جشن آزادی اور ہمارا وطیرہ – از :کلثوم رضآ
میری اکثر کوشش رہتی ہے کہ اہم دنوں کے حوالے سے کچھ تحریر کروں۔۔تو اب کی بار بھی (جبکہ ہر طرف مایوسی اور غم و غصہ ہے کے باوجود) 77واں یوم آزادی کے حوالے سے ارادہ “امید سحر” عنواں سے لکھنے کا تھا۔۔وجہ اسکی میرے شاگردوں کا وہ جوش و جذبہ جو جشن آزادی کی تقریب کے لیے تیاری میں دکھا رہے تھے۔ان کے لیے تقاریر،ملی نغمے اور کمپیرنگ لکھتے ہوئے مجھے میرا بچپن یاد آرہا تھا۔۔۔مجھے یہ ساری باتیں جو تقاریر اور ملی نغموں میں ہوتی ہیں سچ لگ رہی تھیں۔ہوش سنبھالنے کے بعد پتہ چلا کہ حصول پاکستان کے لیے ہمارے بزرگوں کی انتھک محنت اور قربانیوں کی حد تک تو ٹھیک ہیں لکن قیام پاکستان کے بعد اس کا جو حشر ہوا وہ بہت مختلف ہے اور اس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔۔
تو گزشتہ کل یعنی 13 اگست کو ہم نے سکول میں یوم آزادی کی تقریب کا اہتمام کیا ۔۔۔بچوں کی خوشی اور جذبے کو دیکھ کر لگتا تھا یہی وہ بچے ہیں جو پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لیے کوشاں ہوں گے اور ان شاءاللہ بنائیں گے بھی۔۔۔
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
(شاعر نامعلوم)
بخار کی وجہ سے طبیعت بھی خراب تھی لکن سوچ رہی تھی کہ بچوں کے پروگرام کو اختتام تک پہنچا کر کچھ بھی ہو جائے مضمون لکھ کر پھر ہسپتال جاؤں گی۔۔۔ لیکن جب گھر پہنچی تو بدن کے دکھنے کی بات تک تو خیر تھی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تو ہسپتال پہنچ گئی ۔۔جہاں ٹمپریچر بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مجھے داخل کیا گیا اور مختلف انجیکشن لگے ۔۔مریض بھی زیادہ تھے۔۔عورتیں ادھر ادھر غش کھا کر گر رہی تھیں ۔۔ڈاکٹر اور نرسیں انھیں سنبھالتی اور علاج کرتی رہیں۔۔ رات گیارہ بجے کے قریب گھر آنے لگی تو بازار میں کچھ دکانیں کھلی تھیں جن میں مرد وخواتین،بچے بچیاں خریداری میں مصروف تھے۔۔ڈارئیور بیٹا اجازت طلب کرکے اپنے بچوں کے لیے کچھ خریدنے کے لیے اترا تو میرا بیٹا بھی ساتھ ہو لیا۔۔اور چھوٹی بہن کے لیے کچھ خریدنے لگا۔۔۔اتنے میں میں دکان کا جائزہ لیتی رہی،اس میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جنھیں جشن آزادی سے قطعاً تعلق نہیں ہے ۔۔ہرے اور سفید رنگ کے کپڑوں کے علاوہ مفلر،ٹوپی،جھنڈیاں،بیجیز ،بالوں میں لگانے کے لیے کلپ ،پونی ،چوڑیان،۔ بوندیں، عینک انگوٹھیاں، سر پہ باندھنے کے لیے پٹیاں،ہلال اور تارا بنے لمبے لمبے ناخن اور گز گز لمبے باجے بھی تھے۔۔۔جنھیں بچے ہی نہیں قدرے نوجواں بھی بجا رہے تھے اس بات سے بالکل بے نیاز کہ رات کا وقت ہے کسی کی نیند خراب ہو سکتی ہے ،کسی بیمار کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔۔ (اور اب جب میں اس متعلق لکھ رہی ہوں زورو شور سے باجوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ لگتا ہےایسا نہ کرنے پر قائد کی روح ان سے ناراض ہو جائے گی)۔
دکان میں اونچی آواز میں “عمران خان پخیر راغلے” والا کوئی گانا چل رہا تھا جس کے دھن سے کسی بھی طرح وہ ملی نغمہ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔میرے بیٹے نے اس طرز کے ساتھ گل نواز خاکی اور مہ جبین قزلباش کا دوگانہ مکمل گایا۔۔۔”اے نازنین جانان مہ ،شرین لووئی خوبان مہ،حسین مہربان مہ،صنم شرین ژان “والا…پی ٹی آئی لکھے ہوئے ٹوپی اور مفلر دکاندار نے خود بھی پہنا تھا اور بچوں کو بھی پی ٹی آئی والی جھنڈیوں کے ساتھ مفلر بھی تھما رہا رہا تھا ۔۔
