرنا چاہتی ہے۔ یہی رویہ امریکہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹے نمبر پر بڑی اور نویں نمبر پر مضبوط ترین فوج موجود ہونیکے باوجود پاکستان پر حکم چلائے اور جب ضرورت سمجھے تو اس پر حملہ آوربھی ہوجائے کیونکہ اسے یہ یقین ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے کبھی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ امریکہ صرف اُسی ملک پر حملہ کرتا ہے جہاں اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ملک عالمی نظام کا غلام ہے اور ایک آسان شکار ہے۔ اور جہاں کہیں امریکہ کو یہ یقین ہو کہ مخالف ملک جوابی کاروائی کے ساتھ اقدامی حملہ بھی کرسکتا ہے تو امریکہ ایسے ملک پر حملہ کرنے کے بارے میں کبھی جرات بھی نہیں کرسکتا۔

یادرہے کہ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین نے کونسا نظام نافذ کردیا تھا۔اُس وقت امریکہ اور روس (USSR) میں شدید مخالفت آرائی جاری تھی اور یہ امریکہ کے مفاد کے لئے شدید نقصان دہ تھا کہ وہ ایک اور کمیونسٹ ملک کے قیام کو قبول کرلے۔ لیکن آخر ایسی کیا بات تھی کہ امریکہ، چین پر حملہ کرنے کی ہمت بھی نہ کرسکا حالانکہ چین اپنے ملک کے داخلی معاملات، اندرونی پھُوٹ اور بیرونی قبضوں کی وجہ سے خاصا کمزور تھا؟ یہ اس لئے کہ امریکہ کو یہ معلوم تھا کہ چین کے پاس اب ایک ایسی قیادت ہے جوایک خاص نظریہ رکھتی ہے اور وہ نظریہ چین کی ریاست کو امریکی جارحیت کا بھرپُور جواب دینے کے قابل بنادے گا۔ اسی طرح اگر پاکستان خلافت کو قائم کرلیتا ہے جو کہ اسلام کی بنیاد پر قائم ریاست ہو گی توامریکہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی ہرگز ہمت نہ کرسکے گا۔

لہٰذا یہ محض ایک خام خیالی ہے کہ اگر خلافت کادوبارہ قیام پاکستان سے ہوتا ہے تو پوری دنیا ہم پر حملہ آور ہوجائے گی اور ایک عالمی جنگ چھڑجائے گی۔ کفار ہمارے دلوں میں خوف کا بیج بونا چاہتے ہیں تاکہ ہم پاکستان میں خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے جدوجہد نہ کریں، اور دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے علاقوں میں بھی امریکی اجارہ داری یونہی جاری وساری رہے۔ عراق وافغانستان میں ناکام مہم جوئیوں کے بعدیہ قطعی ممکن نہیں کہ امریکہ کبھی ایک نیوکلئیرہتھیاروں سے مسلح ملک یعنی پاکستان پر حملہ کے بارے میں سوچ بھی سکے گا۔ لہٰذا ہمیں ہرحالت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کر دینا چاہیئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِنۡ يَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَـكُمۡۚ وَاِنۡ يَّخۡذُلۡكُمۡ فَمَنۡ ذَا الَّذِىۡ يَنۡصُرُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِهٖؕوَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴾

“اگراللہ تمہاری مدد کرے گا توکوئی تم پرغالب نہ ہوگا اور اگر وہ(اللہ) تم کوچھوڑدے گا توپھرکون ہے کہ اس کے بعد تمہاری مدد کرے۔ اور مسلمانوں کو اللہ پرہی بھروسہ کرنا چاہئے“ (آل عمران؛ 3:160)

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
73294

رمضان ڈائری – رمضان اور مسلمان – قسط نمبرا – تحریر۔ میر سیما آمان

رمضان ڈائری – رمضان اور مسلمان – قسط نمبرا – تحریر۔ میر سیما آمان

اکثر ناگوار گفتگو سے جسطرح زبان کو چپ لگ جاتی ہے بلکل اسی طرح بعض اوقات قلم کو بھی چپ لگ جاتی ہے ۔۔۔میرے ساتھ بھی شائد یہی  ہوا آج بہت عرصے بعد قلم صرف یہ سوچ کر اٹھا یا کہ چیزیں استعمال میں نہ لائی جائیں تو زنگ لگ جاتی ہیں۔بے شک  زبان کو بلخصوص عورتوں کی زبان کو زنگ بھی لگ جائے تو خیر ہے لیکن قلم کو زنگ نہیں لگنا چاہیے ۔۔۔اور پھر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جن لوگوں کو لکھنا آ تا ہے انکا نہ لکھنا گناہ ہے ۔۔اور گناہ سے یاد آیا کہ ہمارے نامہ اعمال میں ایک ڈائری یا ڈائری کے چند اوراق ان گناہوں کی گنتی کی بھی ہونی چاہے جنھیں شاید ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں ۔۔۔اسلیے اس ڈائری کا پہلا ورق خواتین کے نام۔۔۔۔۔۔

 

احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب معراج کا سفر کیا تو واپس آکر آپ نے خواتین کے لیے بلخصوص یہ پیغام دیا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ دیکھی ہے ۔۔یہ اتنا بڑا پیغام ہے ہم عورتوں کے لیے لیکن ہماری غفلت دیکھیں ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہم سب کو یہ لگتا ہے کہ وہ تو ناچنے گانے والیاں ہونگی ۔۔بے پردہ ہونگی فلاں فلاں فلاں ہونگی ۔۔ہم تو بڑے نیک ہیں نمازی ہیں کوئی نہیں سوچتا کہ شائد وہ ہم ہی ہوں ۔۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کرتے کہ وہ ہم ہو سکتے ہیں ۔۔ہم عورتوں میں اتنی ساری بد عادات پائی جاتی ہیں کہ ہمیں جہنمی ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔۔میں انتہائی مختصراً صرف انکا سرسری  تذکرہ کرونگی تفصیل میں نہیں جاؤنگی ۔ سب سے زیادہ مقبول عمل جو آج کی خواتین میں بہت زیادہ یہ بد عادات پائی جاتی ہے پہلے کے لوگوں میں نہیں تھا وہ ہے فضول گوئی۔۔۔۔۔اور مزے کی بات یہ کہ ایک تو فضول گو اوپر سے اسی فضول گوئی کی بنا پر خود کو صاحب گفتار  سمجھ کر مزید تکبر کا گناہ بھی اپنے سر کر جاتے ہیں ۔۔میں نے بہت بچپن سے یہ بات سنی تھی کہ جب دو لوگ آپس میں بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالٰی فرشتوں سے فر ماتا ہے کہ فلاں جگہ میرے بندے مل بیٹھے ہیں تم جا کر دیکھو وہاں کیا بات ہو رہی ہے میرا ذکر ہو رہا ہے کہ نہیں ۔۔

 

اب اللہ کا ذکر اس محفل میں اگر ہے تو ظاہری بات ہے اللہ خوش ہوتا ہے اور ان لوگوں پر رحم فرماتا ہے اور اگر نہیں تو یقیناً اللہ کی ناراضگی ہمارے حصے میں آ جاتی ہے ۔۔ اب آپ خود سوچیں تین چار پانچ گھنٹے بھی اگر ہم مل بیٹھے ہیں تو فرشتے کیا پیغام لیکر جائیں گے مسلسل غیبت الزام تراشی یا مسلسل کپڑوں کھانوں فیشن فرنیچر نیا سامان پرانا سامان مہنگے سستے والی بکواس ترین باتیں ۔۔۔ پھر بات بات پہ جھوٹ بولنا ،بہتان تراشی چغل خوری  اور نہ شکری  اور بے پردگی کی تو بات ہی نہ کریں وہ تو ہمارا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے ۔۔سچ پوچھیں تو جہنم میں کوئی بہت بڑا گناہ نہیں لیکر جائے گا ہماری یہی چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہماری نظر میں بہت معمولی ہیں لیکن  اللہ کے سخت نا پسندیدہ اعمال ہیں ۔۔ اسکے علاؤہ اذان نہ سننا اذان کے دوران مسلسل باتیں کرنا ۔ شام کے بعد گھر میں جھاڑو لگانا ۔

 

بے وجہ گھر سے باہر رہنا اونچی آواز میں بات کرنا ہنسنا ۔۔اور پردے کا چونکہ بہت شور ہوتا ہے ہر طرف لیکن گھر کے اندر بھی ہماری بے پردگی کا پورا سامان ہوتا ہے اس پر ہماری کوئی توجہ نہیں ۔۔مثلا  اسلام گھروں کے دروازے بند رکھنے اور اجازت لیکر گھروں  میں جانے کا  حکم دیتا ہے مگر ہمارے علاقے  میں یہ عجب دستور ہے کہ جو اس پر عمل کرتا ہے اسے علاقے میں کنجوس بد اخلاق روئے نو خوشیاک پتہ نہیں کیا کچھ بولا  جاتا ہے اسی طرح کام کاج کے لیے گھر میں ملازم رکھتے ہیں کوئی محرم نہ محرم کا خیال نہیں بس سہولت ہونی چاہیے ۔۔باذار جانا دس بیس روپیے کی بچت کے چکر میں دکاندار سے بحث کرنا یہ سب بہت مایوس کن چیزیں ہیں ٹھیک ہے ہمارا لائف سٹائل اب ایسا بن گیا ہے اپنے کام کے لیے خود باہر نکلنا پڑتا ہے جاب کرنے کے لیے جاتے گھر میں لوگ رکھیں کچھ بھی کریں مگر وہ حد تو نہ بھولیں  جو اسلام نے مقرر کی ہے ۔۔ اسلام کہتا ہے کہ بحالت مجبوری اگر کسی نامحرم سے واسط پڑتا ہے تو اپنی آ واذ سخت کرلو۔۔۔کیا  ہماری اواز ہمارے لہجے نا محرموں کے لیے سخت ہیں ؟؟؟؟  ہماری جاب کرنے والی  خواتین کا کیا سین ہوتا ہے پورا سٹاف مامے چاچے بنے ہوئے ہیں

 

یہی حال گھریلوں ہم سب کا گھر کے سارے افراد چاہے وہ سرحد کے کس پار سے آ ئے ہوئے ہوں ہمارے محرم بنے ہوئے ہیں ۔۔ یہ باتیں سب ناگوار ہونگی مگر یہ تلخ سچ ہے ۔۔  ابھی رمضان چل رہا ہے تو ہماری پوری توانائی اچھے کھانے پکانے میں صرف ہوگی آگے عید آئے گی تو پورا گھر کی صفائی دھلائی وغیرہ میں ہی یہ مہینہ نکل جائے گا ۔۔۔ میں صرف اتنا کہنا چاہونگی کہ یہ بہت بڑا مہینہ ہے یہ سارے کام ہوتے رہیں  گے ۔۔مگر ہماری کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ دوبارہ ہمیں یہ موقعہ ملے گا یا نہیں ۔ اسلیے اس دنیا کو کم از کم تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیں اپنے لیے وقت نکالیں اس رمضان کو اپنے لیے تبدیلی اور بخشش  کا ذریعہ بنایئں ۔۔۔۔۔ اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب اپ دنیا اور آخرت دونوں کو سنجیدہ لیں گے ۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
73249

زندگی اور خلوص کے پیمانے – تحریر: حیات طیبہ

زندگی اور خلوص کے پیمانے – تحریر: حیات طیبہ

ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ کیا ہم زندہ بھی ہیں اوروہ بھی خلوص کے ساتھ۔ اگر زندہ ہیں اور زندگی کو تمام تر رنگینیوں کے ساتھ جینے کا دعوی بھی ہے تو اس کا پیمانہ کیا ہے۔ ہم میں سے کسی کے پاس بھی کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس کے ذریعے ہم خود کی یا دوسروں کی زندگی کے آسائشوں، رونقوں اور خوشیوں کا ناپ کرسکیں۔ مگر پھر بھی کچھ خودساختہ روایات کے بھول بھلیوں میں رہتے ہوئے ہم تصور کربیٹھتے ہیں کہ ہم آزاد بھی ہیں اور زندگی بھرپور خلوص کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ یہ خوش فہمی ہم میں سے اکثر کو ہے۔حالانکہ واقعات و حالات کچھ اور ہی بتا رہے ہوتے ہیں۔

کہنے کو زندگی اور خلوص دو لفظ ہیں مگر پوری انسانی زندگی انہی دو لفظوں کے گرد گھومتی ہے۔ آپ زندگی سے خلوص کو الگ کریں تو بچتا ہی کیا ہے۔ یا پھر زندگی کے بغیر خلوص کا کیا کیا جائے۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہمیں نہ تو گھروالے بتاتے ہیں کہ زندگی اصل میں ہے کیا۔ نہ ہی تعلیمی درسگاہوں میں اصل زندگی کے بارے میں کسی تربیت کا اہتمام ہے اور نہ ہی جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے وہ زندگی کے تمام تر حقائق سے باخبر ہیں۔بس جیئے جارہے ہیں اور اسی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔زندگی خوش و خرم کیسے گزارنی ہے اس کا طریقہ بتانے والا کیا خود اپنی زندگی سے 50 فیصد مطمئن ہے۔ کسی دن یہ سوال اپنے ناصح سے کرکے دیکھیں تو لگ پتہ جائے گا کہ جتنی کھوکھلی اس کی نصیحتیں ہیں اس سے زیادہ کھوکھلی اس کی اپنی زندگی ہے۔

ہم نے کبھی اپنے گھر والوں، فیملی ممبرز، تعلیمی اداروں کے دوستوں اور پھر ملازمت کے دوران کے کولیگز کے بارے میں یہ سوچنے کی زحمت بھی کی ہے کہ ان کی زندگی چل کیسے رہی ہے۔ وہ کسی پریشانی کا شکار تو نہیں۔ اگر کسی پریشانی کا شکار ہیں تو اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ میں بذات خود اپنے فیملی ممبر، کلاس فیلوز اور کولیگ کی زندگی کے مسائل کم کرنے کے لئے کیا کردار ادا کرسکتی/کرسکتا ہوں۔ سو فیصد یقین ہے کہ ایسا ہمارے معاشرے میں کوئی بھی نہیں سوچتا۔ وجہ صرف ایک ہے۔ ہمیں پیدا ئش سے لے کر مرنے تک کوئی بھی فرائض سے آگاہ نہیں کرتا۔ ہمیں صرف حقوق کا بتایا جاتاہے۔ ہمیں صرف حاصل کرنے کا درس دیا جاتاہے۔ حاصل محصول سے کسی اور کی مدد کا نہ تو ہمیں تربیت دی جاتی ہے اورنہ ہی اسے ضروری سمجھا جاتاہے۔

انسانی المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ ترکی میں زلزلہ آیا اور ہزاروں لوگ سفر آخرت پر ایک ساتھ روانہ ہوگئے۔ وہ المیہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے مسائل سے بے خبر ہیں۔اپنے آپ کوبے خبر ظاہر کرتے ہیں۔ یا پھر ہم ایسے رویوں کا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں جس سے کسی بھی مسئلے کے شکار فرد یا خاندانوں کو کسی آسانی کے بجائے مزید تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ شخص کو ہمارے معاشرے نے ہمیشہ مجرم بنایا ہے کیا یہ کسی زلزلے سے کم المیہ ہے؟ ہم ہمدردی بھی ایسے جتا رہے ہوتے ہیں جس سے مزید تذلیل کا پہلو نکلتا ہے یا پھر کسی سے ہمدردی بھی اس لئے کررہے ہوتے ہیں تاکہ متاثرہ شخص زندگی بھر اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو بھول ہی نہ سکے۔ ایسے رویے کسی بھی المیے سے بڑھ کر ہوتے ہیں مگر اہمیں اس کا احساس نہیں ہے۔

کاش انسان اتنے سارے ایجادات کے ساتھ زندگی کی خوشیاں ناپنے کا کوئی چھوٹا سا آلہ ہی تیار کرتا تاکہ ہم اپنے پیاروں کی خوشیاں ناپ کر  ان کی زندگی میں موجود کمیوں اور  ناکامیوں کا کوئی علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ ان کی زندگی میں رنگنیوں کا اضافے اور غموں کا ازالہ کرتے۔ان کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوتے کہ وہ کوئی بے وقعت کھلونے نہیں بلکہ انسان ہیں اور ان کا زندگی اور اس کی رونقوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ان پرظلم کرنے والوں کا۔

