Chitral Times

ڈرپوک پری ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

ڈرپوک پری ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کروشیا کے ایک پرانے، سنسان قلعے میں ایک عورت رہتی تھی جس کا نام “میریانا” تھا۔ میریانا نہایت حسین اور نرم دل تھی، لیکن ایک مسئلہ تھا—وہ ڈرپوک بھی اتنی تھی کہ اگر ہوا سے دروازہ بند ہو جاتا تو وہ اسے بھوت سمجھ کر چیخنے لگتی۔

ایک دن میریانا نے فیصلہ کیا کہ اب ڈرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا، “میں ایک آزاد عورت ہوں، اور میں کسی بھوت، سایہ یا کبوتر سے نہیں ڈروں گی۔” ہاں، کبوتروں سے بھی وہ اتنی ہی ڈرتی تھی جتنا کسی خوفناک چیز سے۔

 

nandini pari

اسی رات، قلعے میں عجیب سی آوازیں آنے لگیں۔ ہلکی ہوا چل رہی تھی، اور روشنی کی چند کرنیں دروازوں اور کھڑکیوں کے درمیان جھانک رہی تھیں۔ میریانا نے اپنے اندر کی بہادر عورت کو جگایا اور کہا، “بس بہت ہو گیا! آج میں دیکھوں گی کہ یہ شور کس کا ہے!”

وہ آہستہ آہستہ پرانی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔ ہر قدم کے ساتھ سیڑھیاں ایسے چرچراتیں جیسے وہ میریانا کا مذاق اڑا رہی ہوں۔ لیکن وہ ہمت کے ساتھ آگے بڑھی۔ جیسے ہی وہ نیچے پہنچی، ایک کبوتری اس کے سامنے سے پھڑپھڑاتی ہوئی اڑ گئی۔ میریانا نے ایک چیخ ماری اور پیچھے کی طرف چھلانگ لگا دی، لیکن خوش قسمتی سے زمین پر گرنے کے بجائے وہ ہوا میں تیرنے لگی!

“یہ کیا؟ میں اُڑ رہی ہوں؟” میریانا حیران رہ گئی۔ اصل میں قلعے کی روشنی کچھ اس طرح پڑ رہی تھی کہ وہ خود کو کسی جادوئی پری کی طرح محسوس کرنے لگی۔ لیکن پریشانی یہ تھی کہ اس کے پیر زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ وہ ہوا میں جھول رہی تھی، اور دور ایک اور کبوتر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے “گٹر گوں” کر رہا تھا۔

میریانا نے خود سے کہا، “اب بہت ہو گیا! میں جادوئی ہوں یا نہیں، میں اس کبوتر کو دکھا دوں گی کہ میں کتنی بہادر ہوں!” اس نے کبوتروں کی طرف دوڑنے کی کوشش کی، لیکن ہوا میں تیرتے ہوئے اس کی حرکت کچھ ایسی مزاحیہ تھی کہ وہ خود ہی ہنسنے لگی۔

تبھی، قلعے کا پرانا دروازہ زور سے کھلا اور ایک جھونکا اندر آیا۔ اس جھونکے نے میریانا کے سفید لباس کو ہوا میں لہرا دیا، اور وہ بالکل بھوت کی طرح لگنے لگی۔ کبوتر یہ منظر دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ وہ فوراً اڑ کر قلعے سے باہر نکل گیا۔

میریانا نے خوش ہو کر کہا، “واہ، میں نے کبوتر کو ڈرا دیا! آخر کار میں بہادر بن گئی!” لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس کا سفید لباس اور ہوا میں جھولنے کا منظر ہی اتنا عجیب تھا کہ کبوتر نے اپنی عزت بچانے میں عافیت جانی۔

قلعے کے لوگ اگلے دن یہی کہانیاں کرتے رہے کہ کس طرح ایک “جادوئی بھوت” نے کبوتروں کو قلعے سے بھگا دیا۔ اور میریانا؟ وہ اپنے اندر کی بہادری پر فخر محسوس کر رہی تھی، حالانکہ اسے ابھی بھی دروازے کے بند ہونے کی آواز سے تھوڑا سا ڈر لگتا تھا۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96203

حکایتِ عالمِ گمشدہ ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

حکایتِ عالمِ گمشدہ ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

تصویر کے ایک ایک گوشے سے گمشدگی اور ویرانی کی مہک آتی ہے۔ ایک سنسان کمرہ، جس کی دیواریں زخم خوردہ اور چھت وقت کی مار سے جھلسی ہوئی، ایک ایسی دنیا کی کہانی بیان کرتی ہے جو کبھی آباد تھی، لیکن اب فنا کی گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے۔ یہ منظر ایک طرف انسانی بے بسی کو عیاں کرتا ہے تو دوسری جانب وقت اور فطرت کی بے رحمی کو نمایاں کرتا ہے۔ کھڑکی کے باہر نظر آتی سبزہ زار زمین کے برعکس یہ کمرہ موت اور زندگی کے درمیان ایک تضاد کی تصویر پیش کرتا ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت اور تفکر میں ڈال دیتا ہے۔

 

 

nandiniyuu

 

تصویر کے مرکزی حصے میں ایک شخص خاموشی سے بیٹھا ہوا ہے، جو چہرے پر ماسک پہنے کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے۔ یہ منظر خود میں ایک کہانی چھپائے ہوئے ہے، جس کا ہر پہلو انسانی جذبات، علم کی جستجو اور تنہائی کو اجاگر کرتا ہے۔ ماسک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جگہ کسی خطرناک ماحول کا حصہ ہو سکتی ہے، یا پھر یہ کسی بیماری، آلودگی، یا تباہی کے بعد کا منظر ہے۔ لیکن کتاب کا وجود اس خاموشی میں زندگی کی ایک امید کا چراغ روشن کیے ہوئے ہے۔ علم اور شعور کے ذریعے شاید یہ شخص اس ویران ماحول میں بقا کی تلاش میں ہے یا پھر ماضی کے نشانات اور انسانی غلطیوں کا مطالعہ کر رہا ہے۔

 

یہ کمرہ اپنی حالت سے وقت کی بے مروتی کا گواہ ہے۔ دیواروں پر رنگ اُکھڑ چکا ہے، اور جگہ جگہ داغ دھبے اور نمی کی نشانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ جگہ مدتوں سے کسی نے آباد نہیں کی۔ لکڑی کی پرانی درازیں اور خستہ الماریاں اس بات کی علامت ہیں کہ یہ جگہ کسی زمانے میں کسی کے لیے نہایت اہم رہی ہو گی، لیکن اب یہاں صرف تنہائی کا راج ہے۔ اس کمرے کی خاموشی چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ جو چیز آج اہم ہے، وہ کل غیر ضروری ہو سکتی ہے۔

 

یہ منظر ایک گہری داستان کو بیان کرتا ہے: ویرانی اور زندگی کے درمیان کی کہانی۔ ماسک پہنے شخص کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ زندگی کسی نہ کسی صورت آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہوں۔ وہ کتاب جو اس کے ہاتھ میں ہے، انسان کی علم کی طلب اور تجسس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو بقا کی جانب لے جا سکتا ہے، اور شاید یہی وہ امید ہے جو اس ویرانی میں بھی نظر آ رہی ہے۔

لیکن تصویر کا ایک اور پہلو ماحولیاتی تباہی کا پیغام ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ اگر انسان اپنی دنیا اور ماحول کا خیال نہ رکھے، تو وہ دن دور نہیں جب ہم سب کو ایسی ویرانی کا سامنا کرنا پڑے۔ کمرے کے اندر کی تباہی اور کھڑکی سے جھانکتی ہریالی کے درمیان جو فرق ہے، وہ ہماری لاپرواہی اور فطرت کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دیتا ہے۔ یہ تصویر ایک خاموش انتباہ ہے کہ زمین کے وسائل محدود ہیں، اور ان کا بے دریغ استعمال ہمیں ایسے انجام کی طرف لے جا سکتا ہے جہاں ہمارے پاس صرف تباہی کے آثار رہ جائیں گے۔

 

اس تصویر میں انسانی تنہائی کو بھی خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ شخص جو تنہا بیٹھا ہے، اس کے آس پاس کے ماحول سے بے خبر لگتا ہے۔ یہ تنہائی اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ یہ تنہائی نہ صرف جسمانی ہے بلکہ روحانی بھی۔ شاید وہ کتاب میں ماضی کی کہانیاں پڑھ رہا ہے، یا شاید وہ مستقبل کی تلاش میں ہے۔ لیکن یہ منظر واضح کرتا ہے کہ علم اور تجسس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو آگے بڑھنے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

 

تصویر کا ہر عنصر ایک داستان بیان کرتا ہے۔ خستہ حال دیواریں، جھلسی ہوئی چھت، اور بوسیدہ فرنیچر، سب انسان کی عارضی حیثیت اور فطرت کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ کھڑکی کے باہر موجود سبزہ اس بات کا پیغام دیتا ہے کہ زندگی کہیں نہ کہیں جاری رہتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سب کے باوجود، یہ تصویر انسانیت کے زوال، امید، اور علم کی اہمیت کا ایک جامع مظہر ہے۔

 

آخر میں، یہ تصویر ہمیں خود سے ایک سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے: ہم اپنی دنیا کو کس طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنی زمین کو بچا سکتے ہیں، یا ہم بھی ایسے ہی کسی ویران کمرے میں اپنے ماضی کی کہانیاں پڑھتے رہ جائیں گے؟ ماسک پہنے اس شخص کی مانند، ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ علم، عمل اور شعور کے ذریعے ہم اپنی دنیا کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ تصویر ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہماری ہی حقیقت دکھاتی ہے، اور ایک تنبیہ ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو یہ ویرانی ہمارا مستقبل بن سکتی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96170

شاہی عظمت اور فنا کے اسرار ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

شاہی عظمت اور فنا کے اسرار ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی اور اقتدار کی عارضی نوعیت اس تصویر کا مرکزی موضوع ہے۔ ملکہ کی عظمت، چیتے کی طاقت، اور ستونوں کی تاریخ سب مل کر ایک ابدی سچائی کی عکاسی کرتے ہیں—ہر چیز فنا پذیر ہے۔ تصویر ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے مقصد پر غور کریں اور ان چیزوں کی طرف رجوع کریں جو وقت کی قید سے آزاد ہیں، جیسے اخلاقی اقدار اور انسانیت کی خدمت۔ عظمت کی اصل طاقت اس کے زوال کو سمجھنے میں ہے۔

؎

زندگی کی عارضی نوعیت اور اقتدار کے زوال نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے دانشوروں کو متوجہ کیا ہے۔ مصر کی تہذیب، اپنی شان و شوکت کے باوجود، فنا کی حقیقت سے بچ نہ سکی۔ تصویر میں دکھائی جانے والی ملکہ اور اس کے اطراف کی تزئین ہمیں اس ابدی حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہے۔ عظمت کا یہ مظاہرہ محض وقتی ہے، جو آنے والے وقت کی گرد میں کھو جاتا ہے۔ یہاں ہم اس تصویر کے فلسفیانہ اور عبرت آموز پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔

 

nandini091

 

یہ تصویر شاہی عظمت کا بے مثال منظر پیش کرتی ہے، جہاں ایک ملکہ تخت پر براجمان ہے، اور اس کے ارد گرد طاقت و جاہ و جلال کے علامتی نشانات، جیسے چیتے اور سنہری آرائشیں، موجود ہیں۔ ملکہ کا وقار، اس کے زیورات کی چمک اور تخت کی تزئین یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کا مقام زمین پر سب سے بلند ہے۔ تاہم، اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ تصویر ہمیں کچھ اور بھی بتاتی ہے—ایک ایسی کہانی جو عروج اور زوال کے دائرے کے گرد گھومتی ہے۔

شاہی ستون، جن پر قدیم دیومالائی مناظر اور نقاشی کندہ ہیں، ماضی کی کہانیوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان ستونوں کا انجام بھی وہی ہے جو انسان کے جسم کا ہوتا ہے—خاک اور بوسیدگی۔ تخت پر بیٹھنے والی ملکہ کا وجود بھی عارضی ہے، کیونکہ وقت کی قوت اس کے اقتدار کو نگل لے گی۔ یہ تصویر ہمیں ایک اٹل سبق دیتی ہے کہ عظمت کا یہ سفر ہمیشہ ایک انجام پر پہنچتا ہے۔

چیتے، جو طاقت کی علامت ہیں، ملکہ کے گرد موجود ہیں، لیکن وہ بھی فطرت کے قوانین کے پابند ہیں۔ وقت کے ساتھ، ان کا جسم بھی خاک میں مل جائے گا۔ ملکہ کے زیورات اور شان و شوکت وقت کے دھارے میں محض ایک یادگار کے طور پر رہ جائیں گے۔ یہ یادگار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کی اصل طاقت اس کی عاجزی میں ہے، نہ کہ اس کے تخت و تاج میں۔

یہ تصویر مصر کی قدیم تاریخ کا ایک عکس بھی پیش کرتی ہے، جو اپنے عروج کے دنوں میں دنیا کی سب سے طاقتور تہذیب تھی۔ لیکن آج اس کے عظیم محلات اور یادگاریں، جو کبھی عظمت کی نشانیاں تھیں، کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ انسان کی یہی کہانی ہمیں ایک سوال پر لے آتی ہے: کیا ہم اپنی زندگی کو محض اقتدار اور شان و شوکت کے لیے وقف کریں، یا ایسی اقدار اپنائیں جو وقت کے امتحان میں قائم رہ سکیں؟

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96146

طوفان کے بیچ سفرِ شجاعت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

طوفان کے بیچ سفرِ شجاعت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

یہ کہانی ایک لڑکی کے سمندری سفر کی ہے جو ایک طوفانی رات میں خوفناک حالات کا سامنا کرتی ہے۔ کشتی الٹنے کے بعد وہ سمندر میں تنہا رہ جاتی ہے اور خطرناک شارک اور طوفانی لہروں کے درمیان اپنی ہمت اور حوصلے سے زندگی کی جنگ لڑتی ہے۔ کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد، وہ بچاؤ کشتی کی مدد سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ تجربہ اسے سکھاتا ہے کہ زندگی کے مشکل لمحات بھی ہماری شخصیت کو مضبوط بناتے ہیں۔

رات کے گہرے سناٹے میں، جب سمندر کی لہریں اپنے عروج پر تھیں، وہ خود کو اس کے رحم و کرم پر محسوس کر رہی تھی۔ آسمان پر بجلی کی چمک، گہرے بادلوں کی گرج، اور پانی کی لہروں کی دہاڑ ایک خوفناک منظر تخلیق کر رہے تھے۔ مگر وہ لڑکی، جس کے دل میں نہ ختم ہونے والا تجسس تھا، اس طوفانی رات کو اپنی زندگی کے سب سے بڑے ایڈونچر کے طور پر دیکھ رہی تھی۔

 

nandini girl in river under water ocian

یہ سب اس وقت شروع ہوا جب وہ ایک کشتی پر اپنے دوستوں کے ساتھ سمندر کے وسط میں ایک معمولی سفر پر نکلی تھی۔ سب کچھ پرسکون تھا، ہوا نرم تھی، اور لہریں ہموار تھیں۔ لیکن وقت کا پہیہ اچانک بدل گیا۔ دور سے آتے بادلوں نے پورے آسمان کو ڈھانپ لیا، اور ان کے بیچ چھپی بجلی نے پانی کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔

کشتی، جو کبھی ان کے تحفظ کا ذریعہ تھی، اب بے قابو ہو چکی تھی۔ اچانک ایک بڑی لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور وہ پانی میں جا گری۔ اس کے دوست بکھر گئے، اور وہ خود سمندر کے بیچ اکیلی رہ گئی۔ پانی کا سرد لمس اور دل دہلا دینے والی گہرائی اس کے خوف کو اور بڑھا رہی تھی۔

اسی لمحے، اس نے اپنے قریب ایک شارک کی پشت دیکھ لی۔ یہ لمحہ کسی خواب سے کم نہ تھا۔ اس کی دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، مگر خوف پر قابو پا کر اس نے اپنی سانسوں کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ سمندر کے بیچ تنہا، وہ جانتی تھی کہ ہار ماننے کا مطلب موت کو گلے لگانا ہے۔

اس نے خود کو سنبھالا اور فیصلہ کیا کہ اگر یہ رات اس کی آخری ہو، تو وہ اسے بہادری سے گزارے گی۔ طوفانی لہروں کے بیچ تیرتے ہوئے، اس نے نہ صرف اپنی جان بچانے کی کوشش کی بلکہ اس خوبصورتی کو بھی محسوس کیا جو طوفان کے ساتھ تھی۔ بجلی کی روشنی میں پانی کا چمکتا ہوا منظر اور لہروں کا شور جیسے ایک عجیب قسم کی موسیقی تخلیق کر رہے تھے۔

کئی گھنٹوں کی جدو جہد کے بعد، اسے دور سے ایک روشنی دکھائی دی۔ وہ روشنی کسی کشتی کی تھی جو اس کی طرف آ رہی تھی۔ اس نے پوری طاقت سے چیخنا شروع کیا اور اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ کشتی کے عملے نے اسے پانی سے نکالا اور اسے تحفظ دیا۔

اس رات نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ نہ صرف اپنے خوف پر قابو پا چکی تھی بلکہ اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو۔ یہ سمندری سفر اس کی یادوں کا حصہ بن گیا، جو اسے ہمیشہ زندگی کی خوبصورتی اور ہمت کی اہمیت یاد دلاتا رہے گا۔

ایڈونچر ہمیں نہ صرف نئے تجربات سکھاتا ہے بلکہ ہماری شخصیت کو نکھارتا بھی ہے۔ زندگی کے سمندری طوفانوں سے نہ گھبرائیں، بلکہ ان کا سامنا کریں کیونکہ یہی لمحات آپ کی زندگی کو خاص بناتے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96084

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

پرتگال کی یخ بستہ شام میں گرم کافی کے ساتھ ایک میل موصول ہوئی، جس میں چترال ٹائمز کے ایک محترم ایڈیٹر نے ایک حساس مسئلے پر توجہ دلائی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں 15 سے 30 سال کی لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ڈاکٹر شاکرہ نندنی یعنی مجھے، اس موضوع پر تحقیق کے لیے مجبور کر دیا۔

 

چترال اور شمالی پاکستان کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کی خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہایت تشویشناک ہے۔ میں، ڈاکٹر شاکرہ نندنی، اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس کے پیچھے چھپی وجوہات کو سمجھا جا سکے اور ان کے حل تلاش کیے جا سکیں۔

 

وجوہات – میری تحقیق کی روشنی میں

ARY NEWS URDUNEWS TNN URDU گھریلو تشدد اور خاندانی تنازعات
میری تحقیق کے مطابق، گھریلو جھگڑے اور تشدد خواتین کے لیے سب سے بڑی پریشانیوں میں شامل ہیں۔ خاص طور پر کم عمری کی شادی اور حقوق کی پامالی جیسے مسائل ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

 

URDU NEWS URDU NEWS تعلیمی ناکامیاں

وہ نوجوان لڑکیاں جو تعلیمی میدان میں ناکامی کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر جہاں والدین یا معاشرے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، خود کو تنہائی اور مایوسی کا شکار پاتی ہیں​۔

 

ARY NEWS ذہنی صحت کی سہولیات کا فقدان

چترال میں ماہر نفسیات کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میری تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی صحت پر گفتگو کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو مدد نہیں مل پاتی۔

 

ARY NEWS TNN URDU سماجی دباؤ اور ثقافتی روایات

 

روایتی رسوم و رواج، جیسے کم عمری میں شادی یا خواتین کو “بوجھ” سمجھنا، ان کی خودمختاری کو محدود کر دیتا ہے اور مایوسی بڑھتی ہے۔

 

ARY NEWS URDUNEWS موجودہ صورتحال اور اعداد و شمار

میری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے پانچ سالوں میں چترال میں خودکشی کے 63 کیسز میں سے 54 فیصد خواتین کی تھیں۔ زیادہ تر واقعات میں خواتین نے دریا میں چھلانگ لگائی یا خود کو پھانسی دی​۔

 

حل کے لیے میری تجاویز

ذہنی صحت کی سہولیات میں اضافہ

چترال جیسے علاقوں میں ماہر نفسیات کی تعیناتی اور کونسلنگ مراکز قائم کیے جائیں۔

تعلیمی اور روزگار کے مواقع

لڑکیوں کے لیے ہنر سکھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔

سماجی رویوں میں تبدیلی
والدین اور کمیونٹی کے درمیان آگاہی مہم چلائی جائیں تاکہ خواتین کو درپیش دباؤ کم ہو اور وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکیں​۔

قانونی تحفظ اور خواتین کے لیے خصوصی پناہ گاہیں
دارالامان جیسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ گھریلو جھگڑوں سے متاثرہ خواتین کو محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے​۔

آخرش میری تحقیق کے مطابق اس میں غیرت کے نام پر قتل کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے جسے خودکشی کا رنگ دیا جا سکتا ہے اس پر میرا پورا ایک آرٹیکل بھی ہے، یہ ایک پیچیدہ اور حساس اور تحقیقاتی مسئلہ ہے، جس کا حل حکومت، معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی کے تعاون سے ممکن ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق اور مداخلتیں اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

اعلامیہ
یہ مضمون مکمل طور پر میری ذاتی تحقیق اور خیالات پر مبنی ہے، جسے مختلف میڈیا رپورٹس، تحقیقی مضامین، اور معتبر خبروں کے ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر اپنی فہم و دانش کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

 

 

یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کا کسی بھی نیوز چینل، میڈیا ادارے، یا خاص طور پر چترال ٹائمز سے کوئی تعلق یا وابستگی نہیں ہے۔ میں نے اس موضوع پر جو بھی لکھا ہے، وہ میری ذاتی رائے ہے اور اس کا مقصد صرف آگاہی اور مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
96061

عورت اور لومڑی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

عورت اور لومڑی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

عورت اور لومڑی دونوں فطری طور پر چالاکی اور حکمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی ہوشیاری مختلف انداز اور مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لومڑی اپنی بقا اور شکار میں چالاک ہے، جبکہ عورت اپنی سماجی زندگی اور تعلقات میں سمجھداری اور حکمت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ مضمون ان دونوں کی چالاکی کا موازنہ کرتا ہے اور ان کی حکمت عملیوں کے پیچھے چھپے فلسفے کو اجاگر کرتا ہے۔

 

awrat and lomli women and fox in the forest

چالاکی ایک ایسا وصف ہے جو انسان اور جانور دونوں میں مشترک پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا اظہار مختلف ہوتا ہے، مگر دونوں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کسی نہ کسی مقصد کے لیے کرتے ہیں۔ عورت اور لومڑی، دونوں چالاکی کی مثالیں ہیں لیکن ان کی چالاکی کا انداز، دائرہ کار اور مقاصد مختلف ہیں۔

 

لومڑی کو ہمیشہ چالاک اور ذہین جانور کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ یہ جنگل میں اپنی بقا کے لیے نہایت چالاک حکمت عملی استعمال کرتی ہے۔ شکار کے دوران لومڑی اپنی پھرتی، خاموشی اور غیر متوقع حملوں سے شکار کو قابو کرتی ہے۔ یہ جانور خطرے کی صورت میں اپنی راہ بدلنے میں ماہر ہے اور بعض اوقات خود کو بے ضرر ظاہر کر کے اپنے دشمن کو دھوکا دیتا ہے۔ لومڑی کی یہ ذہانت اس کی بقا کی کنجی ہے اور اسے جنگل کا بہترین شکاری بناتی ہے۔

 

عورت کی چالاکی سماجی، جذباتی اور ذہنی پہلوؤں پر مبنی ہے۔ وہ اپنے تعلقات، معاملات اور چیلنجز میں اپنے ذہن کا مؤثر استعمال کرتی ہے۔ عورت نہ صرف اپنی حفاظت بلکہ اپنے پیاروں کی بھلائی کے لیے بھی چالاکی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ جذبات اور حالات کو سمجھ کر ایسے فیصلے کرتی ہے جو نہایت نفع بخش ہوتے ہیں۔ سماجی سطح پر عورت کی چالاکی اسے بہتر تعلقات قائم رکھنے اور مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

 

لومڑی کی چالاکی فطری بقا اور جسمانی حکمت عملیوں پر مرکوز ہے، جبکہ عورت کی چالاکی جذباتی ذہانت، تعلقات اور سماجی معاملات کے گرد گھومتی ہے۔ لومڑی اپنی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چالاکی کرتی ہے، جبکہ عورت اپنے خاندان اور کمیونٹی کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتی ہے۔ دونوں میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ ان کی چالاکی انہیں مشکل حالات سے نکالنے میں مدد دیتی ہے۔

 

لومڑی اور عورت، دونوں اپنی چالاکی میں منفرد ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ لومڑی کی چالاکی فطرت کی بہترین حکمت عملیوں میں سے ایک ہے، جبکہ عورت کی چالاکی انسانی جذبات اور تعلقات کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کا ہنر ہے۔ دونوں کے مابین یہ موازنہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ چالاکی اور حکمت ہر مخلوق کے لیے اہم ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
96020

ایک نظرِ محبت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

ایک نظرِ محبت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

تصویر میں موجود خاتون کی شخصیت کسی خیالی کردار کی مانند ہے۔ وہ نہایت سکون سے سفید لباس میں ملبوس ہے، جو اس کی پاکیزگی اور معصومیت کو بیان کرتا ہے۔ اس کے زیور اس کی عظمت کو بڑھاتے ہیں، جو مشرقی ثقافت کی خوبصورتی اور نفاست کی علامت ہیں۔ اس کے ہاتھوں میں موجود کپڑے کی ہلکی سی گرفت ایک کہانی بیان کرتی ہے—ایک ایسی کہانی جو ماضی کے کسی خوبصورت لمحے سے جڑی ہو۔

 

 

nandini65

 

 

پس منظر میں دکھائے گئے رنگین پتوں اور پھولوں کی ترتیب ایک حسین خواب کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ منظر ہمیں فطرت کے قریب لے جاتا ہے، جہاں ہر چیز اپنی خاموش زبان میں بات کرتی ہے۔ زرد اور گلابی پھول زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں: زرد خوشی کی علامت ہے جبکہ گلابی محبت اور سکون کی۔ یہ قدرت کی شاعری ہے جو ہر دیکھنے والے کے دل کو چھوتی ہے۔

 

تصویر میں موجود دیوار کے نقش و نگار اور لکڑی کی جالی دار کھڑکیاں ہمیں قدیم فارسی اور چینی ثقافتوں کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں فلسفیانہ خیالات پروان چڑھتے تھے اور جہاں ہر زاویہ ایک نیا راز افشا کرتا تھا۔ یہ منظر ایک ایسا پل ہے جو ماضی کو حال سے جوڑتا ہے اور ہماری جڑوں کو مضبوطی سے پکڑتا ہے۔

 

تصویر ایک خاموش پیغام دیتی ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ ظاہری نہیں ہوتی بلکہ ایک لمحے میں چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سکون اور محبت کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں صرف اپنے ارد گرد کے لمحوں کو محسوس کرنا ہوگا۔

 

تصویر کی منظر کشی فارسی ادب کے اس فلسفے کی ترجمان ہے جو کہتا ہے:
“گلوں کی خوشبو وہی سمجھ سکتا ہے، جس کی روح آزاد ہو اور دل کھلا ہو۔”
یہ تصویر بھی ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ زندگی کے چھوٹے لمحات کی خوبصورتی کو محسوس کریں اور انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔

 

یہ تصویر محض ایک منظر نہیں بلکہ ایک تجربہ ہے۔ یہ ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی کو قید کرنے کی بجائے، اسے محسوس کیا جائے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ سکون کا خزانہ ہمارے اندر موجود ہے، بس اسے دیکھنے والی آنکھیں اور سمجھنے والا دل چاہیے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95980

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد – میری بات/روہیل اکبر

Posted on

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد – میری بات/روہیل اکبر

خواتین کا عالمی دن تھا اور ملک بھر میں خاموشی رہی کسی طرف سے بھی خواتین کے حقوق کے متعلق بات نہیں کی گئی تو مجھے سابق رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سیمل راجہ یاد آگئی جو ایسے کسی بھی موقعہ کو خاموشی سے گذرنے نہیں دیتی تھی بلکہ خواتین کے حوالہ سے وہ کسی نہ کسی اچھے ہوٹل میں سیمینار کروا کر بہت سی خواتین کو مدعو کرتی اور انہیں دل کھول کر بولنے کا موقعہ دیتی جب سے وہ ملک سے باہر گئی ہیں تب سے خواتین کا عالمی دن بھی دبے پاؤں گذر جاتا ہے مگر شکر ہے کہ اس وقت بھی خواتین کی آن،بان اور شان بڑھانے والی مس ورلڈمحترمہ مسرت شاہین ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنی بہت سی سیکیورٹی وجوہات کے باوجود ہر موقعہ پر خواتین کے حقوق کا جھنڈا سربلند رکھتی ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس عالمی دن کو بھول جائیں انہوں نے تو مجھے 25 نومبر کی صبح ہی اس دن کے حوالہ سے اپنے پروگرامز بتا دیے لیکن میں ہی سست نکلا

 