یہ صحیح ہے ہر کسی کی اپنی پارٹی ہوتی ہے لکن قومی دن پر ایسی تعصب والی باتیں نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ بدقسمتی سے ہم خود کو پاکستانی قوم ظاہر کرنے کے بجائے پٹھان،پنجابی،بلوچی،سندھی،
سرائیکی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی ،پی پی پی، جے آئی ،جے یو ائی ،پی ایم ایل این،این اے پی ،ایم کیو ایم ،ق لیگ اور تحریک لبیک ظاہر کرنے لگے ہیں۔۔قومی پرچم سے زیادہ پارٹیوں کی جھنڈیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔۔۔انھی تعصبات کی وجہ سے خدا نخواستہ ملک کئی لختوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔۔۔ آج ہی ایک پوسٹ نظروں سے گزری کہ “ارشد ندیم جب پاکستان پہنچے تو اپنے گاؤں جاتے ہوئے اپنی گاڑی میں پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا کر باقیوں کو جلانے کا کام کیا”۔
کیا ارشد ندیم پاکستان کی نہیں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر ریے تھے؟ کیا ان کی جیت سے پاکستانی خوش نہیں؟
ایسی بے بنیاد باتیں پھیلانے سے آخر ہم کب باز آئیں گے؟
یہ ٹھیک ہے ان کی گاڑی میں پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا رہا تھا لیکن قومی جھنڈے سے قدرے نیچے لہرا رہا تھا۔۔۔ ارشد ندیم کے پی ٹی آئی سے تعلق پر بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔۔ہیں تو وہ پاکستانی ہی۔۔۔ اسے پاکستانی ہی رہنے دیا جائے ۔۔
اور بھی بہت سی پوسٹیں ایسی لگی ہیں ۔۔جس میں کیک کاٹے جا رہے ہیں لڑکیوں نے چہروں پر قومی پرچم پینٹ کیے ہیں۔۔۔ لمبے لمبے ناخنوں پر ہرا نیل پالش اور سفید رنگ سے چاند تارے بھی بنائے ہیں۔۔اور محب وطنی کے جذبے سے سرشاری کی حد کو تب چھو گئے ہیں کہ بیک گراونڈ میوزک انڈین گانوں کا ہے۔۔۔
اس قسم کی جشن سے یہ قائد اعظم کا پاکستان تھوڑی لگ رہا ہے۔۔۔دراصل انھیں آزادی کی قیمت نہیں معلوم تبھی تو اس قسم کی پارٹیاں کر رہے ہیں۔۔
بانی پاکستان نے اپنے رفقاء کے ساتھ طویل جدو جہد کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے الگ آزاد وطن بنایا تھا۔۔
کارواں جن کا لٹا راہ میں آزادی کی
قوم کا،ملک کا،ان درد کے ماروں کو سلام۔۔
انھیں ہم صرف سلام ہی پیش کر سکتے ہیں ۔۔۔جنھوں نے ہمارے لیے تو آزاد ملک بنایا اور خود صرف ایک سال اس آزاد فضا میں وہ بھی بیماری کی حالت میں رہ سکے۔۔۔جس کے بعد پاکستان کی کشتی تا ہنوز ڈاواں ڈھول ہے۔۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر لیڈر تھے اور پاکستان کا نظام بھی اسی طرح بنانا چاہتے تھے۔۔۔ لیکن جب ہم ان کی فرمودات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قسم کے لیڈر تھے اور پاکستان کا نظام کس طرح بنانا چاہتے تھے۔۔۔
وہ 15 نومبر 1942 کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں
“مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟
پاکستان کا طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔۔مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمد للہ قرآن مجید ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔۔۔
ایک اور جگہ انھوں نے فرمایا تھا کہ “اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر کی شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں ۔۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانوندان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔۔
25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے اپنی خطاب میں فرماتے ہیں ۔۔