ہمارے ان غیر انسانی رویوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ روز بروز تباہ و بربادی کا شکار ہوتا جارہا ہے اور ہم اس کا علاج اپنے گھروں،اپنے فیملی ممبرز اور اپنے اردگرد تلاش کرنے کے بجائے دوسروں کے گھروں میں جا کر کرنا چاہتے ہیں۔معاشرے کی روز افزوں بدحالی گواہی کے لئے کافی ہے کہ ہم نے آج تک غلط مریض و مرض کا علاج کیا ہے۔ یہی وقت ہے کہ اپنے اردگرد کے لوگوں، اپنے پیاروں اور دوستوں کا علاج پہلے کرنے کے بجائے اپنی ذات کا سب سے پہلے علاج شروع کریں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ہم بہت جلد اپنے معاشرے کو ایک بہتر مقام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
72114

ہراسانی Harassments  – تحریر: دلشاد پری

Posted on

ہراسانی Harassments  – تحریر: دلشاد پری

ہراسانی ایک ایسا رویہ ہے جس کا ہدف بننے والا شخ،ص اپنی توہین ,بے عزتی ,رسواٸی یا شرمندگی محسوس کرے۔ایسارویہ متاثرہ افراد کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے اور ان کے لۓ کام کی جہگہ کو غیر محفوظ کرتا ہے۔

کسی شخص کو جنس ,شکل وصورت ,لباس ,عمر ,علاقاٸی یا نسلی وابستگی اور مذہب کے حوالے سے مذاق کا نشانہ بنانا بھی ہراسانی ہے۔ایسا رویہ جس سے کسی دوسرے کی عزت نفس مجروح ہو ,جو اسکی کارکردگی پر ناموافق اثر پڑے,ہراسانی ہی گردانا جاۓ گا۔ہراسانی ,اشاروں الفاظ اور حرکات کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ایسی صورت میں اس شخص کو رنج ,تذلیل اور اشتعال کا سامنا ہو سکتا ہے اورکام کا ماحول اس کے لۓ پریشان کن اورپر خطر بن سکتا ہے۔

ہراسانی کی اقسام میں مذہبی ہراسانی/فرقہ واری ہراسانی ,نسلی ہراسانی ,صنفی ہراسانی, جنسی ہراسانی ,جسمانی ہراسانی وغیرہ شامل ہیں۔
جنسی ہراسانی کسی کی جنسی تصاویر ,فحش مواد بھیجنا,جنسی تبصرے ,مزاق یا سوالات کرنا,ناپسندیدہ /غیر ممناسب انداز میں قریب ہونےکی کوشش کرنا وغیرہ۔

کام کی جہگہ پر جنسی ہراسانی کے قانون ایکٹ 2010 کے مطابق ۔ایسا جنسی پیش رفت ,جنسی تعلق کے لۓ کہنا یا کوٸی بھی ایسا زبانی یا تحریری بات جو جنسی نوعیت کی ہو
جنسی طور پر ہراساں کرنے والے لوگ طاقت کا غلط استمعال کرنے والا اور ان میں انسانی ہمدردی کا فقدان ہوتا ہے۔۔

جنسی ہراسانی کے اثرات۔جنسی ہراسانی کا کسی شخص پر نہ صرف
جسمانی اثرات بلکہ نفسیاتی و جزباتی اثرات اور روزگار سے متعلقہ اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔جنسی ہراسانی کا سامنا کرنے والا فرد پر منفی اثرات تو ہوتے ہیں لیکن اگر کسی معاشرے میں اس کے خلاف موثر اقدام نہ کیا جاۓ تو معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جنسی ہراسانی کو نظر انداز کرنے سے جنسی اور صنفی بنیادوں پر تشدد اور جراٸم میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ایسے کلچر کو فروغ مل سکتا ہے جس میں طاقت کے کلچر میں عورتوں ,بچوں ,خواجہ سراٶں اور مذبی ولسانی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا احترام ختم ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں جنسی ہراسانی سے تحفظ کے لۓ قانون کام کی جگہ پر ہراسانی سے خواتین کو تحفظ دینے کا ایکٹ مجریہ 2010 ء
قانون فوجداری ترمیمی ایکٹ 2009 دفعہ 509 مجموعہ تعزیرات پاکستان,
خواجہ سراٶں کے حقوق کے تحفظ کا ایکٹ 2018;
الیکٹرونک کراٸمز کی روک تھام کا ایکٹ2016

جس میں دوسرے کی عزت وقار کو زک پہنچے ,جس کے نتیجے میں اس کے کام میں مداخلت ہو ,اسکی صلاحیت متاثر ہو یا اسکو خطرہ محفوظ ہو یا ایسا ماحول بن جاۓ جہاں وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرے اس میں تعلق سے انکار پر سزا دینے کی کوشش بھی شامل ہے۔جنسی ہراسانی کا شکار کوٸی شخص بھی ہو سکتا ہے ۔یہ ضروری نہی کہ متاثرہ فریق ہراسان کرنے والے کی مخالف جنس کا ہو۔

اج کل ہراسمنٹ کی جو سب سے سخت اور قابل مواخذہ جرمbullying ہے جو ڈاٸریکٹ زبانی گالم گلوچ ی, جھوٹی افواہ پھیلانا یا انٹرنیٹ کے ذریعے نامناسب تصویریں یا نازیبا ہراساں کرنے والے مسیج اور غیر مناسب اور غیر شاٸستہ کمنٹس وغیرہ کرنا شامل ہے ۔مگر اج کل نوجوان نسل اسے سوشل میڈیا کا استمعال کہ کر لوگوں کی عزت اچھالنے سے باز نہی اتے۔ان کو یہ نہی پتہ کہ یہ سب قابل مواخذہ جراٸم أور ہراسگی کے ذمرے میں اتے ہیں۔

صوباٸی محتسب براۓ انسداد ہراسیات ,حکومت خیبر پختنخواہ کے کام کی جہگہ پر ہونے والی جنسی ہراسانی کے بارے میں رہنما کتابچہ سے چنے گۓ الفاظ

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
71866

پاک – افغان حالیہ  تنازعات کی اصل وجہ – غزالی فاروق

Posted on

پاک – افغان حالیہ  تنازعات کی اصل وجہ – غزالی فاروق

پچھلے کچھ عرصے سے ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب  افغان اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان وقتاًفوقتاً  تصادم اور جھڑپیں دیکھنے  کو ملتی رہتی  ہیں۔ ان جھڑپوں میں دونوں ممالک  کے دسیوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔اگست 2021 ء کے وسط میں طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک  کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان حالات میں یہ جاننے کی ضرورت پیدا ہوتی   ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور  کیا اس کے اسباب علاقائی ہیں یا خارجی ہیں؟

 

ان جھڑپوں کا محرک اور دونوں ممالک کے درمیان اس تناؤ  میں اضافے کا بنیادی  سبب امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کی  جانب سے طالبان  پر دباؤ ڈالنا اور انہیں  اشتعال دلانا ہے ۔ جہاں تک امریکہ کی جانب سے  ایسا کرنے کا تعلق ہے  تو  امریکہ   اس بات کو یقینی بناتا ہے  کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔ امریکہ نے   بین الاقوامی طور پر طالبان حکومت کو  تسلیم کرنے کےلیے  بہت سی شرائط رکھیں ہیں، مثال کے طور پر   مٹھی بھر سیکولر لوگوں  اور  امریکہ کے سابق ایجنٹوں کو اقتدار میں شریک کرنا،  عورتوں کے حقوق  اور ان کے بعض  مصنوعی مطالبات  کو پورا کرنا، اور ان کو جواز بنا کر تحریک طالبان پر حملے کرنا۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ  کیے جانے کا مسٔلہ  اب   طالبان حکومت  پر لٹکتی  ہوئی تلوار بن چکا ہے۔

 

اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے  بیرون ملک موجود افغانستان کی رقوم کو منجمد کرنا اور نئی حکومت کو ان اموال سے استفادہ کرنے سے روکنا، بلکہ ان کے کچھ حصے کو  غیر حکومتی طریقے سے خرچ کرنا  یعنی   طالبان حکومت کو کمزور کرنے کےلیے خرچ کرنا، جن میں سے ایک افغانستان میں مغرب سے جڑی سول سوسائٹی کے قیام کا مطالبہ اور اس کی کوششیں شامل ہیں۔ پھر امریکہ  یہ بھی چاہتاہے کہ  ہندوستان  پاکستان کی طرف سے بے فکر ہوکر چین پر توجہ مرکوز رکھے جس کےلیے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں الجھانا ضروری ہے، تا کہ پاک -افغان سرحد   پرامن  نہ ہولیکن پاکستان-  ہندوستان سرحد  پرامن  رہے اور ہندوستان پوری یکسوئی کے ساتھ چین کی طرف متوجہ رہے۔

 

ہم جانتے ہیں کہ امریکہ نے 2020 ء میں قطر کے دار الحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا، جس میں طالبان   نے امارت اسلامی افغانستان کی جانب سے  یہ عہد کیا کہ” امارات افغان سرزمین کو  امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گی،  وہ  افغانستان میں کسی بھی جماعت اور فرد کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کےلیے خطرہ بننے نہیں دے گی، وہ ایسے لوگوں کی بھرتی، تربیت اور فنڈنگ کو روکے گی اوران کی میزبانی نہیں کرے گی” اور یہ کہ”امریکہ اور امارت اسلامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے”۔ اس  معاہدے کے باوجود  افغان سرزمین بدستور امریکی حملوں کی زد میں ہے۔

 

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ پاکستانی حکومت نے  امریکی طیاروں کی افغانستان میں بمباری کےلیے سہولت کاری کی جس کے نتیجہ میں  کابل میں بمباری  کے ذریعے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو قتل کیا گیا۔  امریکہ نےیکم اگست 2022 کو اپنے صدر جو بائیڈن کے ذریعے اعلان کیا، جیسا کہ امریکی انتظامیہ کے آفیشل صفحے پر آیا کہ ” امریکہ نے افغان دار الحکومت کابل میں ایک فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہر مارے گئے۔۔۔” ۔اسی طرح رائٹرز نے رپورٹ کیا: ” طالبان حکومت کےقائم مقام وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نےاتوار  کو کہا کہ  پاکستان نے  افغانستان پر حملوں کےلیے امریکی ڈرون کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، جس کی پاکستان کے وزیر خارجہ  نےتردید کی۔  پاکستانی حکام نے اِس سے قبل اُس ڈرون حملے میں ملوث ہونے یا اس سے متعلق علم ہونے کی تردید کی تھی جس کے متعلق امریکہ نے کہا تھا کہ اس نے جولائی میں کابل میں حملہ اس نے کیا تھا جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارے گئے تھے۔ قائم مقام افغان وزیر دفاع  ملا محمدیعقوب نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ  یہ ڈرونز افغانستان میں پاکستان سے داخل ہوتے تھے۔”( رائٹرز،28 اگست 2022)۔

 

یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ  امریکہ بدستور  اپنی انٹیلی جنس اور جاسوسوں  کے ساتھ افغانستان میں سرگرم ہے، اور  اس کے ایجنٹوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان  بدستور امریکہ کے کنٹرول میں ہے  جہاں سے امریکہ متحرک ہے اور  اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے افغانستان میں اقدامات کر رہا ہے۔ اس طرح یہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں دراصل   امریکہ کی جانب سے اکسانے اور شہ دلانے  پر ہورہی ہیں،  جس کا مقصد  پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحدی تنازعات میں الجھا کر  ہندوستان کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنانا  ہے۔اس کے علاوہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ  طالبان، اور  خاص طور پر  تحریک طالبان میں حقانی نیٹ ورک کو،  جن  سے افغانستان میں امریکی  اور نیٹوفورسز پر متعددحملوں کو منسوب کیا جاتاہے، دباؤ میں لایا جائے۔ اس طرح طالبان کو کچھ بین الاقوامی معاہدوں، یا تصورات، یا   امریکہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا جائے ۔

 

یہاں یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اور بطور ایجنٹ کے اس کے ساتھ مل کر کام کرنے والے اور ان کے پیرو کار ہی  اسلامی سرزمینوں  میں فساد کی جڑ ہیں۔  امریکہ اور اس کے ایجنٹ  کسی مؤمن کے حوالے سے  رشتہ داری کا کوئی لحاظ رکھتے ہیں نہ کسی عہد کا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ﴾ “یہی دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو”(المنافقون، 63:4)۔   اس لیے   یہ حیران کن ہے کہ اس سب کے باوجود  طالبان حکومت  کے عہدہ دار  قطر میں امریکی عہدہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں حلانکہ امریکہ افغانستان اور تمام مسلمانوں کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے اور تاک میں بیٹھا ہوا ہے، یہ کبھی اپنے عہد کو پورا نہیں کرتا،  اس نے افغانستان کے اموال کو منجمد کیا ہوا ہے جو کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور افغانستان  سرزمین اور فضاوں کی حرمت کو پامال کرتا ہے۔ کافر استعماری ممالک کا یہی حال ہے، کفر ایک ہی ملت ہے۔یہ اپنے عہد وپیمان کی پابندی کبھی نہیں کرتے۔

 

مسلمانوں کا معاملہ اسی طرح ہی درست ہو سکتا ہے جیسے پہلے ہوا تھا:  اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام، جو  کفار کو دھتکار دے گی۔ خلافت، جس کا دستور اسلام ہے،  یہ وہ دستور ہے  جو  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت   سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ کوئی انسانوں کا بنایا ہوا دستور نہیں ہے،  جیسا کہ   افغانستان میں  ظاہر شاہ کا 1964ء کا  دستور تھا   جس کی حکومت 1973ء میں ختم ہوئی، اور اس کے دستور کو طالبان نے اختیار کیا جیسا کہ وزیر انصاف نے28 ستمبر 2021 کو اعلان کیا( الجزیرہ، اناتولیہ اوروائس آف امریکہ، 28 ستمبر 2021 )،  یا جیسا دیگر مسلم ممالک کے انسانوں کے بنائے دستور ہیں،  یہ سب اللہ کے حکم کے خلاف ہیں،  ﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ﴾ “اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے فیصلے کیجئے ، ان کی خواہشات کی پیروی مت کریں  اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں  اللہ کے نازل کردہ میں سے بعض کے بارے میں تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں اور اگر یہ منہ موڑ لیں  تو جان لیجئےکہ  اللہ ان کو ان کے بعض گناہوں کی سزا دینا چاہتاہے۔”(المائدہ، 5:49)۔  مسلمانوں کے علاقوں کو جن مصائب اور فتنوں کا سامنا ہے  اور استعماری کفار کی مسلمانوں کی سرزمین پر جو لالچی نظریں لگی ہوئی  ہیں،  اس سب کی وجہ  مسلمانوں کا اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی نہ کرنا  اور نبوت کے طرز پر خلافت کا موجود نہ ہونا ہے،  یہ کوئی نامعلوم بات نہیں بلکہ ہر بصارت اور بصیرت والے عقلمند کو معلوم ہے۔

 

افغانستان اور پاکستان دونوں کو، جن کو  امریکہ باہمی تنازعات میں الجھا رہا ہے، چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی کے جرم کا ادراک کریں، حقیقی دشمنوں امریکہ اور ہندوستان کی چالوں کو سمجھیں جو  ان تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں اور اپنے خبیث مقاصد کے لیے ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دونوں کو چاہیے کہ اپنے برادرانہ  اسلامی تعلقات کو مزید مستحکم کریں ، کفر کے سرغنہ امریکہ اور دوسرے کافر استعماری ریاستوں سے  رابطہ توڑ دیں جو  ہماری سرزمین کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔  دونوں کو چاہیے مل کر ایک ریاست خلافت کا قیام  کریں تاکہ  اسلام اور مسلمان سربلند ہوں اور کفار اور کفر ذلیل ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ “اس دن مؤمن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہی جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے، وہی غالب اور حم کرنے والا ہے۔”(الروم، 5-4)

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
71646

بناوٹی اور حقیقی خوشی ۔ تحریر۔ عاقبہ بتول

Posted on

بناوٹی اور حقیقی خوشی ۔ تحریر۔ عاقبہ بتول

ہم لوگوں نے زندگی کے رہن سہن کو اس قدر مشکل بنا لیا ہے اور بناوٹ کو ضرورت سے کہیں زیادہ اہم کر لیا ہے کہ بس بات بات پر زہنی مسائل کا شکارہو جاتے ہیں ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ہماری کوشش ہوتی کہ بس اب کوئی سکون آور گولیاں ہوں ہم کھا لیں تا کہ سب جھنجٹوں سے جان چھڑا سکیں اور بے شمار لوگ ان دواوں کا ستعمال کرتے ہیں آپ یقین کیجئے کہ ان دواوں کا ستعمال دن بہ دن بڑھ رہاہے اور ہماراموڈ مزاج تو چشم زدن یوں خراب ہوتا ہے جیسے موڈ ہم نے چائینہ کالگوایا ہو برداشت بالکل ناپیدہوگئی ہے ہمارا یہ رویہ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیوں ہے کیوں ہم کسی بڑے کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں اور کسی کی کامیابی وکامرانی سے بھی لوگ حسد کا شکارہو جاتے کیا اللہ کی تقسیم پہ بھی ہمارا اعتقاد نہیں رہا ہمیں بڑے دل سے اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ رب کی دین ہے وہ جسے چاہے نوازے مگر لوگ بلا وجہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں

 

دوسرے کی قابلیت اور طاقت سے پریشانی میں آجاتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ وافرہے انکو بھی چاہیے کہ کسی حساب کتاب سے معاشرے میں چلیں بے جا اسراف سے اور دولت کے دکھاوے سے دوسروں کا جینا مشکل اور حرام نہ کر دیں خاص کر غریب خاندان کی لڑکیوں کی شادیاں جہیز نہ ہونے کے سبب ہو نہیں پاتیں حکمرانوں کو چاہیے کہ جہیز پہ پابندی لگائی جائے یہ کینسر اس غریب اور متوسط طبقے کو پاگل کر دے گا جہیز غریب کی بیٹی کی خوشی کھا گیا ہے متوسط طبقوں سے بیٹی بیاہنے کہ خوف سے مسکراہٹیں چھن گئی ہیں جو لڑکی کم جہیز لے کے جاتی ہے اسکا گھر نہیں بستا سسرال والے اسکی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے جہیز جیسی شے پر حکومت کی طرف سے سخت پابندی ہونی چاہیے اور خلاف ورزی پر بھاری جرمانے تاکہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلوایا جا سکے کہ لڑکیاں خود بھی قیمتی ہوتی ہیں صرف قیمتی چیزیں سامان اور سونا چاندی ساتھ لانے پر ہی انہیں عزت نہ دیں بطور انسان اور گھر کے فرد کی حیثیت سے بھی انکی قدر کرنا سیکھیں

 

ایک بیٹی کی اہمیت کا اندازہ صرف اسکے والدین ہی کو ہوتا ہے کہ وہ کتنی قابل ہیس سسرال میں تو بس وہ شائد کام والی کی حیثیت سے ہی جاتی ہے اس رویے کو بدلنا ہے اپنی بہو کو بھی ویسی ہی اہمیت دیں جیسی بیٹی کو ہے اور پتہ نہیں ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں جس گھر میں لڑکی جہیز نہیں لاتی بعض اوقات ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ محلے دار اور معاشرے والے منہ جوڑجوڑ کہانیاں گھڑنے لگتے ہیں اور اس طرح بھی گھرٹوٹنے لگتے ہیں اور والدین بیاہنے کہ بعد پھر بیٹی کو بسانے میں لگ جاتے ہیں اور کیا ہی بہترہو کہ ہم دوسروں کو دیکھنے کی بجائے انکی خامیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی اصلاح پہ توجہ دیں بیشک لوگ دکھاوا کرنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں جب تعلیم اور تربیت کی کمی ہوگی اور کوئی ہنر کوئی خوبی نہیں ہوگی اور صرف جیب میں پیسہ ہی پیسہ ہوگا تو پھر انسان اسی کا دکھاوا کرے گا مطلب کہ جس کے پاس جو چیزہوگی وہ اسکا ہی دکھاوا کرے گا لہذا اپنی خوشیوں کو دل سے خوش ہو کر منائیں دوسروں کے رحم و کرم پہ نہ چھوڑیں دوہرے معیار سے خدارا باہر نکلیں اپنے اور دوسروں کے لیے مخلص رہیں.

 

ان بناوٹی اور دیکھا دیکھی کی چمک دمک میں مت پڑیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں تاکہ آپکی وجہ سے کوئی دوسرا احساس کمتری میں مبتلا نہ ھوجا ئے آپ کے اس احسن اقدام سے نہ صرف آپ کے لیے آسانیاں پیدا ہونگی بلکہ دوسروں کے لیے بھی آپ مشعل راہ کا کام کریں گے اور بناوٹ جیسے مرض سے ہمیں جس قدرہو سکے بچنا چاھیئے تاکہ ہم اپنی اصل کو پہچان سکیں حقیقی خوشی باعث سکون قلب میں ہوتی ہے جھوٹی بیکار اور دکھاوے کی مسرت سوائے پریشانی کے کچھ نہیں دیتی ہیں لہذا خود کو پہچانیں اور بطور انسان اپنے حصے کی حقیقی دلی اور دماغی خوشیاں سمیٹیں۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
71467

نوائے سُرود –  تقلیدی رویہ اور ہماری پہچان – شہزادی کوثر

Posted on

نوائے سُرود –  تقلیدی رویہ اور ہماری پہچان – شہزادی کوثر

ابن آدم فطری طور پر تقلید کا پابند ہے ۔بچپن میں مختلف آوازیں سن کر انہیں اپنے طور پر ادا کرنے کی کوشش ہی اس کی تقلیدی فطرت کی غمازی کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے ۔اس ضمن میں سب سے پہلے سماعت سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بصارت جو مشاہدہ کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتی ہے، دوسروں کو کرتا ہوا دیکھ کر ان جیسا کرنا تقلیدی روش ہے جو بعض اوقات فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ سیکھنے کے عمل میں قوت مشاہدہ بہت مدد دیتی ہے، اس سے وقت اور توانائی دونوں کی بچت ہوتی ہے لیکن مشاہداتی عمل اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب اپنی تخلیقی صلاحیتوں کوبھی بروئے لایا جائے ورنہ وہ سوائے تقلید و نقل کے کوئی اور نتیجہ سامنے نہیں لاتا۔ اگر انفرادی سطح تک تقلیدی عمل کی کارفرمائی ہو تو نقصان اتنا نہیں ہوتا جتنا اجتماعی سطح پر تقلید برباد کرتی ہے ،بد قسمتی سے ہمارا چلن تقلیدی رہا ہے یعنی اندھی تقلید والا چلن۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہم بحثیت قوم اپنی قومی شناخت برقرار رکھنے میں ناکام ہو تے جا رہے ہیں ،ہم ان روایات کو بھول چکے ہیں جنھیں اپنا کر ہم اپنا تشخص برقرار رکھ سکتے ہیں ۔ ہر معاشرہ تہذیبی و ثقافتی طورپر اپنی کچھ اقداررکھتا ہے جو اس کی شناخت کا ذریعہ ہوتی ہیں ،المیہ یہ ہے کہ اقدار کے معاملے میں بھی ہماری حیثیت پیچھے رہ جانے والوں کی ہی رہی ہے ،دوسروں کی دیکھا دیکھی زندگی گزارنے کا طریقہ اور تقلید کی روش نے ہمیں وہاں پہنچایا ہے جہاں ہم اپنے ہی خدوخال کو پہچاننے سے عاری ہو گئے ہیں یہ کیفیت “غلامی ” کہلاتی ہے جو تہذیبی، معاشرتی، ذہنی اور اخلاقی انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اس زمین پر مختلف رنگ ، نسل اور قوموں کے لوگ بستے ہیں ، جن میں سے ہر ایک علاقائی، جغرافیائی اور معاشرتی تقاضوں کی وجہ سے دوسرے سے مختلف ہے ،ان کے علاوہ مذہبی ،قانونی اور اخلاقی تقاضے بھی ہیں جن کی بنا پر زندگی کے اصول مرتب ہوتے ہیں اور ان پر عمل کیا جاتا ہے ۔ضروری نہیں کہ ہر اصول کو قانونی شکل دے کر ہی قابل عمل بنایا جائے بلکہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے کچھ غیر تحریری اصول بھی ہوتے ہیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر قابل عمل ہوتے ہیں ۔

 

ان تمام قوانین اور اصولوں کو پس پشت ڈال کردوسرے معاشرے اور تہذیب کے تقاضوں کو اپنانے سے سوائے اپنی پہچان گنوانے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جب ایسے لوگوں پر نظر پڑتی ہے تو ان کی ذہنی حالت اور سوچ پر رحم آتا ہے کہ بنا سوچے سمجھے دوسروں جیسا بننے کی آرزوانہیں کتنا حقیر بنا رہی ہے لیکن انہیں اس کا اندازہ ہی نہیں ۔ تقلیدی تہواروں کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے جن میں سے ایک “ویلنٹائن ڈے”ہے جس کی تیاریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔اس دن کے پس منظر اور تاریخ سے بے خبرنوجوان محبت کے نام پر تہوار مناتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔ محبت ایک پاکیزہ اور خوبصورت جذبے کا نام ہے ،جو مختلف رنگوں میں ہمارے رگ و پے میں موجود ہے اور اپنی خوشبو سے ہماری زندگی کو معطر بناتا ہے اگر اس میں ملاوٹ کرتے ہوئےناجائز تعلق کی آمیزش کی جائے تو اس سے خوشبو کی لپٹیں نہیں بلکہ تعفن کے بھبکے اڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

 

ہر ذی شعور اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے خرافات اور فحاشی کے اعلانیہ اظہار کا نام ہے ،غیر مسلموں کے اس تہوار/ دن کو منانے والے مشرقی اقدار کی پامالی کے ساتھ اسلامی احکامات کو بھی ہوا میں اڑا دیتے ہیں جس سے فحاشی اور بد اخلاقی عام ہو کر معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ایسے ہر تہوار کی بھر پور حوصلہ شکنی ہونی چاہئیے۔ گھروں سے لے کر تعلیمی اداروں اور معاشرتی سطح پر اس کے خلاف لائحہ عمل مرتب ہونا چاہیئے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم غیروں کے رنگ میں رنگ کر اپنی پہچان ہی نہ کھو دیں ۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
71465

خواتین اور پر تشدد رویے۔ تحریر ۔ ڈاکٹر رضوانہ جعفری

Posted on

خواتین اور پر تشدد رویے۔ تحریر ۔ ڈاکٹر رضوانہ جعفری

آجکل ہر دوسرا بندہ ڈپریشن کا شکار نظر آتا ہے تو دوسری طرف معاشرے میں ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور پر تشدد رویے بھی باعث تشویش ہیں بلخصوص ایسی خواتین جو خاموشی سے ظلم سہتی رہتی ہیں اور بدنامی کے ڈر سے سامنے نہیں آتی انہی خواتین کے لیے حکومت نے سرکاری محکموں سمیت کام کرنے کے مقامات پر انسداد ہراسگی کے لئے اقدامات کو موثر بنایادیا ہے اب ہراسگی میں ملوث ملزمان کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جاسکتاہے ہراسگی کے مقدمات میں حق و انصاف پر مبنی فیصلوں کے ساتھ ساتھ معاشرے میں وسیع پیمانے پر شعوری آگاہی کی ترویج ضروری ہے تاکہ ایسے حالات کا قلع قمع کیا جاسکے جو پر تشدد رویوں کو جنم دیتے ہیں اس ضمن میں سول سوسائٹی، وکلاء کی تنظمیوں، میڈیا آرگنائزیشن، سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو آگے بڑھ کر خواتین کاساتھ دینا ہوگا تاکہ مل جل کر کثیر الجہتی اقدامات کے ذریعے معاشرے سے ہراسگی اور تشدد آمیز رویوں کا خاتمہ کیا جاسکے

 

جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا تھا ڈپریشن کا جو مسائل کا منبہ ہے حد سے زیادہ بے چین عموما لوگ ہمارے ہاں دکھی ہونے کو ڈپریشن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور بہت سے لوگ ہلکے سے دکھ کو بھی ڈپریشن کہنا شروع کر دیتے ہیں مگر وہ دکھ ڈپریشن نہیں فقط پریشانی ہوتی ہے اسی طرح تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ باقاعدگی کیساتھ ہفتے میں ایک دن ورزش کرنے سے آپ مستقبل میں ڈپریشن سے بچ سکتے ہیں گیارہ سال تک 33 ہزار لوگوں پہ کی گئی تحقیق کے بعد محققین اس نتیجے پہ پہنچے تھے کہ اگر  تحقیق کا حصہ بننے والے لوگ ہفتے میں ایک دن محض ایک گھنٹہ کسی بھی طرح کی ورزش کر لیتے تو ان کا 12% ڈپریشن سے بچ سکتا تھا یاد رہے یہ لوگ پھر بھی انزائٹی کا شکار ہو سکتے ہیں ڈپریشن اور انزائٹی دو الگ الگ چیزیں ہیں ڈپریشن ایک بہت برے احساس کا نام ہے جس سے گزرنا اذیت سے کم نہیں اسی طرح ڈپریشن اور انزائٹی بہت نزدیکی تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں بہت بڑا فرق ہے جیسا کہ ڈپریشن یہ ہے کہ آپ ناامید ہو جائیں اپنے نزدیک خود کی وقعت کھو دیں اور کوشش کرنا وقت کا ضیاع سمجھیں جبکہ انزائٹی یہ ہے کہ آپ حد سے زیادہ پریشان رہیں بہت زیادہ سوچنا شروع کردیں اور لوگوں سے کترانے لگیں اور پھر خودکشی کی سوچ دونوں میں آنے لگتی ہے

 

پہلے جملے کی سادہ سی تشریح یہ ہے کہ جو لوگ ڈپریشن جیسے تلخ احساس سے گزرتے ہیں تو وہ کسی بھی کام پہ توجہ نہیں دے پاتے وہ دکھی نہیں ہوتے مگر ان کا دل کسی ایسے خوف میں مبتلا رہتا ہے جو ان کو زندگی میں کوئی مقصد نہیں دکھاتا ان کا دل کسی بھی چیز میں نہیں لگتا بلکہ ان کی سوئی ایک ہی منفی خیال پہ اٹک کر رہ جاتی ہے وہ خیال ان کے ذہن میں ہر وقت گھومتا رہتا ہے اور وہ زندگی کو بے معنی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ان کا دل کہیں نہیں لگتا ایسے میں اگر آپ ڈپریشن میں ہیں؟ بہت پریشان ہیں؟ تو درج ذیل روٹین کو فالو کرنے کی کوشش کریں جب سو کر اٹھیں تو سب سے پہلے اپنا بستر خود ٹھیک کریں  اگر آپ مرد ہیں تو اپنے بال کٹوائیں اور شیو بنوائیں گندے لباس کی بجائے صاف لباس پہنیں   اگر دو ہی سوٹ ہیں تو روزانہ دھو کر صاف لباس پہنیں کچھ دنوں تک ان تین کاموں کی روٹین بنائے رکھیں پھر کچھ مزید کام کرنا شروع کریں جیسا کہ سوکر اٹھنے کے بعد شاور ضرور لیں روزانہ رات کو سونے کا اور صبح جاگنے کا وقت سیٹ کریں اور اس پر عمل کریں

 

کھانا چاہے ایک نوالہ کھائیں مگر وقت پہ کھائیں ایک کتاب اور ڈائری لیں کتاب کا ایک صفحہ روزانہ پڑھیں اور ڈائری میں روز اپنی ایک اچھی بات نوٹ کریں وہ بات جو آپ کو خود بہت پسند ہے اگر کچھ بھی پسند نہیں ہے تو آپکا دماغ آپ سے جھوٹ بول رہا ہے کوشش کریں یہ آپ کو سچ بتائے پانی زیادہ سے زیادہ پئیں کوئی فزیکل گیم یا مشقت شروع کریں یاد رہے! روٹین لائف ڈپریشن سے نکلنے کی طرف اٹھا پہلا قدم ہے کیونکہ ڈپریشن ہمارے دماغ کے اس حصے کو متاثر کرتا ہے جو کہ روٹین کو سیٹ کرتا ہے جب ہم ڈپریشن میں جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہی حصہ متاثر ہوتا ہے اگر آپ ڈپریشن کی جڑ کو پکڑیں گے تو کچھ ہی عرصہ میں آپ بہت بہتر حالت میں آ جائیں گے لیکن آپ یہ کام ایک ہی دن میں اچیو نہیں کر سکتے بعض لوگوں کو ہفتے اور بعض کو مہینے لگ سکتے ہیں پھر جا کے یہ جنگ وہ جیت پاتے ہیں لیکن! ہر چھوٹی موٹی پریشانی ڈپریشن ہرگز نہیں ہے مگر ہم اسے ڈپریشن سمجھ بیٹھتے ہیں اسے ڈپریشن مت سمجھیں اور اس پریشانی میں بھی اسی روٹین کو ہی فالو کریں یہ ایک سادہ سا کلیہ ہے جو تمام سائیکالوجسٹ پریشانیوں میں گھرے کسی بھی شخص کو بتاتے ہیں کیونکہ اونٹ کو نکیل ڈالنے کے لئے اس پہ عمل کرنا بہت ضروری ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
71291