انہوں نے جہاں پاکستان کی خواتین کے استحصال پر تشویش کا اظہار کیا وہیں پر جنت نظیر خطہ مقبوضہ جموں کشمیر کا بھی ذکر کیا جہاں کئی سالوں سے کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں انکی اس طرف توجہ دلانے کے بعد جب میں نے مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر ہونے والے ظلم و زیادتیوں پر ایک نظر ڈالی تو حیران رہ گیا کہ وہاں پر ہماری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کی داستانیں رقم کی جارہی ہیں خواتین کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ اجتماعی زیادتیاں اور جسمانی تشدد کا شکار ہیں ساتھ میں انہیں معذور اور قتل کیاجارہا اس وقت کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں انکی ہی ایک رپورٹ کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں جنوری 2001سے لے کراب تک بھارتی فوجیوں نے کم از کم 6 سو خواتین کوشہید کیا ہے مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 8 ہزار خواتین لاپتہ ہو ئیں جن میں 18 سال سے کم عمر کی ایک ہزار لڑکیاں اور 18 سال سے زیادہ عمر کی 7ہزار خواتین شامل ہیں 1989ء سے اب تک 22ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 10 ہزار سے زائد خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں

 

بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23 فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں کنن پوش پورہ میں سرچ آپریشن کے دوران23 خواتین کی عصمت دری کی گئی ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد 100 سے زیادہ ہو سکتی ہے 1992 میں بھی 882 کشمیری خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے جنوری 2018 میں کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیاتھا باوردی بھارتی اہلکاروں نے 29مئی 2009کو شوپیاں کی دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو اغوا کر نے کے بعد آبروریزی کا نشانہ بنایا ان دونوں کی لاشیں اگلی صبح علاقے میں ایک ندی سے ملیں 1991میں جموں و کشمیر کے چیف جسٹس کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں زیادتی کا اعتراف کیاتھا کشمیر ی خواتین حریت رہنماؤں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت آدھی درجن سے زیادہ خواتین گذشتہ چار سالوں سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں غیر قانونی نظربند ہیں جبکہ انشا طارق جان، حنا بشیر بیگ، حسینہ بیگم اور نسیمہ بانو اور شہید توصیف احمد شیخ کی والدہ مختلف جیلوں میں بند ہیں جہاں وہ بھارتیوں کے ظلم و جبر کا شکار ہیں

 

بھارت نے اس وقت تین درجن سے زائد کشمیری خواتین کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے اس وقت مقبوضہ کشمیر میں خواتین کا جنسی استحصال دنیا میں سب سے زیادہ ہے ہر سات میں سے ایک خاتون عصمت دری کا شکار ہورہی ہے مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں بھارتی سورماؤں نے مقبوضہ کشمیر میں عصمت دری کو بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر قرار دے رکھا ہے جبکہ بھارتی فوجیوں کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی تھی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان، طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو ئے ان میں سے انشاء،مشتاق اورافراء، شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں اور سینکڑوں خواتین جنکے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں وہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہیں

 

بھارت میں بھی خواتین جنسی زیادتیوں کا شکار ہورہی ہیں بلکہ وہاں کے سرکاری اداروں میں کام کرنی والی مظلوم خواتین سب سے زیادہ جنسی تشدد کا شکارہو رہی ہیں بھارت کے قومی کرائم بیورو کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران بھارتی فوج میں موجود 1ہزار سے زائد خواتین اہلکاروں کیساتھ بھی جنسی زیادتی کا انکشاف کیا گیا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو معصوم خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں نے دنیا کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اور دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلخصوص اقوام متحدہ والے تونہ جانے کس کے انتظار میں ہیں میں نے اوپر محترمہ مسرت شاہین کو مس ورلڈ اس لیے لکھا کہ وہ خواتین کے لیے ایک مثال ہیں ظلم،جبر اور فسطائیت کا جتنا انہوں نے مقابلہ کیا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ بدترین شکست دی یہ جیت انکی اس نظام کے خلاف تھی جو خواتین کے کام کے خلاف تھے مسرت شاہین نے اپنی محنت،لگن اور جوش سے اس فرسودہ نظام کو ایسی شکست دی جس نے دنیا بھر کی خواتین کو ایک حوصلہ اور ہمت دی ہماری آج کی خواتین اگر ظلم وبربریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں تو بلاشبہ اس میں مسرت شاہین کا بھی کردار ہے اسی لیے وہ مس ورلڈ ہیں کاش سبھی خواتین ہمت اور جرات کامظاہرہ کریں تودنیا میں کوئی شخص خواتین کے ساتھ زیادتی کا سوچ بھی نہیں سکے گا سیمل راجہ بھی اسکی بہترین مثال ہیں لیکن افسوس کہ وہ اب پاکستان سے کسی اور ملک جابسی ہیں ایسی ہی خواتین ہمارے لیے مثال ہیں اور مثالی بھی۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95955

نو دولتیا عورت –  از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

نو دولتیا عورت –  از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

نو دولتیا عورت کا بولڈ انداز ایک ایسی تحریک ہے جو دوسری عورتوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو آزادانہ طور پر ظاہر کر سکتی ہیں۔ وہ یہ بتاتی ہے کہ خوبصورتی، بولڈنیس، اور خود اعتمادی ایک دوسرے کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ اس کا انداز صرف ایک فیشن نہیں بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جو دوسروں کو بھی اپنی شناخت بنانے کا حوصلہ دیتی ہے۔

 

 

shakira nandini naw dowlatia women

 

 

ایک جدید کمرا، بڑی کھڑکیوں سے جھانکتی روشنی، اور شیشوں میں منعکس ہوتی ایک عورت، جو اپنے منفرد انداز سے دنیا کو حیران کر رہی ہے۔ سفید ساڑھی، جس پر نیلے رنگ کے نفیس نقش و نگار ہیں، اور ایک جاذب نظر بلاوز—یہ نو دولتیا عورت کا وہ بولڈ انداز ہے جو اس کے اعتماد، شخصیت، اور اپنی پہچان کے لیے دی گئی قربانیوں کا عکاس ہے۔

 

یہ بولڈ انداز صرف ایک لباس نہیں بلکہ اس کی سوچ کا مظہر ہے۔ ساڑھی، جو مشرقی روایات کی علامت سمجھی جاتی ہے، اس کے ساتھ ایک جدید بلاوز کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ روایت اور جدت کے بیچ ایک پل بنانا جانتی ہے۔ اس کا یہ انداز نہ صرف خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپے اس پیغام کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ عورت اپنی شخصیت کو کسی بھی قالب میں ڈھال سکتی ہے۔

 

اس کا ہر قدم، ہر زاویہ، ایک ایسی کہانی سناتا ہے جو بولڈنیس اور خود اعتمادی سے بھری ہوئی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ دنیا اسے دیکھ رہی ہے، لیکن اس کے لیے یہ کوئی پریشانی نہیں بلکہ فخر کی بات ہے۔ اس کے لباس کی چمک، اس کے انداز کی جاذبیت، اور اس کی شخصیت کی گرمجوشی اسے ہر ہجوم میں منفرد بناتی ہے۔

 

بولڈ انداز کا مطلب صرف لباس نہیں؛ یہ ایک مکمل رویہ ہے۔ وہ عورت جو اپنی موجودگی سے کمرے کو روشن کر دے، وہی اس کی حقیقی تعریف ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کے انتخاب صرف اس کی خوبصورتی کو نہیں بلکہ اس کی مضبوطی اور آزاد خیالی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ وہ بولڈ ہے کیونکہ وہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے، چاہے وہ زندگی کے بارے میں ہوں یا لباس کے۔

 

نو دولتیا عورت کے بولڈ انداز کو اکثر سماج کے مختلف زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے سراہتے ہیں، تو کچھ اس کے انداز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مگر وہ اس سب سے بے نیاز رہتی ہے۔ اس کے لیے یہ بولڈنیس ایک آزادی کا اظہار ہے، ایک ایسا بیانیہ جو کہتا ہے کہ عورت کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔

 

اگرچہ اس کے انداز میں جدت جھلکتی ہے، وہ اپنی ثقافت کو چھوڑتی نہیں۔ سفید ساڑھی ایک کلاسیکی مشرقی لباس ہے، اور اس پر موجود نیلے نقش و نگار اس کی سادگی کو اور زیادہ دلکش بنا دیتے ہیں۔ یہ لباس روایات کی محبت اور ان سے جڑے جذبات کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کا جدید بلاوز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی شناخت کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا بھی جانتی ہے۔

 

بولڈ انداز صرف اس کے لباس یا رویے تک محدود نہیں۔ یہ اس کے دل کی مضبوطی اور دماغ کی پختگی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہر مشکل کا سامنا کرتی ہے، ہر چیلنج کو قبول کرتی ہے، اور اپنی زندگی کو اپنی شرائط پر جیتی ہے۔ اس کے لیے بولڈنیس صرف ایک انداز نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95929

روشنی کے اندر زندگی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

روشنی کے اندر زندگی ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

 

یہ تصویر زندگی، امید، اور تخلیقی سوچ کی علامت ہے، جو ہمیں قدرت اور انسانی ایجاد کے درمیان تعلق اور ہم آہنگی کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کی روشنی ہمیشہ راہ دکھاتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی محدود ہوں۔

 

 

nandini life under light

 

 

یہ تصویر ایک حیرت انگیز تخیلاتی احساس کو اجاگر کرتی ہے جہاں ایک بلب، جو عام طور پر روشنی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، زندگی کی علامت بن گیا ہے۔ بلب کے اندر مٹی اور ایک ننھا سا سبز پودا ہمیں ایک منفرد پیغام دیتا ہے کہ زندگی اور روشنی کا تعلق کتنا گہرا اور خوبصورت ہے۔

 

اس تصویر کو دیکھتے ہی ذہن میں کئی خیالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا خیال یہ ہے کہ روشنی ہمیشہ سے ترقی، امید اور مستقبل کی علامت رہی ہے، لیکن اس بار یہ روشنی ایک پودے کی شکل میں پیش کی گئی ہے۔ یہ پودا، جو زمین کے اندر سے نکل کر بلب کے اندر پروان چڑھ رہا ہے، یہ دکھاتا ہے کہ زندگی اپنی راہ خود تلاش کر لیتی ہے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔

 

بلب کا شیشے کا احاطہ اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ کس طرح دنیا ہمیں محدود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن اس محدودیت کے باوجود، مٹی اور پودا اپنی نشوونما جاری رکھتے ہیں، ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ترقی کے لیے اندرونی قوت اور عزم ضروری ہے۔ یہ تصویر ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی حدود کو توڑیں اور اپنی زندگی کے اندھیرے گوشوں میں روشنی کا چراغ جلائیں۔

 

پودا، جو زندگی کی نئی شروعات کی نمائندگی کرتا ہے، ہمیں قدرت کے ساتھ ہم آہنگی کا سبق دیتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ اگر انسان اور قدرت مل کر کام کریں تو ہم دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بلب، جو پہلے صرف ایک آلہ تھا، اب ایک قدرتی زندگی کی علامت بن گیا ہے۔

 

اس تصویر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کی تخلیقی سوچ کس طرح چیزوں کے معنی بدل سکتی ہے۔ بلب، جو جدید ٹیکنالوجی کی علامت ہے، اور پودا، جو قدرت کی علامت ہے، دونوں مل کر ایک نئے تصور کو جنم دیتے ہیں۔ یہ تصویر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں فطرت اور ٹیکنالوجی کے درمیان توازن پیدا کریں۔

 

تصویر کے پیغام کو سمجھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی روشنی کی طرح ہے، جسے زندہ رکھنے کے لیے ہمیں امید اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ روشنی اور زندگی کے اس ملاپ سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ ہم کس طرح دنیا کو اپنے مثبت خیالات اور عمل سے روشن کر سکتے ہیں۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95895

زندگی کی تجدید کی علامت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

زندگی کی تجدید کی علامت ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ تصویر انسان اور فطرت کے تعلق کو ظاہر کرتی ہے، اس بات پر زور دیتی ہے کہ زمین کے وسائل کا تحفظ اور اس کی خوبصورتی کی بقا ہماری اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہر چھوٹے عمل سے بڑی تبدیلی ممکن ہے۔

 

nandini shakira zindagi

 

تصویر میں ایک دلکش منظر پیش کیا گیا ہے جو انسان اور فطرت کے درمیان گہرے ربط کو بیان کرتا ہے۔ ایک ہاتھ، جس کی انگلیاں سبز رنگ سے ڈھکی ہوئی ہیں، ایک ننھے پودے کو تھامے ہوئے ہے۔ یہ تصویر زندگی، امید، اور ذمہ داری کی داستان کو بیان کرتی ہے۔ سبز رنگ، جو زندگی اور نشوونما کی علامت ہے، اس ہاتھ پر گویا انسان کی فطرت کے ساتھ جُڑے ہونے کا پیغام دے رہا ہے۔

پودا، جو اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، ایک نئی شروعات کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ چھوٹا سا بیج، جو کسی زمین کے ٹکڑے میں پروان چڑھ رہا تھا، اب انسانی ہاتھوں میں ہے، جیسے کہ قدرتی دنیا اور انسانی دنیا کے بیچ ایک رابطہ قائم ہو چکا ہو۔ ہاتھ کا عمل گویا اس بات کا اظہار ہے کہ فطرت کو بچانا اور سنوارنا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

یہ تصویر ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے پیغام کو بڑی خوبی سے اجاگر کرتی ہے۔ انسانی ہاتھوں پر رنگ کا ہونا گویا اس بات کی علامت ہے کہ ہم سب فطرت کا ایک حصہ ہیں، اور ہمارا عمل ہی اس کی بقا یا زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک طرف پودا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ زندگی کتنی نازک اور قیمتی ہے، اور دوسری طرف یہ امید بھی پیدا کرتا ہے کہ اگر ہم اپنی کوششوں کو ذمہ داری سے جاری رکھیں، تو زمین کا سبزہ کبھی ختم نہ ہوگا۔

یہ منظر قدرتی حسن اور انسانی عمل کے درمیان ہم آہنگی کی بہترین تصویر کشی ہے۔ سبز رنگ کا غلبہ فطرت کی طاقت اور اس کی اہمیت کا اظہار ہے۔ ہاتھ کی نرم گرفت پودے کے ساتھ شفقت اور تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95872

خاموشی کے کنارے – از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

خاموشی کے کنارے – از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ تصویر نہ صرف فطرت کے حسن کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی کے حقیقی لمحات وہی ہیں جو ہمیں اپنی ذات سے ملاتے ہیں۔ خاموشی کے کنارے بیٹھی وہ لڑکی، ایک مکمل کہانی ہے، ایک خاموش شاعری، جو ہر دیکھنے والے کے دل پر نقش چھوڑ جاتی ہے۔

 

 

shakira darya k kinare river

زندگی کی ہماہمی اور شور و غل سے دور، ایک پرسکون منظر میں، وہ ایک جھیل کے کنارے بیٹھی ہے۔ اس کا سراپا اس جھیل کی سکونت اور فطرت کی بے نیازی کا عکس پیش کر رہا ہے۔ شام کی دھیمی روشنی اور ہلکی ہوا کا لمس، منظر کو اور بھی جادوئی بنا رہا ہے۔ اس کے وجود میں ایک ایسی کیفیت جھلکتی ہے، گویا وہ خود کو فطرت کے سپرد کر چکی ہو۔

 

سیاہ لباس میں ملبوس، وہ جھیل کے کنارے بیٹھ کر پانی کو غور سے دیکھ رہی ہے۔ یہ لباس جیسے فطرت کی تاریک گہرائیوں کا عکاس ہو، اور اس کی موجودگی پانی کی سطح پر ایک خاموش داستان لکھ رہی ہو۔ پانی کے بہاؤ اور آس پاس کے درختوں کی سرسبزی نے اس لمحے کو ایک ایسی تصویر میں بدل دیا ہے جو صرف دل کی آنکھوں سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

 

اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور آنکھوں میں چھپی کہانیاں، ایسے لگتا ہے جیسے وہ خاموشی میں گفتگو کر رہی ہو۔ فطرت کے ہر ذرے سے جڑی، وہ خود کو اس ماحول میں مکمل محسوس کرتی ہے۔ ہوا کے نرم جھونکے اس کے بالوں سے کھیل رہے ہیں اور اس کے آس پاس موجود ہر چیز کو حرکت دے رہے ہیں، سوائے اس کے وجود کے جو گویا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔

 

جھیل کا پانی، شیشے کی طرح شفاف اور خاموش، اس کے اندر چھپی سوچوں کا عکس واپس لوٹا رہا ہے۔ شاید وہ اس پانی میں خود کو دیکھنے کی کوشش کر رہی ہو، یا پھر ان خوابوں کو تلاش کر رہی ہو جو زندگی کی بھول بھلیوں میں کھو گئے ہوں۔ وہ لمحہ ایسا ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے، ایک ابدی سکون کا مظہر۔

 

درختوں کی سرسبز شاخیں اور نرم زمین، جیسے اس کے لیے ایک محافظ بن گئی ہوں۔ وہ اکیلی نہیں، بلکہ فطرت کی گود میں بیٹھی ہے۔ اس کے اردگرد موجود ہر شے، چاہے وہ پانی ہو یا درخت، اس کے سکون میں شریک معلوم ہوتی ہے۔ یہ لمحہ جیسے کسی کہانی کا اختتام نہ ہو، بلکہ ایک آغاز ہو۔

 

یہ منظر ہمیں زندگی کے ان لمحوں کی یاد دلاتا ہے جو اکثر ہجوم اور تیز رفتاری کے درمیان گم ہو جاتے ہیں۔ یہ لمحہ ایک دعوت ہے، ہمیں رکنے اور اپنی زندگی کے گہرے معنی تلاش کرنے کی۔ خاموشی، جو اکثر ہمیں خوفزدہ کرتی ہے، یہاں ایک نیا روپ دھار لیتی ہے اور اپنے اندر بے حد سکون اور حکمت رکھتی ہے۔

فطرت کے ساتھ گزارے گئے ایسے لمحات انسان کے دل و دماغ کو ایک نئی توانائی بخشتے ہیں۔ وہ لمحہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کبھی کبھی ہمیں زندگی کی گہرائیوں کو محسوس کرنے کے لیے خاموشی میں ڈوب جانا چاہیے۔ جھیل کا پانی، درختوں کی ہریالی، اور ہوا کی موسیقی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کا اصل حسن سادگی اور سکون میں ہے۔

 

شاید وہ اپنے ماضی کی یادوں کو، اپنے حال کی حقیقتوں کو، یا اپنے مستقبل کے خوابوں کو سوچ رہی ہو۔ لیکن جو بھی ہو، اس لمحے میں، وہ مکمل طور پر آزاد ہے۔ اس کی آنکھوں کی گہرائی میں ایک ایسی روشنی ہے جو اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ زندگی کے حقیقی راز فطرت کے دامن میں چھپے ہوئے ہیں۔

 

یہ جھیل کا کنارہ اور اس کے سکون کا لمحہ ایک کہانی بیان کرتا ہے: ایک کہانی جس میں زندگی کی گہرائی، فطرت کا حسن، اور انسان کے دل کا سکون سب ایک جگہ سمٹ آتے ہیں۔ خاموشی کے اس منظر میں وہ نہ صرف اپنے اردگرد کی فطرت کو محسوس کر رہی ہے بلکہ اپنی ذات کے قریب بھی آ رہی ہے۔ یہ لمحہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کبھی کبھی ہمیں اپنے اندر کے سکون کو تلاش کرنے کے لیے فطرت کی گود میں پناہ لینی چاہیے۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95806

محبت کی جنگجو اور جنگل کا ساتھی ۔ از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

محبت کی جنگجو اور جنگل کا ساتھی ۔ از: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ کہانی ایک یاد دہانی ہے کہ محبت صرف انسانوں کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ یہ کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔ یہ محبت زندگی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے جو اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ وہ عورت اور اس کا ریچھ، اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ حقیقی محبت کسی بھی حد، خوف، یا رکاوٹ سے آزاد ہے۔

 

Nandini jangle

 

دھوپ کی سنہری کرنیں درختوں کی شاخوں سے چھن کر زمین پر ایک عجیب سی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ جنگل کی گہری خاموشی اور قدرت کی سبزہ زار، جیسے کسی قدیم کہانی کا منظر ہو، اس میں ایک عورت نمایاں کھڑی ہے۔ وہ ایک جنگجو ہے، نہ صرف اپنے لباس اور ہتھیار کی وجہ سے، بلکہ اس کے وجود سے جھلکتی ہوئی ایک عجیب سی طاقت اور محبت کی روشنی کی وجہ سے۔

اس کے پہلو میں ایک بھورے رنگ کا ریچھ خاموشی سے چل رہا ہے۔ اس کی موجودگی ایک محافظ کی مانند ہے، جیسے دونوں کے درمیان کوئی غیر مرئی تعلق ہو۔ یہ تعلق شاید قدرت کی کسی قدیم رسم کا حصہ ہے، جو انسان اور جانور کے درمیان ہم آہنگی اور احترام کو ظاہر کرتا ہے۔

اس عورت کا لباس، چمڑے کا بنا ہوا، ایک قدیم داستان کا عکاس ہے۔ اس کے کندھوں پر دھاتی کانٹے اور اس کی آنکھوں میں جھلکتی ہوئی عزم کی چمک، یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ نہ صرف ایک جنگجو ہے بلکہ محبت کی ایک ایسی علامت ہے جو اپنے اردگرد کی ہر چیز کو اپنے دل کی روشنی سے منور کر دیتی ہے۔

ریچھ کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ایک انوکھی داستان سناتی ہے۔ وہ جنگل کی دنیا میں، جہاں خوف اور خطرات کا سامنا ہے، ایک دوسرے کے لیے محافظ بن چکے ہیں۔ یہ محبت کی ایسی شکل ہے جو لفظوں کی قید سے آزاد ہے، جو صرف خاموشی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

درختوں کے درمیان چلتے ہوئے وہ دونوں، جیسے کسی قدیم دیومالائی کہانی کا حصہ ہوں۔ عورت کی مضبوطی اور ریچھ کی خاموش وفاداری، یہ دونوں مل کر ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو محبت، حفاظت اور قربانی کا پیغام دیتی ہے۔

یہ منظر صرف ایک تصویر نہیں، بلکہ زندگی کی ایک کہانی ہے۔ وہ عورت، جو اپنی طاقت کے ذریعے اپنی دنیا کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے، اور ریچھ، جو اپنی خاموشی میں اس کا محافظ ہے، دونوں ایک ایسی کہانی بیان کرتے ہیں جس میں محبت اور حفاظت کی ایک نرالی شکل پیش کی گئی ہے۔

یہ محبت محض رومانوی جذبہ نہیں، بلکہ ایک ایسی گہری محبت ہے جو کسی بھی رشتے سے آزاد ہے۔ یہ محبت قدرت کی خاموشی میں جڑی ہے، جہاں زبان کی ضرورت نہیں، اور دل کی دھڑکنیں خود ہی سب کچھ بیان کرتی ہیں۔

جنگل کی ہریالی، درختوں کی چھاؤں، اور دھوپ کی روشنی، یہ سب مل کر اس منظر کو مزید جادوئی بنا دیتے ہیں۔ وہ دونوں، ایک عورت اور ایک ریچھ، اس دنیا کے مختلف حصوں سے نکل کر ایک ایسی جگہ پر پہنچے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95802

بے وفائی کا انجام ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

بے وفائی کا انجام ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

ایما ایک خوبصورت، ذہین اور خوابوں سے بھری ہوئی نوجوان لڑکی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے یورپی گاؤں میں رہتی تھی جہاں زندگی سادہ اور سکون بھری تھی۔ لیکن ایما کے دل میں ہمیشہ بڑے خوابوں کی تڑپ تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ کسی بڑی دنیا کا حصہ بنے، جہاں روشنی، محبت اور دولت کا بسیرا ہو۔

 

Image from wp s.ru 1 3

ایک دن، گاؤں میں ایک امیر زادہ، نکولس، آیا۔ وہ شہر سے آیا تھا اور اپنے اعلیٰ لباس اور دلکش انداز کی وجہ سے سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ نکولس نے ایما پر ایک نظر ڈالی اور وہ اس کی مسکراہٹ کا شکار ہو گئی۔ نکولس نے ایما کو بڑے خواب دکھائے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اسے گاؤں کی سادگی سے نکال کر ایک عالیشان زندگی دے گا۔

 

ایما نے اپنی ساری محبت اور بھروسہ نکولس پر وار دیا۔ اس نے اپنی زندگی، اپنا خاندان، اور اپنے سچے محبت کرنے والے من fiancé، پیٹر، کو چھوڑ دیا۔ پیٹر ایک محنتی اور دیانت دار شخص تھا جو ایما کو دل و جان سے چاہتا تھا، لیکن اس کی سادگی ایما کی خواہشوں کے سامنے بے کار لگتی تھی۔

 

 

ایما نکولس کے ساتھ شہر چلی گئی۔ شروع میں سب کچھ خوابوں جیسا لگ رہا تھا۔ مہنگے کپڑے، فیشن ایبل پارٹیوں، اور نکولس کی عارضی محبت نے ایما کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ دنیا کی خوش نصیب ترین لڑکی ہے۔ لیکن جلد ہی، یہ خوش فہمی ختم ہو گئی۔

 

 

نکولس ایک خودغرض اور بے حس شخص نکلا۔ اس کا مقصد صرف ایما کے حسن کا استعمال تھا۔ جب وہ اس سے بور ہو گیا، تو اس نے ایما کو چھوڑ دیا اور کسی اور کی تلاش میں نکل گیا۔ ایما، جو نکولس پر اپنی زندگی کی بنیاد رکھ چکی تھی، اچانک اکیلی رہ گئی۔

 

 

ایما نے اپنے گاؤں واپس جانے کی کوشش کی، لیکن وہاں کا ماحول بھی اب اس کے لیے اجنبی بن چکا تھا۔ پیٹر، جس نے کئی ماہ اس کا انتظار کیا تھا، اب کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی میں خوش تھا۔ ایما کی واپسی کے لیے وہاں کچھ باقی نہیں تھا۔

 

 

شہر کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں، ایما اکیلی بیٹھی اپنے فیصلے پر پچھتا رہی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ کیسے اس نے ایک خواب کی خاطر حقیقت کو ٹھکرا دیا۔ وہ اپنی بے وفائی کے نتیجے میں اپنے تمام رشتوں اور سکون کو کھو چکی تھی۔

 

 

ایما کی کہانی ایک سبق بن گئی: کبھی بھی وقتی چمک دمک کے لیے ان چیزوں کو نہ ٹھکرائیں جو واقعی اہم اور پائیدار ہوں۔ محبت اور وفاداری، دولت اور خوابوں کی چمک سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95770

آزادی کا لمحہ – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

آزادی کا لمحہ – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

یہ تصویر انسانی حوصلے، آزادی اور فطرت کی خوبصورتی کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک شخص کا پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگانا اس لمحے کی علامت ہے جب انسان اپنی تمام حدود کو توڑتا ہے اور زندگی کی وسیع وسعتوں کو گلے لگاتا ہے۔ غروبِ آفتاب کا منظر روشنی اور تاریکی کے امتزاج کو پیش کرتا ہے، جو زندگی کے تضادات کی علامت ہے۔

 

 

nandinidiary azadi

 

یہ تصویر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کا جذبہ اور حوصلہ ہے۔ پہاڑ کی بلندی سے چھلانگ لگانا ایک ایسی آزادی کی نمائندگی کرتا ہے جو خوف، ناکامی، اور محدودیت کے خلاف ہے۔ یہ اس یقین کی علامت ہے کہ اگر ہم اپنے خوف پر قابو پا لیں تو زندگی کے ہر چیلنج کو گلے لگا سکتے ہیں۔

 

غروبِ آفتاب، جو آسمان کو سنہری اور نارنجی رنگوں سے سجاتا ہے، زندگی کے عارضی پن اور خوبصورتی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جو گزر رہا ہے، لیکن اس کے اندر ایک گہری معنویت چھپی ہوئی ہے۔ اس روشنی میں، پہاڑوں اور وادیوں کا منظر انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کو بیان کرتا ہے۔

پہاڑ سے چھلانگ لگانے کا عمل خطرے اور حوصلے کا حسین امتزاج ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کے سفر میں ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنی آرام دہ حدوں سے باہر نکلیں اور نامعلوم کے خوف کا سامنا کریں۔

 

یہ تصویر فطرت کی وسیع وسعتوں اور انسان کی قوتِ ارادی کے تعلق کو بیان کرتی ہے۔ آسمان کا پھیلاؤ، پہاڑوں کی بلندی، اور زمین کی گہرائی اس بات کی علامت ہیں کہ انسان کی اصل جڑیں فطرت میں ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں زندگی جینے سے ہمیں سکون اور مقصد حاصل ہوتا ہے۔

 

غروب کے وقت روشنی اور تاریکی کا امتزاج زندگی کے تضادات کی علامت ہے۔ روشنی امید اور امکانات کی نمائندگی کرتی ہے، جبکہ تاریکی چیلنجز اور نامعلوم کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تضاد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں سکون پانے کے لیے ہمیں دونوں عناصر کو اپنانا چاہیے۔

 

یہ تصویر انسانی حوصلے اور فطرت کے تعلق کا استعارہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے خوف کو پیچھے چھوڑ کر آزادی اور امکانات کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ پہاڑ سے چھلانگ لگانے کا یہ عمل اس بات کا درس دیتا ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی جیت اپنے آپ پر اعتماد کرنا اور خطرات کو گلے لگانا ہے۔