“اج ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلعم کی تعظیم وتکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلعم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم راہنما تھے، عظیم واضح قانوندان تھے، عظیم سیاستدان اور عظیم حکمران تھے۔ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی بھی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہیں ہوگی۔
قائدِ اعظم کی فرمودات سے واضع ہوتا ہے کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا وہ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔۔
لیکن ہم آج بھی 77 واں یوم آزادی بھی اسلامی تو کیا مغربی طرز پر بھی جمہوریت کے بغیر منا رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کہا تھا کہ “پاکستان کا حاصل کرنا ہمارے مقصد کی ابتداء ہے۔ ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں ۔حصول پاکستان کے مقابلے میں اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے۔ اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔
وہ نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتے کہ آپ تعلیم پر پوری توجہ دیں اور خود کو عمل کے لیے تیار کر لیں۔۔یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور حیات کا مسئلہ ہے۔۔۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں اس کا اندازہ سالانہ بجٹ پر اس کے لیے مختص کیے گئے بجٹ سے ہوتی ہے۔۔سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی سطح 60 فیصد بتائی جاتی ہے جن میں وہ تعلیم یافتہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لکھنا جانتے ہیں۔۔۔ ہمارے معیار تعلیم کا حال اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی نہیں۔۔۔
11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں آباد اقلیتی اقوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔
اس سے پہلے بھی 2 نومبر 1940 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
“چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا درس دیتا ہے۔بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آجائیں اسلام ان کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔۔۔
لیکن ہم نے ان کے کیے وعدے پر بھی پانی پھیر دیا۔۔ ہمارے ملک میں اقلیت محفوظ نہیں۔۔۔
(قائد اعظم کے فرمودات مختلف مضامین سے اقتباس ہیں)
ملک کا نظام اگر اسلامی طرز پر جمہوری ہوتا تو اقلیتیں محفوظ ہوتیں۔۔اور تعزیراتی حدیں بھی ہر خاص و عام پر یکساں لگتیں ۔یہاں امرا ہر حد سے بری ہیں اور عوام ناکردہ گناہوں کی سزا بھی عمر قید اور سزائے موت کی صورت پاتے ہیں۔
عوام کے ٹیکسوں سے امراء کے بچے عیاشیاں کرتے ہیں اور عوام بجلی کا بل زیادہ آنے پر اپنے ہی بھائی کو قتل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔۔
اب بھی اگر عوام جاگ جائے تو انھیں ان کے حقوق ملک خدا داد پر خدا کا نظام رائج کرنے سے مل سکتے ہیں۔
تو آئیے جشن آزادی مناتے ہوئے مقصد آزادی کو سامنے رکھیں اور عہد کریں کہ ظلم و زیادتی پر مبنی اس نظام کو بدلیں بجائے ملک و قوم کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کرنے کے۔۔۔ خوب اخلاص کے ساتھ محنت کریں اور اپنا پاکستان شاد و آباد کریں۔۔۔
(دائیں ہاتھ پر ہی کینولہ ہے تو لکھنا تھوڑا مشکل ہوا لیکن کیا کریں پاکستان کی سلامتی کے لیے اور قوم کو ایک جگہ جمع کرنے کے لیے اور کچھ فضول خرافات سے بچانے کے لیے اپنی رائے دی.)
میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں بہار تجھ پہ نثار کر دوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کردوں
میرے وطن، میرے وطن۔۔۔#