ماں تجھے سلام – گل عدن چترال

ماں تجھے سلام – گل عدن چترال

ہم مڈل کلاس گھرانوں میں ایک ہستی ایسی ہوتی ہے جو گھر کہ تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھائے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض ایسے مگن ہوکر نبھاتی ہے کہ اسے اپنے حقوق یاد بھی نہیں رہتے۔ایسا لگتا ہے وہ اس زمین پر صرف ہماری دیکھ بھال کی خاطر اتاری گئی ہے ۔گھر میں کچھ اونچ نیچ ہوجائے،گھر کا کوئی نقصان ہوجائے اس سب کی قصور وار بھی یہی ہستی ٹھرایی جاتی ہے۔ہر کام وقت پر کرنا اور ہر ایک کی ہر ضرورت پوری کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے ۔یہ ہستی پاک کلام میں ماں کہلاتی ہے ۔ماں مشرق کی ہو یا مغرب کی، اپر کلاس کی ہو یا مڈل کلاس وہ یکساں قدر اور اہمیت رکھتی ہے یکساں جذبات رکھتی ہے اور کم و بیش ایک ہی طرح کی حالات اور آزمائشیوں سے گزرتی ہے مگر پھر بھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مڈل کلاس گھرانوں میں ماؤں کو سب سے زیادہ تکالیف اور بے قدری برداشت کرنا پڑتی ہے۔اسلئے میں یہ تحریر اپنے معاشرے میں موجود ستر فیصد ماؤں کے نام لکھ رہی ہوں۔وہ ماں جو گھر کو گھر بنانے کی ہر ایک جتن کرتی ہے مگر اسکے بچوں کا باپ اس سے کھبی خوش نہیں ہوتا ۔مڈل کلاس گھر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ‘باپ ‘ کی عزت اور فرماں برداری سکھاتی ہے مگر باپ اپنی اولاد کو ماں کی عزت کروانے کا حوصلہ یا ظرف نہیں رکھتا اسی وجہ سے اولاد بھول جاتی ہے کہ جس ماں نے باپ کی عزت کرنا سکھایا ہے اس ماں کا بھی عزت اور ادب پر اتنا ہی حق ہے جتنا باپ کا ۔

 

اسلئے جسطرح بعض اوقات والدین اولاد میں تفریق کرتے ہیں اسی طرح کے گھروں میں اولاد بھی والدین کے درمیان تفریق کرتی ہیں۔۔ اکثر گھروں میں اولاد باپ کے سامنے تو ٹھیک رہتی ہیں مگر ماں کے ساتھ انتہائی بدتمیزی اور بداخلاقی سے پیش آتی ہیں ۔ ماں اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اولاد کی کوتاہیوں، نافرمانیوں اور گستاخیوں کو ہر بار معاف کردیتی ہے اور اولاد اس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے نہیں تھکتی۔ماں کا مقام تو یہ ہے کہ اسکے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے مگر آج ماں اولاد کے قدموں پر بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔بعض اوقات مجھے بہت ہنسی آتی ہے کہ ایک ساس بہو کے جھگڑے کا تو گھر گھر چڑچا ہو رہا ہوتا ہے مگر اپنے ہی اولاد خاص طور پر بیٹیوں کے ہاتھ بے قدری کا شکار ماں کا کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی شاید اس لئے کہ مائیں بیٹیوں کے رازدار ہوتی ہیں ۔ایک اور چیز جسکا ہم رونا روتے رہتے ہیں کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن سنگدلی کی انتہا کہیئے یا بدقسمتی کی کہ ہمیں والدین کی قدر و قیمت کا پتہ بھی انہیں کھونے کے بعد چلتا ہے ۔

 

اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ کتابیں انٹرنیٹ سوشل میڈیا والدین سے اظہار محبت پر مبنی درد بھری اشعار، مضامین ، نثروں اور نظموں سے بھری پڑی ہیں۔ان تحاریر اور اشعار میں ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان اشعار کا 90 فیصد حصہ والدین خاص طور پر ماں سے محرومی کے بعد لکھی گئی ہیں ۔کیا ہمیشہ ماں کی بے لوث محبت، خدمت ،محنت اور تھکن کا صلہ اسکے مرنے کے بعد ایک آہ، ایک شعر ایک مضمون یا دو ٹکے کے آنسو ہی ہوں گے؟؟کیوں؟اور کب تک؟؟ یہ درست ہے کہ اپنی زندگی میں اپنی قدر کروانا بھی والدین کو ہی ہمیں سکھانا پڑتا ہے اور ہمیں سکھایا جانا چاہیے کہ بہترین تربیت اولاد کا حق ہے لیکن اگر محبت کے ہاتھوں مجبور ماؤں نے ہمیں بگاڑا بھی ہے تو ایک لمحے کو سوچئے سمجھئے اور فیصلہ کیجئے وہ تمام اولادیں خاص طور پر بیٹیاں کہ اگر ماں نے خود کو آپکے ہاتھوں کھلونا بنا بھی لیا ہے تو کیا ماں کھلونا ہوتی ہے؟ اگر ماں نے اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر دم سب کو خوش رکھنے کے لئے خود کو ‘روبوٹ ‘بنا بھی دیا ہے تو کیا ماں کو ” روبوٹ ” تسلیم کر لینا چاہیے؟ ضرورت، خواہش، خوشی غم ہر جذبے اور احساس سے بے نیاز ،ہر وقت ہر حکم بجا لانے والی “روبوٹ “۔۔میں اس تحریر کے ذریعے بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ماں “روبوٹ ” نہیں ہوتی ۔ماں کٹھ پتلی نہیں ہوتی ۔ماں کھلونا نہیں ہوتی ۔

 

اسلئے میرے عظیم بہن بھائیوں ۔ماں اور باپ کا نام جتنا استعمال کرتے ہو اسکا حق بھی ادا کرنا سیکھو بس۔ورنہ ماں باپ کے مرنے کے بعد روپیہ پیسہ زیور زمین تو آپکے ہاتھوں میں ہی رہ جائیں گے لیکن سچے دل سے مانگی گئی دعائیں دوبارہ نصیب نہیں ہوں گی۔ اور کائنات کی سب سے مہنگی چیز ” بے غرض دعا “ہے جو صرف والدین اپنی اولاد کے لئے کرتے ہیں ۔ماں باپ سے محرومی “دعا “سے محرومی ہے باقی تو دنیا کا کاروبار چلتا ہی رہتا ہے ۔۔میں اپنی طرف سے اس نئے سال 2023 کو ہر ایک “ماں ” کے نام کرتی ہوں ۔اور خاص طور پر ان تمام ماؤں کو سلام پیش کرتی ہوں جو اپنے ہی اولاد کے ہاتھوں ستائی ہوئی ہیں، جو اپنا دکھ سینے میں لئے اس دنیا سے چلی جاتی ہیں اور انکے دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔اور بے شک اللہ ہی کافی ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
70941

ذرا سوچئے – تبخيری دم یا ایٹم بم – ہما حیات

 ذرا سوچئے – تبخيری دم یا ایٹم بم – ہما حیات

صبح سے شام تک آپ آسمان میں کتنی دفعہ سفید بادلوں کی لکیر دیکھتے ہیں جو کچھ ہی دیر بعد فضا میں جذب ہو کر غائب ہو جاتی ہیں؟ میری نظر بھی اسمان پر بنے ایسے ہی بادلوں کی سفید لائن پر پڑی جو انگریزی حرف ایکس کی شکل میں تھا۔ کمسٹری کی طالبہ ہونے کی حیثیت سے یہ مجھے ایکس کم اور خطرے کا نشان زیادہ محسوس ہو رہا تھا اور میں اس ایکس کے بیچ میں اپنی کھوپڑی تصور کر رہی تھی۔

chitraltimes flights over chitral

در اصل آسمان پر بننے والے ان سفید لائن کو تبخیری دم یا تکاثفی دنبلہ کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے کونٹریلز کہتے ہیں۔ یہ جیٹ انجن سے نکلنے والے ابی بخارات کی وجہ سے بنتا ہے۔ اب اگر میں اس کے بننے کے عمل کو بیان کرنے بیٹھ جاؤں تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ ہوائی جہاز سے نکلنے والے صرف ابی بخارات نہیں ہوتے بلکہ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر اکسائیڈ، نائیٹروجن اکسائیڈ، کاربن مونو اکسائیڈ، ہائڈرو کاربن جیسے گیسیز کا اخراج بھی ہو تا ہے۔ پہلے پہل تو ان کونٹریلز کو بے ضرر سمجھا جاتا تھا لیکن نئی تحقیق کے مطابق یہ انسانی صحت کے لیے بے حد مضر ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے خارج ہونے والا کاربن ڈائی اکسائیڈ اور دیگر اکسائیڈز گرین ہاؤس گیسیز بننے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور اسے ہم ماحولیاتی تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔

بہرحال ترقی یافتہ ممالک جیسے چائنہ اور دیگر ممالک کہ جن میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، ماحولیاتی تبدیلی میں بھی ان کا تعاون زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں ہم ماحولیاتی تبدیلی کے کم ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ ہم کم سے کم بھی ذمہ دار نہ ہوں لیکن حال ہی میں افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے ان جہازوں کا انٹرنیشنل روٹ بھی چترال کے اوپر سے گزر رہا ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیرز کو نقصان پہنچ رہا ہے جو پہلے سے ہی خستہ حال ہیں۔ اب ان گلیشیرز کے پگھلنے سے ہمارے اوپر کیا اثر پڑتا ہے یہ اپ بخوبی جانتے ہیں۔ نہ صرف چترال بلکہ پورے خیبر پختونخواہ، جنوبی پنجاب اور سندھ بھی اس کے زیر اثر آجاتے ہیں۔ ملک کا ادھا حصہ تباہ ہو جاتا ہے اور اس تباہی سے نکلنے میں ہمیں کتنا وقت لگتا ہے اور ہماری معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا حساب اپ خود لگا لیں۔ ماحولیاتی تبدیلی پر میں پہلے بھی بات کر چکی ہوں لیکن اس بار لگتا ہے کہ یہ جہازہمارے اوپر آبی بخارات نہیں بلکہ ہمارے گلیشیرز پر ایٹم بم گرا رہی ہے۔ اس لیے ان ساری باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان پروازوں کے روٹ کو تبدیل کرے اور ان گلیشیرز کو تحفظ فراہم کرے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ذرا سوچئے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس قدر خطرات میں گھیر جائیں کہ ان کی نشاندہی کرنے کے لیے ہماری کھوپڑیاں کم پڑ جائیں۔

chitraltimes flights over chitral space 18 scaled

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
70068

پاکستان کا مفاد پر ستانہ طرز حکومت – تحریر:تقدیرہ خان

Posted on

پاکستان کا مفاد پر ستانہ طرز حکومت – تحریر:تقدیرہ خان

یہ سوال بلا شبہ بلین ڈالر کا ہے کہ آخر کا ر پاکستان میں جاری نظام حکومت کیا ہے؟ جب سے یہ کائنات بنی ہے اور اس کے ایک حصے یعنی زمین پر معاشرتی قدرتی نظام قائم ہوا ہے تب ہی سے حکومت اور حکمرانی کے علاوہ قوانین کا نفاذ بھی عمل میں آگیا۔ اسی ابتدائی معاشرے سے قبیلے بنے اور ضروریات، خواہشات اور مفادات کے پیش نظر پیشے اختیار کیے گئے۔ انسانی زندگی میں ارتقائی عمل جاری رہا اور مختلف تاریخی اور تہذیبی ادوار میں حکومت، حکمرانی اور قوانین کی جہتیں بدلتی رہیں۔ قبائلی نظام حکومت میں سرداری نظام وضع ہوا تو قبائل نے اپنے عقیدے، رسم ورواج، روایات اور علاقائی تحفظ و آذادی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قوانین بنائے۔قوانین بنانے والے افراد کو مجلس، پنچائیت یا جرگے کا نام دیاگیا جو اس بات کویقینی بناتا تھا کہ قبیلے کے ہر فرد کی عزت، جان و مال کی حفاظت کو اولیت دی جائے۔ حقوق و فرائض کے علاوہ عدل و آزادی اور زندگی کی دیگر ضروریات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

ابتدائی قبائلی نظام کی بنیاد پر ریاست کا وجود قائم ہوا تو ریاستی امور چلانے والی حکومت نے عوام کے تحفظ، آزادی، خوشحالی اور دیگر ضروری امور کے پیش نظر عدل و اعتدال اور مساوات کو یقینی بنانے کے لیے قوانین وضع کیے۔ عوامی خواہشات اور ضروریات کے علاوہ شخصی واجتماعی آزادی کیلئے بنائے گئے قوانین کو تحریری شکل دی جسے آئین کا نام دیا گیا۔تاریخ کی غلط تشریح کرنیو الوں نے مدنی معاشرے اور ریاست کی جو تشریح کی ہے وہ نہ صرف غلط اور بے بنیاد ہے بلکہ کسی بھی لحاظ اپنے مقاصدپور ے نہیں کرتی۔قبیلے، معاشرے او رریاست کا وجود وہیں قائم ہوتا ہے جہاں انسان بستے ہوں اور وہ کسی بھی لحاظ سے وحشی، اُجڈ،خونخواراورحیوانوں جیسی زندگی کے عادی نہ ہوں۔قرآنی تاریخ کے مطابق ابتدائی انسانی معاشرے کا قیا م پیدائش آدم ؑو حوا ؓ سے ہوا اور پھر اُن ہی کی اولاد نے قبائلی اور ریاستی نظام قائم کیا۔تحریر آئین اور ابتدائی معائدہ عمرانی کا آغاز خالق اور مخلوق کے درمیان ہوا جب اللہ نے آدم ؑ اور اولاد آدمؑ کی رہنمائی کیلئے گیارہ صدیوں پر محیط عرصہ میں چھ صحیفے نازل کئیے۔

قرآنی بیان کے مطابق ابتدائی انسانی معاشرہ مکہ کی سرزمین پر قائم ہوا اور دنیا کی پہلی آئینی اور پالیمانی ریاست بھی مکہ میں ہی قائم ہوئی۔طوفان نوح ؑ کے بعد ایک نیا معاشرہ اور ریاست وجود میں آئی مگر یونانی، ایرنی، ہندی، چینی، مصری اور رومن تہذیبوں سے ہزاروں سال پہلے ریاست مکہ کا وجود قائم ہو چکا تھا۔

تاریخی اور تہذیبی ادوار سے لے کر دور حاظر کے اوصاف حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو سرداری نظام کے بعد بادشاہی نظام قائم ہوا جو آج تک جاری ہے۔اس کے علاوہ جمہوری اور پالیمانی دور کا آغاز ہوا جس کی بنیاد افکار و نظریات کے اصولوں پر رکھی گئی۔وہ سیاسی نظریات جن میں ظلم و جبر اور معاشرتی و معاشی استحصال کے علاوہ پالیمانی جبر تھابتدریج اصلاح کی طرف مائل ہوئے۔ اگرچہ ارسطو، میکاولی، کوتیلیہ چانکیا اور کارل مارکس کے خیالات اور نظریات کی جھلک جدید جمہوری اصولوں اور نظریات میں بھی دکھلائی دیتی ہے مگر معائدہ عمرانی کی بنیاد عدل و اعتدال پر ہی تصور ہوتی ہے۔ نظام حکومت جو بھی ہو ریاست کا وجود عدل ااعتدال کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔اس کی بڑی وجہ معائدہ عمرانی میں وضح کردہ اصولوں سے انحراف اور اخلاقی اقتدار اور اچھی روایات کا خاتمہ ہے۔اگر چہ جدید ترقی یافتہ معاشروں اور ریاستوں میں شخصی آذادی کی آڑ میں بے راہ روی اور جنس پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے مگر ان معاشروں میں عدل و اعتدال کے اصولوں پرکوئی سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ بر طانیہ میں پالیمانی جمہوری نظام ہے اور ہر شخص کو اپنے حقوق و فرائض سے مکمل آگاہی ہے۔عدل و مساوات اور معاشرتی اعتدال حکومت کا اوّلین فرض ہے اور کوئی بھی حکومت یا حکمران اس سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ امریکہ، روس، چین اور دیگر ممالک جن میں سعودی عرب اور عرب ریاستیں شامل ہیں صدارتی اور بادشاہی نظام حکومت کے باوجود عوام کی فلاح و بہبود اور قانون کی حکمران سے انحراف کا کوئی تصور نہیں۔بھارت مکمل چانکیائی ریاست ہونے کے باوجود ہندو دھرم پر گامزن ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی اور اقلیتوں پر وحشیانہ ظلم و جبر کے باوجود بھارت ہندووں کی جنت ہے۔