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95742

معصومیت کی خوشبو ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

معصومیت کی خوشبو ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

“بچپن کی معصومیت وہ آئینہ ہے جس میں زندگی کی سادگی اور سکون کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کبھی کبھار ٹھہر کر فطرت کی خاموش زبان کو سننا بھی ضروری ہے۔”

 

shakira masoom child

 

 

اس دل کو چھو لینے والی تصویر میں ایک ننھی بچی کو باغ کے پگڈنڈی پر خاموش بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے اردگرد سبزے کی بہار اور نازک سفید پھول ہیں۔ اس کی معصوم سی مسکراہٹ، نرم سی نظر، اور نازک سا انداز بچپن کی سادگی اور خوبصورتی کو بیان کر رہا ہے۔ اس کے پھولدار لباس پر باریک جالی کا کام اسے خود بھی ایک نازک پھول کی طرح پیش کر رہا ہے، جو اپنے ماحول میں نہایت خوبصورتی سے گھل مل گیا ہے۔ اس کے کھلے بال اسے ایک دلکش اور قدرتی حسن عطا کر رہے ہیں۔

 

 

اس لمحے کی خوبصورتی اس کی خاموشی میں ہے۔ یہ بچی اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی معلوم ہوتی ہے، شاید دنیا کے بارے میں سوچتے ہوئے یا محض اپنے ارد گرد کی سکونت سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ اس کے انداز میں ایک عجب سی معصومیت اور سکون جھلکتا ہے، جیسے وہ اپنی خاموشی میں دنیا کو معصوم آنکھوں سے دیکھ رہی ہو۔ اس کے چھوٹے ہاتھ اس کے لباس کے کنارے کو تھامے ہوئے ہیں، اور اس کے چہرے سے ایک راحت کا احساس نمایاں ہے، جو بچوں کی خاص بات ہے۔

 

 

پس منظر میں سبز پودے اور قدرتی سا پگڈنڈی کا منظر سکون کی فضا کو مزید بڑھا رہا ہے۔ یہ منظر ایک جادوئی باغ جیسا لگ رہا ہے، جہاں وقت ٹھہر سا گیا ہو اور فطرت اپنی خاموش زبان میں دل سے دل کی بات کر رہی ہو۔ یہ پگڈنڈی، جس کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے پھول کھلے ہیں، جیسے ہمیں دعوت دے رہی ہو کہ ہم بھی اس خوابیدہ منظر کا حصہ بنیں اور بچی کے ساتھ اس سکون میں شریک ہوں۔

 

 

تیزی سے گزرتے اس زمانے میں، ایسے لمحات ہمیں بچپن کی معصومیت اور سکون کی یاد دلاتے ہیں۔ بچی کی معصوم نگاہیں تجسس، حیرت، اور سادگی کی عکاسی کرتی ہیں – وہ وقت جب ہر پتہ، ہر پھول، اور ہوا کا ہر جھونکا ایک نئی دریافت کی طرح محسوس ہوتا تھا۔ اس کا وجود ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ زندگی کی رفتار کو تھوڑا تھمائیں، مشاہدہ کریں، اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں سکون تلاش کریں۔

 

 

یہ منظر ہمیں بچپن کی یاد دلاتا ہے، جب زندگی کی پیچیدگیاں ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔ یہ تصویر ہمیں اپنی معصومیت کو سنبھال کر رکھنے، فطرت کے حسن میں خوشی تلاش کرنے، اور سکون کے ان لمحوں کی قدر کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جیسے یہ بچی باغ کے بیچ سکونت سے بیٹھی ہے، ہم بھی اپنے اندر کے سکون کو ڈھونڈ سکتے ہیں، حال کے لمحے میں کھو کر اپنی زندگی کی حقیقت کو محسوس کر سکتے ہیں۔

 

 

روزمرہ کی مصروف زندگی میں، اس تصویر سے متاثر ہو کر ہم اپنے اندر کے بچے سے دوبارہ جڑ سکتے ہیں، سادگی میں خوشی تلاش کر سکتے ہیں، اور ان خاموش لمحوں کی قدر کر سکتے ہیں جو ہمیں ٹھہرنے، سوچنے، اور محض ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95710

غروب کی لَو – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

غروب کی لَو – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

زندگی کی حقیقتیں اور فلسفے اکثر ہمیں وہ سبق سکھاتے ہیں جو کتابوں میں موجود نہیں ہوتے۔ یہ سبق ہمیں قدرت کے حسین مناظر، مثلاً سورج کے طلوع و غروب سے ملتے ہیں۔ غروبِ آفتاب کا منظر ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جو ہمیں زندگی کی گہرائی اور اس کے اصل معنی سے روشناس کرواتا ہے۔ یہ منظر ہمیں بتاتا ہے کہ ختم ہونا بھی ایک خوبصورت عمل ہوسکتا ہے، اگر ہم اسے صحیح معنوں میں سمجھیں۔

 

nandinidiary sun set

 

اس تصویر میں ایک عورت پل پر کھڑی ہے، اپنی بانہیں پھیلائے ہوئے، سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر رہی ہے۔ وہ جیسے اس لمحے میں ڈوب چکی ہے، ایک لمحہ جس میں نہ ماضی کی فکر ہے نہ مستقبل کی بے چینی۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی سکون اسی میں ہے کہ ہم لمحہ موجود کو جئیں اور اس کی خوبصورتی کو محسوس کریں۔

 

زندگی کا یہ فلسفہ ہے کہ کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ جس طرح سورج روزانہ غروب ہوتا ہے اور پھر طلوع ہوتا ہے، اسی طرح ہماری زندگی میں بھی مسائل اور خوشیوں کے آنے جانے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ غروب ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے کا ایک وقت ہوتا ہے، اور جب وہ وقت گزر جائے تو ہمیں اسے خوشی اور سکون کے ساتھ الوداع کہنا آنا چاہیے۔ ہر غروب ایک نئے آغاز کا پیغام بھی ہوتا ہے، کیونکہ رات کے بعد صبح ضرور آتی ہے۔

 

غروب کا یہ منظر ہمیں خود سے جڑنے اور زندگی کی اصل حقیقت کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔ جب ہم زندگی کی مشکلات اور مصیبتوں کو ایک عارضی کیفیت سمجھتے ہیں، تب ہم ان کا سامنا زیادہ حوصلے اور صبر کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ یہ منظر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر تاریکی کے بعد روشنی ہوتی ہے اور ہر غروب کے بعد ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔

 

پل پر کھڑی یہ عورت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں ٹھہراؤ بھی ضروری ہے۔ دوڑ دھوپ اور مصروفیت کے درمیان اگر ہم خود کو روک کر لمحے کی خوبصورتی میں کھو جائیں تو ہمیں سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہ لمحے ہمارے اندر کی گہرائیوں میں موجود خوف، شک اور بے یقینی کو دور کر سکتے ہیں۔ زندگی کے ہر لمحے کو کھلے دل سے قبول کرنا اور ہر صورتحال میں مثبت رہنا ایک ایسا فلسفہ ہے جو ہمیں مضبوط اور کامیاب بنا سکتا ہے۔

 

یہ فلسفہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اگر ہم ہر مشکل اور چیلنج کو زندگی کا حصہ سمجھیں تو ہم اسے زیادہ آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں۔ اس پل پر کھڑی عورت کا یہ لمحہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ کو آزاد کریں، اپنی فکر اور خوف کو بہا دیں اور ہر چیز کو اپنی اصل حقیقت میں دیکھیں۔

 

غروب کی روشنی میں کھڑی یہ عورت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی میں سکون کا راستہ خود کی پہچان اور خود سے محبت میں چھپا ہوا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر، ہر غروب کے بعد ہمیں خود کو نئے سرے سے ڈھونڈنا چاہیے اور اس فلسفے کو دل میں بسانا چاہیے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور ہر اندھیرے کے بعد اجالا۔

 

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95670

فطرت کا حیرت انگیز مظہر۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

فطرت کا حیرت انگیز مظہر۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

duck flying nandinifile

 

آسمان پر پرندوں کی اجتماعی پرواز ایک دلکش منظر پیش کرتی ہے، جو نہ صرف جمالیاتی طور پر خوش کن ہے بلکہ فطرت کے حیرت انگیز نظام کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ اس تصویر میں سفید بگلے (White Storks) آسمان کی نیلاہٹ کے پس منظر میں منظم انداز میں اُڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان پرندوں کی یہ ترتیب اور ہم آہنگی ہمیں قدرت کے نظم و ضبط اور خوبصورتی کا گہرا احساس دلاتی ہے۔

پرندوں کی اجتماعی پرواز صرف خوبصورتی کا مظہر نہیں بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔ ایسے پرندے جو طویل فاصلوں پر ہجرت کرتے ہیں، وہ اپنی توانائی کو محفوظ رکھنے کے لیے V یا دیگر مخصوص شکلوں میں اُڑتے ہیں۔ اس ترتیب کا بنیادی مقصد ہوا کی مزاحمت کو کم کرنا اور گروپ کے ہر فرد کی توانائی کو بچانا ہے۔ تحقیق کے مطابق، پرندے اس طرح ایک دوسرے کے قریب رہ کر اپنے سفر کو آسان بناتے ہیں۔

سفید بگلے جیسے پرندے سال کے مخصوص موسموں میں ہجرت کرتے ہیں۔ یہ پرندے سردیوں کے آغاز سے پہلے گرم علاقوں کی طرف سفر کرتے ہیں تاکہ خوراک اور موزوں موسم کی تلاش میں اپنی زندگی برقرار رکھ سکیں۔ ان کا یہ سفر ہزاروں کلومیٹر طویل ہوسکتا ہے، جس میں سمندر، پہاڑ، اور مختلف زمینی رکاوٹوں کو عبور کرنا شامل ہوتا ہے۔

پرندوں کی یہ پرواز ہمیں ایک اہم سبق دیتی ہے: اجتماعی طاقت اور اتحاد۔ ان پرندوں کے گروپ میں ایک لیڈر ہوتا ہے جو راستہ دکھاتا ہے، لیکن جب وہ تھک جاتا ہے، تو دوسرا پرندہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس طرح وہ مل جل کر اپنے مقصد کو حاصل کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کے لیے یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح اتحاد اور باہمی تعاون مشکل حالات کو آسان بنا سکتا ہے۔

یہ پرندے ماحولیاتی نظام کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی ہجرت موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحول کی صحت کے بارے میں اشارے فراہم کرتی ہے۔ اگر ان پرندوں کی تعداد میں کمی یا ان کی ہجرت میں خلل واقع ہو، تو یہ ہمارے ماحولیاتی نظام میں کسی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

بدقسمتی سے، پرندوں کی یہ خوبصورت پرواز انسانی سرگرمیوں سے خطرے میں ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، شکار، اور جنگلات کی کٹائی جیسے عوامل ان کے ہجرتی راستوں میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں ان پرندوں اور ان کے مسکن کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ قدرتی مظہر ہمیشہ برقرار رہے۔

پرندوں کی اجتماعی پرواز ہمیں فطرت کے شاندار نظام کی جھلک دکھاتی ہے۔ یہ نہ صرف جمالیاتی طور پر خوش کن ہے بلکہ ہمیں زندگی کی اہم حقیقتیں سکھاتی ہے: اتحاد، تعاون، اور مقصد کے حصول کے لیے مستقل محنت۔ اس منظر کو دیکھ کر ہمیں فطرت کی قدر کرنی چاہیے اور اس کی حفاظت کے لیے اپنے کردار کو سمجھنا چاہیے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95647

خاموش جذبات کا لمس – ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

خاموش جذبات کا لمس – ڈاکٹر شاکرہ نندنی 

 

“کبھی کبھی سب سے گہری باتیں وہ نہیں ہوتیں جو الفاظ میں کہی جائیں، بلکہ وہ ہوتی ہیں جو خاموش نظر کے لمس میں محسوس کی جاتی ہیں، جہاں دل زبان سے زیادہ بات کرتے ہیں۔”

کمرے میں ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی، دیواروں پر لگی پینٹنگز اور پرانی طرز کی سجاوٹ ایک خاص سکون کا احساس دے رہی تھیں۔ کمرے کے درمیان میں دو خواتین کھڑی تھیں، جن کی آنکھوں میں خاموش جذبات کی شدت نمایاں تھی۔ دونوں نے نرم گلابی لباس پہن رکھا تھا، جو کمرے کے ہلکے ماحول میں مزید نرمی اور سکون کا تاثر دے رہا تھا۔

 

 

یہ لمحہ کسی خاموش مکالمے کی مانند تھا۔ کچھ بھی نہیں کہا گیا، نہ کوئی آواز، نہ کوئی لفظ، بس ایک دوسرے کو قریب محسوس کرنے کی تڑپ تھی۔ دونوں نے اپنے ہاتھوں کو نرمی سے ایک دوسرے کے کندھوں پر رکھا اور نظریں جھکائے ایک دوسرے کے جذبات کو محسوس کر رہی تھیں۔ اس لمحے میں الفاظ کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کے درمیان جو کچھ بھی تھا، وہ ہر لفظ سے زیادہ اہم تھا۔

 

 

پھر ایک لمحہ آیا جب ان میں سے ایک نے آہستہ سے اپنی نگاہیں اٹھائیں اور دوسری کی آنکھوں میں جھانکا۔ ان کی نظریں ایک دوسرے سے جڑ گئیں، اور اس لمحے میں جذبات کا طوفان تھا۔ محبت، تحفظ، اور احترام کا احساس تھا، جس نے انہیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس خاموش لمحے میں وہ ایک دوسرے کے دکھ، خوشی اور خوابوں کو سن رہی ہوں۔

 

 

ان دونوں کے درمیان تعلق کی نوعیت شاید دنیا کی نظر میں عام نہ ہو، مگر ان کے لئے یہ لمحہ بے حد اہم تھا۔ زندگی کی تیز رفتار دوڑ اور دنیا کے شور میں یہ چند لمحے، جن میں وہ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں، ان کے لئے بہت قیمتی تھے۔

 

 

اس لمحے میں کوئی فیصلہ نہیں تھا، کوئی انجام نہیں تھا، بس ایک دوسرے کے لمس میں اپنے آپ کو مکمل محسوس کرنا تھا۔ دونوں نے خاموشی سے ایک دوسرے کو تسلی دی، جیسے وہ جانتی ہوں کہ اس لمحے کا کوئی لفظ ان کے جذبات کو بیان کرنے کے لئے کافی نہیں تھا۔

 

 

یہ خاموش لمحہ ان کے درمیان ایک یادگار بن گیا، جو ان کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ لمحہ تھا، جو نہ صرف ان کی کہانی کا حصہ بن گیا، بلکہ ان کے احساسات کی گہرائی کو ایک دوسرے کے دل میں ہمیشہ کے لئے ثبت کر گیا۔ وہ لمحہ ایک ایسا سفر تھا، جو انہیں اپنے آپ کو ایک دوسرے کی خاموشی میں پانے کی طرف لے آیا۔

 

 

 

Posted in خواتین کا صفحہTagged
95631

دعوتِ گناہ کا فریب ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

دعوتِ گناہ کا فریب ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

زندگی ایک عجیب کھیل ہے، جہاں ہر طرف راستے بچھے ہیں، اور ہر راستے کے اختتام پر کوئی نہ کوئی آزمائش منتظر ہے۔ انسان فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے، مگر یہ آزادی صرف ایک سراب کی مانند ہے، جو ہر لمحہ اُس کو گمراہ کرنے کے لئے تیار کھڑی ہے۔ دعوتِ گناہ بھی ایسی ہی ایک آزمائش ہے جو انسان کی خواہشات اور جذبات کو جھنجھوڑ کر اُس کو سرحدوں کو پار کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

 

دعوتِ گناہ، ایک نرم سرگوشی کی مانند، خاموشی سے دل میں اتری ہے۔ وہ نگاہ، وہ لمس، وہ کشش جو نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جیسے ایک پرکشش مقناطیس، جو انسان کو اُس کی فطرت کے خلاف بھی خود کی طرف کھینچتا ہے۔ کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جن میں ایک عجیب سی شدت ہوتی ہے، ایک سرخوشی جو ہر دوسرے احساس کو ماند کر دیتی ہے۔ اُس وقت صرف ایک چیز یاد رہتی ہے: خواہشات کا شدت سے اُبھرنا، ایک پل کی خوشی، جو شاید ایک زندگی بھر کا افسوس بن سکتی ہے۔

 

گناہ کے اس دعوتی سفر میں، پہلی قدم ہی سب سے مشکل اور سب سے آسان ہے۔ یہ پہلی قدم، جو ہر اصول، ہر اخلاقی دیوار کو توڑ کر آگے بڑھتا ہے۔ مگر کیا یہ واقعی اُس خوشی کا ضامن ہے جس کی تلاش میں ہم سفر کرتے ہیں؟ یا یہ محض ایک آزمائش ہے، ایک فریب جو چند لمحوں کی لذت کے عوض ہمیں زندگی بھر کی پشیمانی کے دلدل میں دھکیل دیتا ہے؟ اس ایک سوال کا جواب کوئی نہیں دے سکتا، کیونکہ ہر شخص کا تجربہ الگ، ہر شخص کا احساس الگ۔

 

دعوتِ گناہ ایک پُراسرار کہانی ہے، جس میں چاہت اور فریب کا ملاپ ہوتا ہے۔ یہ اُس مٹھاس کی مانند ہے جو پہلی ہی بوند میں زبان کو بھلی لگتی ہے، مگر آخرکار انسان کو پاتال کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔ یہاں ہر قدم پر ایک نیا سوال ہے، ہر لمحے میں ایک نیا انتخاب۔ یہ لمحہ انسان کی زندگی کا وہ مقام بن جاتا ہے جہاں اُس کی سوچ، اُس کے اصول، اور اُس کی اخلاقیات کا امتحان ہوتا ہے۔ کیا انسان اُس دعوت کا جواب دیتا ہے، یا اُس سے دور رہتا ہے؟ اس کا فیصلہ اُس کی زندگی کی کہانی کو ہمیشہ کے لئے بدل سکتا ہے۔

 

گناہ کے دعوتی منظر میں، انسان اکثر اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ لمحے جو نظر میں خوبصورت، دل میں پُرکشش، اور روح کو سرور بخشنے والے محسوس ہوتے ہیں، وہی لمحے اصل میں ایک سراب کی مانند ہوتے ہیں۔ انسان اس گہرائی میں ڈوبتا ہے، اور پھر واپس لوٹنا اُس کے بس میں نہیں رہتا۔

 

یہ کہانی ہر انسان کے اندر ہے، ایک فطری کشمکش جس کا جواب شاید کوئی نہ دے سکے۔ ہر بار جب انسان اس دعوت کو دیکھتا ہے، اُس کے اندر کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اُس جنگ میں جیتنے والے ہی اصل فاتح ہوتے ہیں، جو اس دعوتِ گناہ کے فریب کو سمجھ کر اُس سے دُور رہتے ہیں، اور اپنی روح کی پاکیزگی کو برقرار رکھتے ہیں۔

 

 

 

 

 

Posted in خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95614

وجود اور خوابوں کا درخت ۔ تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

وجود اور خوابوں کا درخت ۔ تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

ایک خاموش جھیل کے کنارے، درخت کی شاخ پر لیٹی لڑکی کا یہ منظر بظاہر سادہ نظر آتا ہے، لیکن اس کے اندر گہرے معنوی پہلو چھپے ہوئے ہیں۔ کتاب چہرے پر دھری، سکون اور بے نیازی کی یہ کیفیت انسانی وجود، خوابوں اور فطرت کے ساتھ تعلق کی عکاسی کرتی ہے۔

 

زندگی کی تیز رفتاری اور ہنگامہ خیزی میں انسان اپنے وجود کے بوجھ کو ہمیشہ اپنے کندھوں پر محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس منظر میں، لڑکی شاخ پر لیٹی ہوئی یوں محسوس ہوتی ہے جیسے اس نے ان سب زنجیروں سے وقتی نجات حاصل کر لی ہو۔ کتاب کا چہرے پر رکھنا دنیا کے شور و غل سے فرار کی علامت ہے، گویا وہ اپنے خیالات کی دنیا میں گم ہو گئی ہو۔ یہ لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی میں کچھ وقت اپنے آپ کو دینا، دنیا کے شور سے دور ہو کر اندرونی سکون تلاش کرنا کتنا اہم ہے۔

 

 

اس تصویر میں جھیل کا پرسکون پانی خواب اور حقیقت کے درمیان تعلق کا استعارہ ہے۔ پانی میں عکس انسان کے وہ خواب ہیں جو اس کے حقیقی وجود کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایک ہی وقت میں، یہ ہمیں حقیقت کے اس پہلو کو دکھاتا ہے جو نظر آتا ہے، اور خوابوں کے اس پہلو کو بیان کرتا ہے جو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ خواب اور حقیقت کے اس امتزاج میں ایک خوبصورتی ہے، اور یہ تصویر ہمیں سکھاتی ہے کہ اگر خواب ہمارے وجود کا حصہ نہ بنیں تو ہماری حقیقت بھی نامکمل رہتی ہے۔

 

یہ منظر فطرت کے ساتھ انسانی تعلق کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ درخت، جو وقت اور حالات کا گواہ ہے، اس کی شاخ پر لیٹی یہ لڑکی ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی یاد دلاتی ہے۔ اس کی سادگی اور سکون انسانی زندگی کی ایک چھپی ہوئی خواہش کو ظاہر کرتی ہے، کہ انسان قدرت کے قریب رہ کر اپنی زندگی کو متوازن کر سکتا ہے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں، جہاں انسان مصنوعی ماحول میں مقید ہو چکا ہے، یہ تصویر ہمیں قدرت کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔

 

زندگی کے شور سے وقتی طور پر کنارہ کش ہونا، اپنی ذات کے ساتھ وقت گزارنا اور اپنے خیالات کو ترتیب دینا نہایت ضروری ہے۔ یہ لمحے ہمیں اندرونی سکون کے راستے پر گامزن کرتے ہیں۔ اس تصویر کا ہر پہلو ایک سوال اٹھاتا ہے: کیا ہم نے کبھی اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسا لمحہ نکالا ہے جہاں ہم حقیقت اور خوابوں کے بیچ توازن تلاش کر سکیں؟

یہ منظر ایک خاموش دعوتِ فکر ہے، جو ہمیں اپنی زندگی کی رفتار پر غور کرنے اور سکون کے ان لمحات کو اہمیت دینے کی ترغیب دیتا ہے۔ فطرت کی یہ تصویر ہمیں خود سے قریب ہونے اور زندگی کے اصل معنی تلاش کرنے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے۔

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95470

تعبیر تیرے خوابوں کی۔ از: کلثوم رضا

Posted on

تعبیر تیرے خوابوں کی۔ از: کلثوم رضا

 

 

کہنے کو تو اس ملک خدا داد میں کیا کیا نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھار کچھ ایسا سننے کو ملتا ہے کہ بندہ گھنٹوں بلکہ دنوں تک سوچتا رہتا ہے کہ میں نے جو سنا کیا یہ سچ ہے؟
آج بھی ایک ایسی ہی بات جس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا یہ تھا کہ اقبال کا شعر سٹیٹس میں لگانے پر ایک گروپ ممبر نے مسیج کیا کہ “الله انہیں غارت کرے جنہوں نے پاکستان بنایا۔”
پڑھ کے ایسا دھچکا لگا جو شاید مجھے گالی دینے پر بھی نہیں لگتا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔۔۔ “الله انہیں غریق رحمت کرے” کہنے کے بجائے یہ کیسی بد دعا دے رہی ہے؟

 

ٹوکا تو کہا کہ پاکستان سے ہمیں کیا ملا۔۔۔؟ ہم دن بدن ابتر حالات میں گرے جا رہے ہیں۔۔ جو سلوک یہاں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی کافرستان میں بھی کسی کے ساتھ نہیں ہو رہا۔۔۔ پھر کیوں ہم خود کو جھوٹی تسلیاں دیں کہ ہمارا ایک ملک ہے جس میں ہم آزاد ہیں۔۔۔ خوش ہیں۔۔۔ مزید سمجھانے پر کہا کہ باجی میں واقع بہت بیزار ہو گئی ہوں۔۔۔ اس نظام سے جو اس ملک میں ہے۔۔پھر سوچا کہ جو حالات اس کے اور اس جیسے بہت سوں کو ہیں، اس حساب سے اس کی اس وطن سے، اس کے نظام سے بیزاری حق بجانب تھی۔ وہ ایک غیر رسمی سکول کی ٹیچر تھی۔ جن کو گزشتہ چھ مہینوں کا اعزازیہ نہیں دیا گیا ہے۔۔۔ یہ وہ سکول ہیں جنہیں حکومت نے اس لیے بنایا تھا کہ کوئی بچہ سکول سے باہر نہ رہے۔۔ ان سکولوں میں وہ بچے بچیاں پڑھتے ہیں جن کو گورنمنٹ سکول دور ہونے کی وجہ سے بچیوں کو والدین سکول نہیں بھیجتے اور بچے خود نہیں جاتے۔۔

 

ان میں ایک مسئلہ گورنمنٹ سکولوں میں یونیفارم اور دیگر پابندیاں بھی ہیں جنہیں بچے اور والدین برداشت نہیں کر سکتے۔۔۔تو ان بچوں اور والدین کی اولین ترجیح یہی غیر رسمی اسکول ہی ہوتے ہیں (جی سی ایس،بیکس اور این سی ایچ ڈی)جہاں بچہ بغیر یونیفارم کے بھی جا سکتا ہے۔۔۔ اور گھر سے قریب ہونے کی صورت میں بچے اور والدین دونوں مطمئن رہتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں۔۔۔ اسی وجہ سے ان اسکولوں میں بچوں کی Enrollment گورنمنٹ اسکولوں کی بنسبت کافی ذیادہ ہے اور کمیونٹی اسکول کے اساتذہ بڑی جانفشانی سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔یعنی کہ ان سکولوں میں ملٹی گریٹ کلاس روم کے اندر ملٹی گریٹ ٹیچینگ کرنے والا یہ ٹیچر بیک وقت معلم بھی،چوکیدار بھی اور چپراسی بھی خود ہے۔۔ مذید یہ کہ بلڈنگ کی ذمہ داری بھی اساتذہ کی اپنی ہے۔ ان میں اکثر و بیشتر کرائے کے مکانوں میں اسکول کھول رکھے ہیں۔(اور بعض اسکولوں میں اسٹوڈنٹس کی تعداد ذیادہ ہونے اور کلاس رومز کم پڑنے کی وجہ سے ٹینٹ بھی لگا رکھے ہیں) اور تنخواہ ہے صرف “اکیس ہزار” اب اسی سے مکان کا کرایہ اسکول کے جملہ اخراجات کے ساتھ روزانہ آنلائن اٹینڈنس کے لیے ٹیٹ پیکچ اور ساتھ اپنی ضروریات جانے کیسے پورے کرتے ہیں اس مہنگائی کے ہوشربا دور میں۔۔۔۔

 

 

اوپر سے ظلم کی انتہا یہ اعزازیہ بھی کئی مہینوں تک بند رہ کر صرف ایک مہینے کی ملے تو اس سے مکان کا کرایہ ادا ہوگا یا بجلی کا بل یا دوسرے اخراجات پورے ہوں گے۔۔۔؟سوال تو بنتا ہے۔۔۔ شکایت بھی حق ہے۔۔۔اور احتجاج بھی جائز ہے۔۔پچھلے مہینے ان اسکولوں کی اساتذہ نے نیٹ پیکچ کی سہولت میسر نہ ہونے پر آنلائن حاضریاں لگانے سے معزرت کر لی تو انہیں اس قلیل ترین اعزازیہ سے بھی روزانہ کی دیہاڑی کاٹنے کی دھمکی دی گئی۔۔۔ اس بات پہ نظام سے متنفر ہونا تو بنتا ہے۔۔۔ قرضے پہ قرضہ لے کر یہ بیچارے اپنے دن پورے کر رہے ہیں۔۔۔۔ ایک استانی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ کس مشکل سے گزر رہی ہے باپ اس کا فوت ہو چکا ہے بھائی ہے نہیں ایک ماں ہے جو کہ حالات کے ستم سہتے سہتے کئی بیماریوں کا شکار ہو چکی ہے۔۔۔ اور مہنگائی کے طوفان سے اس کی دوائیوں کا خرچ نکال لینا اس کے لیے عذاب سے کم نہیں۔۔۔ اور اسکول کا کرایہ ادا نہ کرنے پر مالک مکان سے جو سننے کو ملتی ہیں انہیں سن سن کر وہ پتھر کی بن چکی ہے۔۔۔

 

ان کا کہنا ہے۔۔۔ ہم بہت مجبوری میں یہ سکول چلا رہے ہیں۔۔ ہمارے پاس کوئی اور وسائل نہیں۔۔۔ اگر ان اسکولوں کو چلانے کے لیے ان کے ذمہ داروں کے پاس پیسے نہیں تو بند کیوں نہیں کرتے۔۔۔ اس سے تو اچھا تھا ہم یتیمی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے تو کوئی مجبور سمجھ کر راشن اور دواؤں کی ذمہ داری تو کم سے کم لے لیتا تھا اب احباب واقارب بھی کہتے ہیں کہ پڑھا رہی ہے۔۔۔اس کا خرچہ نکل آتا ہے۔۔۔ باجی ہم بہت مجبور ہو گئے ہیں۔۔۔ ایک اور ٹیچر خود بیمار،شوہر بیمار چھوٹے چھوٹے بچے جو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں اپنا علاج کروانے کے لیے فنڈنگ کی اپیل کی ہے۔۔اس طرح کی کئی کہانیاں ہمارے اس شاہی ضلع چترال کی ہیں باقی پسماندہ علاقوں کی تو حالات بتانے سے بھی رہے۔۔کل پشاور کے ضلع “نگومان”میں اسکول کے سامان اور بچوں کو ٹیچر سمیت مکان سے باہر نکال کر گلی میں پھینک دیا گیا کرایہ ادا نہ کرنے پر۔۔۔

 

اب ان حالات میں کوئی ذی شعور انسان یہ بتائے کہ موجودہ صورتحال سے پریشان اپنے حال اور مستقبل سے مایوس یہ اساتذہ اپنے سٹوڈنٹس کو روشن مستقبل کی کیا امیدیں دلائیں گے۔۔۔
آج وطن عزیز میں اساتذہ سراپا احتجاج تو نوجوان مایوس۔اس وطن سے اس کے نظام سے۔۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔انکی داد رسی کرنے کے بجائے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان غیر رسمی اسکولوں پر بھی تھوڑی سی توجہ دے کر اساتذہ کا اعزازیہ بڑھا کر اسے ماہوار کیا جائے۔ تاکہ ہر مہینے ملنے والے اعزازیہ سے وہ اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کر سکیں۔اب اگر حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں تو ان اسکولوں کا اجرا کیا ہی کیوں تھا؟…دوسرے اداروں کی بات ہم نہیں کرتے صرف ایلیمنٹری اینڈ سکینڈری ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہی کی بات کرتے ہیں جس کے ضلعی اور صوبائی دفاتر کے عملوں کی تنخواہیں ہزاروں اور لاکھوں پر مختلف مراعات کے ساتھ مل رہی ہیں تو صرف بیچارے اساتذہ کا کیا قصور ہے کہ جنہیں اس قلیل ترین اعزازیہ سے بھی محروم رکھ کر ان پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے تو اچھا تھا کہ یہ بے غیر فنڈ کے اسکولز نہ ہوتے۔۔بچے اور اساتذہ دونوں ازاد، اپنی مرضی سے اپنی پیٹ پوجا کے لیے کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیتے۔۔۔کم سے کم اسکول کے بورڈز، مارکرز،چٹائیوں اور آنلائن حاضریوں کے لیے نیٹ پیکچ کا بوجھ ان کے سر نہ پڑتا۔۔۔

پہلے جب کوئی کہتا ہ تنخواہ ائے گی اگلے مہینے تو کچھ تسلی ہوتی کچھ انتظار رہتا تھا لیکن اب تو لگتا ہے کہ یہ کبھی نہیں ائے گی۔۔۔
تو آج کے دن اقبال سے اس دل نے کہنا چاہا کہ
تعبیر تیرے خوابوں کی سب الٹے ہو گئے
معمار تیرے دیس کے سڑکوں پہ آ گئے
مستقبل سے پریشان تیرا شاہین بھی مایوس
ماضی تھا اس کا،نہ ہی حال ہے محفوظ…

اب چونکہ گورنمنٹ پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کے مطالبات منظور ہونے کی خبریں آ رہی ہیں یہ خوش آئند بات ہے (اگر یہ بھی ان غیر رسمی اسکولوں کے مطالبات صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے کے باوجود تا حال کوئی عملدرآمد نہ ہونے جیسا اگر نہ ہوا تو۔۔۔)تو ممکن ہے اس کے بعد ان غیر رسمی اسکولوں کے اساتذہ کے مطالبات بھی منظور ہو جائیں,اور ان کے مسائلِ کا ایک حد تک مداوا ہو جائے۔۔

 

 

 

chitraltimes bes kp students 2 chitraltimes bes kp students 3 chitraltimes bes kp students 4 chitraltimes bes kp students 5 chitraltimes bes kp students 6 chitraltimes bes kp students 1 chitraltimes bes kp students 1 pesh

 

 

 

 

 

 

 

 

Posted in خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95360

یادوں کی سلگتی خوشبو ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

یادوں کی سلگتی خوشبو ۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

مکیش، ایک درمیانی عمر کا مرد، اپنے پرانے مکان کی چھت پر اکیلا بیٹھا ہے۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور ہلکی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو چھو کر گزر رہی ہے۔ اس کا دل ایک عجیب سی تڑپ سے بھرا ہوا ہے، جیسے برسوں کی دبی ہوئی آگ ہوا کی ہلکی سی چھوت سے پھر سے بھڑک اٹھی ہو۔ اس کے سامنے وہی پیڑ کھڑا ہے جو کبھی اس کی اور روپا کی خفیہ محبت کا گواہ تھا۔
روپا، جس کی مسکراتی آنکھیں اور مہکتی زلفیں آج بھی اس کی یادوں میں تازہ ہیں، اسی چھت پر مکیش کے قریب ہوا کرتی تھی۔ ان کی راتیں کبھی باتوں سے مہکتی تھیں تو کبھی خاموش لمس سے۔ مکیش کی انگلیوں کی پوریں آج بھی اس احساس کو محسوس کر رہی ہیں، جیسے وہ روپا کی کمر کو آہستگی سے چھو رہی ہوں، جیسے کہ وہ لمحے دوبارہ جی رہا ہو۔
وہ لمحے، جب روپا کا سر اس کے کندھے پر ٹک جاتا اور اس کی سانسوں کی گرمی مکیش کی گردن کو چھوتی تھی۔ روپا کی ہنسی ہوا میں رس گھولتی، اور ان کے درمیان ایک خاموش گفتگو چلتی رہتی۔ وہی مکیش، جس کا دل کبھی روپا کے ہر لمس کے انتظار میں تڑپتا تھا، اب صرف انہی یادوں کے سہارے جی رہا ہے۔
مکیش کی یادیں اس پیڑ کے ساتھ جڑی ہیں۔ اسے یاد آتا ہے کہ کیسے روپا اس کی بانہوں میں سمٹ کر اپنے بدن کی گرمی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ ان راتوں کی مدھم روشنی میں ان کا عشق خاموشی سے پھلتا پھولتا رہا۔ روپا کے ہاتھوں کی نرم پوریں اور اس کا بدن، جیسے مکیش کی زندگی کو مکمل کر رہا تھا۔
اب، ان لمحوں کو یاد کرتے ہوئے، مکیش کی آنکھوں میں ایک شرمیلی سی چمک اور دل میں ایک اداسی کی کسک پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ یادیں کبھی مٹیں گی نہیں، اور روپا کی خوشبو ہمیشہ اس کی زندگی کا حصہ رہے گی، ایک ایسی خوشبو جو اسے بار بار ماضی میں کھینچ لاتی ہے۔
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
95015

پیغام- ڈاکٹر شاکرہ نندنی

Posted on

پیغام- ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

ایک دن، اس نے ایک محبت بھرا پیغام لکھا اور کبوتر کے پروں پر باندھ کر روانہ کر دیا۔ اس کے دل میں ایک امید تھی کہ یہ پیغام تم تک پہنچے گا، مگر پھر خیال آیا کہ شاید یہ پیغام ادھورا ہے، جیسے کچھ رنگ ابھی الفاظ میں بھرنا باقی تھے۔ اسی عجلت اور بے صبری میں اس نے تتلی کو بھی پیغام لے جانے کے لیے بھیج دیا۔ سوچا، تتلی کی خوبصورتی اور اس کے پروں کی نرمی شاید اس پیغام کو تم تک زیادہ مؤثر انداز میں پہنچا دے۔

پھر ایک خیال نے دل کو دوبارہ بے چین کر دیا۔ “کیا یہ محبت کی شدت، یہ سوز، یہ تڑپ، یہ دل کی لگن اس پیغام سے عیاں ہو پائے گی؟” ایک ہلکی سی تشویش تھی کہ شاید اس کی جذباتی گہرائی کو کبوتر یا تتلی مکمل طور پر بیان نہ کر سکیں۔ اس نے بلبل کو بھی سفر پر روانہ کر دیا کہ شاید اس کے نغموں میں اس تڑپ کی جھلک مل جائے، شاید اس کی آواز کے سروں میں دل کی دھڑکن سما جائے۔

مگر دل کو ابھی بھی قرار نہ آیا۔ دل میں ایک اور اضطراب اٹھا، اور اس نے سوچا کہ شاید کوئل کی سریلی اور مدھرت آواز ہی اس پیغام کی شدت کو تم تک پہنچا سکے۔ کوئل کو روانہ کر دینے کے بعد اسے لگا کہ اب شاید سندیسہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور دل میں تسکین محسوس کی۔

اسی اثنا میں ایک ہوا کا جھونکا شرارت سے اس کے قریب آیا اور سرگوشی کرنے لگا، “کہو تو میں تمہارا لمس بھی لے جاؤں؟” اس کی سرگوشی نے دل کو ایک لمحے کے لیے ساکت کر دیا، اور نہ جانے کیوں، اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس کی آنکھوں سے چند آنسو گرے، جنہیں بادل نے جھک کر چپکے سے پی لیا، جیسے وہ اس کے آنسوؤں کا بوجھ بانٹنا چاہتا ہو۔

وہ بادل اب ہوا کے سنگ فضاؤں میں سفر پر ہے، ہر سمت، ہر جانب۔ اب وہ جانتی تھی کہ یہ پیغام، یہ محبت کی مہک، یہ لمس، ہوا اور بادلوں کے ذریعے تم تک پہنچیں گے۔ اب جہاں بھی تم جاؤ، جس سمت بھی دیکھو، وہاں یہ پیغام تمہیں محسوس ہوگا۔

 

 

 

 

Posted in خواتین کا صفحہTagged
95005

غیر مرئی محنت – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

غیر مرئی محنت – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

تیز دھوپ میں چوک پر کھڑا ایک بوڑھا بھکاری ہاتھ میں ایک پرانا کٹورا لیے آہستہ آہستہ گاڑیوں کے پاس جا رہا تھا۔ وہ سست قدموں سے آگے بڑھتا، کبھی کسی گاڑی کے شیشے پر ہلکی سی دستک دیتا، تو کبھی کسی راہگیر کو بلاتا۔ چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے، آنکھوں میں بے بسی کی چمک تھی۔

ایک چمکتی ہوئی گاڑی اس کے پاس رکتی ہے۔ شیشہ نیچے ہوتا ہے اور اندر بیٹھا ایک سوٹ پہنے شخص، جس کی آنکھوں میں بے رحمی جھلک رہی تھی، سوال کرتا ہے:

“بابو جی، میں بہت مجبور ہوں،” بھکاری نے عاجزی سے کہا۔

“کون مجبور نہیں ہے؟” گاڑی میں بیٹھے آدمی نے بے نیازی سے کہا۔

“میں بہت مجبور ہوں،” بوڑھے بھکاری نے ایک بار پھر اپنی حالت بیان کی۔

“سب بہت مجبور ہیں۔ تم کام کیوں نہیں کرتے؟” آدمی نے سوال کیا۔

بھکاری نے تھوڑا سا سر جھکا کر کہا، “جی، کام ہی تو کرتا ہوں۔”

“کیا کام کرتے ہو؟” گاڑی والا آدمی حیران ہوا۔

“بھیک مانگتا ہوں،” بھکاری نے آہستہ سے جواب دیا۔

آدمی نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا، “یہ کام تھوڑی ہے؟ یہ کوئی ہنر تھوڑی ہے؟ جس کام کا کوئی نام نہیں ہے، وہ کام کوئی کام نہیں ہے۔”

بھکاری نے تھوڑا سانس لیا، پھر دھیرے سے کہا، “ذرا گاڑی سے باہر آئیں ناں، ایک منٹ کے لیے اس چوک پر لوگوں کی نظروں کو میری نظروں سے دیکھیں۔ ایسی تپتی گرمی میں کسی سے اک سوال کرکے دیکھیں، اس سے زیادہ حوصلے کا کوئی کام نہیں ہے۔”

بھکاری کی بات سن کر آدمی کچھ پل کے لیے خاموش ہو گیا۔ اسے اندازہ ہوا کہ بھیک مانگنا محض ایک ضرورت نہیں بلکہ زندہ رہنے کی جدوجہد ہے۔ بھکاری نے دوبارہ بولنا شروع کیا، “دن رات کی محنت پر بھی میرا کوئی نام نہیں ہے۔”

آدمی نے شیشہ چڑھایا، گاڑی کا انجن سٹارٹ کیا اور بغیر کچھ کہے آگے بڑھ گیا۔ بھکاری وہیں کھڑا رہا، ایک ہاتھ میں کٹورا اور دوسرے ہاتھ میں وہ غیر مرئی محنت جس کا کوئی نام نہیں تھا، کوئی پہچان نہیں تھی، اور شاید کبھی ہوگی بھی نہیں۔

ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
94986

”چہرے نہیں نظام بدلو“ ۔:تقدیرہ رضا خیل

”چہرے نہیں نظام بدلو“ ۔:تقدیرہ رضا خیل

 

ائیرمارشل اصغر خان نے ”چہرے نہیں نظام بدلو“ کے عنوان پر کتاب لکھی جو یقیناً ان کی پارٹی کارکنوں‘صحافیوں‘ استادوں اور دانشوروں نے پڑھی ہوگی۔ لوگ یہ بھی جانتے ہونگے کہ صدرمسلم لیگ ن میاں محمد نوازشریف نے اپنی سیاست کا آغاز ائیر مارشل کی سیاسی جماعت تحریک استقلال سے کیا تھا وہ عرصہ تک اس سے وابستہ رہے۔ جنرل ضیاء کا دور آیا تو میاں خاندان کا جھکاؤ مسلم لیگ کی طرف ہوگیا پھر وہ مسلم لیگ جونیجو گروپ سے فیضاب ہوکر وزیراعلی پنجاب اور پھر تین بار وزیراعظم رہے اب ان کی بیٹی وزیراعلیٰ اور بھائی وزیراعظم ہیں۔مشہور ہے کہ میاں صاحبان کتاب یا اخبار بینی نہیں کرتے چوکہ انہیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ملک کی ساری کریم یعنی عقل ودانش کے سبھی روشن مینار ان کے دربار کو منور رکھے ہوئے ہیں جناب عرفان صدیقی مستند استاد، دانشور اور دور حاضر کے”شمس العلماء“ ہیں۔ یادش بخیر ……

 

 

مصری وزیر تعلیم طہ حسین کی خدمات یو این او سے مانگی تو صدر جمال عبدالناصر نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھا کہ طہ حسین مصر کی دو آنکھیں ہیں اگر طہ حسین اقوام متحدہ میں چلے گئے تو مصر نابینا ہو جائے گا یاد رہے کہ طہ حسین پیدائشی نابینا تھے مگر ان کے علم ودانش کی روشنی سے مصر روشن تھا۔ نو لیگ کے پاس صرف عرفان صدیقی ہی نہیں بلکہ علم وحکمت کی ہر صنف کے استاد موجود ہیں۔ وزیر قانون‘ وزیر اطلاعات اور وزیر خارجہ وداخلہ بھی نابغہ روز گار ہیں جن کی اہمیت سے افکار ممکن ہیں۔ بات ائیر مارشل کی تصنیف کی ہورہی تھی جوشاید میاں صاحب نے پڑھی ہو یا پھر کسی حکیم‘ عالم نے انہیں پڑھ کر سنائی ہو ”چہرے نہ بدلو نظام بدلو“ آخر کار میاں صاحبان نے اپنے زیرک سیاسی وزیروں اور مشیروں کی مدد سے ائیر مارشل کی خواہش پورکردی اور تقریباً ایک سال کی علمی‘ عقلی اور دوسروں کے زور پر اکتوبر 1924 کے دوسرے ہفتے میں ملکی نظام بدل ڈالا ائیر مارشل مرحوم کے خواہش پر چہرے نہیں بدلے گئے چونکہ چہرے بدلنے سے نظام دھڑم سے گرنے کا اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے، ابھی اس نظام کی ابتدا ہے۔ ابتداء میں ہر دیوار کمزور ہوتی ہے اوراسے بیرونی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

شیخ سعدیؒ کا مشہور قول ہے کہ ”گل مندن کا گل مندن دیوار بے بنیاداں“ فرماتے ہیں کہ جو دیوار کی بنیاد مضبوط نہ ہو اس پرجتنا بھی سیمنٹ‘ گارا اور چونا لگاؤ وہ کبھی مضبوط نہیں ہوسکتی۔ ملا طاہر غنی کاشمیری کا فرمان ہے کہ اسے شخص باخبر رہ کر دریا کا پانی دیوار کے قدم چومتا ہے مگر آخر کار اسے گرا دیتا ہے۔ نئی آئینی ترمیم تو لاگو ہو چکی ہے مگر یہ آئینی دیوار کسی ایک معمار کا کرشمہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ پی ٹی آئی کے منحر فین‘ جناب جسٹس فائز عیسیٰ کے کچھ تاریخی فیصلے‘ پی این پی کے منحر فین‘ ایم کیو ایم اور سب سے بڑے دانشور صدر زرداری‘ ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری‘ اور بقول جناب فیصل وواڈ کے”باپ اور باپ کے باپ“ ترمیم کے راستے سے رکاوٹیں ہٹا کر پچھتر سال کے بعد ایک مضبوط‘ مستحکم اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ایک نظام ملکی سلامتی‘ ترقی وخوشحالی کے پیش نظر قوم کو دیا ہے۔ جناب ”مفتی اعظم پاکستان“ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا قوم پر عظیم احسان ہے کہ وہ آخر کار ایک فرسودہ نظام بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔ علمی شخصیات کے بعد اب روحانی شخصیت کے کسی بیان کا انتظار ہے مگر میرے نزدیک جناب فیصل ووڈا ہی وقت کے سب سے بڑے روحانی استاد ہیں۔

 

ان کی پیشن گوئیاں سچ ثابت ہورہی ہیں جو کبھی خطرناک ہوسکتی ہیں۔ جناب قدرت اللہ شہباب نے ”شہباب نامہ“ میں جموں میں پلیگ کے عنوان سے مضمون رقم کیا، لکھتے ہیں کہ ان کی یکطرفہ محبوبہ کسی مولوی سے بیاہ دی گئی جموں وکشمیر میں طاعون کا مرض پھیلا تو محلوں کے محلے صاف ہوگئے مرض مولوی صاحب کے محلے تک جاپہنچا تو ہم خوش ہوگئے کہ چلو مولوی سے چٹھکارا مل جائے گا۔ ابھی ہم اسی خوشی میں مبتلا تھے کہ مولوی صاحب کی حسین وجمیل بیوی چل بسی!!پتہ نہیں اس آئینی ترمیم کی خوشی کب تک قائم رہتی ہے اور فیصل ووڈا آنے والے دنوں میں کون سی نئی پیشن گوئی کر دیتے ہیں۔اسی وباء کے دوران کشمیر میں ایک صاحب اپنے پیرومرشد کے پاس گئے اور عرض کی کہ مجھے کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ مجھے پتہ چل جانا کرے کہ میرے علاقہ میں کونسا شخص طاعون میں مبتلا ہونے والا ہے پیر صاحب نے کہا کہ یہ تو امر ربی ہے۔ یقین اسی کی طر ح سے نازل ہوتی ہیں اور وہ ہی شفایاب کر نے والا ہے۔ مرید نے ضد کی تو پیر صاحب نے اسے کو ایک رجسٹر دے کر کہا کہ اپنے محلے سمیت جتنے لوگوں کو جانتے ہو ان کے نام لکھ لو جس کسی پر طاعون کا حملہ ہوگا اس کا نام رجسٹرسے خود بخود غائب ہو جائے گا یہ شخص آئن گر تھا صبح دکان کھولتے ہی لوگ آجاتے اور یہ رجسٹر دیکھ کر پیشن گوئی کر دیتا کہ فلاں کا پتہ پیلا ہوگیا بس گیا کہ گیا اور پھر ایسا ہی ہوتا وہ دنوں میں مشہور ہوگیا کہ بہت پہنچا ہوا ہے۔

 

لوگ ڈرنے بھی لگے کہ کیا پتہ کل کلاں ان کے نام لے لے لوگ نیاز اور شریناں بھی دینے لگے اور صحت کیلئے دوا کرواتے۔ آئن گر کا ٹیہا چند دن تک ہی قائم رہا ایک دن رجسٹرلیکر پیر صاحب کے آستانے پر حاضر ہوا اور سر میں خاک ڈالنے لگا رجسٹر پھاڑ کر پھینک دیا اور گریہ کرنے لگا پیر صاحب نے پوچھا تو رورو کر عرض کرنے لگا کہ آج صبح رجسٹر دیکھا تو میرے اکلوتے بیٹے اور بیوی کا نام غائب پایا۔ پیر صاحب نے کہا کہ جاؤ صبر کرو اور کبھی کسی کی تکلیف پر خوشی مت مناؤ۔ رجسٹر تو تمہاری خواہش تھی ورنہ کام سب اللہ ہی کرتا ہے۔ اسی کا نظام کامل‘ مکمل اور مستحکم ہے باقی سب دھوکہ‘ فراڈ اور جھوٹ ہے۔ جناب فیصل ووڈا بھی رجسٹر لکھ کر پریس کانفرنسیں کرتے ہیں ورنہ ان کی اہمیت اور حیثیت آئن گر سے بھی کم ہے۔ کیا پتہ وہ کسی روز منیب‘ طلعت‘ شامی‘ جامی‘ بخاری یا بادامی کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیں کہ اب اس نئے نظام کی اہمیت ختم ہو چکی۔ رجسٹر سے بہت سے چہرے بھی غائب ہیں چند دنوں میں نیا نظام اور نئے چہرے سامنے آنیوالے ہیں کیا پتہ وہ جن دانشوروں کے سامنے بیٹھ کر اپنا مدعا بیان کررہے ہو ان کے نام بھی رجسٹر پر نہ ہوں یاد رہے کہ ہر لکھنے والے کے اوپر بھی ایک لکھنے والا ہے جس کا لکھا کبھی مٹتا نہیں۔ ووڈا صاحب کو بھی اپنا خیال رکھنا چاہیے نام تو کسی کا بھی مٹ سکتا ہے!!

 

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
94918

فن، محبت اور خودی کی تلاش زندگی کے اس سفر میں – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

فن، محبت اور خودی کی تلاش زندگی کے اس سفر میں – ڈاکٹر شاکرہ نندنی

میں ایک ماڈل اور ڈانسر ہوں، لیکن میری پہچان صرف یہی نہیں ہے۔ میرے دل میں ایک تخلیقی روح ہے جو شاعری اور مضامین لکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ یہ میرے اندر کی کہانیوں کو بیان کرنے کا ایک طریقہ ہے، جہاں میں اپنی خوشیوں، غموں اور جذبات کی عکاسی کرتی ہوں۔ ماڈلنگ کی دنیا میں، میں نے ہمیشہ خود کو ایک خاص انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر فوٹو شوٹ میرے لیے ایک نئی کہانی ہے، جہاں میں اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اپنی انفرادیت کو بھی اجاگر کرتی ہوں۔ مگر میری خواہش صرف نظر آنے میں نہیں، بلکہ اپنی ذات کو مکمل طور پر سمجھنے اور ظاہر کرنے میں بھی ہے۔

رقص، میرے لیے، محض ایک فن نہیں بلکہ ایک زبان ہے۔ ہر حرکت، ہر قدم میری کہانی کو بیان کرتا ہے۔ جب میں رقص کرتی ہوں، تو یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی ذات کو مکمل طور پر آزاد کر رہی ہوں۔ میرے جسم کی ہر لہر میں محبت، جنسی کشش اور زندگی کی روح شامل ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو مجھے اپنی اندرونی خوبصورتی کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔

شاعری اور مضامین لکھنے کی میری خواہش میرے اندر کی آواز کی عکاسی کرتی ہے۔ میں اپنی سوچوں، احساسات اور خوابوں کو الفاظ میں قید کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہ تحریریں میرے دل کی آواز ہیں، جہاں میں اپنی محبت، خواہشات اور زندگی کے تجربات کو بیان کرتی ہوں۔ کبھی کبھی میں اپنی شاعری میں جنسی عنصر بھی شامل کرتی ہوں، کیونکہ محبت اور خواہشات انسانی تجربے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ میری تخلیق کا ایک پہلو ہے، جہاں میں خود کو مکمل طور پر بیان کر سکتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں اس دنیا میں اپنی منفرد شناخت بنا سکوں۔

ماڈلنگ، رقص اور تحریر کی دنیا میں، میں خود کو ایک مکمل فنکار کے طور پر دیکھتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میری تخلیقات دوسروں کو متاثر کریں گی اور ان کے دلوں میں اپنی کہانیوں کا اثر چھوڑیں گی۔ میری خواہش یہ ہے کہ میں اپنی خوبصورتی، فن اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے لوگوں کو جوڑ سکوں۔ محبت، جذبات، اور خودی کی یہ تلاش میری زندگی کا مقصد ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری کہانیاں لوگوں کو محبت کرنے، سمجھنے اور اپنی جنسی کشش کو قبول کرنے کی ترغیب دیں۔ ہر لمحہ، ہر شعر، اور ہر رقص کی حرکت میں میری خواہش ہے کہ میں اس دنیا میں ایک خوبصورت تبدیلی لا سکوں۔

یہی میری خواہش ہے: ایک ماڈل اور ڈانسر کے طور پر اپنی شناخت کو فروغ دینا، اپنی تحریروں کے ذریعے جذبات کو بیدار کرنا، اور محبت اور خواہشات کی زبان میں اپنا پیغام پھیلانا۔ یہ شاکرہ نندنی یعنی میری زندگی کا سفر ہے، جہاں میں خود کو تلاش کر رہی ہوں اور اپنی کہانی لکھ رہی ہوں۔

خلیق کی راہوں میں چلتی ہوں میں،
خود کو ڈھونڈتی، خوابوں میں کھلتی ہوں میں
رقص کی ہر حرکت میں چھپی ہے میری کہانی
محبت کی زبان میں اپنی دنیا بُننے کی خواہش رکھتی ہوں میں

ڈاکٹر شاکرہ نندنی

 

 

ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
94924

سونے کی چڑیا – از: کلثوم رضا

سونے کی چڑیا – از: کلثوم رضا

 

sona ki chuliya golden bird

 

چڑے چڑیوں کی کہانیاں سب کو بھلی لگتی ہیں۔ لیکن جب کہانی سونے کی چڑیوں کی ہو تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے ۔۔ آپ قارئین میں سے بھی سب نے اگر نہیں تو اکثر نے یقیناً سونے کی چڑیا کی کہانی سنی ہو گی۔۔۔ اگر پھر بھی کسی نے نہیں سنی ہے تو آج ہم سناتے ہیں۔۔۔ چلیں جی شروع کرتے ہیں ۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایران کے قدیم شہر نیشا پور جو کے خراسان کا صدر مقام ہے اس میں ایک سوداگر رہتا تھا ۔۔۔وہ شہر شہر گھوم کر اپنا مال تجارت فروخت کرتا ۔۔وہ دوسرے ملکوں سے مال تجارت کی صورت میں نادر، نایاب ایشیا لاتا تو دیکھنے والے ان چیزوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتے اور منہ مانگی قیمت پر سوداگر سے خرید لیتے۔۔۔ اور سوداگر اپنے کاروبار میں زیادہ نفع کمانے کی وجہ سے خود کو عاقل سمجھتا اور کہلواتا اور اسی نام سے مشہور تھا۔ حالانکہ اس کا اصل نام نصیرالدین تھا۔

 

ایک دن عاقل اپنے دوست کے دکان میں بیٹھا تھا کہ ایک چڑی مار گاتا ہوا قریب سے گذرا ۔۔۔سونے کی چڑیا ،جادو کی پڑیا، بجتا ہے گھنٹہ، دیتی ہے انڈا۔۔۔ عاقل نے سنا تو اس کے کان کھڑے ہو گئے وہ تب سے سونے کی چڑیا پانے کا خواہش مند تھا جب بچپن میں اس کی دادی اس کی امی سے کہتی
“تم کیا سونے کی چڑیا ہو جو میکے جاؤ گی تو میرا بیٹا غریب ہو جائے گا”۔۔۔

اس وقت سے اب تک عاقل کو یہی غم کھائے جا رہا تھا کہ کہیں سے سونے کی چڑیا ہاتھ آ جائے تو اسے یوں محنت نہیں کرنی پڑے گی۔۔۔ وہ بیٹھے بٹھائے مالدار ہو جائے گا۔۔۔ وہ دوست کو خیرباد کہہ کر جلدی جلدی چڑی مار کے پیچھے گیا، قریب پہنچا اور دیکھا چڑی مار کے سارے پنجرے خالی ہیں صرف ایک میں ایک خاکی رنگ کی چڑیا یے۔ اس نے چڑی مار سے پوچھا “بھائی یہ تو عام چڑیا دکھ رہی ہے اور آپ اسے سونے کی چڑیا کہہ رہے ہیں”

چڑی مار نے سر سے پاؤں تک عاقل کو دیکھا اور سمجھ گیا کہ یہ کوئی بے وقوف ہے جو بیٹھے بٹھائے مالدار بننا چاہتا ہے فورا کہا
“یہ چڑیا نہیں جادو کی پڑیا ہے۔ جب چاند رات کو کہیں سے گھنٹی بجنے کی آواز آتی ہے تو یہ سونے کا انڈا دیتی ہے۔میرے گھر میں دس انڈے دے چکی ہے۔اگر آپ میرے ساتھ میرے گھر آجائیں تو دکھاؤں آپ کو اپنی شاہانہ زندگی اور ٹھاٹھ باٹ۔۔۔ میں اسے کبھی نہ بیجتا لیکن یہ اپنے مالک کو دس انڈے ہی دیتی ہے اور مذید انڈے دوسرے مالک کو دے گی۔”