ایرانی اسلامی انقلاب کے خلاف ساری دنیا متحد اور یکجا ہونے کے باوجود اس کا خاتمہ کر نے میں ناکام ہے۔ ہوسکتاہے کہ ایرانی قیادت اسلام کے اصولوں کے مطابق اصلاحات کی برکت سے عالمی قوتوں کے مخالفانہ رویے کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے۔1747سے لے کر تاحال افغانستان عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ باوجود اس کے کوئی بھی سیاسی نظریہ اور نظام افغانوں کی روایات کا خاتمہ نہیں کر سکا۔آج افغانستان سفارتی لحاظ سے تنہا ہونے کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔غربت، تنگ دستی، لا قانونیت،عدم تحفظ اور عدم استحکام کی جو فضاء پاکستان میں قائم ہے وہ افغانستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں۔معاشرتی ابتری،معا شی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام اور آئین کی پامالی کی بنیادی وجہ مافیائی طرز حکمرانی، خاندانی مفاداتی، استحصالی اور جبری جمہوری نظام اور ادارہ جاتی اصلاحات کا فقدان ہے۔

 

آئین میں لکھے کسی بھی اصول، قانون اور ضابطے پر عمل نہیں ہوتا بلکہ مفاداتی اصولوں کے پیش نظر آئین کی تشریح کی جاتی ہے۔اس تشریح کے نتیجے میں جو قوانین لا گو کئے جاتے ہیں اُن سے وہی لوگ مستفیض ہوتے ہیں جو آئین شکنی کے ماہر ہیں۔ ارشد شریف کے قتل اور سابق وزیراعظم پر قاتلانہ حملے کی FIRدرج نہ ہونا،حکومتی اتحادی جماعتوں کے مقدمات کا خاتمہ، کرپشن کو قانونی تحفظ فرہم کرنا اور اعظم سواتی کے خلاف ملک بھر میں مقدمات سے لے کر وزیر اعظم آذاد کشمیر کی کمرشل پراپرٹی سیل کرنے جیسے اقدامات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔میاں نواز شریف کا جیل سے عدالتی حکم پر بیرون ملک علاج کے بہانے فرارعالمی عدالتی تاریخ کی واحد مثال ہے۔ بیان کر دہ حقائق اور تاریخی و تمدنی واقعات سے کوئی بھی سیاسی دانشور انکار نہیں کر سکتا اور نہ ہی پاکستان میں جاری حکومتی نظام کو اسلامی، جمہوری، آئینی، اخلاقی اور عدل و اعتدال پرمبنی کوئی نظام قرار دے سکتاہے۔ میرا تاریخ، سیاسیات، اخلاقیات اور عقائد و نظریات کے مبلغین، محقیقین اور ماہرین سے سوال ہے کہ آخر ہم کس نظام کے تحت زندہ ہیں اور کب تک زندہ رہیں گے۔کیا اس نظام حکمرانی کا کوئی نام بھی ہے یا پھر ہم ایک بے نام نظام حکمرانی کی نحوست کا شکا ر ہوکر صفح ہستی سے ہی مٹ جانے والے ہیں۔ کیا ہمارا شمار ان اقوام میں ہونے والا ہے جو اپنے اعمال کے نتیجے میں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ آخر کوئی ہے جو اس کا جواب دے سکے؟؟؟

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
70122

نئی سیاست اور نئی ریاست – غزالی فاروق 

Posted on

نئی سیاست اور نئی ریاست – غزالی فاروق 

گزشتہ چند سالوں  میں معاشی ابتری کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کی مشکلات ومصائب میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔  ساتھ ہی ساتھ  سیاسی افراتفری ،عدم استحکام اور گورننس کی ناکامی بھی بڑھتی جا رہی  ہے ۔ پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے عوام کو درپیش مسائل  سےلاتعلق نظر آتے ہیں ، مسائل کے حل میں ان کی عدم دلچسپی  واضح ہے  بلکہ  ریاست  تو گویا غائب ہے  یا اس کا وجود ہی موجود نہیں، جس کے نتیجے میں عوام کی  مشکلات شدید تر ہو چکی ہیں۔

 

آج پاکستان کا سیاسی طور پر مفلوج ہونااورعدم استحکام  اُس ناکام طرزِسیاست کا براہ راست نتیجہ ہے، جو حکمران  طبقہ  کا خاصہ ہے۔  پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنی طرزِ سیاست میں سیاست کے متعلق مغرب کے تصور سے متاثر ہیں،نتیجتاً ان کی سیاسی کوششوں کا تمام تر محور ہر قیمت پر اقتدار کا حصول اور حکومتی سیاستدانوں، جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ سویلین بالادستی، قانون کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی جیسے نعروں کے نام پر کی جانے والی یہ  سیاست،جرنیلوں ، سیاست دانوں اور ججوں کے مفادات کو پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے جو طاقت کے حصول اور ملکی وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے آپس میں گتھم گتھا  ہیں۔یہ  سیاسی سودے  بازی کرنے، مغربی مفادات اور بین الاقوامی اداروں کی خدمت کرنے اور ایسے قوانین منظور کرانے کی سیاست ہے، جس کے نتیجے میں جرنیلوں، سیاست دانوں اور ججوں کی مدتِ ملازمت   یا اقتدارمیں توسیع  ہویا ان کو ملنے والی  مراعات میں اضافہ ہو، اور سیاسی جماعتوں کے وفاداروں اور ان کی  مالی معاونت کرنے والوں کو نوازا جائے۔ پاکستان کے مسلمانوں کی بدحالی کو ختم کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی آپشن  نہیں کہ موجودہ سیاست، جوطاقت و اقتدار کی ہوس کی بنیاد پر کھڑی ہے، کو مکمل طور پر مسترد کردیا جائے اور اسلام پر مبنی نئی سیاست کو اپنایا جائے۔

 

پاکستان کو ایک نئی سیاست کی ضرورت ہے جس کا محور و مرکز  عوام کے امور کی دیکھ بھال ہو۔ ایک ایسی سیاست جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر مبنی ہو ، جس میں حکمران قرآن  اور سنت نبویﷺ سے اخذ کردہ احکامات کو نافذ کریں، اور  امت اسلام کے نفاذ میں کوتاہی پر حکمران  کا کڑا احتساب کرے۔ ایسی سیاست جو امت کے مفادات کو اسلامی شریعت کی روشنی میں دیکھے اور جو امت کو کافر استعمار کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔ ایک ایسی سیاست جس کا محور امت کے معاشی وسائل کو یکجا کرکے تمام مسلمانوں پر خرچ کرنا ہو۔ایک نئی سیاست جو مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے امت کی فوجی قوت کو یکجا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرے۔ ایک ایسی سیاست جو پوری دنیا تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے پر اپنی توجہ  مرکوز کرے اور جو ایسے حکمران پیدا کرے جو امت کے محافظ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ،وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ” تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ جس پر وہ نگہبان تھا۔ حکمران نگہبان ہے، مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر نگہبان ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ جس پر وہ نگہبان تھا”۔(بخاری)

 

پاکستان کو نئی سیاست کے ساتھ ساتھ ایک نئی ریاست کی ضرورت ہے۔ جمہوریت، جو کہ مغرب کا  سیاسی نظام حکومت ہے اور پاکستان  میں بھی نافذ ہے،موجودہ  سیاست دانوں کو اپنے  اور اپنےمغربی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے۔  جمہوریت میں  اثرورسوخ رکھنے والے  کاروبار،ذاتی مفاد کے حصول کے لیے قانون سازی کے عمل اور سرکاری محکموں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اورایسے قوانین اور پالیسیاں بنواتے ہیں جن سے سرمایہ دارکو رعایتیں اور چھوٹ حاصل ہوتی ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں پر مشتمل تہہ دار فیڈرل ریاستی  ڈھانچہ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ صوبائی  اور مقامی حکومتیں مختلف سیاسی جماعتوں کے زیر انتظام  ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے  کواور وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش    میں لگی رہتی ہیں۔ طاقت کی یہ  تہہ دارتقسیم، حکومت کے تمام ڈھانچوں میں   موجود حکمران طبقے کو یہ موقع فراہم کرتی  ہے کہ وہ کوتاہی و غفلت کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کراپنے آپ کوامت کے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے بری الذمہ بنا لیں۔ پنجاب کے وسائل سندھ کے سیلاب زدہ مہاجرین کے لیے دستیاب نہیں، جبکہ وفاقی حکومت سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ مہاجرین کی مدد نہیں کر رہی  کیونکہ حکمران مسلم لیگ(ن)  ان سیلاب زدہ مہاجرین کو  اپنے  ووٹرز کے طور پر نہیں دیکھتی۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات، اور  حکومتوں اور قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے حق نے پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا  کررکھاہے، جو ریاست کو مفلوج کر رہا ہے۔  خارجہ  امورمیں پاکستانی ریاست مسلسل غیر ملکی طاقتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے، جو پاکستان کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی کو غیر ملکی طاقتوں کے تابع بنانے کے لیے سخت معاشی اور سیاسی شرائط عائد کرتے ہیں۔

 

نئی ریاست،یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ میں امت، تاحیات خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے اور اسے اس شرط پربیعت دیتی ہے، کہ وہ امت کی اطاعت کے بدلے میں اسلامی شریعت کو نافذ کرے گا  ۔ خلیفہ کواس صورت میں ہٹایا جا تا ہے اگر وہ صریح  کفر یہ قوانین  کا نفاذ شروع کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت میں سیاسی استحکام  رہتا ہے اور خلیفہ کو امت کی بہتری کے لیے طویل مدتی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل  کرنے کا موقع ملتا ہے۔ خلیفہ ہی صوبوں کے والی(گورنروں) اور شہروں کےعامل مقرر کرتا ہے۔ والی اور عامل خلیفہ کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ خلیفہ اپنی  کارکردگی کے حوالے سے امت کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ خلافت ریاست کے تمام شہریوں کو ان کی نسل، رنگ یا سیاسی طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ  اسلامی شریعت کے مطابق حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ خلیفہ قانون نہیں بنا سکتا، وہ محض اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ قرآن  اور سنت نبویﷺ سے اخذ کردہ قوانین کو ہی نافذ کرے۔ یہ نئی ریاست،  یعنی دوسری خلافتِ راشدہ، وحی کی بنیادپر حکومت کرتی ہے، اور قرآن و سنت میں  دیے گئےاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَاَنِ احۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ وَاحۡذَرۡهُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنُوۡكَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ اِلَيۡكَ‌ؕ “اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو(حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں”(المائدہ، 5:49)

خلافت اسلام کا سیاسی ڈھانچہ ہے ۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خلیفہ کومقرر کریں، اس کی اطاعت کی بیعت کریں اور اسلامی شریعت کے نفاذ اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کےلیے اس کی مدد کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،   كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ‏.‏ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ ” بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیاکرتے تھے۔جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتاجبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ کثیر تعداد میں خلفاء ہوں گے۔صحابہؓ نے پوچھا:  آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟  آپﷺ نے فرمایا:  تم اس کی اطاعت کرو جسے سب سے پہلے بیعت دی جائے اور انہیں اُن کا حق اداکرو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن سے اُن کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی”۔(بخاری)

 

اللہ کے رسولﷺ نے انسانیت کے سامنے ایک نیا نظریہ پیش کیا، جس کی بنیاد رب العالمین کی  جانب  سے نازل کی گئی وحی تھی۔ آپ ﷺ نے ایک نئی سیاست، ایک نئی ریاست اور ایک نیا معاشرہ قائم کیا جو پوری دنیا کے لیے روشنی کا مینار بن کر چمکا۔ اس مشن میں انصار کے مبارک لوگوں نے آپﷺ  کی مدد کی  جو فوجی  طاقت  اور قوت کے حامل  تھے، جنہوں نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مدددی اور اپنی طاقت کو اسلام کے نفاذ کے لیے پیش  کیا۔ آج بھی  اس نئی ریاست کے قیام کے لیے ایسی ہی مدد کی ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
69882

بلڈ پریشراور غذا ۔ تحریر ؛ ڈاکٹر جویریہ لیاقت

بلڈ پریشراور غذا ۔ تحریر ؛ ڈاکٹر جویریہ لیاقت

بلڈ پریشر کو غذا سے کس طرح کنٹرول کریں جب آپ کا دل دھڑکتا ہے تو آپ کے جسم کو ضروری توانائی اور آکسیجن دینے کے لئے اور جسم میں ہر طرف خون کو پمپ کر تا ہے جب خون چلتا ہے تو یہ خون کی شریانوں کی دیواروں پر دباؤ ڈالتا ہے اس دباؤ کی قوت ہی آپ کا بلڈ پریشر ہے عام طور پر بلڈ پریشر وہ نہیں ہوتا ہے جسے آپ محسوس کرتے یا جس کا مشاہدہ کرتے ہیں آپ کا بلڈ پریشر کس قدر ہے اس کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کو چیک کیا جائے یا کروایا جائے جب آپ کا بلڈ پریشر چیک کیا جاتا ہے تو اس کو دو حصوں میں لکھا جاتا ہے۔مثا ل کے طور پرگر آپ کی ریڈنگ 80mmHg/120ہے تو یہ آپ کا نارمل بلڈ پریشر ہے اگر90mmHg/135ہے تو یہ باعث تشویش ہے کیونکہ ریڈنگ کا نارمل سے زیادہ ہونا ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے ہائی بلڈ پریشر نمک کے زائد استعمال اور معموالت زندگی میں خرابی جیسے کھانے پینے میں بے اعتدالی، ورزش میں کمی اور پریشانی کی وجہ سے ہوتا ہے۔اور ان میں درستگی کر کے اس سے بچا جا سکتا ہے۔

 

پوٹاشیم اور سوڈیم ایک دوسرے کے مخالف ہیں جسم میں پانی اور نمکیات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ان دونوں کو مناسب رکھنا ضروری ہے اگر ایک بڑھ جاتا ہے تو الزماً دوسرا کم ہو جاتا ہے مثال کے طور پر اگر جسم میں بہت زیادہ سوڈیم ہے تو آپ کو پوٹاشیم کی دوا دیں گے تاکہ آپ کا سوڈیم پیشاب کے ذریعے خارج ہو جائے غذا میں پوٹاشیم شامل کرنے کے لیے کیلے،ٹماٹر،شکر قندی،پھلیاں،دالیں،کھجوریں اور ناریل کا پانی استعمال کریں کھانے کے وقت یہ بات یقینی بنائیں کہ آپ کی آدھی پلیٹ سبزیوں سے بھری ہوئی ہو گہرے رنگ والی سبزیاں فائبر،کیلشیم،میگنیشیم اور وٹامن سی جیسی معدنیات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے خاص طور پر میگنیشیم کیونکہ کلوروفل بسکٹ، چپس،نمکو وغیرہ غذائیت اور فائبر سے خالی ہوتے پروسیسڈ شدہ کھانے مثال ہیں جبکہ ان میں نمک اور چینی زیادہ ہوتی ہے انہیں تازھ پھلوں اور سبزیوں سے بدل دیں جو بالشبہ بلڈ پریشر کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ روانہ 10-15 منٹ صرف گہری سانسیں لینے کے لیے نکالیں ایک منٹ میں تقریباً 6سانس یہ آپ گھر میں بھی لیں سکتے ہیں اگر ناممکن ہو تو یوگا کلاس میں داخلہ لے لیں

 

تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ چھوٹے سانس لینے سے جسم میں سوڈیم جمع رہتا ہے جبکہ گہری اور آہستہ سانس لینے سے آکسیجن زیادہ مل پاتی ہے ورزش کے لیے برداشت پیدا ہوتی ہے اور بلڈ پریشر کی مانیٹرنگ بہترین ہوتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہفتے میں 3 دفعہ 20منٹ کی ہلکی یا درمیانی ورزش بلڈ پریشر گھٹانے میں مدد دیتی ہے جو کا دلیہ میگنیشیم سے بھرپور ہوتا ہے اور ایک طبی تحقیق جو کے دلیہ کا استعمال بلڈ پریشر کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دیتا ہے دلیہ میں پایا جانے واال فائبر دل کی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسے مختلف پھلوں کے ساتھ استعمال کر کے منہ ذائقہ بہترین کیا جاسکتا ہے اپنی غذا میں اومیگا 3 الزمی شامل کریں مچھلی، اخروٹ، بادام،فلیکس اور تخم ملنگا کا استعمال زیادہ کریں۔60 سے زیادہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹ سے بھی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ گریوں کا زیادہ استعمال بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرتا ہے۔مختلف طبی تحقیق کے مطابق پستہ میں موجود اجزاء فائبر،پوٹاشیم،میگنیشیم بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مچھلی پروٹین اور وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔اس کے عالؤہ مچھلی میں اومیگا فیٹی ایسڈ بھی شامل ہوتے ہیں جو دوران خون کولیسٹرول کی شرح کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور یہ بلڈ پریشر کی کمی اور زیادتی کو معمول پر النے میں مددگار ثابت ہوتی ہے مالٹے پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں اسی طرح اس ترش پھل میں میں فلیونوئڈز کی ایک قسم خون کی شریانوں کے مسائل کا خطرہ کم کرتی ہے دالیں بلڈ پریشر کے مسائل کو کم کرتی ہے۔اس میں موجود اجزاء فائبر اور پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
69877

الوداع  2022۔ ۔ گل عدن چترال

الوداع  2022۔ ۔ گل عدن چترال

اکیسویں صدی کی بائیسویں سال اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔گزرے سالوں میں کیا کھویا کیا پایا، اس قصے میں اب کیا رکھا ہے مگر ان گزرے سالوں نے جو سبق دئے سیکھنے والوں کے لئے قابل غور اور باعث فکر ہیں ۔ کتاب ماضی کسی کے لئے بھی رنگین صفحات کا مجموعہ نہیں ہوتا مگر اس قیمتی کتاب کا کچھ حصہ رنگین ضرور ہوتا ہے۔جو مشکل وقت میں انسان کو حوصلہ دیتے ہیں ۔لیکن کتاب ماضی ان لوگوں کے لئے ایک بے کار بوجھ ہے جنہیں اپنی غلطیوں، نادانیوں، برائیوں سے کھبی کچھ سیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی لیکن درحقیقت اس کتاب کا ایک ایک صفحہ ایک ایک حرف نہایت قیمتی ہے ۔دراصل انسان کو اصل رہنمائی اسکے اپنی ذات سے ہی ملتی ہے۔ہماری ماضی میں کی گئی غلطیاں ہی ہماری اصل سربراہ ہیں بشرطیکہ ہم اپنے غلطیوں سے سیکھنے والے ہوں ورنہ جو انسان کچھ سیکھنا نہیں چاہتا اسکے لئے آپ پوری دنیا کی علم اور عالم جمع کرکے بھی اسے کچھ نہیں سیکھا سکتے۔بہرحال کتاب ماضی درد سے بھرا ہو یا خوشیوں سے کوئی بھی فرد اپنے گزرے وقت کو یکسر بھلا نہیں سکتا۔لیکن ہر وقت ماضی کی یاد میں آہیں بھرنا ذہنی مرض کی علامات ہیں ۔ زہنی طور پر صحت مندانہ زندگی کی خاطر ماضی کو صرف اپنی راہ نمائی کے لئے یاد رکھنا چاہیے ۔

 

ہر سال کی طرح اس سال نے بھی (یقینا ) آپکو مجھے ہم سب کو بہت سارے سبق دئے۔ میں اپنے اس سال کے اسباق میں اپنے قارئین کو بھی شامل کرنا چاہتی ہوں۔پہلے سبق کا ذکر تو میں نے تمحید باندھنے میں ہی کردیا تھا کہ ہمیں ماضی کو خوش دلی سے الوداع کردینا چائیے ۔خوشیوں کے ان تمام لمحات کو وقت کے ساتھ جانے دینا چائیے جو وقت اپنے ساتھ لایا تھا ۔۔ دوسرا فارمولا جو میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے بہت ضروری ہے وہ ہے “جیو اور جینے دو ” کاش ہم سب کو یہ بات سمجھ آجائے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اسکے سانس لینے پر اللہ کا تو حق ہے لیکن کسی دوسرے انسان کا نہیں ۔تو ایک دوسرے کے خدا کیوں بن رہے ہیں ہم؟؟۔موجودہ دور میں ہم سب کو ایک دوسرے سے بے شمار شکایتیں ہیں اور ان شکایات میں سر فہرست رشتوں میں دوری کی شکایت ہے جسکی اصل بنیاد یہی ہمارا ایک دوسرے کے معاملات میں ضرورت سے زیادہ ٹانگ اڑانا ہے۔ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہئے کہ رشتوں ناطوں، تعلقات حقوق و فرائض احساس یا ہمدردی کے آڑ میں ہمیں ایک دوسرے کے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ تیسرا سبق۔ اکثر سنا تھا کہ اچھی نیت پر انسان کو وہ انعام ملتے ہیں جو اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتے۔مجھے گزرے تمام سالوں نے دراصل یہی ایک ایسا سبق دیا ہے جو مجھے ہر نئے سال میں پھر سے ایک نئے سرے سے شروع کرنے کا ،آگے بڑھنے کا زندگی کو جینے کا اور سب کو معاف کردینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ نیت کی پاکیزگی ہی اصل پاکیزگی ہے۔اور ایک پرسکون زندگی کی ضمانت بھی۔آنیوالے والے وقت میں اگر زندگی رہی تو ہم دوسروں کے لئے کچھ اور کرسکتے ہیں یا نہیں کرسکتے مگر ہم ایک دوسرے کے لئے اپنی نیت پاک رکھ سکتے ہیں ۔ رشتوں کو بچانے کے لئے بھی یہی ایک فارمولا ہے اور ایک پرسکون زندگی کی ضمانت بھی “صاف نیت “ہے۔

 

جاتے جاتے وہ سبق بھی بتادوں جو خاص طور پہ رواں سال نے دیا ۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ جسطرح آپ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح آپ کا بھی خیال رکھا جائے تو سب سے پہلے اپنا خیال خود رکھیں ۔یقین جانیں جو شخص اپنی جان پر خود ظلم کرتا ہے اس پر ہر ایک شخص ظلم کرتا ہے ۔اگر آپ دوسروں کی خوشی اور آرام کی خاطر اپنا سکون اپنی صحت ،اپنی خوشیاں روند ڈالیں گے تو یقین جانیں دوسرے بھی آپکی صحت، آپ کا ذہنی سکون آپکی خوشیاں اپنے پیروں تلے روندتے رہیں گے ۔اگر آپ حساس ہیں تو سب سے پہلے اپنا احساس کریں اور اپنا سکون برباد کرنے کا موقع اور اجازت کھبی کسی کو مت دیں ۔

اسباق تو بہت ملے لیکن فی الحال اتنا ہی۔
آپ سب کو نیا سال بہت مبارک ہو ۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
69826

خواتین پر تشدد اور ایمنسٹی انٹرنیشنل – میری بات : روہیل اکبر

خواتین پر تشدد اور ایمنسٹی انٹرنیشنل – میری بات : روہیل اکبر

women harrasment victim women murder

پاکستان خواتین کی حالت زار قابل رحم ہے ہم اتنے وحشی ہو چکے ہیں کہ معصوم بچیوں کو بھی درندگی کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے کیونکہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے سعودی عرب میں اس وقت بہت زیادہ تعداد میں خواتین شاپنگ پلازوں سمیت سرکاری دفاتر میں کام کررہی ہیں جبکہ مختلف تفریحی مقامات پر بھی کافی تعداد میں خواتین موجود ہوتی ہیں مجال ہے کسی مرد کی کہ وہ انہیں آنکھ بھر کردیکھ بھی سکے کیونکہ سعودی عرب میں قانون کی حکمرانی ہے مجھے جتنا عرصہ ہوگیا یہاں آئے میں نے کسی ایک روز بھی خواتین پر تشدد کے حوالہ سے کوئی ایک واقعہ بھی نہیں سنا جبکہ پاکستان میں آئے روز خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے سمندری میں 10سالہ معصوم بچی کی لاش ملی ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر چوتھی خاتون گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہے اور تو اورکھانے میں نمک زیادہ ہوجانے پر بھی خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے یہ جہالت کی آخری نشانی ہے اور اکثر ایسا وہ مرد نما ہیجڑے کرتے ہیں جن کے والدین بھی ساری عمر کے دوسرے کے ساتھ دست گریبان رہے ایسے مرد ہمارے معاشرے کے وہ ناسور ہیں جنہیں دنیا میں بھی ذلیل و رسوا دیکھا گیا اور آخرت میں تو اسکا بہت بڑا حساب ہوگا ایسے جھگڑیلو خاندانوں کے بچے بھی ساری عمر خوش نہیں رہ پاتے کیونکہ والدین کا گھر میں دیکھا ہوا ماحول انہیں بھی ذہنی مریض بنا دیتا ہے.

 

گھر سے باہر خواتین سے دوستیاں کرنے والے انکے ایسے ناز نخرے اٹھاتے ہیں جیسے وہ انکے غلام ہوں مگر وہی مرد جب خاوند بن کر گھر لوٹتے ہیں تو وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کردیتے ہیں ایسے انسانوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے جیسے ہمارے ہاں مشتعل معاشرہ موقعہ پر پکڑے جانے والے ڈاکوؤں سے کرتا ہے سرکاری سطح پر شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق مطابق کھانا وقت پر نہ دینے کی پاداش میں بھی خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور کسی دوسری خاتون کے ساتھ دوستی کا سوال بھی تشدد کا باعث بنتا ہے گھریلو خواتین پر بے وفائی کا الزام لگا کر بھی تشددکا نشانہ بنا یا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں شوہر کی نافرمانی پر خواتین کو سب سے زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے پنجاب کی خواتین پر تشدد کے حوالہ سے واقعات میں دن بدن اضافہ تشویش کا باعث خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف میدان میں نکلیں کیونکہ وہ کسی کی غلام نہیں نکاح کا مطلب بھی غلامی نہیں بلکہ ایک اسلامی معاشرے میں خواتین کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اس کے باوجود بھی جو درندے نما انسان خواتین پر تشدد کرتے ہیں تو انکے لیے حکومت نے ایک مفت ہیلپ لائن نمبر1043 دیا ہے ہے جہاں خواتین اپنے موبائل سے مفت کال کرکے اپنے اوپر ہونے والے تشدد یا کسی بھی جنسی ہراسمنٹ کی شکایت کرسکتی ہے.

 

کچھ بہادر خواتین نے ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نمبر پر کالیں بھی کی ہیں جن پر پنجاب حکومت فوری ایکشن لے رہی ہے خاص کر چوہدری پرویز الہی کی حکومت اس سلسلہ میں بہت کام کررہے کہ خواتین کو تنگ کرنے والے کے گرد بھی گھیرا ب مزید تنگ کردیا جائے پاکستان میں خواتین آبادی کا 48.76 فیصد ہیں جنہوں نے پاکستان کی پوری تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن انہیں 1956 سے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ملی پاکستان میں خواتین اعلیٰ عہدوں پربھی فائز رہی ہیں جن میں وزیر اعظم، سپیکرقومی اسمبلی، قائد حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزراء، ججز اور مسلح افواج میں کمیشنڈ عہدوں پر خدمات انجام دیں بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا تعلیم کے باعث پاکستان میں خواتین کے مجموعی حقوق میں بہتری بھی آئی ہے مگر ان مقامات پر جہاں پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد کم ہے تاہم پاکستان کو ایسے مسائل کا سامنا ہے جہاں خواتین کو تعلیم کے میدان میں پیچھے رکھا جاتا ہے اس کا تعلق کم سرکاری فنڈنگ، خواتین کے لیے کم اسکولوں اور کالجوں اور بعض علاقوں میں بیداری اور خواتین کے حقوق کی کمی کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں خواتین کے داخلے کی کم شرح سے بھی ہے.

 

پسماندہ علاقوں میں عصمت دری، غیرت کے نام پر قتل اورجبری شادیوں کے واقعات اب بھی رپورٹ ہوتے ہیں ان تمام مسائل کا تعلق تعلیم کی کمی، غربت، پاکستان کا عدالتی نظام، حکومتی حکام کی جانب سے قوانین پر عمل درآمد میں لاپرواہی اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وسیع پیمانے پر ناقص کارکردگی سے سے بھی جڑا ہوا ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح خواتین کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے تھے پاکستان کی آزادی کے بعد ملک میں خواتین کے خلاف سماجی و اقتصادی ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے فاطمہ جناح جیسی ممتاز رہنماؤں نے اس کام کا کا سنبھالااگر جنرل ایوب خان منصفانہ انتخابات کرواتے تو پاکستان کی محترمہ فاطمہ جناح دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی پہلی مسلمان صدر بن جاتیں مگر وہ اس دھچکے کے باوجودانہوں نے 1950 اور1960 کے دوران خواتین کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے اور مغربی پاکستان میں پہلی خاتون نمبردار (گاؤں کی سربراہ) بیگم ثروت امتیاز نے 1959 میں چیچہ وطنی ضلع منٹگمری (اب ساہیوال) کے گاؤں 43/12Lمیں حلف اٹھایا مگر جیسے جیسے وقت گذرا ہم نے اپنی خواتین کو پرتشدد ماحول میں اٹھنے کا موقعہ نہیں دیا میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں محترمہ عاصمہ جہانگیر کو جنہوں نے خواتین کے حقوق پر کھل کر آواز اٹھائی پاکستان میں ضرورت ہے سعودیہ جیسے قوانین کی تاکہ ہماری خواتین بھی عزت و آبرو کے ساتھ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں اور وحشی نیم پاگل قسم کے افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے اس سلسلہ میں ہماری عدالتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم پر امن ملک بن سکیں اس سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بہت اچھا کام کررہی ہے اسکو بھی پاکستان میں مضبوط کیا جائے خاص کر خواتین اس تنظیم کا حصہ ضرور بنیں۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
68577

میاں بیوی: ایک مقدس رشتہ –  تحریر : رقیہ موسی

میاں بیوی : ایک مقدس رشتہ –  تحریر : رقیہ موسی

“خالق کائنات ” نے اپنے اپنے اختیار “کن” سے روئے زمین پہ سب سے  پہلے حضرت آدم کو تخلیق کر کے کائنات کی عظمت کو چار چاند لگائے اور پھر اسی جسم(حضرت آدم ) کی بائیں پسلی  سے حضرت حواء کو  سانسیں بخشی۔ یوں اس حکمت والے نے اپنی حکمت عملی سے اس بات کو حتمی شکل دی کہ ہم نے انسانوں کو ایک ایک جوڑے میں پرویا ہے۔ جیسے جسم و روح  لازم و ملزم ہیں اسی ترتیب سے ہر رشتے کی جوڑی کو یکجاں کر کے تخلیق کیا گیا ہے۔

کرہ ارض کو رونق بخشنے والا سب سے پہلا اور آخری رشتہ میاں بیوی کا ہے۔اسی  رشتے کی بنیاد پہ دنیا کے باقی رشتے اور نسلیں وجود میں آئیں ہیں ۔ یوں اس رشتے کی اہمیت و افادیت سر فہرست ہے۔دنیا کا ہر رشتہ اسی رشتے سے منسوب ہوتا ہے اور یوں بیوی سے ماں اور ماں  سے  ساس تک کا سفر چلتا رہتا ہے۔ ہر رشتہ اپنے رتبے ،وقار اور عزت واحترام کا حامل ہے۔ کوئی بھی ایک رشتہ باقی رشتوں کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔

ہر رشتہ اپنا ایک الگ اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔ماں کے رشتے کو جنت سے منسلک کیا گیا ہے اور باپ کو جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔  بیٹی کو باعث رحمت اور بیٹے کو باعث برکت بنا کے بھیجا گیا ہے۔ یوں نسل در نسل رشتے اپنی حثیت برقرار رکھتے ہیں اور ان  کے عہدے میں کسی بھی تبدیلی کی گنجائش ممکن نہیں۔

ماں کے رشتے کو سب سے مقدم رکھا گیا ہے اسے ”  کل کائنات” کے لقب سے نوازا گیا ہے۔اور اس رشتے کی تلافی  پورا جہاں متحد ہو کر بھی نہیں کر سکتا۔ باپ کو “تاج کا ئنات ” کہنے میں ذرہ
برابر بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ بھائی کو “ڈھال” اور ” محافظ” سے تشبیہ دیا گیا ہے۔ بہن کو عزت و حیا کی پاسداری کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔مندرجہ بالا تمام رشتے عارضی ہیں اور ان کا وجود دنیا تک ہی محدود ہے۔

ایک واحد رشتہ میاں بیوی کا ہے جن کا ساتھ اس جہاں سے دوسرے جہاں تک ہے۔ اس دنیا کی بنیاد رکھنے والا یہ رشتہ اللہ تعالی کی نظر میں سب سے ذیادہ پسندیدہ،مقدس،پاکیزہ  اور محبوب ہے۔اس رشتے میں جڑنے کے بعد ہر مرد وعورت کے اعمال کا پلہ اور بھی بھاری ہو جاتا ہے۔
مرد وعورت کا رشتہ ایک سفر ہے جس کا اختتام منزل مقصود ہے۔ دوران سفر ہر قسم کی مشکلات،مصائب،رکاوٹوں اور آزمائشوں سے گزرنا ہے۔خوشی میں خوش اور دکھ میں ایک دوسرے کا ہمدرد بننا ہے، مشکل میں ساتھ،آزمائش میں صبر کا پیکر،تکلیف میں ذریعہ دعا اور دوا، پریشانی میں راحت اور تنگدستی میں شکر کا اعلی نمو نہ پیش کرنا ہے۔

اس رشتے کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے جو من  کو ڈھکنے کیساتھ ساتھ  ہمارے تن کی خامیاں بھی ڈھانپ دیتا ہے بلکل اسی طرح یہ رشتہ ایک دوسرے کے عیب اور رازوں کو پوشیدہ رکھنے کا حامی ہے۔ قرآن اور دین اسلام میں اس کے حقوق وفرائض کو متعین کیا گیا ہے۔ ایک کا حق دوسرے کا فرض بنتا  ہے اور یوں ان کے حقوق و فرائض کوواضح کر دیا گیا ہے۔ اگر ایسا کہا جائے کہ  اس رشتے کی اہمیت و عظمت کو  کوئی قلم بند نہیں کرسکتا تو ایسا کہنے میں کوئی  گستاخی نہیں۔

ملال و غم  تو اس بات کا ہے  کہ خدا کا یہ “محبوب ترین” رشتہ ہر گزر تے دن کے ساتھ  اپنے وقار کو پامال کرتا جا رہا ہے اور خود کو خدا کی نا پسندیدہ اعمال کی صف میں لا کھڑا کر دیا ہے۔ معاشرے کی بنیاد رکھنے والا یہ رشتہ آج تباہی کے دھانے پہ کھڑا ہے۔ مغربی نظام کا گرویدہ ہو کر یہ رشتہ اپنی عظمت ورتبے  کو کھوتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں بھی فیملی سسٹم برباد ہوتا جارہا ہے.