 

عاقل کو اور کیا چاہیے تھا۔۔ بغیر مشقت کے بیٹھے بٹھائے ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گزارنے اور دس انڈے حاصل کرنے کے بعد اس عجوبے کو منہ مانگے داموں فروخت کرنے کے تصور نے اپنی دولت اور گھر بار دے کر چڑیا خریدنے پر مجبور کیا۔۔۔ہمدردوں نے بہت سمجھایا لیکن اس کو تو چڑیا سے سونے کے انڈوں کی توقع تھی وہ کیا سمجھتا۔۔۔۔ جب چودھویں کی رات آئی تو عاقل ساری رات جاگتا رہا چڑیا کے انڈے کے انتظار میں۔۔۔۔ جب کہیں سے گھنٹی بجنے کی آواز آئی تو اس کی بے چینی مزید بڑھ گئی لیکن گھنٹی کی آواز بھی تھمی ،صبح کی روشنی بھی پھیل گئی اور چڑیا صرف پنجرے میں پھڑپھڑانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی۔

اب اسے سمجھ میں آ گیا کہ میں عاقل نہیں کم عقل تھا جو یوں چڑی مار کے دھوکے میں آ گیا۔ لیکن اب اس کا کیا فائدہ “جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”۔
یہ تو تھی پرانے زمانے کی کہانی۔۔۔ اب نیا زمانہ نئے لوگ۔۔۔ تو کہانی بھی نئی ۔۔۔ آج کل کے سوداگر واقع میں عاقل ہیں۔ یہ سونے کی چڑیا کی اصل کہانی اور اصل معانی سے خوب واقف ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ مالدار، دولتمند، دھن وان، امیر، موٹی اسامی، اہم شے، نایاب، نادر چیز،انوکھی اچھوتی شے، مال و دولت کے کان، سر سبز و شاداب زرخیز خطہ زمین، جہاں سے بہت آمدنی ہو، جہاں مال و دولت کی فراوانی ہو، زیادہ آمدن کے وسائل و ذرائع ہوں سونے کی چڑیا کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔

آج کل کے عاقلوں (لڑکا اور لڑکے والے) کو کہیں سے یہ گانا سنائی دیتا ہے کہ”سونے کی چڑیا، جادو کی پڑیا، فلاں گھر کی بٹیا، بنی ہے ڈاکٹریا ۔۔۔تو تکمیل ایمان کی خاطر پہنچ جاتے ہیں موٹی چھلنی لے کے۔۔۔۔ تاکہ اس میں سے چڑیا میں اگر بدمزاجی، ترش زبانی، کم صورتی اور بے سگھڑی بھی ہے تو آسانی سے گزر سکے ۔۔۔۔۔

تو دوسری طرف چڑی مار (لڑکی کے گھر والے) اتنی باریک چھلنی لے کے بیٹھ جاتے ہیں تاکہ اس میں سے صرف موٹے عہدے، بھاری جیپ، کثیر جائیداد ،نامی گرامی خاندان کے علاوہ کچھ بھی نہ گزر سکے۔۔۔۔۔
دونوں کے نزدیک وضع دار گھرانے، ذہین ،فطین ،سگھڑ اور پارسا لڑکیاں ،شریف، خوددار درمیانہ آمدن والے لڑکے گاجر مولیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔۔

چڑے چڑیوں میں جب دونوں طرف سے مطلوبہ سودے طے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو تکمیل ایمان کی مبارکباد دیتے نہیں تھکتے جو اب تک خود تکمیل سٹیٹس میں خود کو ہلکان کیے بیٹھے تھے۔

 

ہم نے یہ گانا سن کے ایسے ایسوں کے بھی قدم تھراتے دیکھے جن کے متعلق سنا تھا کہ انھیں عارضی نہیں، دائمی بہتریں متاع یعنی نیک اور پارسا زوج اور زوجہ کی تلاش تھی۔ لیکن متاع آخر متاع ہے اپنے پیچھے لگا ہی دیتا ہے سوائے چند کے ۔

یہ تو تھی اج کی کہانی جسے ہم نے اپنے قارئین کی نذر کی۔۔۔

 

جس طرح حفیظ جالندھری نے کہا ہے۔۔۔

تم ہی نہ سن سکے اگر ، قصئہ غم سنے گا کون
کس کی زبان کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سنا سکے۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
93624

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (65ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ)  – از قلم :عصمت اسامہ 

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے! (65ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ)  – از قلم :عصمت اسامہ

 

وطن عزیز پاکستان ستائیس رمضان المبارک 1947ء میں معرض وجود میں آیا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر کلمہء طیبہ کے نام پر یہ وطن حاصل کیا۔ اول روز سے ہی یہ پاک وطن ،دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے۔ بھارت نے نہ صرف اس تقسیم کو قبول نہیں کیا بلکہ پاکستان کو ضروری اثاثوں اور کئی ریاستوں جن کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا ،سے جان بوجھ کر محروم رکھا ہے۔ پاکستان کو ایسے دشمن کا سامنا رہا ہے جو دن کی روشنی میں بھی اس کے خلاف کاروائیاں کرتا ہے اور رات کے اندھیروں میں بھی سازشیں کرتا ہے۔ بھارت جس ملک کے نام کا مطلب ہی ” خون بہانا ” ہے ، پورے خطے کے امن کے لئے خطرات پیدا کرتا رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اکتوبر 1947 ء کو افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

“اگر ہم جنگ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوق البشر محنت اور جدوجہد کرنا ہوگی ۔یہ ذاتی ترقی ،عہدے اور مرتبے حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ہے تعمیری کوشش کا ، بے لوث جدوجہد کا اور مستقل مزاجی سے فرض شناسی کا !”.

تاریخ گواہ ہے پاک افواج نے قائد کے فرمان کو سینے سے لگا کے رکھا ہے۔ پاکستان پر اوپر تلے چار جنگیں مسلط کی گئیں ، 1948 ء کی جنگ کشمیر ، 1965ء کا رات کے اندھیرے میں حملہ ،1971ء کی جنگ اور پھر کارگل کا معرکہ ۔1965ء کی جنگ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے جس کا تذکرہ آج بھی لہو گرما دیتا ہے ۔ چونڈہ کے مقام پر ،دوسری جنگ عظیم ( بیٹل آف کرسک ) کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ بھارت نے 600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ ،باجرہ گڑھی اور نحتال کے مقام پر حملہ کیا ،اس سے پہلے وہ لاہور پر حملہ آور ہوچکا تھا ۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاکستان اپنی کمزور طاقت اور اسلحہ کی کمی کے سبب اپنا دفاع نہیں کر پاۓ گا اور تر نوالہ بن جاۓ گا لیکن پاک افواج نے دشمن کے عزائم کو اپنی بروقت جنگی حکمت عملی ،دلیری اور بے مثال جاں بازی کے سبب خاک میں ملادیا۔ میجر جنرل یعقوب خان جو جنگ عظیم دوم میں ٹینکوں کی لڑائی میں مہارت رکھتے تھے انھیں کور1 میں آرمر ایڈوائزر لگایا گیا ۔ پاک فوج کے جوانوں نے کم نفری اور ہتھیاروں کی قلت کے باوجود اپنی جان پر کھیل کے نہ صرف دشمن کو روکا بلکہ رجمنٹ 25 کیولری جس کے کمانڈنگ آفیسر کرنل نثار تھے ،اپنی بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوۓ دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ بھارتی فوج نے بارہ سے اٹھارہ ستمبر کے درمیان چونڈہ کے اردگرد لگاتار حملے کئے تاکہ پاک فوج کو اطراف میں مصروف رکھا جاۓ مگر پاک فوج نے چونڈہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک دفاعی مورچے کے طور پر استعمال کیا ۔ چونڈہ مواصلات کا مرکز تھا جس سے کئی راستے نکلتے تھے۔دشمن چونڈہ کے بعد آگے بڑھ کر پسرور اور گوجرانوالہ پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا ۔ ہندوستانی 6 ماؤنٹین ڈویژن جو امریکی سازو سامان سے لیس تھا ،اس نے 35 بریگیڈ ،58 بریگیڈ اور 48 بریگیڈ کے ساتھ حملے کا پلان بنایا۔پاکستانی 24 بریگیڈ کے ساتھ کمانڈر برگیڈیئر عبدالعلی ملک کی کمانڈ میں چونڈہ کا دفاع کر رہا تھا ،اس نے اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے ۔( بحوالہ ہلال میگزین ستمبر 2020ء).

 

جنرل ٹکا خان کی قیادت میں پاک فوج ،قوم کے آگے ناقابل تسخیر دفاعی حصار بن گئی۔ لاہور میں میجر عزیز بھٹی نے اپنی جان قربان کرکے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ،سیالکوٹ سیکٹر میں ہمارے بہادر جوانوں نے دشمن کی چال جو ہماری لائف لائن جی ٹی روڈ کو کاٹنے پر مبنی تھی ،اس چال کو ناکام کردیا۔امریکی ریڈیو سروس کے صحافی ” رے میلان ” نے اس جنگ کا آنکھوں دیکھا حال لکھا کہ ” میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ بھارت فتح کا دعویٰ کر رہا ہے لیکن زمین پر اس دعوے کے حق میں کوئی گواہی نہیں ملتی ۔میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ صرف تباہ شدہ بھارتی ٹینک ہیں اور بڑی تعداد میں ان کی نقل و حمل کی گاڑیاں ہیں جو اگلے مورچوں کی طرف دوڑتی پھرتی ہیں ( زخمیوں کو لے جانے اور رسد پہنچانے کے لئے).میں نے اپنی دو دہائی کی صحافیانہ زندگی میں کبھی اتنے پر اعتماد سپاہی نہیں دیکھے جتنے پاکستانی سپاہی ہیں جو بھارتیوں سے برسر پیکار ہیں “.( بحوالہ ریاض احمد چودھری کا کالم ،چونڈہ ،بھارتی ٹینکوں کا قبرستان: روزنامہ پاکستان).

بھارت نے چونڈہ پر پہلا حملہ کیا اور گاؤں” بتر ڈوگراں دی ” تک پیش قدمی کرتے ہوۓ اندر آگیا، اس کی بکتر بند فوج ،وزیر والی الہڑ ریلوے اسٹیشن پر قابض ہوگئی۔ یہاں بھارت نے جنگ عظیم دوم کے سورما جنرل کورلا کو چونڈہ پر قبضہ کرنے پر مامور کیا تھا جس نے دو اطراف سے بھارتی فوج کے حملے کا پلان تیار کیا۔بھارت کے 35 انفنٹری بریگیڈ نے غربی جہت سے حملہ آور ہونا تھا اور 58 انفنٹری بریگیڈ نے شمال غربی جہت سے نقب لگانا تھی ۔ان علاقوں کا دفاع پاکستان کی تین ایف ایف رجمنٹ اور 14 بلوچ رجمنٹ کر رہی تھیں۔بھارتی فوجیوں کی تعداد پندرہ ہزار جبکہ پاکستانی فوجیوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی۔ اسلحہ اور تعداد میں کوئی مناسبت نہ ہونے کے باوجود پاک فوج کے جوان بے جگری سے لڑے ، تین سو شہادتوں سے زمین کو سرخرو کردیا اور دشمن کے ہے درپے حملوں کو ناکام بنادیا۔

 

~ جو حق کی خاطر لڑتے ہیں ،مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر
جب وقتِ شہادت آتا ہے ،دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں !
اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت سے دست بدستی لڑائی ( CQB) میں بھارتی مرہٹے بہت سی لاشیں چھوڑ کے بھاگ نکلے اور اس کے 46 فوجی قیدی بنالئے گئے۔ اس جنگ نے بھارتی فوجیوں کے حوصلے پست کردئیے بلکہ وہ پاک فوج کی پیش قدمی کا خوف محسوس کرنے لگے ۔(بحوالہ میجر جنرل شفیق اعوان کا کالم ، فیصلہ کن معرکہ چونڈہ ستمبر 2018).

 

دشمن نے چونڈہ کی طرف سے حملہ اس لئے بھی کیا تھا کہ یہاں کوئی جنگل ، پہاڑ ،دریا نہ ہونے کے سبب کوئی زمینی رکاوٹ یا آڑ موجود نہ تھی اور ٹینکوں کی پیش قدمی کے لئے زمین صاف تھی۔ سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی شب ،بھارتی توپیں پاکستان کی شہری آبادی پر گولے داغنے لگیں جس سے کئی معصوم شہری شہید ہوگئے۔ اس موقع پر پاک ائر فورس کے شاہین دشمن کی یلغار کو روکنے کے لئے آۓ اور کئی گھنٹوں تک دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔مساجد سے جنگ کے بارے میں اعلانات ہونے لگے ،بھارتی ٹینک کالے ہاتھیوں کی مانند پاکستان میں قطار در قطار داخل ہورہے تھے اور دھوکہ دینے کے لئے ٹینکوں پر پاکستانی پرچم لگا رکھے تھے۔یہ سترہ ستمبر کی صبح تھی ،دوپہر تک بھارتی ٹینک کافی علاقہ عبور کر چکے تھے ۔ پاک فوج نے دشمن کے دھوکے کو بھانپ لیا اور ” لاسٹ مین ،لاسٹ بلٹ” کے ماٹو کے ساتھ دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ خاک اور خون کی دھول میں بہت سے جوان اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ۔افواج پاکستان کے ساتھ چونڈہ کے جوان بھی مادر وطن کے دفاع کے لئے سرگرم عمل تھے ۔ عینی شاہدین نے اپنی آنکھوں سے ناقابل یقین منظر دیکھا کہ پاک جوان بھارتی ٹینکوں کے اوپر چڑھ کر ٹینکوں کے اندر بم پھینک رہے تھے ۔
~ یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا ،سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی !

 

آنا” فانا” بھارت کے کالے ہاتھیوں یعنی ٹینکوں کے پرخچے اڑنے لگے ،یہ انسانی جسموں اور ٹینکوں کے مابین ایسی لڑائی تھی جس نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا۔چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بن گیا ۔ بھارت کے تین سو فوجی ہلاک ہوۓ جن کی لاشوں کو بعد میں گدھ اور کوے نوچتے رہے ۔پھر پاک فوج نے اجتماعی گڑھا کھود کے ان کو دفن کردیا۔ جنگ بندی کے بعد یہ لاشیں دشمن کو واپس کی گئیں۔ ( بحوالہ تحقیق : وثیق شیخ ۔چونڈہ کی لڑائی ،کالم ایکسپریس نیوز 6 ستمبر 2021ء).

 

پاک افواج کی بہترین حکمت عملی ، فقید المثال دلیری اور بہترین کارکردگی نے دشمن کو دن میں تارے دکھا دئیے ،بھارتی افواج کو اسلحہ اور ہتھیاروں کی کثرت اور نفری کے باوجود شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ پاک فوج اس پوزیشن میں آگئی تھی کہ وہ پیش قدمی کرکے بھارتی زمینوں پر قبضہ کرسکتی تھی مگر اقوام متحدہ کی مداخلت کے سبب بائیس ستمبر کو جنگ بندی کرنا پڑی۔ ایک اہم عنصر یہ بھی تھا کہ پاکستانی ہتھیار امریکی ساختہ تھے جنھیں اپ ڈیٹ کرنے پر امریکہ نے پابندی لگادی تھی۔ان کی کمک کے بغیر جنگ کو طول نہیں دیا جاسکتا تھا۔ 1965ء کی جنگ وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی قوم اور پاک فوج یک جان دو قالب تھے۔ یہ یکجہتی دشمن کی آنکھ کا شہتیر بن گئی اور اس نے ففتھ جنریشن وار کے ذریعے عوام کو فوج سے بد ظن کرنا شروع کردیا تاکہ قوم کو اپنے محافظوں اور اپنے دفاعی حصار سے کاٹ کر لقمہء تر بنایا جاسکے۔ فیک نیوز ،میڈیا پروپیگنڈہ اس دور میں یہود و ہنود کا ہمارے خلاف اہم ترین ہتھیار ہے جس کے حملوں سے قوم کو باخبر رہنا ہوگا۔ اپنی صفوں میں موجود غداروں کو پہچاننا ہوگا اور دفاع وطن کی خاطر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا ہوگا۔ اب پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی پاور ہے جس سے سارے عالم اسلام کی امیدیں وابستہ ہیں ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک وطن کو اسلام کا قلعہ بنادے ،آمین۔

~ ٹیس بھی ٹیس نہ تھی زخم جگر ہونے تک
پھول بھی پھول نہ تھا ،خون میں تر ہونے تک
وہی حق دار ہے سورج کی کرن کا جس نے
رات کی زلف سنواری ہے سحر ہونے تک !

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92953

حجاب ایک تہذیب – از :کلثوم رضا

حجاب ایک تہذیب – از :کلثوم رضا

 

Hijab day 4th september

سر پر رکھے جانے والے ڈیڑھ گز کا کپڑا جسے ہم حجاب کا نام دیتے ہیں، محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ایک نظریہ ہے ایک تہذیب ہے ۔۔جس کے لغوی معنی دو چیزوں کے درمیان کسی ایسی حائل ہونے والی چیز کے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے اوجھل ہو جائیں۔اسلامی دنیا میں یہ لفظ تب سے معروف ہے جب سے رب کائنات نے اپنے نیک بندوں کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پردے کا حکم سنایا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

ترجمہ؛ نبی کی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 53 )
اس حجاب کے بارے میں پہلے حکم کو آیت حجاب کہتے ہیں ۔سب سے پہلے پردے کا حکم مردوں کو دیا گیا تھا۔یہ اختلاط سے بچنے کا حکم بھی ہے اور عورت کی توقیر و تحفظ کے معنی بھی رکھتا ہے ۔دوسری طرف خواتین کو حکم دیا گیا :

ترجمہ؛اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔(سورہ الاحزاب آیت نمبر 59)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی نیک بندیوں کو گھر سے باہر جانے کے آداب بتا رہے ہیں کہ جب گھر سے باہر یعنی معاشرے میں جاؤ تو چادر اس طرح اوڑھو کہ اوپر سے لٹک جائے ،جس سے چہرہ ڈھک جائے۔اور یہ بھی بتایا کہ ایسا کیوں کریں؟ تاکہ پہچان لی جائیں کہ یہ شریف عورتیں ہیں اور ستائی نہ جائیں ۔۔
یہ چادر ،یہ گاؤن ،یہ حجاب جسے ہم ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ،ایک دقیانوسی سوچ کی پہچان،ایک فیشن یا اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کا آسان طریقہ کا نام دیتے ہیں دراصل اسلام کے نظام عفت و عصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا ہے ۔یہ کسی مولوی یا فقیہ کا وضع کردہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے اللہ کا حکم ہے ۔جس کا مقصد عورت کو وقار و عظمت عطا کرنا ہے ۔یہ عورت کی شخصیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس میں پاکیزگی اور خیر ہے۔

حجاب کی تہذیب مسلمانوں کے عقائد کی آئینہ دار ہے۔ یہ مسلمان مرد کی شعار ہے اور مسلمان عورت کی پہچان۔ ایک مومنہ عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے پاکیزہ جسم کو شر پسند نگاہوں سے بچائے۔ شرم و حیا کے قلعے میں اس کی حفاظت کرے ۔اسے معلوم ہونا چاہیے کہ پردہ قید نہیں تقوی اور اسلام کا شعار ہے ۔یہ ایک صدف کی مانند ہے جو پاکیزہ عورت کو موتی کی طرح اپنے اندر چھپا کر اس کی قدرو قیمت میں اضافہ کر دیتا ہے۔اور پردے کے اہتمام میں مردوں کو اپنی عورتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں خاندانی زندگی پاکیزہ اور مستحکم ہوتی ہے۔

حقیقت میں تقدیسِ نسواں کا اصل محافظ مرد ہی ہے۔ مرد اگر باحیا ہو جائیں اور اپنی زمہ داریوں سے آگاہ ہو جائیں تو معاشرے سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اپنی عورتوں کو تہذیب ،اخلاق، دین، دنیا اور آخرت کی باتیں سکھانا مردوں ہی کی زمہ داری ہے۔۔۔ یوں مرد و عورت کے تعاون سے اگر حیا اور حجاب معاشرے کا عمومی کلچر بن جائیں تو اسلامی تہذیب کے اثرات نمایاں نظر آئیں گے۔ پاکیزہ گودوں میں پروان چڑھنے والی نسلیں بھی یقینا پاکیزہ ہوا کرتی ہیں۔ جس معاشرے کی بنیادیں حیا اور تقوی پر استوار ہوتی ہیں وہ معاشرہ بہترین اقدار کا مظہر بن جاتا یے ۔جس معاشرے میں مردوں کی نگاہیں نیچی ریتی ہیں وہاں عورت کا احترام اور وقار بڑھ جاتا یے۔ اور ایک باوقار عورت باوقار نسلیں جنتی ہے اور پالتی ہے۔ جس سے ایک باحیا اور تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔

میرے مہربان رب کریم نے گھر کے اندر بھی سترو حیا اور لباس کے لیے تقوی کو معیار بنا کر ارشاد فرماتے ہیں۔۔
“اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمھارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو ۔(سورہ الاعراف ایت ننبر 36)

اللہ تعالیٰ نے “تقوی” کے لباس کو بہترین لباس قرار دیا یے۔۔۔ تقوی اللہ سے ڈر کر اللہ کی مرضی کا لباس پہننے کا نام ہے۔عزت نہ مال میں ہے نہ لباس کے اعلیٰ اور قیمتی ہونے میں بلکہ ایمان اور تقویٰ میں ہے ۔۔۔۔ لیکن ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ آج ہم نے اپنے لباس کا معیار کچھ اس طرح رکھا ہے کہ نیم برہنہ ہو گئے ہیں۔ دور جاہلیت کی عورتوں کا ذکر قرآن و حدیث میں ملتا ہے ۔کہ اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی تھیں ۔اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کو نمایاں کرتی تھیں۔ان کا لباس ایسے ہوتا جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں۔وہی صورت حال اب دیکھنے کو ملتی ہے ۔لباس جتنا زیادہ مہنگا اتنا عریاں بھی ہوتا جاتا ہے۔ جو دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا یوتا ہے ۔۔

لباس میں ہونے والے تیز تر غیر شرعی تغیرات شیطان کے فتنوں میں سے بڑا فتنہ ہے۔ یہ فتنہ ہر دور میں اسی طرح جاری رہا ہے ۔۔۔البتہ موجودہ دور میں یہ فتنہ عروج پر ہے۔ سابقہ ادوار میں میڈیا اور برقی لہریں شیطان کو میسر نہیں تھیں ۔۔۔اب اسے یہ بھی میسر ہیں۔میڈیا حسن و زینت کو اتنا بڑھا دیتا ہے کہ لباس کم سے کم یوتا جاتا ہے ۔ اور حسن و زینت نمایاں ہوتی جاتی ہے۔۔۔اسی کو “تبرج جاہلیہ”کہا گیا ہے۔۔۔ اس نے ہر دور میں اپنے باطل قوانین کو جدیدیت اور روشن خیالی قرار دیا ہے اور اللہ کے دین اور انبیا کی باتوں کو پرانے زمانے کی کہانیاں قرار دے کر انسان کو خواہشات نفس کی پیروی میں لگا دیا ہے۔جس سے معاشرتی مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں۔۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی دراصل معاشرے کے تقویٰ سے دور ہونے کی علامات ہیں ۔۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام کے نظام عفت و عصمت کی طرف پلٹیں۔یہ اسلامی تہذیب ہی ہے جس میں اس بات کی ضمانت یے کہ ایک عورت تن تنہا “صنعا سے حضر موت تک “سفر کرے گی اور اسے کسی کا خوف نہ ہوگا ۔۔۔

مومن جانتا ہے کہ اس کے رب کے احکامات میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے ۔۔وہ عمل نہ کرنے کے لیے بہانے نہیں تلاشتا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بنائی ہیں جیسے چاہیں استعمال کریں بس خیال رکھیں کہ مالک نے جو اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں ان کے پابند رہیں۔جو حرام ہیں اس سے بچ کر رہیں۔

بے شرمی حرام ہے یعنی ایسا طرز عمل جو فحش پر مبنی ہو۔ ایسا فیشن جو حیا کے تقاضے پورے نہ کرتا ہو۔ جو لباس ستر کو نہ ڈھکے وہ حرام ہے۔ باقی اللہ کے بنائے ہوئے ضابطہ اخلاق کے اندر ہر فیشن کی آزادی ہے۔ ہمارا رب رؤف الرحیم ہے۔ اس نے جو حدود ہمارے لیے مقرر کی ہیں ان کے اندر ہمارے لیے خیر ہے۔ رحمت ہے برکتیں اور آسانیاں ہیں۔ ان حدود سے باہر بدامنی ہے انتشار یے، بے سکونی ہے، جھگڑے ہیں، طلاقیں اور فساد ہے۔

دین اسلام وہ دین نہیں جو زبردستی کسی کو مسلمان بناتا ہو۔۔ کسی نبی کو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی پر جبر کرکے مسلمان کرے۔ اس معاملے میں بھی کسی پر زبردستی نہیں ہے کہ وہ ضرور حجاب لے۔۔۔ اور ساتر لباس پہنے ۔۔البتہ واضح رہے دین اسلام فرد کی آزادی کو مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ اجتماعیت اور معاشرے کے حقوق کا بھی ضامن ہے۔لہذا ایسے تمام معاملات جن میں انسان کے انفرادی افعال کا اثر اجتماعیت پر پڑتا ہو ،اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود طے کر دی ہیں،جس کے اندر انسان مکمل آزاد ہے۔

اسلام انسان کو اس وقت تک شخصی ازادی دیتا ہے جب تک اس کی آزادی سے معاشرے کے دوسرے افراد کو نقصان نہ پہنچے ۔جہاں اس کی آزادی سے دوسرے انسان کی مالی، جانی حقوق یا عزت متاثر ہونے کا خطرہ ہو وہاں پر اجتماعی اصول و ضوابط لاگو ہو جاتے ہیں۔
نبی کریم کا فرمان ہے کہ “مسلمان کی جان،مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔(مسلم)

جب ایک مرد اللہ کے قوانین سے روگردانی کرکے فحشی میں مبتلا ہو کر محرم رشتوں کو پامال کرتا ہے، نکاح کے بے غیر تعلقات اور دوستیاں بڑھاتا ہے گویا وہ اس قانون کو ٹوڑ کر ظلم اور فساد کا موجب بنتا ہے۔ اور اسی طرح عورت بھی جب نامکمل لباس میں حجاب کے بے غیر باہر نکلتی ہے تو گویا وہ اپنا حفاظتی حصار خود ہی توڑ دیتی یے جس سے ممکن ہے کہ کوئی بد باطن شخص اس کی عزت کو نقصان پہنچائے اور دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی شریف عورت کا گھر اپنی بے حیائی کی وجہ سے اجاڑ دے۔

آئیے اس عالمی یوم حجاب کے موقع پر یہ عہد کریں کہ اپنے رب کے بتائے یوئے احکامات پر عمل کر کے ایک باحیا اور باحجاب زندگی بسر کریں گے۔ مرد بھی تقوی اور حیا کے سارے تقاضے پورے کریں گے اور عورتیں بھی اپنی نسوانیت اور حسن کی حفاظت اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں گی۔ اپنی اولادوں کے اندر حیا کا جذبہ اس طرح پروان چڑھائیں گے کہ وہ معاشرے کی پاکیزگی اور استحکام کا ذریعہ بنیں۔ اور اس کام کے لیے اللہ سے مدد اور استقامت مانگیں۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92823

جماعتِ اسلامی،تعارف،تاریخ اور وژن – از قلم: عصمت اسامہ  

Posted on

جماعتِ اسلامی،تعارف،تاریخ اور وژن  – از قلم: عصمت اسامہ

 

انیس سو تئیس میں خلافتِ اسلامیہ کے ختم ہونے کے بعد امت_ مسلمہ کے رو بہ زوال ہونے کے ساتھ کفار کے مسلح اور نظریاتی حملوں میں تیزی آگئی تھی۔ اب مسلمانوں کیلئے دنیا میں نہ صرف اپنی اجتماعی قوت کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیا بلکہ انھیں اپنے تاریخی ورثے،تہذیب و تمدن،علم و ادب بلکہء نظریہء حیات پر طاغوتی طاقتوں کی یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔مسلمان منتشر اور بغیر کسی مضبوط ریاستی سرپرستی کے زندگی گذارنے پر مجبور کردئیے گئے تھے،اپنی شناخت اور بقا کو لاحق اس خطرے نے کئی تحریکوں کو جنم دیا،برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ان تحریکوں کے تذکرے سے روشن ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے مفکر اور حکیم الامت نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا،ان حالات میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا قیام 26 اگست 1941ء میں وجود میں آیا۔ بانئ جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف پچھتر نفوس اور چوہتر روپے چودہ آنے کے سرماۓ کے ساتھ جماعتِ اسلامی کی داغ بیل ڈالی،اس سے قبل وہ ” رسالہ ترجمان القرآن” اور “ادارہ دارالاسلام” کے ذریعے دین کو تحریک کی صورت دینے کے لئے راۓ سازی کا کام کر رہے تھے۔ اس موقع پر اپنے تاریخی خطاب میں بانیء جماعتِ اسلامی نے اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے مابین فرق واضح کیا: اول یہ کہ ہم اسلام کے کسی جزو یا کسی دنیوی مقصد کو نہیں بلکہ پورے کے پورے اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں۔دوم: ہم جماعت میں کسی کو شامل کرنے سے پہلے اس سے کلمہء طیبہ اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا اقرار (حلف)لیتے ہیں۔ سوم ہماری دعوت ساری انسانیت کے لئے ہے (کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں ہے).ہم نے قرآن وسنت سے سب انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔
(ماخوذ: روداد جماعتِ اسلامی،حصہ اول).

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی،جماعت اسلامی کے پہلے امیر منتخب ہوۓ،اس وقت ان کی عمر اڑتیس سال تھی۔اس کے بعد ہیڈ کوارٹر لاہور سے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ جماعتِ اسلامی کے قرآن وسنت کے پیغام پر مشتمل ادب (لٹریچر) کی تیاری کا کام،اولین ترجیح کے طور پر شروع کردیا گیا بلکہ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں میں ان کتب کے تراجم کا بھی آغاز ہوگیا۔1947ء میں قیام_ پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی کا نظام بھی دو حصوں پر مشتمل ہوگیا۔جماعت_ اسلامی کے کارکنان،مہاجرین کی بحالی اور دیکھ بھال کے لئے مصروف عمل تھے،اسی دور میں بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ریڈیو پاکستان پر پہلی تقریر نشر کی گئ (بحوالہ ڈاکٹر اشتیاق احمد،ممتاز قانون دان)۔یہ تقاریر جو قائد اعظم کے ایماء پر عامتہ المسلمین کی فکری راہنمائی کے لئے نشر کی گئیں،کتاب ” اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات” کے آخری باب ” اسلامی نظامِ حیات” میں موجود ہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بانی ء جماعتِ اسلامی اور بانیء پاکستان نظریاتی اور عملی طور پر متحد و یکسو تھے،پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے نصب العین کی خاطر،ان میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ مولانا کی شہرہ آفاق تفسیر “تفہیم القرآن ” کے مطالعہ سے “فکر_ مودودی” کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. 1948ء میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سیکولر طبقے نے سر اٹھالیا تو جماعتِ اسلامی پاکستان ان کے مشن کو لے کر اٹھی اور نہ صرف” نظام_ اسلامی ” کا مطالبہ پیش کیا بلکہ ” کشمیری مسلمانوں کے حق_ خود ارادیت ” کی بھی حمایت کی۔ اسی دور میں ” قرارداد_ مقاصد” منظور ہوئی جو ملک کا دستور “اسلامی” بنانے کی طرف اہم پیش رفت تھی۔1950ء میں مولانا مودودی نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کیا تو حکومت نے ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگادی اور جماعت کے ہم خیال اخبارات بھی بند کردئیے۔ 1951ء میں جماعتِ اسلامی نے اپنے ویژن ” حکومت_ الٰہیہ کے قیام ” کی خاطر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اگر چہ ان میں ایک نمائندہ ہی منتخب ہوسکا۔1952ء میں “مسئلہء ختم_ نبوت کے دفاع اور قادیانی سازشوں کے خلاف کتاب لکھنے پر” مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور سزائے موت سنائی گئ۔ مولانا نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔بعدازاں عالمی سطح کے احتجاج اور دباؤ کے سبب سزاۓ موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔کارکنان نے بھرپور احتجاجی مہم چلائی، بالآخر مولانا کو 1955ء میں ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔ملک کے دستور کی تیاری کا مرحلہ پیش نظر تھا،اس میں مولانا مودودی نے حکومت _ وقت کے ساتھ کام بھی کیا اور راہنمائی بھی فرمائی۔1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو تمام سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگادی گئی۔

بقول شاعر:
~ کبھی اس مکاں سے گذر گیا،کبھی اس مکاں سے گذر گیا
تیرے آستاں کی تلاش میں،میں ہر آستاں سے گذر گیا
کبھی تیرا در، کبھی دربدر،کبھی عرش پر،کبھی فرش پر
غم_ عاشقی تیرا شکریہ،میں کہاں کہاں سے گذر گیا !

 

ابتدا ہی سے جماعتِ اسلامی کا نصب العین ” عملاً اقامتِ دین” حکومت_ الٰہیہ اور اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضاۓ الہی اور فلاح_ اخروی” کا حصول قرار پایا تھا۔اس عظیم الشان مشن کو ایسے افراد درکار تھے جو نہ صرف پاکیزہ سوچ،صالح اعمال سے مزین ہوں بلکہ زمانے کی تیز رفتار میں قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی صلاحیتوں سے بھی مالامال ہوں،اس لئے افراد_ کار کی تیاری،تربیت اور ٹریننگ اول روز سے نظم_ جماعت کے پیشِ نظر رہی ہے۔اس مقصد کی خاطر باقاعدہ تربیتی نصاب تیار کیا جاتا ہے، حلقہء دروس اور اجتماعات کے ذریعے قرآن وسنت کا فہم اور حالات حاضرہ کا شعور پیدا کیا جاتا ہے۔یہ خاصیت،کسی اور سیاسی پارٹی میں دکھائی نہیں دیتی۔ جماعت کا تربیتی نظام،کارکنان کے اندر ایمان اور جذبہ کا وہ ایندھن بھر دیتا ہے کہ اس کے بعد انھیں جس شعبہء زندگی اور جس محاذ پر کھڑا کردیا جاۓ وہ اس میں کامیابی کی خاطر تن،من، دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہمیشہ اپنے حصے کا کام جسم و جان کی پوری قوت اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری سے کرنے پر زور دیا اور انتخابات میں کامیابی کی خاطر کسی بھی خفیہ سرگرمی یا زیر زمین کارروائی سے منع فرمایا۔1960ء میں مولانا مودودی نے قرآن کریم میں مذکور مقامات کے دورے کئے اور ان جگہوں کا مشاہدہ کیا۔1962ء میں سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹا لی گئ تو اسلامی جمعیت طلبہ بھی فعال ہوگئ اور مختلف یونیورسٹیوں کے اندر انتخابات میں حصہ لیا۔

 

اسی دوران مولانا خلیل احمد حامدی ناظم دارالعروبہ مقرر ہوۓ،وہ بیرونی وفود کے دوروں کے موقع پر مولانا مودودی کے مترجم کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اور آپ کی کئ کتب کا انھوں نے عربی میں ترجمہ کرکے جماعتِ اسلامی کے لٹریچر کو دور دراز کے ممالک تک پہنچایا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جماعتِ اسلامی نے حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا،طبی کیمپ قائم کئے گئے۔مسئلہ کشمیر پر پانچ زبانوں میں لٹریچر شائع کیا گیا۔1968ء میں سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لئے ” ادارہ دائرۃ الفکر” قائم کیا گیا،لٹریچر کے ذریعے سوشلزم اور کمیونزم کو شکست سے دو چار کردیا گیا۔1971ء کی جنگ کا معرکہ، مشرقی پاکستان کے دفاع کی خاطر،جماعت_ اسلامی کی ذیلی تنظیم “البدر” نے پاک فوج کے ہمراہ،بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے خلاف لڑا،شہادتیں بھی ہوئیں اور گرفتاریاں بھی مگر سقوط _ ڈھاکہ ہوگیا،پاکستان دو لخت کردیا گیا۔مولانا مودودی نے نوے ہزار قیدیوں کی بھارتی عقوبت خانوں سے رہائی کے لئے 250 سربراہان_ مملکت کو خطوط لکھے اور عالمی راۓ ہموار کی۔ مولانا مودودی اور مولانا خلیل احمد حامدی نے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے بھی کئے۔” بنگلہ نامنظور” مہم چلائی گئی۔1972ء میں میاں طفیل محمد صاحب کو جماعتِ اسلامی کے امیر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جماعتِ اسلامی میں امارت کا معیار صرف تقوی’ اور کارکردگی ہے۔ جماعت کے دستور کے مطابق اراکینِ جماعت،خفیہ راۓ دہی کے ذریعے سے اپنے امیر کو منتخب کرتے ہیں۔27 فروری 1979ء کو سعودی عرب میں شاہ فیصل فاؤنڈیشن کی جانب سے مفسر_ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کی علمی و ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا۔ اس ایوارڈ سے پہلے دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں،مؤثر شخصیات اور بین الاقوامی اداروں کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا کہ جس میں ایسا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئ تھی جسے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا جاسکے۔

 

ان سوالناموں میں تقریباً نوے فیصد نے جواب میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا نام لکھا تھا (بحوالہ سید حمید مودودی)۔ بانیء جماعتِ اسلامی بوجوہ ناسازیء طبیعت خود نہ جاسکے،انھوں نے اپنے بیٹے حسین فاروق کے ساتھ ڈائریکٹر امور خارجہ مولانا خلیل احمد حامدی کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا جنہوں نے وہاں عربی زبان میں تقریر کی اور مولانا مودودی کا خط پڑھ کر سنایا۔خط میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے سعودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ لکھا تھا کہ انھوں نے جو کام بھی کیا ہے،اسے دینی فریضہ سمجھ کے کیا ہے اور ایوارڈ کی رقم اقامتِ دین کی جدوجہد میں استعمال کی جاۓ گی۔ بعد ازاں مولانا خلیل احمد حامدی کی تجویز پر اس رقم سے حالیہ “مرکز_ جماعت منصورہ” کو آباد کیا گیا.یہاں تعمیرات،اداروں کی تشکیل, انسانی و مادی وسائل کی فراہمی مولانا خلیل احمد حامدی کا ذمہ قرار پائی جنہوں نے اپنی پوری جان لگا کے اس سرسبز و شاداب منصورہ کو بسایا۔(راقمہ کے سامنے، محترمہ زبیدہ بیگم،اہلیہ مولانا خلیل احمد حامدی کی گواہی).

جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو جماعتِ اسلامی نے کفار کے خلاف نقارہء جہاد بلند کیا۔ عالمی طاقتوں کو اسی لئے جماعت ہمیشہ کھٹکتی ہے۔بانیء جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا وژن ” احیاۓ اسلام ” کا عالمگیر وژن تھا جس کی خاطر انھوں نے ان تھک محنت کی اور اس صدی کے مجدد_ دین قرار پاۓ۔آپ کی شخصیت علم و عمل،گفتارو کردار کا متاثر کن مجموعہ تھی،آپ 1979ء میں بوجوہ گردوں کے مرض انتقال فرماگئے۔آپ کی نمازِ جنازہ حرم_ کعبہ کے علاوہ دنیا کے تین براعظموں میں ادا کی گئ۔ آپ اپنے مشن کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔ مولانا طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں امراۓ جماعتِ اسلامی نے کلمہء طیبہ والے پرچم کو اٹھا رکھا ہے۔مردانہ تنظیم کے ساتھ اب حلقہء خواتین بھی بزم آراء ہے۔ویمن ونگ کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں تعلیم یافتہ،دین دار مائیں،بہنیں اور بیٹیاں قوم کی خاطر محو_ جدوجہد ہیں۔اسلاف کی قربانیوں کے پیشِ نظر، شہیدوں کی امانت نظریہء پاکستان اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ہر شعبہء ہاۓ حیات میں کوشاں ہیں،نظام کو بدلنا ہے،ٹرانسجینڈر ایکٹ جیسے انسانیت دشمن قوانین کو چیلنج کرنا ہے،

 

اسلامی تہذیب و تمدن کا دفاع کرنا ہے،اقتدار کو کرپٹ لوگوں کے ہاتھ سے لے کر صالحین کے ہاتھ میں دینا ہے۔ مساجد اور محلوں میں جماعت کے مدرسین اور مدرسات کو سنیں، اقتدار کے ایوانوں میں ڈاکٹر کوثر فردوس،عائشہ سید،ڈاکٹر وسیم اختر،سینیٹر مشتاق احمد خان،سید عبد الرشید جیسے قابل عوامی نمائندوں کی مثالیں دیکھیں، قدرتی آفات،سیلاب،زلزلوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کو اپنے اردگرد پائیں،الیکٹرانک میڈیا پر جناب امیر العظیم اور سوشل میڈیا پر ویمن ونگ سے آمنہ عثمان کے پوڈ کاسٹ سنیں، جماعتِ اسلامی کے فیس بک پیجز اور ٹویٹر ایکس ہینڈلز کو سکرول کریں تاکہ آپ جان سکیں کہ جماعتِ اسلامی دراصل آپ کی دنیا وآخرت کی فلاح کا مکمل پیکج رکھتی ہے۔ یہ حب الوطنی کے جس درجہ پر ہے،کوئی اور پارٹی نہیں ہے۔ جماعتِ اسلامی اتحاد_ امت کی داعی ہے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے مبرہ ہے۔امت مسلمہ کے زخم کبھی کشمیر و فلسطین ریلیوں کی صورت میں،کبھی پارلیمنٹ میں قراردادوں کے ذریعے سے،کبھی بیرون_ ملک کانفرنسوں میں اجاگر کرتی رہتی ہے۔جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرپشن فری پارٹی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور پلڈاٹ نے جماعتِ اسلامی کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو کارکردگی میں نمبر ون قرار دیا۔ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے سینیئر وزیر خزانہ نے قرضہ فری بجٹ بناکے اور اپنے وسائل سے صوبے میں ریکارڈ ترقی یافتہ کام کرواکے ورلڈ بنک کے ماہرین کو بھی حیران کیا ہے۔سود کے خلاف جماعتِ اسلامی نے کئی سال عدالت میں مقدمہ لڑا ہے۔پانامہ لیکس کے مقدمات میں جماعت اسلامی وطن کے محافظوں کی صورت کھڑی رہی ہے،چوروں کا محاسبہ کیا ہے۔جماعت قوم کے مفاد میں خدمتِ خلق کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ عوام کے مسائل، مہنگائی، بجلی کے زائد بل، بیروزگاری،غربت،سرمایہ دارانہ نظام _ معیشت، سودی قرضوں اور آئی ایم ایف کے ناجائز مطالبات کے خلاف میدان میں ہوتی ہے۔حال ہی میں شروع کیا گیا ” بنو قابل ” پروگرام، نوجوانوں کو آئی ٹی،فری لانسنگ اور دیگر جدید مہارتوں کے ذریعے روشن مستقبل کا مژدہ سنارہا ہے۔ جماعتِ اسلامی میں پی ایچ ڈیز کی ایسی ہائی کلاس موجود ہے جو آنے والے ہر چیلنج کا سامنا کرنے کی حکمت عملی تیار کرسکتی ہے۔۔جماعت کا ویژن،پاکستان کے روشن مستقبل کا ویژن ہے۔جماعت_ اسلامی کا حصہ بنئیے۔اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں آپ سب کی منتظر ہے۔

 

~اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں،ہر سو خوشحالی لائیں گے
جس ارض_ وطن پہ ظلم نہ ہو،وہ پاکستان بنائیں گے!
(ان شائاللہ).

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92523

جہد مسلسل کے 83 سال ۔ از: کلثوم رضا

جہد مسلسل کے 83 سال ۔ از: کلثوم رضا

 

“میرے لیے تو یہ تحریک عین مقصد زندگی ہے۔میرا مرنا اور جینا اس کے لیے ہے،کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہو نہ ہو،بہرحال مجھے تو اسی پر چلنا اور اسی پر جان دینا ہے۔کوئی آگے نہ بڑھے گا تو میں بڑھوں گا،کوئی ساتھ نہ دے گا تو میں اکیلا چلوں گا۔ساری دنیا متحد ہو کر مخالفت کرے گی تو مجھے تن تنہا اس سے لڑنے میں ہھی باک نہیں ہے۔”
(روداد جماعت اسلامی اول و دوم ص 30)

یہ صدق دل سے نکلے ہوئے الفاظ مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ کے ہیں۔جنھوں نے 26 اگست1941 کو لاہور میں 75 افراد اور قلیل سرمائے لیکن اخلاص کی دولت کے ساتھ جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔یہ اس اخلاص للہیت اور پاکیزگی کا اثر تھا کہ جماعت اسلامی نے زندگی کے ہر دائرے میں بہت جلد پیش قدمی کی۔اس کے بے لوث اور مخلص کارکنان اور قیادت نے مقصد اور نصب العین کی جانب مسلسل جدو جہد کی۔

الحمد للہ جماعت اسلامی اپنے قیام سے ہی انسانی زندگی کے نظام،اس کے تمام شعبہ ہائے زندگی سمیت الله تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کی اطاعت و بندگی اور انبیائے کرام کی تعلیمات و شریعت پر قائم کرنے کے لیے گزشتہ 83 سال سے اقامت دین کی جدو جہد میں سرگرم عمل ہے۔اس دوران جماعت کئی سنگ میل عبور کرتے ہوئے عوام الناس میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے میں مسلسل پیش قدمی کے راستے پر ہے۔۔۔۔

مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ کا فرمان روداد جماعت اسلامی حصہ اول صحفہ نمبر 15 میں درج ہے کہ”یہ بات ہر اس شخص کو سمجھ لینی چاہیے جو جماعت اسلامی میں ائے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور اسان کام نہیں ہے۔اسے دنیا کی پورے نظام ذندگی کو بدلنا ہے۔اسے دنیا کے اخلاق،سیاست،تمدن،معیشت،

معاشرت،ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔دنیا میں نظام حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اسے بدل کر خدا کی اطاعت میں قائم کرنا ہے اور اس کام پر تمام شیطانی قوتوں سے اس کی جنگ ہے۔اس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر ائے گا تو بہت جلدی مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔اس لیے ہر شخص کو قدم اگے بڑھانے سے پہلے خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس خار زار میں قدم رکھ رہا ہے۔۔۔۔یہ وہ راستہ نہیں جس میں اگے بڑھنا اور پیچھے ہٹ جانا دونوں یکساں ہوں۔جو قدم بڑھاؤ،اس عزم کے ساتھ بڑھاؤ کہ اب یہ قدم پیچھے نہیں ہٹے گا۔”
تو یدخلون فی دین اللہ افواجا کے مصداق لوگ اس میں داخل ہوتے رہے۔۔ جس میں خواتین بھی پیش پیش رہیں۔

قیام پاکستان کے بعد 1948 میں جماعت اسلامی نے خواتین میں اپنے کام کو منظم کرنے کا اغاز کیا۔محترمہ آپا حمیدہ بیگم جو کہ ایک پر عزم اور نصب العین سے وابستگی رکھنے والی خاتون تھیں نے خواتین کی ایک خاطر خواہ تعداد جمع کرکے اپنی سرگرمیوں کو منظم انداز میں شروع کیا۔تو سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ علیہ نے جو ہمیشہ خواتین میں دین کے کام کے بارے میں فکرمند رہا کرتے تھے خوشی کے ساتھ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کے قیام کا اعلان کیا اور آپا حمیدہ بیگم کو اولین جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔قیام پاکستان کے اول دن سے آج تک حلقہ خواتین کی سرگرمیاں اس عزم کی غماز ہیں کہ

رکو نہیں تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر
نئے سرے سے چھڑ چکی جہاں میں رزم خیر و شر

 

اس قافلہ حق میں شریک ہونے والی ہر خاتون حصول علم اور اس کی روشنی میں سیرت و کردار کی تبدیلی کی فکر میں منہمک ہو جاتی۔مثالی کردار،نصب العین سے دلی وابستگی،سمع و اطاعت کے نظامِ پر استقامت اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند باہمی تعلقات کا قائم ہونا وہ اعلیٰ بنیادی صفات تھیں جنھوں نے حلقہ خواتین کی بنیاد کو مضبوطی عطا کی۔جذب باہم کی کشش دائرے کو وسیع کرتی گئی اور جلد ہی ملک بھر میں حلقہ خواتین کی سرگرمیاں منعقد ہونے لگیں۔

وہ ہم نہیں ہیں کہ اپنے گھر میں ہی صرف شمعیں جلا کے بیٹھیں
وہاں وہاں روشنی کریں گے جہاں جہاں تیرگی ملے گی

 

درس قران، قرآن کلاسز اور لٹریچر کی تقسیم سے شروع ہونے والی سرگرمیاں آج دعوت دین کے بڑے بڑے میدانوں تک پھیل چکی ہیں۔خدمت خلق کا عنوان ہو،بچوں یا نوجوانوں میں دعوت دین پہنچانی ہو،غریب بستیوں میں تعلیم کے چراغ جلانے ہوں،بچیوں کو معیاری دینی و دنیاوی تعلیم دینی ہو،شہری اور دیہی ورکنگ ویمن تک پہنچنا ہو،قیدی خواتین کو اللہ کے پیغام سے آشنا کرانا ہو،مظلوم خواتین کو چھت فراہم کرنی ہو،ادب کو صالحیت کا راستہ دکھانا ہو،ابلاغ کی میدان میں حق کی آواز بننا ہو یا حکومتی ایوانوں میں شرعی نظام کی جدو جہد کرنی ہو،حلقہ خواتین نے ہر جگہ اپنی موجودگی ثابت کی ہے۔اور پاکستان بھر میں حضرت عائشہ صدیقہ حضرت فاطمتہ الزہرہ اور دیگر صحابیات رض اللہ عنھن کی سیرت کی روشنی میں خواتین قیادت کو روشناس کرایا ہے۔

 

قافلے کی قیادتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو پرچم سپرد کرتا رہا اور یوں عزم مسلسل کے ساتھ قافلہ بڑھتا رہا۔محترمہ حمیدہ بیگم کے بعد حلقہ خواتین کی ذمہ داری بالترتیب محترمہ ام زبیر،محترمہ نیر بانو،محترمہ قمر جلیل کے کاندھوں پر رہی۔جنھوں نے طویل عرصے تک اس قافلے کی قیادت کی اور جدو جہد میں حصہ ڈالا۔اس کے بعد محترمہ عائشہ منور صاحبہ،محترمہ ڈاکٹر کوثر فردوس،محترمہ ڈاکٹر رخسانہ جبیں اور محترمہ دردانہ صدیقی اس قافلے کی سالاری کے فرائض انجام دیتی رہیں اور اب اس کی قیادت محترمہ حمیرا طارق کے سپرد کی گئی ہے۔الحمد للہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی خواتین نے جہاں گھر اور خاندان میں اپنے فرائض بہترین طریقے سے نبھائے، بچوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینے کے ساتھ ساتھ انھیں اور اپنے خاندان کو تحریک سے جوڑا، تحریکی ہم سفر کو بہترین معاونت فراہم کی وہیں حلقہ خواتین کی دعوت کو ہر دائرے میں وسعت دینے، استقامت کے ساتھ نتائج کے حصول تک محاذ پر جمے رہنے، بلند خواب دیکھنے، اور ان کی تعبیر پانے کے لیے ہمہ تن جدو جہد کو اپنا شعار بنایا۔ ساتھ ہی ساتھ پروفیشنل زندگی کے تقاضوں کو نبھانے پر بھی بھر پور توجہ دی۔ ایسی ہی ہستیوں کو دیکھ کر اقبال کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ

جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامین پیدا

 

آج 26 اگست یوم تاسیس جماعت اسلامی کے موقع پر اس دعا کے ساتھ ہم مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ سمیت اپنے تمام اسلاف کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ “اللہ تعالیٰ انھیں وہ بلند مقام عطا فرمائے جو اس کے ہاں سابقون الاولون کے لیے مقدر ہے۔اور ان کی دی ہوئی رہنمائی تا قیامت انسانیت کو صحیح راہ دکھاتی ریے۔امین

تیزی سے گزرتا ہوا وقت ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ اپنا سب کچھ حق کے راستے میں لگانے والے بن جائیں اور یہ یقین رکھیں کہ جنت کی راہیں اللہ کی راہ میں جان،مال اور وقت دینے سے ہی کھلتی ہیں۔ ہماری اجتماعیت کے لیے ہمارے اسلاف کا نمونہ ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔اس روشنی میں اپنی کار کردگی کو بہتر بنانے کا عمل ہی ہمیں منزل مقصود تک پہنچانے کا سبب بنے گا ان شائاللہ

 

ہم دل میں روشن خوابوں کی تعبیر کو پا کر دم لیں گے
ہم راہ وفا کے راہ رو ہیں منزل پہ ہی جا کر دم لیں گے
کانٹوں نے اگر دامن تھاما،دامن ہی جدا کر ڈالیں گے
منزل کی طلب میں تن من دھن سب کچھ ہی لٹا کر دم لیں گے
اس گلشن کی ویرانی پر آنکھیں نم ہیں،دل غمگیں ہے
ہم خون رگ جاں دے کر بھی گلشن کو سجا کر دم لیں گے
ہم کل بھی تھے اور آج بھی ہیں اور کل بھی دنیا دیکھے گی
تاریخ کے ہر عنوان میں ہم خود کو منوا کر دم لیں گے
ظالم کے ظلم سے ڈر جانا ہم نے تو کبھی سیکھا ہی نہیں
سولی پہ بھی ہم کو کھینچو گے تو سچ ہی سنا کر دم لیں گے
ہم ڈرتے ہیں نہ دبتے ہیں نہ جھکتے ہیں نہ بکتے ہیں
جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں وہی کرکے دکھا کر دم لیں گے
ہر درد کا درماں ہو جائے ہے ناز ہمارا عزم یہی
انسان کے ہر زخم پہ ہم،مرہم ہی لگا کر دم لیں گے

 

(روبینہ فرید ناز کی مرتب کردہ کتاب”قیادت کا سفر” زیر مطالعہ ہے تو تحریر کے لیے الفاظ کا چناو اسی مطالعے کے زیر اثر رہا۔)#

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92499

ایک لفظ جو معتبر ٹھہرا – از: فرحین فضا

Posted on

ایک لفظ جو معتبر ٹھہرا – از: فرحین فضا

 

جب تک انسان کو کسی چیز کی افادیت کے بارے میں پتہ نہ ہو اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح میرے نزدیک اس پانچ حرفوں کا مجموعہ لفظ “احساس” کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی جتنی اس ایک رات کے بعد ہوئی۔۔

 

ہوا یوں کہ ایک رات میں سوئی ہوئی تھی۔ تقریباً ڈھائی،پونے تین بجے کے قریب مجھے ایک آہٹ سنائی دی جس سے آنکھ کھل گئی۔ پہلے لگا کہ خواب میں ڈر گئی ہوں یا ایسے ہی وہم آرہا ہے لیکن غور کیا تو واضح آواز کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ میں مکمل طور پر جاگ چکی تھی۔ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ادھر ادھر دیکھا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لائٹ آف تھی۔ موبائل ٹارچ کھولا دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ لیکن مجھے کسی کی تیز تیز سانسوں کی آواز بدستور آرہی تھی۔ میری دونوں روم میٹ رضائی اوڑھے سو رہی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ آواز ان دونوں میں سے کسی ایک کی ہو سکتی ہے۔ اٹھی ایک کے قریب گئی تو اس کی نہیں تھی اس سے آگے بیڈ پر گئی تو شک یقین میں بدل گیا آواز وہیں سے آرہی تھی۔ فوراً رضائی ہٹائی تو لاش پڑی تھی مگر سانسیں لے رہی تھی۔ جونہی پیشانی پر ہاتھ رکھا، لگا جیسے توے پر رکھا ہے۔ وہ تو تپ رہی تھی۔ اتنا زیادہ ٹمپریچر دیکھ کر میں بہت پریشان ہو گئی۔ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ نہ ہی میرے پاس کوئی دوا تھی اور ہوتی تب بھی نیم حکیم خطرہ جان کے مصداق اسے دینے سے ڈرتی۔ صرف ایک بات کا علم تھا کہ ٹمپریچر کیسے کم کرنا ہے۔ فخر کیا آخر میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہوں۔(ان دنوں FSC کے امتحانات کی تیاری ہو رہی تھی) فوراً تولیہ گیلا کر کے اس کے سر پہ رکھا،ہاتھ پاؤں پر پانی ڈالا۔یہ عمل مسلسل 15-20 منت کیا تب کہیں جا کر اس کا تپنا تھوڑا کم ہوا۔اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا فضا تم۔۔؟ اور بتایا کہ پورا بدن دکھ رہا ہے۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا بہنا ندی کی روانی کا سماں پیش کر رہا تھا۔ سسکیاں لیکر روتی ہوئی کہہ رہی تھی فضا! شکریہ۔۔۔۔اب تم جاؤ آرام کرو تمہاری طبیعت بھی تو ٹھیک نہیں تھی۔ رات جاگنے سے کہیں مزید نہ بگڑ جائے۔۔ میں اب کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔۔

 

ایک لمحے کے لیے مجھے لگا، ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ میں مذید جاگ کے کر بھی کیا سکتی ہوں۔۔ نا ہی ڈاکٹر ہوں نہ ہی کوئی دوا میرے پاس ہے۔یہی ایک ہنر تھا جو ازمایا گیلی پٹی رکھنے کا۔۔۔ جس سے کچھ افاقہ ہوا مذید جاگ کر کیا کروں گی۔

 