دین اسلام کے مقرر کردہ حقوق و قوانین میں یہ رشتہ خود کو ایک پنجرے میں جکڑا ہوا محسوس کر رہا ہے۔آج کی بیوی،اسلام کے لاگو کئے گئے قوانین کو نظر انداز کر کے وہی آزادی اور خود مختاری چاہتی ہے جو مغربی عورت کی اولین ترجیح ہے۔اسلام کے عین مطابق زندگی گزارنا اس ( بیوی) کے لیے ایک “قیدی” اور ” خریدی ہوئی لونڈی” کے معنی رکھتا ہے۔

گھر کی چاردیواری میں مقیم رہنا،اپنے تن من کو پوشیدہ رکھنا، بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں وہ وجوہات ہیں جو اس کی شخصیت پہ بدنما داغ کا اثر رکھ رہے ہیں۔آج کی بیوی، بیوی بن کے نہیں بلکہ ” مس ورلڈ ” کی طرح زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ شوہر اگر پردے کی تلقین کے تو اسے اس کی “تنگ نظری” اگر ساس ،سسر کی خدمت گزاری کا کہے تو خود کو”نوکرانی” بازار کے حسن و نما ئش سے اجتناب کا کہے تو خود کو “قیدی” بچوں کی تربیت پہ خود کو “ایا”اور “گورنس” سے تشبیہ دیتی ہے۔شوہر کی تھوڑی سی سختی اور اصلاح کو جبر وتشدد کے ضمرے میں گردانتی ہے۔ اپنی آزادی و عیاشی کے لئے مرد کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر نے میں بلکل بھی نہیں گھبراتی۔ اپنی  نفسانی خواہشات اور وقتی سکون کے لئے خلع کے مطالبے کے لئے عدالت سے رجوع کر رہی ہے۔ آئے دن اسائشات ،خواہشات اور لگثری لائف کی ڈیمائنڈز ایک کم آمدن شوہر کو خودکشی اور جرائم کی دنیا کی طرف دھکیل رہی ہے۔
دور حاظر کی بصیرت اور مشاہدہ کا نچوڑ یہ ہے کہ “آج کی بیوی ،شوہر پہ غلبہ پارہی ہے”.

آخر اس غلبے کے اسباب کیا ہیں؟
مخلوط تعلیم،مغربی نظام کی کشش، غلط سوسائٹی، بے حیائی پہ مبنی ڈرامے اور میڈیا کی ذاتی معاملات میں بے جا دخل اندازی سامنے اتی ہیں۔
مختصراً ، آج کی بیوی کو شوہر نہیں “الہ دین کا چراغ ” چاہیے جسے رگڑتے  ہی جن حاضر ہو اور تمام احکام کی  بجا اوری ہو۔
اب ذرا آج کے شوہر کو تحریر میں لاتے ہیں،تمام خواہشات سے بالا تر خواہش یہ ہے کہ اسے بیوی نہیں “پرائز بونڈ” چاہیے جسے وہ خزانے کی چابی کے طور پہ استعمال کر سکے۔ بدقسمتی سے اگر “پرائز بونڈ” سے محروم رہ جائے تو اس کے طنز وتیر آنے والی کے لئے تاحیات جلاد کا روپ دھار لیتے ہیں۔ آج شوہر، شوہر نہیں  “کنگ آف کنگز” بننا چاہتا ہے ۔حکم عدولی پہ وحشی درندگی پہ اتر آتا ہے۔ حد سے ذیادہ سختی، بلاوجہ کی پابندیاں، اپنے فرائض میں کوتاہی،ذہنی و جسمانی تشدد کیوجہ سے بیوی یا تو “باغی” بن جاتی ہے یا اپنی زندگی ختم کرنے پہ امادہ ہو جاتی ہے۔
تاریخ بشر اس حقیقت کی گواہ ہے کہ باقی رشتوں کی بہ نسبت اس رشتے میں اللہ تعالی نے اپنی صفات پیدا کی ہیں۔

عورت کو ماں کا درجہ دے کر خود کی طرح “رحم گوئی” کے احساس سے اس کے دل کو منور کیا ہے۔ رب کائنات کی تخلیق کی کی گئی ہر شے میں اس کی جھلک نظر آتی ہے لیکن وہ خود پوشیدہ ہے اسی لئے عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرد کو اللہ تبارک و تعالی نے اسی صفت سے نوازا ہے جس کی نفی کرنے کو “شرک عظیم” کہا گیا ہے اور وہ ہے شراکت۔ اللہ تعالی خود بھی شراکت برداشت نہیں کرتا اسی طرح مرد کے نکاح میں بھی شراکت کی جگہ نہیں بچتی۔

ماحاصل یہ ہے کہ بیوی اللہ تبارک و تعالی کی عظیم نعمت ہے۔ بیوی کی سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے شوہر کے گھر اتی ہے،اسی لئے شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کی قربانیوں اور صفات پہ نظر رکھے اور زندگی کے ہر موڑ پہ اس کا ساتھ دے، اسی طرح بیوی کا  فرض ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے اور زندگی کی مشکلات میں اسکا ساتھ دے اور اسکی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرے۔

قران وسنت کے عین مطابق زندگی گزاریں بیوی اور شوہر کو چاہیے کہ وہ امھات اللمومنین اور او نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں ازدواجی زندگی بسر کریں تاکہ ایک مثالی معاشرہ کا بقا جاری رہے. سماج کے ان رستے ہوئے مسائل پر آیندہ مستقل لکھا جائے گا. خواتین کے حقوق فرائض بھی آسان بھاشا میں اپنی بہنوں کی خدمت میں پیش کیے جائیں گے اور شوہروں کے حقوق و فرائض سے بھی انہیں آگاہ کیا جائے گا. اسلام اور مشرقی فیملی سسٹم اور اس کی افادیت و اہمیت اور اس کے بقا کے وجوہات سے بھی آپ کو مطلع کیا جائے گا اور مغربی فیملی سسٹم کی تباہی اور اس کے بد اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا. آپ پڑھیں اور اپنے فیڈ بیک سے آگاہ کیجیے. آپ کی حوصلہ افزائی اور فیڈبیک ہمارے لیے مزید لکھنے کے لئے کی طرف راغب کرے گا. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر رہے. آمین

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
68453

ایل جی بی ٹی (LGBT)کی نظریاتی جڑیں اور   ہمارے معاشرے میں اس کی یلغار- غزالی فاروق

Posted on

ایل جی بی ٹی (LGBT)کی نظریاتی جڑیں اور ہمارے معاشرے میں اس کی یلغار- غزالی فاروق

جنس کے تعین کے حوالے سے حالیہ دہائیوں میں مغرب نے ایک نیا نکتہ نظر اپنا لیا ہے۔ عیسائی  چرچ اور اس کے ظالمانہ نظریات کی وجہ سے خواتین کے خلاف صدیوں سے ظالمانہ امتیازی سلوک کے ردعمل کے نتیجے میں مغرب نے جنس کی تعریف کے طور پر صنف پرستی genderism))   کا سہارا لیا۔ فطری اور حیاتیاتی (biological)    طور پر الگ الگ یعنی مذکر اور موئنث پر مبنی جنس کے تصور کی بجائے مغرب نے صنف پرستی کا تصور اختیارکر لیا۔ صنف پرستی کے نظریہ کے تحت، جنس کی شناخت حیاتیاتی  بنیاد کی بجائے کسی فرد کے خود اپنی ذات کے بارے میں  تصور اور میلان کے مطابق کی جاتی ہے۔  جیسا کہ فرانس کی فیمنسٹ (feminist) فلسفی سمن ڈی بووار (Simone de beauvoir) اپنی معروف کتاب ” دوسری جنس” (The Second Sex ) میں لکھتی ہے، “عورت پیدائش سے  نہیں ہوتی  بلکہ وہ عورت بن جاتی ہے”۔

 

درحقیقت، صنف پرستی کا فلسفہ مردوعوت کی  الگ الگ فطری شناخت کی بنا پر جنسی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش میں فیمنزم (feminism)کی تحریک کی دوسری لہر کے جزو کے طور اُبھرا تھا۔ لہٰذا صنف پرستی کا فلسفہ کسی کی جنس کی حیاتیاتی طور پرشناخت کا تعین کرنے کو ختم کرنے کا تقاضا کرتا ہے یعنی یہ  جنس کا کردار اور جنس کے دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کا تقاضا  تھا جو کہ ظالمانہ تصور کئے جاتے تھے۔

 

ابتدا میں صنف پرستی کا نظریہ مردوں کی جانب سے عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکنے کے لئے اپنایا گیا تھا۔ تاہم، یہ نظریہ حقوق نسواں کی حمایت سے بڑھتا بڑھتا ہم جنس پرست مرد  وں کے حقوق کی حمایت تک چلا گیا۔   ہم جنس پرستی کا پرچار کرنے والوں کی جانب سے نظریہ صنف پرستی کی پُرزور حمایت کی گئی۔ پس اس طرح اب اس نظریہ کا مقصد محض خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کرنا نہ رہ گیا بلکہ نظریہ صنف پرستی اب بڑھ کر ان لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک کو بھی ختم کرنے کیلئے استعمال ہونے لگا جو حیاتیاتی خصوصیات سے قطع نظر خود اپنے ذاتی میلان کی بنا پر اپنے جنس کا انتخاب کرتے ہیں۔

 

“شخصی آزادی”(Personal Freedom) کے تصور کے ذریعے مغرب نے افراد کو یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ خود اپنے ذاتی میلان کی بنا پر اپنی جنس مقرر کر لیں۔ چنانچہ نظریہ صنف پرستی کے مطابق، ایک مرد، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مردوں جیسے حیاتیاتی خدوخال رکھتا ہے، وہ خود یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس جنس میں منتقل ہونے کے لئے،  جو اس نے اپنے لئے منتخب کی ہے،  وہ سرجری اور ہارمون کے علاج  کے مرحلے سے بھی گزر سکتا ہے۔اسی طرح وہ انسان اپنی مردانہ ہیئت کو چُھپا سکتا ہے اور نسوانی ہئیت کو اختیار کر سکتا ہے۔ ایسے انسان جنہوں نے طبی مدد کو استعمال کر کے خود اپنی جنس تبدیل کروائی ہو وہ مخلوط الجنس( transsexual )کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ایک عورت خود یہ احساس کرسکتی ہے کہ وہ ایک مرد ہے۔ اس طرح کا ایک مشہور کیس ایک عورت ایلن پیج  (Ellen Page) کا ہے جو کہ ہارمون کی تبدیلی اور سرجری کے بعد ایلیٹ پیج (Elliot Page)  بن گیا تھا۔ چنانچہ مغربی نکتہ نظر میں ایسے مخلوط الجنس انسان موجود بھی  ہیں جو ایسی جنسی شناخت رکھتے ہیں جو ان کی پیدائشی حیاتیاتی جنس سے مختلف ہے۔

 

پاکستان کے ٹرانسجنڈر پروٹیکشن ایکٹ(Transgender Protection Act) کے معاملہ میں، ترامیم کے بعد، اب یہ قانون  مغربی نظریہ صنف پرستی کی  ہی بنیاد پر ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ: ” ایک مخلوط الجنس انسان کو اپنی خود ساختہ جنسی شناخت کے طور پر پہچانے جانے کا مکمل حق ہونا چاہئے”۔ چنانچہ اسلام کے تقاضے کے مطابق  فقط حیاتیاتی خدوخال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنس کی شناخت کرنے کی بجائے پاکستان کے حکمرانوں کے مطابق، جنس کا تعین خود اپنی سمجھ کے مطابق ہونا چاہئے جس کی مغرب وکالت کرتا ہے۔ جوائے لینڈ(Joyland) فلم کی بنیاد  بھی ہمارے معاشرے میں  اسی  قبیح نظریہ کے فروغ  اور اس کو نارملائز کرنے پر ہے اور اس فلم کی مکمل فنڈنگ مغرب کی جانب سے ہے اور مغرب کی طرف سے ہی اس کو بہت زیادہ پزیرائی دی گئی ہے۔

 

لیکن اس سب  کے بر عکس اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،  ﴿وَ لَيۡسَ الذَّكَرُ كَالۡاُنۡثٰى﴾ ” اور مرد، عورت کی مانند نہیں ہے”  (آل عمران: 36)۔ اسلام میں بنیادی طور پر دو ہی جنس ہیں۔ دونوں جنسوں کا تعین صرف حیاتیاتی خدوخال کو مدنظر رکھ کرہی  کیا جاتا ہے۔ جنس کا تعین کسی فرد کے ذاتی  فیصلہ کردینے سے یا ذاتی میلان کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا۔ مبہم جنس کا تعین ماہرین کے ذریعہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے درست جنس کا تعین کیا جا سکے۔ پھر جنس کے کردار کا تعین  وحی کی بنیاد پر اس سے متعلق شرعی احکامات سے ہوتا ہے۔ . اسلام میں تمام انسانوں   کے لئے مشترک شرعی احکامات بھی  ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، جبکہ ایسے شرعی احکامات بھی موجود ہیں جو کسی ایک جنس کے ساتھ مخصوص ہیں۔لہٰذا  اسلام مرد وعورت، دونوں کو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے فرائض دیتا ہے۔ پھر اسلام صرف خواتین کے لئے حیض و نفاس، حمل اور بچے کی پیدائش جیسے معاملات کے حوالے سے شرعی احکامات دیتا ہے۔ اسلام عورت کو روزی کمانے کا حق بھی دیتا ہے اور اس کے شوہر کو عورت کی کمائی پر کوئی حق نہیں دیتا، جبکہ اسلام مرد پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت کرے۔

 

عورت یا مرد پر ظلم کرنے کی بجائے شرعی قوانین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مرد اور عورت ایک مضبوط خاندانی نظام اور اس خاندانی نظام پر مبنی ایک مستحکم معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں۔  آج ظلم و جبر کو روکنے والی اسلامی ریاست خلافت  کی غیرموجودگی میں بھی مسلم دنیا کا خاندانی نظام، ان لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جو مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی کے بعد اس کے بھیانک نتائج بُھگت رہے ہیں۔

 