اپنے بستر پر گئی،لیٹی، آنکھیں بند کی تو پتہ چلا نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی۔ بے وجہ آنکھیں بند کرنے کو بے سود سمجھ کر اٹھی وضو کیا، نفل پڑھے، روم میٹ پر دم کی غرض سے قریب جا کر نادانستہ طور پر پیشانی کو ہاتھ لگایا تو محسوس کیا کہ اسکا ٹمپریچر پھر سے بڑھ گیا ہے۔ اب تو مجھے غصہ آنے لگا کہ میری اتنی کوشش کے باوجود یہ کم ہونے کے بجائے پھر سے بڑھنے لگا آخر کیوں؟۔۔۔۔اور ساتھ ایک کرم اور ہوا کہ عجیب خیالات اور وسوسوں نے گھیرا کہ کہیں اسے کچھ ہو گیا تو کیا کروں گی۔۔ اس سوچ کا آنا تھا زمین پاؤں تلے سے سرکنے لگی اور میں اللہ اللہ کرتی ہوئی اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔ قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر دم پہ دم کرتی ہوئی اس کی خیر مانگنے لگی۔اور ساتھ گیلی ہٹیاں لگاتی اور بدن دباتی رہی تو سوچوں کے مذید در کھلتے گئے کہ اس قسم کی خدمت میں نے کبھی اپنے گھر والوں کی نہیں کی۔ حلانکہ ہفتے میں نہیں تو مہینے میں ایک ادھ بار ضرور کوئی نہ کوئی بیمار پڑتا ہے۔ لیکن میں نے کبھی ان کی اس طرح خدمت نہیں کی۔ ہاں البتہ امی اور خالہ وغیرہ کو کسی کو فرسٹ ایڈ دیتے ہوئے صرف سنا اور دیکھا ہے۔ پھر مجھے ان لوگوں کا قد بہت بڑا محسوس ہونے لگا جو اپنے اہل وعیال اور دوسرے بندگانِ خدا کی خدمت میں نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔ہر وقت خلق خدا کی کسی نہ کسی طرح خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کسی بیماری و تکلیف حتیٰ کہ خوشی کے موقع پر بھی ایک دوسرے کے دست و بازو بن جاتے ہیں اور آج مجھے بھی یہ احساس ہو رہا تھا کہ انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہے اور یہ میرے اللہ کا بھی فرمان ہے کہ “خیرالناس من ینفع الناس”۔۔۔پھر مجھے لگا یہی “احساس ” ہی تو ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بنا دیتا ہے ورنہ سبھی مخلوقات جانور ہی تو ہیں۔ آج تک اس لفظ کے بارے میں صرف سنا تھا لیکن کبھی اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
سوچوں کا سلسلہ تب ٹوٹا جب روم میٹ نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا۔۔

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

فضا تمہاری تیما داری نے مجھے حوصلہ دیا ورنہ میں مر چکی ہوتی اور ساتھ یہ سبق بھی کہ ہر رشتہ خون کا نہیں ہوتا کچھ رشتے ایمان کے بھی ہوتے ہیں اور یہی قیمتی اور مضبوط ہوتے ہیں۔۔۔

 

جس طرح تم نے میرا خیال میری ماں کی طرح رکھا اسی طرح تمہارا خیال سوہنا رب اپنی شان کے مطابق رکھے۔۔۔ میں نے کہا آمین اور ساتھ یہ بھی کہ “یہ میرا فرض تھا”۔ تین مہینوں کا ہی سہی پر آپ میری ساتھی ہیں ہم ایک کمرے میں رہتے ہیں۔۔۔ اگر آپ شام ہی کو بتا دیتیں کہ بخار ہے تو شام ہی کو کوئی دوا بھی منگوا لیتے یوں ہم دونوں کی رات تکلیف سے نہ گزرتی۔۔ اس نے سوری کہا تو میں نے بھی دیکھا اس کا ٹمپریچر بالکل نارمل ہو گیا ہے اور وہ کافی بہتر محسوس کر رہی ہے۔

 

اسی روز مجھے لگا کہ ہمدردی میں کتنی طاقت ہے۔۔ کتنی اپنائیت ہے اور کتنی محبت ہے۔۔۔ اسے شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی سب اس کے چہرے سے عیاں تھا۔۔۔ اور مجھے اپنے انسان ہونے کا شعور مل گیا تھا۔۔۔ کسی کی تکلیف کو محسوس کرکے اسے یہ احساس دلانا کہ “میں آپ کے ساتھ ہوں” یہی انسانیت ہے اور اس رات کے اس احساس نے مجھے انسانیت سے روشناس کیا اور لفظ “احساس” کو میرے نزدیک معتبر ٹھہرایا۔

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92251

جشن آزادی اور ہمارا وطیرہ – از :کلثوم رضآ

Posted on

جشن آزادی اور ہمارا وطیرہ – از :کلثوم رضآ

 

میری اکثر کوشش رہتی ہے کہ اہم دنوں کے حوالے سے کچھ تحریر کروں۔۔تو اب کی بار بھی (جبکہ ہر طرف مایوسی اور غم و غصہ ہے کے باوجود) 77واں یوم آزادی کے حوالے سے ارادہ “امید سحر” عنواں سے لکھنے کا تھا۔۔وجہ اسکی میرے شاگردوں کا وہ جوش و جذبہ جو جشن آزادی کی تقریب کے لیے تیاری میں دکھا رہے تھے۔ان کے لیے تقاریر،ملی نغمے اور کمپیرنگ لکھتے ہوئے مجھے میرا بچپن یاد آرہا تھا۔۔۔مجھے یہ ساری باتیں جو تقاریر اور ملی نغموں میں ہوتی ہیں سچ لگ رہی تھیں۔ہوش سنبھالنے کے بعد پتہ چلا کہ حصول پاکستان کے لیے ہمارے بزرگوں کی انتھک محنت اور قربانیوں کی حد تک تو ٹھیک ہیں لکن قیام پاکستان کے بعد اس کا جو حشر ہوا وہ بہت مختلف ہے اور اس کا خمیازہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔۔

تو گزشتہ کل یعنی 13 اگست کو ہم نے سکول میں یوم آزادی کی تقریب کا اہتمام کیا ۔۔۔بچوں کی خوشی اور جذبے کو دیکھ کر لگتا تھا یہی وہ بچے ہیں جو پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانے کے لیے کوشاں ہوں گے اور ان شاءاللہ بنائیں گے بھی۔۔۔

وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
(شاعر نامعلوم)

 

بخار کی وجہ سے طبیعت بھی خراب تھی لکن سوچ رہی تھی کہ بچوں کے پروگرام کو اختتام تک پہنچا کر کچھ بھی ہو جائے مضمون لکھ کر پھر ہسپتال جاؤں گی۔۔۔ لیکن جب گھر پہنچی تو بدن کے دکھنے کی بات تک تو خیر تھی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تو ہسپتال پہنچ گئی ۔۔جہاں ٹمپریچر بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مجھے داخل کیا گیا اور مختلف انجیکشن لگے ۔۔مریض بھی زیادہ تھے۔۔عورتیں ادھر ادھر غش کھا کر گر رہی تھیں ۔۔ڈاکٹر اور نرسیں انھیں سنبھالتی اور علاج کرتی رہیں۔۔ رات گیارہ بجے کے قریب گھر آنے لگی تو بازار میں کچھ دکانیں کھلی تھیں جن میں مرد وخواتین،بچے بچیاں خریداری میں مصروف تھے۔۔ڈارئیور بیٹا اجازت طلب کرکے اپنے بچوں کے لیے کچھ خریدنے کے لیے اترا تو میرا بیٹا بھی ساتھ ہو لیا۔۔اور چھوٹی بہن کے لیے کچھ خریدنے لگا۔۔۔اتنے میں میں دکان کا جائزہ لیتی رہی،اس میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جنھیں جشن آزادی سے قطعاً تعلق نہیں ہے ۔۔ہرے اور سفید رنگ کے کپڑوں کے علاوہ مفلر،ٹوپی،جھنڈیاں،بیجیز ،بالوں میں لگانے کے لیے کلپ ،پونی ،چوڑیان،۔ بوندیں، عینک انگوٹھیاں، سر پہ باندھنے کے لیے پٹیاں،ہلال اور تارا بنے لمبے لمبے ناخن اور گز گز لمبے باجے بھی تھے۔۔۔جنھیں بچے ہی نہیں قدرے نوجواں بھی بجا رہے تھے اس بات سے بالکل بے نیاز کہ رات کا وقت ہے کسی کی نیند خراب ہو سکتی ہے ،کسی بیمار کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔۔ (اور اب جب میں اس متعلق لکھ رہی ہوں زورو شور سے باجوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ لگتا ہےایسا نہ کرنے پر قائد کی روح ان سے ناراض ہو جائے گی)۔

 

دکان میں اونچی آواز میں “عمران خان پخیر راغلے” والا کوئی گانا چل رہا تھا جس کے دھن سے کسی بھی طرح وہ ملی نغمہ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔میرے بیٹے نے اس طرز کے ساتھ گل نواز خاکی اور مہ جبین قزلباش کا دوگانہ مکمل گایا۔۔۔”اے نازنین جانان مہ ،شرین لووئی خوبان مہ،حسین مہربان مہ،صنم شرین ژان “والا…پی ٹی آئی لکھے ہوئے ٹوپی اور مفلر دکاندار نے خود بھی پہنا تھا اور بچوں کو بھی پی ٹی آئی والی جھنڈیوں کے ساتھ مفلر بھی تھما رہا رہا تھا ۔۔
یہ صحیح ہے ہر کسی کی اپنی پارٹی ہوتی ہے لکن قومی دن پر ایسی تعصب والی باتیں نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ بدقسمتی سے ہم خود کو پاکستانی قوم ظاہر کرنے کے بجائے پٹھان،پنجابی،بلوچی،سندھی،

سرائیکی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی ،پی پی پی، جے آئی ،جے یو ائی ،پی ایم ایل این،این اے پی ،ایم کیو ایم ،ق لیگ اور تحریک لبیک ظاہر کرنے لگے ہیں۔۔قومی پرچم سے زیادہ پارٹیوں کی جھنڈیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔۔۔انھی تعصبات کی وجہ سے خدا نخواستہ ملک کئی لختوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔۔۔ آج ہی ایک پوسٹ نظروں سے گزری کہ “ارشد ندیم جب پاکستان پہنچے تو اپنے گاؤں جاتے ہوئے اپنی گاڑی میں پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا کر باقیوں کو جلانے کا کام کیا”۔
کیا ارشد ندیم پاکستان کی نہیں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر ریے تھے؟ کیا ان کی جیت سے پاکستانی خوش نہیں؟
ایسی بے بنیاد باتیں پھیلانے سے آخر ہم کب باز آئیں گے؟

یہ ٹھیک ہے ان کی گاڑی میں پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا رہا تھا لیکن قومی جھنڈے سے قدرے نیچے لہرا رہا تھا۔۔۔ ارشد ندیم کے پی ٹی آئی سے تعلق پر بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔۔ہیں تو وہ پاکستانی ہی۔۔۔ اسے پاکستانی ہی رہنے دیا جائے ۔۔

اور بھی بہت سی پوسٹیں ایسی لگی ہیں ۔۔جس میں کیک کاٹے جا رہے ہیں لڑکیوں نے چہروں پر قومی پرچم پینٹ کیے ہیں۔۔۔ لمبے لمبے ناخنوں پر ہرا نیل پالش اور سفید رنگ سے چاند تارے بھی بنائے ہیں۔۔اور محب وطنی کے جذبے سے سرشاری کی حد کو تب چھو گئے ہیں کہ بیک گراونڈ میوزک انڈین گانوں کا ہے۔۔۔

اس قسم کی جشن سے یہ قائد اعظم کا پاکستان تھوڑی لگ رہا ہے۔۔۔دراصل انھیں آزادی کی قیمت نہیں معلوم تبھی تو اس قسم کی پارٹیاں کر رہے ہیں۔۔
بانی پاکستان نے اپنے رفقاء کے ساتھ طویل جدو جہد کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے الگ آزاد وطن بنایا تھا۔۔

کارواں جن کا لٹا راہ میں آزادی کی
قوم کا،ملک کا،ان درد کے ماروں کو سلام۔۔

 

انھیں ہم صرف سلام ہی پیش کر سکتے ہیں ۔۔۔جنھوں نے ہمارے لیے تو آزاد ملک بنایا اور خود صرف ایک سال اس آزاد فضا میں وہ بھی بیماری کی حالت میں رہ سکے۔۔۔جس کے بعد پاکستان کی کشتی تا ہنوز ڈاواں ڈھول ہے۔۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر لیڈر تھے اور پاکستان کا نظام بھی اسی طرح بنانا چاہتے تھے۔۔۔ لیکن جب ہم ان کی فرمودات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قسم کے لیڈر تھے اور پاکستان کا نظام کس طرح بنانا چاہتے تھے۔۔۔
وہ 15 نومبر 1942 کو آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے اپنے خطاب میں فرماتے ہیں
“مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟

پاکستان کا طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔۔مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔الحمد للہ قرآن مجید ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔۔۔
ایک اور جگہ انھوں نے فرمایا تھا کہ “اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر کی شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں ۔۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانوندان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔۔
25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے اپنی خطاب میں فرماتے ہیں ۔۔

“اج ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلعم کی تعظیم وتکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلعم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم راہنما تھے، عظیم واضح قانوندان تھے، عظیم سیاستدان اور عظیم حکمران تھے۔ ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی بھی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہیں ہوگی۔
قائدِ اعظم کی فرمودات سے واضع ہوتا ہے کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا وہ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ۔۔

لیکن ہم آج بھی 77 واں یوم آزادی بھی اسلامی تو کیا مغربی طرز پر بھی جمہوریت کے بغیر منا رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کہا تھا کہ “پاکستان کا حاصل کرنا ہمارے مقصد کی ابتداء ہے۔ ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں ۔حصول پاکستان کے مقابلے میں اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے۔ اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔

وہ نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتے کہ آپ تعلیم پر پوری توجہ دیں اور خود کو عمل کے لیے تیار کر لیں۔۔یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور حیات کا مسئلہ ہے۔۔۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں اس کا اندازہ سالانہ بجٹ پر اس کے لیے مختص کیے گئے بجٹ سے ہوتی ہے۔۔سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی سطح 60 فیصد بتائی جاتی ہے جن میں وہ تعلیم یافتہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لکھنا جانتے ہیں۔۔۔ ہمارے معیار تعلیم کا حال اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی نہیں۔۔۔
11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں آباد اقلیتی اقوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔

اس سے پہلے بھی 2 نومبر 1940 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
“چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا درس دیتا ہے۔بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آجائیں اسلام ان کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔۔۔

لیکن ہم نے ان کے کیے وعدے پر بھی پانی پھیر دیا۔۔ ہمارے ملک میں اقلیت محفوظ نہیں۔۔۔
(قائد اعظم کے فرمودات مختلف مضامین سے اقتباس ہیں)
ملک کا نظام اگر اسلامی طرز پر جمہوری ہوتا تو اقلیتیں محفوظ ہوتیں۔۔اور تعزیراتی حدیں بھی ہر خاص و عام پر یکساں لگتیں ۔یہاں امرا ہر حد سے بری ہیں اور عوام ناکردہ گناہوں کی سزا بھی عمر قید اور سزائے موت کی صورت پاتے ہیں۔

عوام کے ٹیکسوں سے امراء کے بچے عیاشیاں کرتے ہیں اور عوام بجلی کا بل زیادہ آنے پر اپنے ہی بھائی کو قتل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔۔
اب بھی اگر عوام جاگ جائے تو انھیں ان کے حقوق ملک خدا داد پر خدا کا نظام رائج کرنے سے مل سکتے ہیں۔
تو آئیے جشن آزادی مناتے ہوئے مقصد آزادی کو سامنے رکھیں اور عہد کریں کہ ظلم و زیادتی پر مبنی اس نظام کو بدلیں بجائے ملک و قوم کو مختلف پارٹیوں میں تقسیم کرنے کے۔۔۔ خوب اخلاص کے ساتھ محنت کریں اور اپنا پاکستان شاد و آباد کریں۔۔۔
(دائیں ہاتھ پر ہی کینولہ ہے تو لکھنا تھوڑا مشکل ہوا لیکن کیا کریں پاکستان کی سلامتی کے لیے اور قوم کو ایک جگہ جمع کرنے کے لیے اور کچھ فضول خرافات سے بچانے کے لیے اپنی رائے دی.)

 

میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں بہار تجھ پہ نثار کر دوں
محبتوں کے یہ سلسلے بے شمار تجھ پہ نثار کردوں
میرے وطن، میرے وطن۔۔۔#

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
92107

جماعتِ اسلامی ،تعارف،تاریخ اور وژن ۔ از قلم : عصمت اسامہ

Posted on

جماعتِ اسلامی ،تعارف،تاریخ اور وژن ۔ از قلم : عصمت اسامہ ۔ ( سیکرٹری حریمِ ادب وسطی پنجاب)

 

انیس سو تئیس میں خلافتِ اسلامیہ کے ختم ہونے کے بعد امت_ مسلمہ کے رو بہ زوال ہونے کے ساتھ کفار کے مسلح اور نظریاتی حملوں میں تیزی آگئی تھی۔ اب مسلمانوں کےلئے دنیا میں نہ صرف اپنی اجتماعی قوت کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیا بلکہ انھیں اپنے تاریخی ورثے ،تہذیب و تمدن ،علم و ادب بلکہء نظریہء حیات پر طاغوتی طاقتوں کی یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑا۔مسلمان منتشر اور بغیر کسی مضبوط ریاستی سرپرستی کے زندگی گذارنے پر مجبور کردئیے گئے تھے،اپنی شناخت اور بقا کو لاحق اس خطرے نے کئی تحریکوں کو جنم دیا ،برصغیر پاک و ہند کی تاریخ ان تحریکوں کے تذکرے سے روشن ہے ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے مفکر اور حکیم الامت نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا،ان حالات میں جماعتِ اسلامی پاکستان کا قیام 26 اگست 1941ء میں وجود میں آیا۔ بانئ جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف پچھتر نفوس اور چوہتر روپے چودہ آنے کے سرماۓ کے ساتھ جماعتِ اسلامی کی داغ بیل ڈالی ،اس سے قبل وہ ” رسالہ ترجمان القرآن” اور “ادارہ دارالاسلام” کے ذریعے دین کو تحریک کی صورت دینے کے لئے راۓ سازی کا کام کر رہے تھے۔ اس موقع پر اپنے تاریخی خطاب میں بانیء جماعتِ اسلامی نے اس تحریک اور دوسری تحریکوں کے مابین فرق واضح کیا : اول یہ کہ ہم اسلام کے کسی جزو یا کسی دنیوی مقصد کو نہیں بلکہ پورے کے پورے اسلام کو لے کر اٹھ رہے ہیں۔دوم : ہم جماعت میں کسی کو شامل کرنے سے پہلے اس سے کلمہء طیبہ اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا اقرار ( حلف )لیتے ہیں۔ سوم ہماری دعوت ساری انسانیت کے لئے ہے ( کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں ہے).ہم نے قرآن وسنت سے سب انسانوں کے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔

( ماخوذ : روداد جماعتِ اسلامی ،حصہ اول).

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی ،جماعت اسلامی کے پہلے امیر منتخب ہوۓ،اس وقت ان کی عمر اڑتیس سال تھی۔اس کے بعد ہیڈ کوارٹر لاہور سے پٹھان کوٹ منتقل ہوگیا۔ جماعتِ اسلامی کے قرآن وسنت کے پیغام پر مشتمل ادب ( لٹریچر) کی تیاری کا کام ،اولین ترجیح کے طور پر شروع کردیا گیا بلکہ مختلف علاقائی اور بین الاقوامی زبانوں میں ان کتب کے تراجم کا بھی آغاز ہوگیا۔1947ء میں قیام_ پاکستان کے بعد جماعتِ اسلامی کا نظام بھی دو حصوں پر مشتمل ہوگیا۔جماعت_ اسلامی کے کارکنان ،مہاجرین کی بحالی اور دیکھ بھال کے لئے مصروف عمل تھے ،اسی دور میں بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ریڈیو پاکستان پر پہلی تقریر نشر کی گئ ( بحوالہ ڈاکٹر اشتیاق احمد ،ممتاز قانون دان ) ۔یہ تقاریر جو قائد اعظم کے ایماء پر عامتہ المسلمین کی فکری راہنمائی کے لئے نشر کی گئیں ،کتاب ” اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات” کے آخری باب ” اسلامی نظامِ حیات” میں موجود ہیں۔

 

اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ بانی ء جماعتِ اسلامی اور بانیء پاکستان نظریاتی اور عملی طور پر متحد و یکسو تھے،پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے نصب العین کی خاطر ،ان میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ مولانا کی شہرہ آفاق تفسیر “تفہیم القرآن ” کے مطالعہ سے “فکر_ مودودی” کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. 1948ء میں قائد اعظم کی وفات کے بعد سیکولر طبقے نے سر اٹھالیا تو جماعتِ اسلامی پاکستان ان کے مشن کو لے کر اٹھی اور نہ صرف” نظام_ اسلامی ” کا مطالبہ پیش کیا بلکہ ” کشمیری مسلمانوں کے حق_ خود ارادیت ” کی بھی حمایت کی۔ اسی دور میں ” قرارداد_ مقاصد” منظور ہوئی جو ملک کا دستور “اسلامی” بنانے کی طرف اہم پیش رفت تھی۔1950ء میں مولانا مودودی نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کیا تو حکومت نے ان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگادی اور جماعت کے ہم خیال اخبارات بھی بند کردئیے۔ 1951ء میں جماعتِ اسلامی نے اپنے ویژن ” حکومت_ الٰہیہ کے قیام ” کی خاطر پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اگر چہ ان میں ایک نمائندہ ہی منتخب ہوسکا۔1952ء میں “مسئلہء ختم_ نبوت کے دفاع اور قادیانی سازشوں کے خلاف کتاب لکھنے پر” مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو گرفتار کرلیا گیا اور سزائے موت سنائی گئ۔ مولانا نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔بعدازاں عالمی سطح کے احتجاج اور دباؤ کے سبب سزاۓ موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا ۔کارکنان نے بھرپور احتجاجی مہم چلائی، بالآخر مولانا کو 1955ء میں ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کردیا گیا۔ملک کے دستور کی تیاری کا مرحلہ پیش نظر تھا ،اس میں مولانا مودودی نے حکومت _ وقت کے ساتھ کام بھی کیا اور راہنمائی بھی فرمائی۔1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو تمام سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی لگادی گئی ۔

 

بقول شاعر :
~ کبھی اس مکاں سے گذر گیا،کبھی اس مکاں سے گذر گیا
تیرے آستاں کی تلاش میں ،میں ہر آستاں سے گذر گیا
کبھی تیرا در، کبھی دربدر ،کبھی عرش پر ،کبھی فرش پر
غم_ عاشقی تیرا شکریہ ،میں کہاں کہاں سے گذر گیا !

 

 

ابتدا ہی سے جماعتِ اسلامی کا نصب العین ” عملاً اقامتِ دین” حکومت_ الٰہیہ اور اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضاۓ الہی اور فلاح_ اخروی” کا حصول قرار پایا تھا۔اس عظیم الشان مشن کو ایسے افراد درکار تھے جو نہ صرف پاکیزہ سوچ ،صالح اعمال سے مزین ہوں بلکہ زمانے کی تیز رفتار میں قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی صلاحیتوں سے بھی مالامال ہوں ،اس لئے افراد_ کار کی تیاری ،تربیت اور ٹریننگ اول روز سے نظم_ جماعت کے پیشِ نظر رہی ہے۔اس مقصد کی خاطر باقاعدہ تربیتی نصاب تیار کیا جاتا ہے ، حلقہء دروس اور اجتماعات کے ذریعے قرآن وسنت کا فہم اور حالات حاضرہ کا شعور پیدا کیا جاتا ہے ۔یہ خاصیت ،کسی اور سیاسی پارٹی میں دکھائی نہیں دیتی۔ جماعت کا تربیتی نظام ،کارکنان کے اندر ایمان اور جذبہ کا وہ ایندھن بھر دیتا ہے کہ اس کے بعد انھیں جس شعبہء زندگی اور جس محاذ پر کھڑا کردیا جاۓ وہ اس میں کامیابی کی خاطر تن ،من ، دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہمیشہ اپنے حصے کا کام جسم و جان کی پوری قوت اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری سے کرنے پر زور دیا اور انتخابات میں کامیابی کی خاطر کسی بھی خفیہ سرگرمی یا زیر زمین کارروائی سے منع فرمایا۔1960ء میں مولانا مودودی نے قرآن کریم میں مذکور مقامات کے دورے کئے اور ان جگہوں کا مشاہدہ کیا ۔1962ء میں سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹا لی گئ تو اسلامی جمعیت طلبہ بھی فعال ہوگئ اور مختلف یونیورسٹیوں کے اندر انتخابات میں حصہ لیا۔ اسی دوران مولانا خلیل احمد حامدی ناظم دارالعروبہ مقرر ہوۓ ،وہ بیرونی وفود کے دوروں کے موقع پر مولانا مودودی کے مترجم کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اور آپ کی کئ کتب کا انھوں نے عربی میں ترجمہ کرکے جماعتِ اسلامی کے لٹریچر کو دور دراز کے ممالک تک پہنچایا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جماعتِ اسلامی نے حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا ،طبی کیمپ قائم کئے گئے۔مسئلہ کشمیر پر پانچ زبانوں میں لٹریچر شائع کیا گیا۔1968ء میں سوشلزم کا مقابلہ کرنے کے لئے ” ادارہ دائرۃ الفکر” قائم کیا گیا ،

 

لٹریچر کے ذریعے سوشلزم اور کمیونزم کو شکست سے دو چار کردیا گیا۔1971ء کی جنگ کا معرکہ ، مشرقی پاکستان کے دفاع کی خاطر ،جماعت_ اسلامی کی ذیلی تنظیم “البدر” نے پاک فوج کے ہمراہ ،بھارتی افواج اور مکتی باہنی کے خلاف لڑا،شہادتیں بھی ہوئیں اور گرفتاریاں بھی مگر سقوط _ ڈھاکہ ہوگیا ،پاکستان دو لخت کردیا گیا ۔مولانا مودودی نے نوے ہزار قیدیوں کی بھارتی عقوبت خانوں سے رہائی کے لئے 250 سربراہان_ مملکت کو خطوط لکھے اور عالمی راۓ ہموار کی۔ مولانا مودودی اور مولانا خلیل احمد حامدی نے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے دورے بھی کئے۔” بنگلہ نامنظور” مہم چلائی گئی ۔1972ء میں میاں طفیل محمد صاحب کو جماعتِ اسلامی کے امیر کے طور پر منتخب کیا گیا ۔ جماعتِ اسلامی میں امارت کا معیار صرف تقوی’ اور کارکردگی ہے ۔ جماعت کے دستور کے مطابق اراکینِ جماعت ،خفیہ راۓ دہی کے ذریعے سے اپنے امیر کو منتخب کرتے ہیں۔27 فروری 1979ء کو سعودی عرب میں شاہ فیصل فاؤنڈیشن کی جانب سے مفسر_ قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کی علمی و ادبی خدمات پر ایوارڈ دیا گیا۔

 

اس ایوارڈ سے پہلے دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں ،مؤثر شخصیات اور بین الاقوامی اداروں کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا کہ جس میں ایسا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئ تھی جسے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا جاسکے۔ ان سوالناموں میں تقریباً نوے فیصد نے جواب میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا نام لکھا تھا ( بحوالہ سید حمید مودودی) ۔ بانیء جماعتِ اسلامی بوجوہ ناسازیء طبیعت خود نہ جاسکے ،انھوں نے اپنے بیٹے حیدر فاروق کے ساتھ ڈائریکٹر امور خارجہ مولانا خلیل احمد حامدی کو اپنے نمائندے کی حیثیت سے بھیجا جنہوں نے وہاں عربی زبان میں تقریر کی اور مولانا مودودی کا خط پڑھ کر سنایا ۔خط میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے سعودی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ لکھا تھا کہ انھوں نے جو کام بھی کیا ہے ،اسے دینی فریضہ سمجھ کے کیا ہے اور ایوارڈ کی رقم اقامتِ دین کی جدوجہد میں استعمال کی جاۓ گی۔ بعد ازاں مولانا خلیل احمد حامدی کی تجویز پر اس رقم سے حالیہ “مرکز_ جماعت منصورہ” کو آباد کیا گیا .یہاں دفاتر کی تعمیرات ،اداروں کی تشکیل اور انسانی وسائل کی فراہمی مولانا خلیل احمد حامدی کا ذمہ قرار پائی جنہوں نے اپنی پوری جان لگا کے اس سرسبز و شاداب منصورہ کو بسایا۔( راقمہ کے سامنے ، محترمہ زبیدہ بیگم ،اہلیہ مولانا خلیل احمد حامدی کی گواہی ).

 

جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو جماعتِ اسلامی نے کفار کے خلاف نقارہء جہاد بلند کیا۔ عالمی طاقتوں کو اسی لئے جماعت ہمیشہ کھٹکتی ہے ۔بانیء جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا وژن ” احیاۓ اسلام ” کا عالمگیر وژن تھا جس کی خاطر انھوں نے ان تھک محنت کی اور اس صدی کے مجدد_ دین قرار پاۓ ۔آپ کی شخصیت علم و عمل ،گفتارو کردار کا متاثر کن مجموعہ تھی ،آپ 1979ء میں بوجوہ گردوں کے مرض انتقال فرماگئے۔آپ کی نمازِ جنازہ حرم_ کعبہ کے علاوہ دنیا کے تین براعظموں میں ادا کی گئ۔ آپ اپنے مشن کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں ۔ مولانا طفیل محمد، قاضی حسین احمد ، سید منور حسن ، مولانا سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں امراۓ جماعتِ اسلامی نے کلمہء طیبہ والے پرچم کو اٹھا رکھا ہے ۔مردانہ تنظیم کے ساتھ اب حلقہء خواتین بھی بزم آراء ہے ۔ویمن ونگ کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں تعلیم یافتہ ،دین دار مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں قوم کی خاطر محو_ جدوجہد ہیں ۔اسلاف کی قربانیوں کے پیشِ نظر ، شہیدوں کی امانت نظریہء پاکستان اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ہر شعبہء ہاۓ حیات میں کوشاں ہیں ،نظام کو بدلنا ہے ،ٹرانسجینڈر ایکٹ جیسے انسانیت دشمن قوانین کو چیلنج کرنا ہے،

 

اسلامی تہذیب و تمدن کا دفاع کرنا ہے ،اقتدار کو کرپٹ لوگوں کے ہاتھ سے لے کر صالحین کے ہاتھ میں دینا ہے۔ مساجد اور محلوں میں جماعت کے مدرسین اور مدرسات کو سنیں، اقتدار کے ایوانوں میں ڈاکٹر کوثر فردوس ،عائشہ سید،ڈاکٹر وسیم اختر ،سینیٹر مشتاق احمد خان ،سید عبد الرشید جیسے قابل عوامی نمائندوں کی مثالیں دیکھیں، قدرتی آفات ،سیلاب ،زلزلوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کو اپنے اردگرد پائیں ،الیکٹرانک میڈیا پر جناب امیر العظیم اور سوشل میڈیا پر ویمن ونگ سے آمنہ عثمان کے پوڈ کاسٹ سنیں، جماعتِ اسلامی کے فیس بک پیجز اور ٹویٹر ایکس ہینڈلز کو سکرول کریں تاکہ آپ جان سکیں کہ جماعتِ اسلامی دراصل آپ کی دنیا وآخرت کی فلاح کا مکمل پیکج رکھتی ہے۔ یہ حب الوطنی کے جس درجہ پر ہے ،کوئی اور پارٹی نہیں ہے ۔ جماعتِ اسلامی اتحاد_ امت کی داعی ہے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے مبرہ ہے۔امت مسلمہ کے زخم کبھی کشمیر و فلسطین ریلیوں کی صورت میں ،کبھی پارلیمنٹ میں قراردادوں کے ذریعے سے ،کبھی بیرون_ ملک کانفرنسوں میں اجاگر کرتی رہتی ہے۔

 

جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرپشن فری پارٹی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور پلڈاٹ نے جماعتِ اسلامی کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو کارکردگی میں نمبر ون قرار دیا۔ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کے سینیئر وزیر خزانہ نے قرضہ فری بجٹ بناکے اور اپنے وسائل سے صوبے میں ریکارڈ ترقی یافتہ کام کرواکے ورلڈ بنک کے ماہرین کو بھی حیران کیا ہے۔سود کے خلاف جماعتِ اسلامی نے کئی سال عدالت میں مقدمہ لڑا ہے ۔پانامہ لیکس کے مقدمات میں جماعت اسلامی وطن کے محافظوں کی صورت کھڑی رہی ہے ،چوروں کا محاسبہ کیا ہے ۔جماعت قوم کے مفاد میں خدمتِ خلق کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔ عوام کے مسائل ، مہنگائی ، بجلی کے زائد بل، بیروزگاری ،غربت ،سرمایہ دارانہ نظام _ معیشت، سودی قرضوں اور آئی ایم ایف کے ناجائز مطالبات کے خلاف میدان میں ہوتی ہے۔اسلام کے نظامِ عدل و انصاف کی علمبردار ،ترازو کے نشان والی صرف جماعتِ اسلامی ہے ۔حال ہی میں شروع کیا گیا ” بنو قابل ” پروگرام ، نوجوانوں کو آئی ٹی ،فری لانسنگ اور دیگر جدید مہارتوں کے ذریعے سے روشن مستقبل کا مژدہ سنارہا ہے ۔ جماعتِ اسلامی میں پی ایچ ڈیز کی ایسی ہائی کلاس موجود ہے جو آنے والے ہر چیلنج کا سامنا کرنے کی حکمت عملی تیار کرسکتی ہے۔۔جماعت کا ویژن ،پاکستان کے روشن مستقبل کا ویژن ہے۔جماعت_ اسلامی کا حصہ بنئیے ۔اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں آپ سب کی منتظر ہے۔

~اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں ،ہر سو خوشحالی لائیں گے
جس ارض_ وطن پہ ظلم نہ ہو ،وہ پاکستان بنائیں گے !
( ان شاءاللہ).

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
90983

وہ سبق ہم بھول گئے – از:کلثوم رضا

Posted on

وہ سبق ہم بھول گئے – از:کلثوم رضا

بچپن سے سنتے ا رہے تھے کہ محرم کا مہینہ انے والا ہے ۔اس لیے سارے خوشیوں کے کام پہلے نمٹانا چاہیے۔شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کی تاریخ محرم سے پہلے یا بعد میں طے کیے جاتے۔یکم محرم سے تو عاشورہ تک نئے کپڑے نہ ہی سلتے، نہ پہنے جاتے۔یوم عاشورہ پر کوئی بھیڑ،بکری یا دو تین مرغے،مرغیاں ذبح کرکے صدقہ کیا جاتا اور بتایا یہ جاتا کہ اس روز خون نکالنا لازمی ہے۔اور ساتھ کہانی یہ سنائی جاتی کہ اس روز نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کیا گیا ہے۔اس غم میں یہ دن منایا جاتا ہے۔

(اس سے ذیادہ بچوں کو بتانا شاید ضروری نہیں سمجھتے تھے)تو ہم سمجھتے تھے کہ یزید کوئی کافر تھا جس کے مقابلے میں حضرت امام حسین رض ائے ۔مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے یزید کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔شاید میری طرح اکثریت کو یہ سننے کو ملا ہو گا۔تھوڑے سے بڑے ہوئے تو ایک ہم جماعت سے سنا کہ ان دنوں غم نہیں منانا چاہیے۔ اس کا غم صرف شیعہ مناتے ہیں۔تو ابھی عقل کی نا پختگی تھی کسی سے مزید نہیں پوچھا کہ غم منانا ہے یا نہیں۔لکن دل میں ایک بات اٹک رہی تھی کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت (وہ بھی ایسی شہادت کہ خاندان کا خاندان مٹ گیا)کا غم کیسے نہ منائیں ؟
وہ کیسے ہاتھ تھے جو نواسہ رسول پر اٹھے؟
وہ کون لوگ تھے جو اس واقعے پر خاموش تماشائی بنے رہے؟
لکن اظہار نہیں کیا اس ڈر سے کہ کہیں کوئی شیعہ نہ سمجھ بیٹھے۔۔۔
پھر جب خوب بڑے ہوئے تو اس متعلق مضامین پڑھے،کتابیں پڑھی،تو بالکل ایک نیا باب کھل گیا ۔۔۔کہ نہ یزید کافر تھا۔۔۔نہ اس کا ساتھ دینے والے بیگانے تھے،اور نہ ہی امام حُسین امامت کے لیے سب کچھ قربان کر بیٹھے تھے۔۔۔۔
یہ معرکہ ہی الگ تھا ۔یہ حق اور نا حق کے،ظلم و جبر کے درمیان معرکہ تھا۔یزید تھا تو ایک مسلمان حکمران لیکن ایک ایسے نظریے کو جو خدائی منشور کے برعکس دنیاوی قوت اور جاہ و حشمت کو پروان چڑھا رہا تھا۔جبکہ امام حسین اس سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا ادراک کرکے قران اور سنت کے علمبردار بننے کو ترجیح دی۔

 

یزید کے نظام جبر اور ملوکیت کے تحت تین طبقات وجود میں آئے۔ایک طبقہ اپنے ذاتی چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر یزیدی نظام کا تابعدار اور مددگار بن گیا۔دوسرے طبقے نے خود کو کمزور پیش کر کے رخصت ،خاموشی اور مصلحت کا راستہ اپنا لیا ۔اور تیسرے طبقے نے پیغمبرانہ سنت اور خلفائے راشدین کے طریق اور طرز حیات کو اپناتے ہوئے اللہ کی زمین پر اللہ کی بادشاہی اور اسی کا نظام رائج کرنا چاہا تھا جو شہید کیا گیا۔۔
(اور ان پہلے دو طبقوں کی نسلیں آج تک زندہ ہیں ۔۔۔جو قوت و جاہ حشمت کو اللہ کا دین سمجھتے ہیں۔۔۔اور اس بات پر یکسر توجہ نہیں دیتے کہ اللہ اپنی رضا سے طاقت اور جاہ و حشمت دیتے تو اپنے پیرو کاروں کو دیتے۔۔۔)
افسوس ہم مسلمانوں کو یہ مہینہ،یہ دن اور یہ غم یاد رہا نہ رہا تو وہ سبق جو اس واقعے سے ملا تھا۔
اس واقعے کا سب سے بڑا سبق صبر اور جرات تھا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی آزمائش پر صبر و استقامت کا رویہ اپنانا تھا۔
باطل چاہے جتنا مضبوط ہو اس کے اگے کلمہ حق بلند کرنا تھا۔
جب جان پر بنی ہو تب بھی نماز اور قرآن پڑھنا لازم تھا۔
سب کچھ لٹ جانے کے بعد بھی عورتوں کا اپنے پردے کا خیال رکھنا تھا۔

حق پر ہونے والوں کی تعداد مٹھی بھر سہی لیکن آللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے باطل قوتوں سے ٹکرا جانا تھا۔۔۔
یہ سبق یاد رہا تو صرف فلسطین والوں کو۔۔۔جنھیں ہم نے ہو بہو کرب و بلا میں پایا ۔۔۔وقت کے یزید اور حسین کو آمنے سامنے پایا اور کوفیوں کا کردار نبھاتے مسلم حکمرانوں کو پایا۔

تماشائی ہیں کوئی غم نہیں ہے
غزہ بھی کربلا سے کم نہیں ہے
نہ پانی ہے،نہ روٹی ہے ،نہ سایہ
مگر اہل کرم میں دم نہیں ہے
(رہبر)

وہ ساٹھ ہجری کے حسین تھے جس نے اپنا سب کچھ اسلام کی خاطر لٹایا اور یہ چودہ سو چھیالیس ہجری کے حسین ہیں جو اپنا سب کچھ اسلام کی خاطر لٹا رہے ہیں۔۔۔

جلے ہوئے ہیں تمام خیمے
نجانے ملبے میں کیا بچا یے
دھواں ہے،آنسو ہیں ،التجا یے
غزہ میں ہر سمت کربلا ہے
( ڈاکٹر عزیزہ انجم)

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
90969

وما یعمر من معمر ۔ از:کلثوم رضا

وما یعمر من معمر ۔ از:کلثوم رضا

 

پچھلی مرتبہ اپنی پیدائش کے دن کے حوالے سے اپنے تاثرات لکھ کے شئیر کئے تو بیٹی نے کمنٹ کیا کہ “بوختواوو نو لہ نان “.(امی ڈرائیں مت)
تو اسی بات سے کچھ اور باتیں لکھنے کو دل کیا۔

ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو۔۔
جامع ترمذی، ۲۳۰۷

لیکن اس کے برعکس جب موت کا ذکر کہیں بھی ،کسی بھی مجلس میں ہوتا ہے تو سبھی ڈر جاتے ہیں حالانکہ موت برحق ہے۔ اس نے آنا ہی آنا ہے۔ کوئی بچہ ، جوان ، بوڑھا یعنی عمر کی کوئی قید نہیں سب کو موت آتی ہے موت کو “اجل” بھی کہا جاتا ہے ۔جس کے معنی ہے “وقت معین” مقررہ مدت۔۔۔
یعنی کہ “مقررہ وقت” نہ ایک سکینڈ آگے نہ پیچھے ۔جب مقررہ وقت آن پہنچتا ہے تو اچھے خاصے ،ہٹے کٹے انسان کو بھی لبیک کہنا پڑتا ہے اور جب مقررہ وقت نہیں پہنچتا تو بوڑھے سے بوڑھا، کئی سالوں سے بیماری میں مبتلا شخص چاہتے ہوئے بھی اپنی سانسیں نہیں روک سکتا۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک ایسی بچی کی موت واقع ہوئی جس کی چند دنوں بعد شادی کی تاریخ بھی طے ہوئی تھی۔شادی کے لیے ساری خریداری بھی اس نے خود کی ۔اچانک بیمار ہوئی، مہنگے ہسپتالوں میں ایک مہینہ زیر علاج رہی کوئی افاقہ نہیں ہوا ،آخر کار چل بسی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

جبکہ اس کے نانا کو کئی سال پہلے بتایا گیا تھا کہ لاعلاج ہے ،چند دنوں کا مہمان ہے وہ اچھی خاصی صحت کے ساتھ حیات ہیں الحمدللہ ۔
جب مقررہ وقت پہنچا تو علاج بے کار۔۔۔۔نہیں پہنچا تو معمولی دوا بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔
کئی ایسے بیماروں کو صحت یاب ہوکر لمبی عمر پاتے دیکھا گیا جن کو دیکھ کے لگتا تھا کہ شاید ایک آدھ دن بھی جی نہ پائیں گے اور کئی ایسے صحت مند انسانوں کو رخصت ہوتے ہوئے دیکھا جنھیں دیکھ کر کم سے کم سو سال عمر پانے کا گمان ہوتا تھا۔

انسان کی سوچ اس بات کا احاطہ نہیں کر سکتی کہ کس نے کتنی عمر پانی ہے؟
کس نے کب مرنا یے۔؟
ہو گا وہی جو میرا رب چاہے گا۔ عمروں کا حساب رکھنے والا صرف وہی ہے۔

وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الا فی کتاب

(سورہ فاطر آیت نمبر 11)

ترجمہ:کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا یے۔”

مفہوم: یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا یے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے ،اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے۔ بعض نادان لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ پہلے نوزائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے ،اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جب کہ کسی ذریعے سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ آللہ تعالیٰ نے فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا ۔اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعدادوشمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کی بنسبت اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے ۔آخر اس میں کونسی بات بعید از عقل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر مقرر فرمائی ہوں۔اور یہ بھی اللہ عزو جل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں زرائع بخشے جائیں گے۔

(تفہیم القرآن جلد نمبر چہارم صفحہ نمبر 225)

اس میں ڈرنے والی کوئی بات نہیں بلکہ “ذکر موت ” سے انسان کے دل میں خوف خدا بستا ہے اور یہی خوف خدا انسان کو دنیا کی لذتوں کے پیچھے بھاگنے سے روک کر اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے سرگرداں کرتا ہے۔ فانی دنیا کو مسافر خانہ تصور کرکے مسافروں جیسی زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے۔
یہی ذکر موت انسان کو عارضی دنیا کی بنسبت ابدی زندگی کے لیے عمل کرنے پر اکسا کر اجرو ثواب کمانے کا سبب بن سکتا ہے۔۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند رات بھر کیوں نہیں آتی

مرزا غالب
یہ وہ ذائقہ ہے جسے ہر کسی نے چکھنا یے۔۔
اس میں ڈرنے والی کوئی بات نہیں ۔

بوختوئے نو لہ نانو ژان ۔۔(امی کی جان ڈریں مت)

 

 

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
89907

میرا سرمایہ گھلا جا رہا ہے – از: کلثوم رضا

Posted on

میرا سرمایہ گھلا جا رہا ہے – از: کلثوم رضا

 

مجھے ہمیشہ یاد رہنے والی تاریخ چھ جون۔۔۔

ایک اینٹ اور گر گئی دیوار حیات سے۔۔۔

 

یقیناً انسان کی زندگی میں پیش آنے والا ہر دن اس کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔۔خاص کر اس کا جنم دن۔۔۔جو اسے دنیا کی ہیچ وتاب اور نشیب و فراز سے واقف کرانے کا سبب بنتا ہے۔یعنی اس دنیا سے واقفیت رکھنے کے لیے اسے اس دنیا میں آنا ضروری ہوتا ہے ۔جب وہ دنیا میں آتا ہے تو اس کے والدین خوشیاں مناتے ہیں کہ ان کی نسل آگے بڑھی، دنیا میں ان کا مطیع اور ان کے بعد ان کا نام لیوا پیدا ہوا یا ہوئی۔۔یوں انکی یہ اولاد انکی آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر ان کی گود میں پلتی ہوئی سال،دو سال،تین سال،چار اور پانچ سال یعنی بچپن،لڑکپن اور جوانی دہلیز پار کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی میں داخل ہونے تک انکی مرکوز نظر رہتی ہے۔۔بلکہ شادی کے بعد بھی والدین کو ان کی اولاد سے وابستہ ہر دن،ہر خوشی یاد رہتی ہے۔(جیسا کہ چند دن پہلے میری امی نے بتایا کہ جون کا مہینہ قریب اتے ہی آپ کی بہت زیادہ یاد اتی ہے۔)۔

 

اور پھر بچوں کی شادی کے بعد وہی سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ انکے بچے ہوتے ہیں پھر ان کی زندگی اسی طرح چلتی ہے جیسے والدین کی۔۔۔کسی کی تھوڑی مختلف ہوتی ہے اور کسی کی زیادہ مختلف۔۔۔کوئی دنیا کے پیچھے بھاگتا یے،کسی کے پیچھے دنیا بھاگتی ہے۔لیکن دونوں کی بھاگ دوڑ ایک ہی جانب ہوتی ہے جس کی جانب ہر ذی روح نے جانا ہوتا ہے۔۔یعنی کے موت کی جانب۔۔۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے جیسے ایک برف بیچنے والے کا سرمایہ گھلتا ہے۔زندگی کا ہر لمحہ گزر کر ماضی بنتا چلا جاتا ہے اور اٹھنے والا ہر قدم موت کی طرف اٹھتا ہے۔
ہم میں سے ایک ایک شخص کو ایک ایک قوم کو جو عمر کی مدت دی گئی ہے۔ یہی ہمارا اصل سرمایہ ہے جو ایک برف کے گھلنے کی مانند تیزی سے گزر رہی یے اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ انے والا وقت ہمارا ہے۔

کوئی اپنے جنم دن کی خوشی کیک کاٹ کر اور پٹاخے چھوڑ کر مناتا ہے اور کوئی اپنے ہر گزرتے سال کا حساب اپنی اوقات سے بڑھ کر نعمتیں ملنے پر شکر کر کے مناتا یے۔۔۔اسی طرح میں بھی جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو میرا بچپن سے اب تک کا سفر ہر سال نئے نئے تجربات کے ساتھ گزرا۔میری زندگی میں آنے والی ہر خوشی نے مجھے زندگی کی نئی امنگ عطا کی، تو حسب دستور ملنے والے نا خوشگوار واقعات نے نئی ہمت اور اپنا محاسبہ کرنے کی جرات بخشی۔

 

اب کی بار بھی چھ جون کی تاریخ آتے ہی ہر گزرتے سال کا ہر دن جب یاد کرتی ہوں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ جس تیز رفتاری سے میری زندگی کا سرمایہ گھلا جا رہا ہے،میری زندگی کی ہر ان گزر کر ماضی بنتی چلی جا رہی ہے،اور ہر ان آ کر مستقبل کو حال اور حال کو ماضی بنا رہی ہے۔۔۔کیا میں اسے بچا پاؤں گی۔۔۔؟
جب سوچتی ہوں نہیں تو بس رب سے یہی دعا کرتی ہوں کہ الہی!جو وقت گزر گیا اس پر گرفت نا کر۔۔۔ درگزر فرما۔۔۔
جو گزر رہی ہے اس میں اپنی رضا شامل کر۔۔۔
۔۔۔ اور جو گزرنے والی ہے اسے صرف اور صرف اپنی اطاعت میں گزار دے۔۔۔۔

۔۔۔اس باقی ماندہ سرمائے کو ضائع ہونے سے بچا لے مولا!۔۔۔میرے ہاتھ میری صرف ایک ہی کمائی یے تجھے اس کا واسطہ میرے رب! کہ جو بھی ملا تیری رضا سمجھ کے قبول کیا اور تیری طرف سے ملنے والی ہر نعمت کی شکر گزار رہی۔۔۔بس یہی میری کل کمائی ہے۔۔

میرے مالک!۔۔۔جو کام مجھ سے لینا چاہتا ہے اسے اس کم وقت میں بڑھا چڑھا کے مجھ سے لے لے۔تاکہ جس دن میں تیری طرف لوٹائی جاؤں تو میرے ہاتھ خالی نہ ہوں اور جب پھر سے اٹھائی جاؤں تو میرا دامن خوشیوں سے بھرا ہوا ہو۔اور میرے پاس تیرے وعدے کے مطابق مومنوں کے لیے تیار کردہ ہاؤسنگ سکیم میں ایک گھر کی چابی موجود ہو۔اور میں وہاں جا بسوں۔امین

 

یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔اور اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے،انھیں مایوس کبھی نہیں کرے گا ان شائاللہ۔

 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
89793

حریمِ ادب تربیتی نشست کی روداد – از قلم : عصمت اسامہ

حریمِ ادب تربیتی نشست کی روداد – از قلم : عصمت اسامہ

خواتین لکھاریوں کی ادبی اصلاحی انجمن حریمِ ادب کی تربیتی نشست کا انعقاد لاہور منصورہ میں کیا گیا۔ ڈپٹی سیکرٹری حریم ادب وسطی پنجاب شاہدہ اقبال نے حریمِ ادب کا تعارف پیش کیا۔مہمان خصوصی سرپرست اعلیٰ حریم ادب ،سیکریٹری جنرل جے آئی وومن ونگ ڈاکٹر حمیرا طارق تھیں ۔ معاشرے کی اصلاح و تربیت میں ادیب کا اہم کردار ہے ۔ادیب سماجی سوچ کو موڑنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں موجودہ نسل کاغذ اور قلم کے رشتے سے دور ہوتی جارہی ہے۔ قرآن کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کی تفہیم لازم ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جس کا نفاذ اور ترویج ضروری ہے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی نے دین_ اسلام کا صحیح چہرہ پیش کیا ۔آپ نے ڈارون کے نظرئیے کو رد کرتے ہوۓ ،اسلامی فلاسفی کو روشناس کروایا۔ جب امت معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر چکی تھی ،دین اور دنیا کو الگ کردیا گیا تھا ،مولانا نے سمجھایا کہ سیاست دراصل اصلاح_ معاشرہ کا نام ہے۔

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریک کو” عالمی اسلامی تحریکوں کی ماں” کا درجہ حاصل ہے۔خواتین کے لئے ” جہاد بالقلم ،جہاد بالسیف کے ہم پلّہ” ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر حمیرا طارق سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی نے ” حریم ادب تربیتی نشست” سے خطاب کرتے ہوۓ کیا۔ نشست میں ڈاکٹر صائمہ اسماء ،مدیرہ چمن_ بتول نے ” مؤثر تحریر کے لوازم ” کے موضوع پر مفصل لیکچر دیا۔”حریمِ ادب وسطی پنجاب ” کی تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے مدیرہ چمن_ بتول ،ڈاکٹر صائمہ اسماء نے تحریر کو مؤثر بنانے کے لیے عملی مشق پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ادیب خود کو تنقید کے لئے تیار رکھیں ،آپ کی تحریر کے پیچھے مقصد ہوگا تو تاثر بنےگا۔مقصدیت کو فن پر حاوی نہ ہونے دیں ۔لکھاری کے لئے شوق آغاز کے لئے اہمیت رکھتا ہے لیکن منزل تک پہنچنے کے لئے مہارت سیکھنا پڑتی ہے۔ مطالعے کے کینوس کو وسیع کریں تاکہ تخیل کو بھی پرواز کا موقع ملے۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ تحریر کو موضوع تک محدود رکھیں ،اسے بارہ مصالحوں کی چاٹ نہ بنائیں۔متعلقہ معلومات اور دلائل کو پیش نظر رکھ کے لکھیں۔ آپ نے ” ادب کی ماہیت” کے موضوع پر ایک مضمون بھی نشست کی شرکاء خواتین کو فراہم کیا۔ سیکرٹری حریمِ ادب وسطی پنجاب عصمت اسامہ نے موجودہ دور کو “ڈس انفارمیشن کا دور” قرار دیتے ہوۓ خبر کی تحقیق اور سچائی کی تلاش کی اہمیت بیان کی تاکہ معاشرے سے افواہوں کا سد_ باب ہوسکے ۔ادیب اور لکھاری خود ریسرچ کرکے اہل_ علم سے درست معلومات لے کر لکھیں تو تحریر میں تاثیر پیدا ہوگی۔ نشست میں عصمت اسامہ کی کتاب ” میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم” کی تقریب_ رونمائی کی گئ ۔ نشست میں اسماء حبیب ،انیلہ عمران اور ندا اسلام کو ” مقابلہ مقصد کہانی ” کے تحت انعامات دئیے گئے۔ شرکاء محفل میں لاہور کی لکھاری خواتین ،ادیبات اور شاعرات نے شرکت کی اور حریم ادب کی کاوشوں کو سراہا۔

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامین
89770

پیام شاہ  امم ص  کا بھرم رہے کچھ لوگ – از قلم: عصمت اسامہ۔

Posted on

پیام شاہ  امم ص  کا بھرم رہے کچھ لوگ – از قلم: عصمت اسامہ۔

 

” استاذ جی کو بتا دینا کہ میں دھرنے کے لئے جارہا ہوں اس لئے جلدی نکل رہا ہوں۔میں لیڈ ٹیم میں شامل ہوں اور میرا وہاں جانا بہت ضروری ہے غزہ کے لئے۔ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے بعد تو جینا بھی اچھا نہیں لگتا۔استاذ کو میرا یہ پیغام پڑھا دینا۔۔۔۔” رومان ساجد شہید کا یہ آخری پیغام تھا جو اس نے فلس طین دھرنا ڈی چوک میں نکلنے سے قبل اپنے دوست کو بھیجا تھا۔ وہ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم،آزاد کشمیر کا باشندہ تھا اور ” سیو غ زہ کمپین ” میں بطور سوشل میڈیا ذمہ دار،کام کر رہا تھا۔پندرہ دنوں سے پارلیمنٹ کے سامنے ایکس سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب،ان کی اہلیہ حمیرا طیبہ (فاؤنڈر سیو غ زہ کمپین) کچھ طلبہ اور شہریوں کے ساتھ دھرنا دئیے ہوۓ ہیں۔ اپنے آرام دہ گھروں کو چھوڑ کر سخت گرمی میں یہ لوگ سڑکوں پر دن رات کیوں گزار رہے ہیں؟ کیا یہ ڈی چوک پر کسی ذاتی مفاد کے لئے جمع ہوۓ ہیں؟ پولیس کی دھمکیوں،لاٹھی چارج، رات دو بجے گاڑی چڑھانے کے قاتلانہ واقعہ اور دو معصوم شہریوں کی شہادت کے باوجود یہ لوگ دھرنا کیوں جاری رکھے ہوۓ ہیں،آخر کیوں؟ درحقیقت ان کا اپنا کوئی ذاتی مقصد نہیں ہے بلکہ ” فلس طین میں جاری نسل کشی” کو روکنے اور عالمی طاقتوں کی کھلی دہ شت گردی کے خلاف،حکومت_ پاکستان سے عملی اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کہ غ زہ میں پندرہ ہزار معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیل کر، بستیوں اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے، غیر مسلم اقوام بھی اب سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں

۔انسانیت کی تذلیل کے خلاف انسانیت اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ یورپی یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات،کلاسوں کا بائیکاٹ کر کے فلس طین میں جاری قتل_ عام کو روکنے کے لئے دھرنے اور جلسے کر رہے ہیں،مسلمان ممالک کی یہ خاموشی،زندہ ضمیروں پر بے حد گراں گذر رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایمان اور عقیدے کی جنگ ہے جو قبلہء اول بیت المقدس،خانہء خدا کی خاطر لڑی جارہی ہے،یہ صرف فلس طین تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بہت جلد دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی،اگر امت_ مسلمہ نے جلد متحد ہوکے کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا تو یوں ہی گاجر مولی کی طرح یکے بعد دیگرے کٹتے مرتے چلے جائیں گے۔

سیو غ زہ کمپین کے سب پرامن شرکاء مبارک باد کے مستحق ہیں جو حق کا علم اٹھاۓ میدان میں اترے ہوۓ ہیں،غ زہ کے معصوم بچوں کی تکالیف کو اپنے بچوں کی تکالیف کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ جنھیں اپنے رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوکے جواب دہی کے خوف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں لا کے کھڑا کردیا ہے،جنھوں نے یہاں کیمپوں کو نمازوں،تلاوت_ قرآن اور دروس سے آباد کردیا ہے، جو لاٹھیاں برسانے والے پولیس اہلکاروں کو بھی پانی کی بوتلیں تقسیم کرتے نظر آتے ہیں،

محترمہ حمیرا طیبہ (فاؤنڈر سیو غ زہ کمپین) ہر بار نوجوانوں کو پولیس گردی سے بچانے کے لئے خود پولیس کی گاڑی میں بیٹھ جاتی ہیں انھوں نے صحابیہ حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کی یاد تازہ کردی ہے،جو ایک غزوہء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چاروں اطراف سے دفاع کر رہی تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ “آج تو ام عمارہ کا دن تھا!”. کیا کبھی کسی نے ویمن ایمپاورمنٹ کی ایسی مثال کہیں اور دیکھی ہوگی؟

~ ہر ایک قدم پر ثابت قدم رہے کچھ لوگ
جبینِ وقت پر کچھ ایسے رقم رہے کچھ لوگ
زوال_ جرات _ کردار کے زمانے میں
پیام_ شاہ_ امم ص کا بھرم رہے کچھ لوگ!

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
89439