عربی  زبان میں لفظ” خُنْثَى”  ایسے فرد پر لاگو ہوتا ہے جس کو حیاتیاتی خدوخال کے پیشِ نظر آسانی سے مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہ کیا جا سکے۔ یہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کے خدوخال ہوتے ہیں یا پھر ایسا انسان جس میں ان میں سے کوئی خدوخال نہیں ہوتے۔ اسلام میں طبی ماہرین ہی  غیر واضح جنس کی حیاتیاتی حقیقت کا مطالعہ کرنے کے بعداس کیلئے  مرد یا عورت میں  سے کسی ایک جنس کا تعین کرتے ہیں۔ مشہور فقیہہ ابن قدامہ (م620ھ)  مبہم جنس کے حوالے سے اپنی کتاب المغنی میں بیان کرتے ہیں،(وَلَا یَخْلُو مِن أَنْ یَکُونَ ذَکَرًا  أَوْ أُنْثَی  ،قَالَ الله تعالي وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ، وَقَالَ تعالي وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌ فَلَیْسَ ثَمَّ خَلْقٌ ثَالِثٌ)  “یہ مرد یا عورت ہونے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ﴾”           اور وہی جوڑے پیدا کرتا ہے ، نر اور مادہ  “( سورۃ نجم : 45)  اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،  ﴿وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالاً كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌﴾           “اور دونوں سے کثرت سے مردوعورت پھیلا دئے “( النساء :1) اور اس طرح کوئی تیسری جنس نہیں ہوتی”۔اس طرح، اسلام کسی تیسری جنس کو معین نہیں کرتا۔

 

لہٰذا ،جب کسی قابل اعتماد ڈاکٹر کی جانب سے  جوپیدائشی بے ضابطگیوں، جنسیاتی اعضاء ، جینیات اور صنفی میلان کے  امور میں مہارت رکھتا ہو،  جنس کا تعین ہوجائے تو اس کے بعد اس شخص کے ساتھ   ،اس  کےتعین کردہ جنس کے مطابق، پورے معاشرے میں بغیر کسی تفریق و امتیازی سلوک کے، عام انسانوں جیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔پھر وہ   مرد یاعورت اسلامی معاشرے کے ایسے قابل قدر رکن کی طرح مربوط ہوتا ہےجس سے تمام  شرعی فرائض کی ادائیگی ہوتی ہے جبکہ اسے تمام شرعی حقوق میسر ہوتے ہیں۔

 

ابن عباس ؓ سے مروی ہے،( لَعَنَ رسول اللہﷺالْمُتَشَبِّھِینَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ)  “اللہ کے نبی ﷺ نے ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں ” (بخاری )۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی  فرمایا،﴿ ثَلَاثَةٌ لاَ یَنْظُرُ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ إِ لَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِالْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَلْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّیُّوثُ﴾” تین لوگ ایسے ہیں جن پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ روز قیامت نگاہ بھی نہ ڈالیں گے : ایک وہ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے ، مردنما عورت اور  دیوث (بے غیرت مرد)”( نسائی) ۔

 

یہاں کسی جنس کی مشابہت کرنا عمومی معانی میں آیا ہے جیسے شناخت، کردار، لباس اور مزاج کے لحاظ سے مشابہت ۔ یہ بغیر کسی حد یا تفریق کے مطلق  آیا ہے لہٰذا اس میں اپنی جنس تبدیل کرانا بھی شامل ہے۔ اسلام میں نفسانی خواہش اور شہوت افعال کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ شرعی قوانین  ہی مردوعورت کے باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کے متعلقہ طرزِعمل، مزاج اور کردار کا بھی تعین کرتے ہیں۔ اسلام کے باہمی تعلقات کی تفصیل متعین کردینے کے بعد مرد اور عورت میں محبت اور جسمانی تعلقات، نکاح کے بندھن ہی کا نتیجہ  ہوتے ہیں۔

 

یوں   پیدائش کے وقت کے حیاتیاتی حقائق کونظرانداز کرکے خود ساختہ ادراک سے کسی جنس کا تعین نہیں ہوتا۔ مرد سے عورت میں یا عورت سے مرد میں کسی فرد کی جنس کو تبدیل کردینا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا سمجھا جاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ اس میں دونوں طرح کے طریقے ہی شامل ہیں چاہے ہارمون کے علاج سے ہو یا پلاسٹک سرجری کے ذریعے ہو ۔ لہٰذا  تبدیل ہونے سے پہلے کی اس کی اصل جنس یعنی مرد ہونے کے مطابق ہی اسلام کے احکامات اس پر لاگو ہوں گے۔ کسی دوسرے مرد کے لئے ہرگز جائز نہیں کہ وہ ، جنس کی تبدیلی سے قطع نظر،کسی پیدائشی مرد پیدا ہونے والے کے ساتھ نکاح کے رشتہ میں منسلک ہو ۔

 

مغرب اپنے خاندانی نظام اور خاندانی اقدار کو برباد کردینے کے بعد اب مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ثقافتی جنگ برپا کئے ہوئے ہے۔ مغرب میں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے نتیجے میں فطری ربط، برادری اورکسی اجتماعی فعل کے فقدان کے باعث، مغربی حکومتیں کسی نہ کسی طرح اپنے لوگوں کو قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ فکری و نظریاتی لحاظ سے اسلام کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد مغربی حکمران اشرافیہ اب مسلمانوں سے بھی یہی چاہتی ہے۔ مسلمانوں کے مضبوط خاندانی و برادری اور سماجی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی خواہش  کے ساتھ وہ اب مسلمانوں میں صنف پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ کسی طرح مغرب مسلمانوں کو قابومیں رکھ سکے۔ اب یہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی حفاظتی ڈھال یعنی اسلامی ریاست  خلافت کو دوبارہ قائم کرنے  کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات و ثقافت سے اپنے آپ کو مضبوطی سے منسلک رکھتے ہوئے اس گندگی کی یلغار کا مقابلہ کریں۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
68450

نوائے سُرود  –  شخصیت کا تعارف –   شہزادی کوثر  

نوائے سُرود  –  شخصیت کا تعارف –   شہزادی کوثر

بولنے کی طاقت انسان کو دوسری مخلوقات سے منفرد بناتی ہے قدرت کی طرف سے یہ انعام انسانوں کو عطا ہوا تو حرف وصوت کا اٹوٹ رشتہ بھی قائم ہو گیا ،جب تک صوت ہے تب تک حرف۔ دونوں کے حسین رنگوں کے امتزاج سے لفظی ذریعہ اظہار کی تشکیل ہوئی اور فرد اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے قابل ہو گیا ۔حرف وہ لباس ہے جو مجرد خیالات اور دلنشین امنگوں کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ دل دوز واقعات اور سانحات کو آنے والی نسلوں کے لئےمحفوظ کرتا ہے اور انسان آنے والے زمانے کے لوگوں سے محو گفتگو ہوتا ہے ،مگر بعض اوقات مخاطب کے ہوتے ہوئے بھی انسان کو چپ لگ جاتی ہے اس کے پیچھے کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ کوئی آپ کا یقین توڑ دے ،اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو شدید رد عمل خاموشی کی صورت میں ہوتا  ہے ۔ بعض اوقات شدید غم اور حد سے بڑھا ہوا درد بھی چپ کی وجہ بنتا ہےایسا غم لفاظوں لا محتاج نہیں ہوتا چیختی خاموشی غم کا برملا اظہار کرتی ہے کیونکہ الفاظ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

 

زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیں بہت سی تلخیوں کو اپنی روح میں جذب کرنا پڑتا ہے ،کڑوے گھونٹ پی کر آگے سے جواب دینے سے خود کو روکنا پڑتا ہے ،ایسے میں لوگ آپ کی تحمل مزاجی اور شرافت سے نا جا ئز فائدہ اٹھا نا شروع کر کے بولنے کی تمیز بھول جاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ صرف زبان ہی بولے ،اگر تربیت عمدہ ہوئی ہے تو وہ زبان کی نعم البدل بن جاتی ہے۔۔ بولنا سب جانتے ہیں کوئی زبان سے بولتا ہے کوئی اخلاق سے ۔۔ اخلاق کا جواب ہمیشہ دندان شکن ہوتا ہے۔ گویائی کی صلاحیت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو منہ میں آئے کہہ دیا جائے ، ہر ایک کے سامنے حالات کا رونا رویا جائے  یا لوگوں کو موضوع بحث بنا کر اپنی عاقبت خراب کی جائے۔ ہر بات بتانے کی نہیں ہوتی ،ہر شخص بتانے کے لائق بھی نہیں ہوتا ۔۔۔ ہو سکتا ہے آپ جسے اپنا ہمدم یا مخلص دوست سمجھ کر اس کے سامنے اپنا دل ہلکا کر رہے ہوں تو وہ اسے سب کے سامنے بیان کرنا شروع کر دے ،آج کل یہی کچھ تو ہو رہا ہے ،

 

اندرونی باتیں اور راز بھی پنہاں نہیں رہے بلکہ محفلوں میں گفتگو کا موضوع بن رہے ہیں  ایسے میں عزت دار گھرانوں کی آبرو خاک میں مل جاتی ہے۔ سچائی کی ہیت بدل کر پیش کرنے میں ہمارہ معاشرہ سب سے آگے ہے خاص کر خواتین ( معذرت کے ساتھ ) اس معاملے میں اپنا بھر پور کردارادا کر رہی ہیں ۔ دنیا میں سب سے مہنگی چیز عزت ہے ،اگر ایک بار گرد آلود ہو جائے تو صاف نہیں ہو سکتی ۔بے شک غلط فہمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو لیکن معاشرہ اس کو پہلے والی عزت دینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتا  اور نہ ہی اس کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔ اس لئے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ  الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں تا کہ سب کی عزت محفوظ رہے ۔ اس کے لئے سب سے ضروری چیز تربیت ہے جو بتاتی ہے کہ بات کب کرنی ہے ؟  کس سے کرنی ہے ؟ کتنی کرنی ہے ؟ اور سب سے مشکل کام کہ کیسے کرنی ہے ؟ اگر ان باتوں پر غور کریں گے تو بہت سے فتنے پیدا ہی نہیں ہوں گے ۔ معمولات زندگی میں سینکڑوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی بات تحمل سے سننی چاہئیے جو اخلاق کا تقاضا ہے ، کوئی بات کر رہا ہے تو اسے بیچ میں نہ کاٹیں اسے اپنی بات پوری کرنے دیں جو ہمارے ادب واحترام کی نشاندہی کرتا ہے ،

 

ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش بھی ہونی چاہیئےتا کہ بات کی نوعیت اور باریکیوں کی وضاحت ہو سکے کہ ان کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے ۔ پھر اس کے مختلف پہلوں پر غورو فکر کرنے کے بعد ہی  اس کی تائید یا تردید ہونی چاہئیے جو دانائی کی دلیل ہے ۔ لیکن ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ہم تحمل سے کسی کی بات سنیں اس پر غور کر نے کے بعد جواب دیں ۔ آدھی بات سن کرہی اپنا جواب داغ دیتے ہیں ،جو آدھی بات کا آدھا اور نامعقول جواب ہوتا ہے ۔ ہمارہ مسلہ یہ ہے کہ ہم سمجھنے کےلیے بات نہیں سنتے بلکہ جواب دینے کے لیے سنتے ہیں یہی جواب دوسروں کے سامنے ہماری پہچان کراتا ہے۔ ہمارے لفظوں کا انتخاب ،آواز کا اتار چڑھاو، چہرے کے تاثرات،الفاظ کی ترتیب ،لہجے کا زیرو بم ہی ہماری شخصیت کا بہترین تعارف ہے ۔ انسان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے دوسرے کو اس سے بڑھ کر نہیں دے سکتا ،لوگوں کے رویوں اور باتوں سے غمزدہ نہیں ہونا چائییے، ضروری نہیں کہ سب کے پاس اپنائیت، احترام اور خلوص کی دولت ہو اکثریت کی جھولی ان ہیروں  سے خالی ہوتی ہے ۔ دنیاوی معاملات میں جہاں سے جو کچھ ملے تو سمجھ جائیں کہ دینے والا اپنے ظرف کے مطابق ہی دے رہا ہے اس سے بڑھ کر دینے کی اس کی اوقات نہیں ۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
68232

مرتبہ ۔۔۔۔۔ میر سیما آ مان

Posted on

مرتبہ ۔۔۔۔۔ میر سیما آ مان

پرانے وقتوں میں استاد کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی  آ ج سینکڑوں ڈگریوں سے لبریز ہونے کے باوجود استاد کو وہ مقام حاصل نہیں جو اس دور کے کم پڑھے لکھے معلم کو حاصل تھی ۔۔کیوں ؟؟ جبکہ دوسری طرف  بیرون ممالک میں آج بھی استاد کی عزت برقرار ہے ۔۔۔میں نے اس نہج پر سوچا تو مجھے خیال آ یا کہ گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ملک میں والدین اور اساتذہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے آپ دوسری تمام مسائل کو ایک طرف رکھیں صر ف اس ایک عنوان پر سوچیں تو اپکو صورتحال کا اندازہ ہوگا لیکن سوال یہ ہے کہ اسکا زمہ دار کون ہے؟ مضامین میں ایک مضمون ہے حساب یعنی میتھس۔۔جب حساب کا نام لیتے ہیں اسکے چار بڑے اصول آ پکے ذہن میں آ ئینگے ۔۔

 

ضرب تقسیم جمع اور منفی۔۔۔ہمارے اساتذہ کی بد قسمتی یہ ہوئی کہ انھوں نے کلاس میں کمزور طالب علموں کو منفی کرنا شروع کیا ۔۔ جب سو میں سے چار ذہین طالبات کو سر پر بٹھایا جائے تعریفوں کے پل باندھے جائیں باقی کہ چیھانوے طالبات سے ان چار کی عزت کروائی جائے تو استاد کا مرتبہ تو گرنا ہی تھا۔۔ یہی بد قسمتی آ ج کی والدین کے ساتھ ہوئی اور اولڈ ہوم انکا مقدر بن گئی ۔۔۔جب آپ کسی ذات کی مسلسل نفی کرتے ہیں تو اس ذات نے آگے جا کے شر ہی بننا ہے خیر نہیں ۔۔ اپکے ملک کو ان چار بچوں نے نہیں چلانا تھا یہ سو کہ سو بچے آپکی زمہ داری تھے جنکی کمزوریوں کو دور کرنے کے بجائے آپ ان کو حقیر بناتے گئے ۔یہی حال والدین کا ہے جو اپنی دس بچوں میں سے ایک کو اپنا فخر بناتے ہیں اور باقیوں سے اسکی عزت کراتے ہیں ۔

 

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب والدین کا روش یہ ہوگا تو آگے جا کے ان بچوں نے آ پ پر جوتے ہی برسانے ہیں پھول نہیں ۔۔ استاد ہو یا والدین اپکا مرتبہ آپ سے اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ اپنے بچوں میں سب سے کمزور بچے پر سب سے ذیادہ رحم کھائیں اسکی کمزوری  کو دور کرنے پر توجہ  دیں اور اسے لاکر اپنے قابل بچے کے برابر کھڑا  کریں نہ کہ کمزوری کی بنا پر اسے تاعمر حقیر بنائے رکھیں ۔۔۔۔۔ پاکستان میں خاندانی نظام کی تباہی استاد اور والدین کی مرتبے میں کمی اسی وجہہ سے آ ئی کیونکہ ہمارے بڑے حساب کے مضمون میں فیل ہوگئے انکو نہ جمع کرنا آ یا نہ تقسیم کرنا آ یا نہ اچھائی برائیوں کو ضرب دینا آ یا ۔۔بس ایک منفی کا فارمولہ سیکھ گئے اور دوسروں کی ذات کی منفی کرتے کرتے اپنی ہی ذات وقار اور مرتبے کی نفی کرگئے،اور یوں  اپنے ہی مقام سے گر گئے ۔۔۔

 

یہاں پر میں صرف اتنا کہونگی کہ ایک شاعر نے استاد کو آ سمان پر چاند سے تشبیح دی ہے بالکل اسی طرح اسلام میں استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے اور والدین کا درجہ بہت ہی زیادہ افضل ہے جسکی تفصیل آ پ والدین کے حقوق کے مضامین میں پڑھ سکتے ہیں ۔۔بہتر ہوگا کہ بحثیت استاد یا والدین جنکے ہاتھ میں پورے قوم کو سکھانے کی زمہ داری ہے  ہم اپنی رویوں پر تھوڑا نظر ثانی کریں اور تربیت کرنے کے ایسے اصول مرتب دیں کہ کل کو آپکو پچھتانا نہ پڑے ۔۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
67796